Thursday 19 July 2012

آج کی ڈائری کا بقیہ صفحہ: میڈیکل کیمپ کا مکمل احوال

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
 پوسٹ میں لکھ دیا  تھا کے ڈائری اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے اور جتنی ڈائری اپ ڈیٹ ہو سکتی تھی کر کے یہاں لکھی جا رہی ہے. ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اس ڈائری کو ایک کہانی سمجھ کر نہ پڑھیں یہ ٹیم آشیانہ کے کام اور شمالی وزیرستان کے حالات کے بارے میں ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی سچی آپ بیتی ہے، جس کو یہاں لکھنے کا مقصد ٹیم آشیانہ کے کارکنان کے گھر والوں کو یہ بتانا ہے کے ہم لوگ شمالی وزیرستان میں کیا کر رہے ہیں اور اپنے دوستوں، ساتھیوں، اور پڑھنے والوں کو شمالی وزیرستان کے زمینی حقائق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے. ہم امید کرتے ہیں کے تمام پڑھنے والے ٹیم آشیانہ اور شمالی وزیرستان میں رہنے والوں کے مسائل کو سمجھتے ہوے ہم سب کے لئے خصوصی دعا کریں گے.
اور اب باقی کی ڈائری.
========================================================================
 ڈاکٹر آصف کے کہنے پر میں انہی کے پاس رک گیا. میرا دل اندر سے بہت بے چین ہے، ہم لوگ کہاں تک دیکھیں اور کیا کیا دیکھیں؟ کیا یہاں کے حالت دوسری فلاحی تنظیموں کو نہیں پتا؟ کیا شمالی وزیرستان کے بارے میں سب اندھے، بہرے، لولے لنگڑے ہو گئے ہیں؟ کیا ان بچوں کو اور یہاں کے لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ پورے پاکستان کی سر زمیں یہاں کے لوگوں پر تنگ کر دی گئی ہے، یہ کہیں جا نہیں سکتے، کوئی یہاں آنا نہیں چاہتا ہے؟ تو اکھڑ یہ لوگ ایسے ہی سسکتے بلکتے مر جائیں گے؟ ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا؟ پھر خود ہی کو سمجھایا کے یہاں سے باہر کے لوگ اس علاقے کو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں. جب تک کوئی یہاں آے تب تک ہم کو ہی جتنا بھی بن پڑے یہاں اپنا فرض پورا کرنا ہے. اسی سوچ کے ساتھ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے کام میں ہاتھ بٹاتا رہا. عدنان بھائی اور دیگر ساتھی وقفے وقفے سے ہمارے پاس آکر حالات کا جایزہ لیتے رہتے اور ہم کو ادویات کی صورت حال سے آگاہ کرتے رہتے. 
شام کے ٤ (چار) بجے:
جو تین (٣) بچے شدید بخار کی حالت میں اس میڈیکل کیمپ میں لائے گئے تھے ان کی حالت سہی نہیں ہو رہی تھی اور جو خاتون کو ڈرپ لگ رہی تھی وہ بھی تکلیف میں اضافے کا اظہار کر رہی تھی. ڈاکٹر آصف نے ایک دفع پھر ان چاروں کا چیک اپ کیا. اور اس کے بعد جو کہا وہ ہم سب کو لرزہ دینے کے لئے کافی تھا. خاتون کے پاس اب زیادہ وقت نہیں تھا (دو ہی راستے تھے، ایک یا تو ان خاتون کو ابھی میران شاہ روانہ کر دیا جاۓ، یا ان خاتوں کے گھر والوں سے معافی مانگ کر ان کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا جاۓ). دونوں ہی راستے ہمارے لئے دشوار تھے، اکرم بھی اور باقی ساتھیوں کے سامنے صورت حال رکھی گئی تو وہ تھوڑا دیر میں واپس آنے کا کہ کر کہیں چلے گئے، ایک اور بچا جو شدید بخار میں مبتلا تھا اس کی حالت بھی بہت خراب تھی اس بچے کو بھی کسی اسپتال کی ضرورت تھی، ٹیم آشیانہ تو ایک عام سا میڈیکل کیمپ لگا کر بیٹھی ہے، ہمارے پاس اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی سامان اور ادویات میسر نہیں ہیں. لہذا اس بچے کو بھی میران شاہ لیجانے کے لئے کہا گیا. ان بچوں اور خاتون کے گھر والوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ یہ اپنے پیاروں کو بہتر علاج کے لئے  میران شاہ لے جائیں، ہماری بدقسمتی یہ ہے کے ہم پشاور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود اپنے کارکنان سے کوئی رابطہ کر کے کچھ کرنے کا کہہ سکیں. ادھر ہماری پاس ادویات کا ذخیرہ بھی ختم ہو رہا تھا، ہلکی ہلکی بارش نی سر ماحول ہی بدل دیا. الله پاک بھی ہم کمزور انسانوں کو کس کس طرح کے امتحانات میں ڈال کر آزماتا ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا. ہمارے رجسٹر کے مطابق آج صبح سے اب تک ہم ٨٠ (اسی) کے قریب بیمار لوگوں کو دیکھ چکے ہیں، مزید مریضوں کو دیکھنے کے لئے اب وقت اور ادویات میسر نہیں، ڈاکٹر صاحب بھی واپس میران شاہ جانا چاہتے ہیں.
اکرم بھی عصر کی نمز کے وقت واپس آے تو ہم لوگ اپنا میڈیکل کیمپ سمیٹ رہے تھے. بچے اور خاتون ابھی تک ہمارے کمپ میں موجود تھے، صرف ایک بچے کا بخار ١٠١ پر آیا تھا باقی دونوں بچے بری طرح بخار میں تپ رہے تھے. ڈاکٹر آصف کے ساتھ ساتھ ہم سب لوگ اس صورت حال پر بہت زیادہ پریشان تھے کہ اکرم بھائی نے ایک گاڑی کا انتظام کر دیا اور ہم نی کسی نہ کسی طرح سمجھا کر ایک بچے اور ان خاتون کو اس گاڑی میں سوار کرایا اور میران شاہ کے لئے روانہ کیا. باقی دو بچوں کے گھر والے ان بچوں کو میران شاہ لیجانے پر تیار نہیں تھے وہ ہمارے ساتھ ہی رات گزر کر صبح واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے.  اور ہمارے لئے ان بچوں کو ایسی حالات میں اپنے ساتھ رکھنا بہت بڑا رسک ہو  سکتا تھا.آج کے میڈیکل کیمپ میں دو دفع ہم کو یہاں کے لوگوں کے غصے کا سامنا کرنا پر صورت حال کو اکرم بھائی، عدنان بھائی اور یہاں کے مقامی ساتھیوں نے ہی سمبھالا نہیں تو آج ہی ہمارا جانے کا حال ہوتا. ایسے میں ان بچوں کی حالت اور یہاں رکھنا خطرناک تھا، ہمارے بہت سمجھنے پر بھی یہ لوگ نہیں مانے اور ہم کو مجبورن ان بچوں کی وجہہ سے ڈاکٹر آصف کو اپنے ساتھ رکنے کے لئے مجبور کرنا پڑا. ڈاکٹر صاحب تھوڑا حیل حجت کے بعد رضامند ہو گئے. اثر کی نماز پڑھ کر ہم لوگ تھوڑا دیر  کے لئے آرام کرنے کی غرض سے ادھر ادھر بیٹھ گئے. میں نہیں ایک دفع پھر اپنی جیب سے امی کا بھیجا ہوا خط نکالااور پڑھنے لگا. تھوڑا دیر میں عدنان بھائی بھائی بھی آگئے اور پشاور سے فریال باجی کا بھیجا ہوا خط نکل کے مجھ کو دیتے ہوے کہا کے تم پڑھ لو کے فریال باجی کیا کہ رہی ہیں. میں نی امی کا خط اپنی جیب میں رہا اور فریال باجی کا خط پڑھنے لگا. جیسے جیسے میں خط پڑھ رہا تھا میری آنکھوں سے آنسو خود بخود نکلتے جا رہے تھے. میں یہاں وہ خط نہیں لکھ سکتا مگر اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کے عدنان بھائی اور فریال باجی جیسے لوگ مجھ کو اس دنیا کے نہیں لگتے، فریال باجی ایکچے خاصے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں کینیڈا میں اچھی خاصی نوکری کرتی ہیں. اچھا خاصا کما لیتی ہیں مگر یہ کیسا جانوں ہے جو ان جیسی خاتون کو یہاں (پاکستان) لے کر آگیا ہے. اور وہ یہاں (ہمارے پاس شمالی وزیرستان) آنے کے لئے بری طرح تڑپ رہی ہیں. مگر عدنان بھائی نی ان کو وہی (پشاور) میں (بوجھ) روک رکھا ہے. فریال باجی کے خط سے اندازہ ہوا کہ ٹیم آشیانہ کے کارکنان اور ہمدردوں کو یہاں کے لئے امداد جمع کرنے میں کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے. الله پاک ہماری مدد کے اسباب مہیا کرے اور انسانو کے دکھ، تکالیف کو سمجھنے والے لوگوں کو یہاں (شمالی وزیرستان) میں مدد کرنے کے لئے بھیجے. مجھ کو پورا یقین ہے یہاں سرکار جب اے گے جب یہاں انسان نہیں صرف زمیں ہی بچے گے. اور سرکار نے آکر یہاں پاکستان کے جھنڈے ہی لہرانے ہیں، اس سے زیادہ سرکار کچھ بھی نہیں کر سکتی.  جو کرنا ہے یہاں کے لوگوں کو خود ہی کرنا ہے، ہم (ٹیم آشیانہ) بہرحال کسی بھی طرح بارے پیمانے پر یہاں کے انتظام کو چلانے میں کوئی مدد نہیں دے سکتی. 
ہم آج کے میڈیکل کیمپ کے بارے میں اور حالات کے بارے میں بات کرتے رہے اور آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے رہے.. اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا. (یہاں آنے کا سب سے بڑا  فائدہ مجھ نافرمان کو یہ ہوا کے تمام نمازیں با جماعت ادا کر رہا ہوں) الله پاک کا شکر اور احسان ہے مجھ پر کے اس نے مجھ کو اپنی بارگاہ میں سجدہ کرنے کی توفیق عطا کری.
نماز مغرب سے فارغ ہو کر ہم نی رات کے کھانے کی تیاری کری، ڈاکٹر آصف ہمارے ساتھ ہی تھے اور بچوں کی بگڑتی حالت  پر بہت فکرمند، میں نی بلال (محسود) کو کہا کے وہ آج یہاں ہی روک جاۓ اور بچوں کے ساتھ رہے، میں خود بھی بچوں کے تیمارداری کے لئے ان کے ساتھ رہوں گا. آج دن میں جو کھانا پکا (دال  چاول) وہی کھانا رات کے لئے بھی تیار ہو رہا تھا. یہاں سب سے سستا اور جلدی تیار ہونے والا کھانا یہی (دال چاول) ہی ہے. 
ہم سب نے الله کا شکر ادا کر کے کھانا کھایا اور میں بلال اور ڈاکٹر آصف کے ساتھ بچوں (جو بیمار ہیں) کی طرف آگیا. ایک اور بچے کی حالت بگاڑ رہی تھی اور اس کے گھر والے رو رہے تھے، اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا ہمارے پاس جو بھی ادویات ہیں ہم انہی کو استعمال کر رہے ہیں. الله پاک ہی شفا دینے والا ہے. ہم تھوڑا تھوڑا دیر میں بچوں کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہے تھے کبھی ہاتھ دھلاتے  اور کبھی پیر دھلاتے. دل ہی دل میں الله سے دعا کرتے کے کہ الله پاک ان بچوں کو زندگی دے، صحت  دے، ہم سے جو ہو سکتا ہے ہم کر رہے ہیں اب اللہ پاک ہی ان بچوں کو صحت اور شفا دینے والا ہے. 
 مجھ کو تھکن اور اتنے دباؤ میں کام کرنے کی وجہہ سے سر درد ہو رہا تھا اور چائے کی طلب ہو رہی تھی، (میں بہت زیادہ سگریٹ پیتا ہوں اور پچھلے کچھ دنوں سے، جب سے یہاں آیا ہوں سگریٹ میں بہت کمی آگئی ہے مگر اس وقت مجھ کو چائے اور سگریٹ دونو کی ہی طلب ہو رہی تھی) . میں نی چپکے سے اکرم بھائی اور بلال کو اپنی اس حاجت کے بارے میں بتایا. اکرم بھائی نےکہا "ابھی تھوڑا دیر میں پوری ٹیم (کارکنان) کے لئے چائے کا انتظام کر دیتا ہوں اور آپ (میرے لئے) سگریٹ بھی لےآتا ہوں آتا ہوں. شام مے ہوئی ہلکی بارش کی وجہہ سے  موسم کافی اچھا ہو گیا تھا مگر دل کا موسم بہت خراب. 
تھوڑا دیر میں چائے اور میری سگریٹ بھی آگئی، اکرم بھائی کا  ادا کیا اور بلال کو ان بچوں کے پاس چھوڑ کر خود باقی کارکنان کے ساتھ چائے  پینے چلا گیا.ان بچوں کے ساتھ جو مرد حضرات تھے ان کو بھی چائے دی گئی. وہ وہی اپنے بچوں کے ساتھ ہی  رکے رہے. تمام کارکنان کچھ مقامی لوگوں کے ساتھ ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے اور حالات پر اپنی اپنی رائے دے رہے تھے. میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا تو کچھ لوگوں نے مجھ سے میرے  کے بارے میں پوچھا، میں نی  " دیا،آج پہلا دیں تھا اور بچےآہستہ آہستہ پڑھائی سے مانوس ہونگے. پھرعشا کی نماز کا وقت ہو گیا اور اسی وقت ہم کو پتا لگا کے آج سے ٢-٣ دیں میں ماہ رمضان شروع ہونے والے ہیں. میں جب سے یہاں آیا ہوں جب سے ہی نہ وقت کا پتہ چلتا ہے نہ ہی دیں کا نہ ہی مہینے کا. جب کوئی خاص بات ہوتی ہے تو ہی پتہ لگتا ہے کے آج کیا دیں ہے اور کیا تاریخ ہے. 
نماز عشا ادا کر کے میں، بلال، عدنان بھائی اور اکرم بھائی ڈاکٹر آصف کے ہمراہ بچوں کی طرف آگئے. مقامی  اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، باقی کارکنان نے ایک اورٹینٹ میں اپنے سونے کا انتظام کیا. پہلے ہم دو (٢) ٹینٹوں میں سوتے تھے آج اس ایک ٹینٹ میں بچے اور ہم لوگ بیٹھے تھے تو ایک ہی ٹینٹ ہے جہاں ان ٣-٤ لوگوں کو سونا ہوگا. میں اپنے ساتھ ڈائری لے کر بیٹھا ہوا ہوں. ایک طرف موم بتی جل رہی ہے اور دوسری طرف ایک لالٹین جل رہی ہے، دونوں بچوں کو ڈرپ لگی ہوئی ہے اور ابھی تک دونوں بچوں نی ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے (بخار کبھی کم ہوتا ہے کبھی تیز) ڈاکٹر صاحب پوری توجہہ  ان بچوں پر رکھے ہوے ہیں. الله پاک ان بچوں کو صحت، تندرستی دے، امین 
میں اس وقت (شاید رات کے ٩-١٠ بج رہے ہیں) تھکن سے برا حال ہے. ہلکی بارش ایک دفع پھر شروع ہو چکی ہے. اور یہ ڈائری لکھ رہا ہوں. عدنان بھائی مجھ کو آج کافی دفع بہت احتیاط سے یہ ڈائری لکھنے کے لئے کہ رہے ہیں. اور میں اپنے ان دوستوں سے کہتا ہوں جو یہ ڈائری اپ ڈیٹ کرتے ہیں کے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاۓ، الفاظ میں غلط انتخاب ہوجاۓ  تو آپ لوگ سہی طرح سے لکھ لینا. میں یہاں بہت دباؤ میں ہوں اور شاید اپنی ذاتی جھنجھلاہٹ کا اظہار ڈائری میں کر دیتا ہوں. 

آج کی ڈائری لکھتے لکھتے میں بھی تھک گیا ہوں. پورا احوال ہی لکھ ڈالا. دونو بچے سو رہے ہیں بلال بھی سو گیا ہے، عدنان بھائی اور اکرم بھائی  کسی کتاب کو پڑھ رہے ہیں. اور میں اپنی یہ ڈائری ختم کر کے اب تھوڑا لیٹوں گا. بچوں کے ساتھ ہے ہووے مرد حضرت ابھی ہیں رہے ہیں. ڈاکٹر آصف نماز ادا کر رہے ہیں .

الله حافظ 
انشا الله کل کی ڈائری وقت پر لکھ کر روانہ کرنے کی کوشش کروں گا.
آپ کی دعاؤں کے محتاج 
کارکنان، ٹیم آشیانہ 
دتہ خیل، شمالی وزیرستان.