Sunday 22 April 2012

Appeal: List of Urgent Require Items! (For Ashiyana Camp, Datta Khel, North Waziristan)

Dear Brother & Sisters, 
Assalam O Alikum.
Team Ashiyana is facing a lot of the problems to run its social activities in highly infected area in Datta Khel North Waziristan.
Our funds are not meeting with our demands. For that we are requesting to all of our Family member's, Friends and reader's to give your hand of courage to us and for the victims of War on Terror, who are living under very bad condistions in remote areas of North Waziristan. 
Team Ashiyana is only a social working group which is in try to give them Medical assistance, food supply, and others. As More than 40 Orphans are the main responsibility of us, These Orphans are living under the banner of Ashiyana Camp, 2km, Datta Khel, North Waziristan. Still we are not allow to take pictures and videos of our work but we knows ALLAH is watching us and our work. 
Dear all, 
This is an urgent request to all of you with the details that what we have and what we need (urgently):

Food Stuff:
We do have food stuff just for a day or two. 
We collected very few amount of food stuff during our bhik mission here at Peshawer (Khyber Pakhtonkhwa), but this is not enough for our daily demand. We have abut 100 victims, (including Orphans, Widows, Old and handicap)

We need urgnt supply for the food stuff as:
Rice, Flour (Atta), Beans (Dallain), Sugar, Tea, Salt, Spices, Ghee or Oil. (Urgently Require)

Medicines:
We have a very little amount of medicines at the moment.

We need urgent supply of the Medicines on priority basis. 
All kind of the Medicines, for our medical camp which need to be held in Datta Khel and other areas of the Town. 
Medicines for the Flue, Fever, Cough and Cold, Infant, General Deseases etc.

Other Stuff:
We are planning to open a road (Mobile School) for the children of North Waziristan. For that we need used books of your childrens, (in urdu medium only). from class I to class X.
Clothes for the children and women for all ages. (Urgently Required)

Masjid & Maddarsa (Masjid School):
A Masjid school is under construction is main Datta Khel, we have a plane to make it a primary level school. We need your assistance to meet our idea. 

Team Ashiyana Current Funds Details: (as on April 21, 2012)
In Cash: 
Send by Mansoor (Karachi): Rs. 5000/= (Five Thousands only)
Send by Ms. Badar-un-Nissa (Karachi): Rs. 3000/= (Three Thousands only)
Send by Asif Kamal (Karachi): Rs. 1500/= (Fifteen Hundred only)
Send by Ms. Mussarat (Lahore): Rs. 1000/= (One Thousand only)
Send by Faisal bro (Lahore): Rs. 1000/= (One Thousand only)                           
            Total Amount: Rs. 11500/= (Eleven Thousands, Five hundred only)
By Bank Account:
Current Balance as on April 21, 2012: Rs. 75/= (Seventy five only) 
"No new transaction or transfer available at yet"
By Other's: As on April 21, 2012: Rs. Nil (none)

Food Stuff (Collection in Bhik Mission in Karachi and Peshawer)
Clothes:
Send by Mansoor bro (Karachi): 42 suits for children & women (all used) 
Collected at Peshawer: 100 suites for Men, Women & Children.
Other cities: None

Food Stuff:
Send by Mansoor & Ms Badar (Khi):
Flour, Rice, Oil, and other general items worth of Rs. 10000/= (Ten Thousands only)
Collected at Peshawer:
Rice - 40kg, Flour 120 - kg, Beans (Dallain) 10 - kg, Oil - 15 kg, Salt - 50 bas, Suger - 100 kg, Tea - 1 kg, Spices etc.

Medicines:
Send by Ms. Badar (Khi): Worth of Rs. 1500/= (Fifteen Hundred's only)
Collected at Peshawer: Worth of Rs. 5000/= (Five Thousands only)

Dear all, the above mentioned data is subjected to availability as on April 21, 2012. Our prayers and best wishes are always with the worker and donors. May ALLAH gives them Ajr e Azeem for there efforts. But this is sorry to inform you that the amount of items is less and it is not meeting with our daily demands.

Team Ashiyana and the victims of war on terror, including our Orphans, Disable, and Widows are requesting to all of you to send your donation your used clothes, books, or medicines to us. as we can use it with thanks.

for the further details please visit:
or write us:

or call us at +92 345 297 1618

Jazak ALLAH Kher.
Volunteer
Team Ashiyana
D'tta Khel, North Waziristan.



















Saturday 21 April 2012

وزیرستان ڈائری: ٹیم آشیانہ اور دتہ خیل کے لوگوں سے تقریر

اسلام و علیکم،
سب سے پہلے گزشتہ شب بھوجا ائرلائن کے حادثے میں شہید ہوۓ افراد کے لواحقین سے تعزیت، الله پاک مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگا عطا فرماۓ، لواحقین کو صبر، تحمل، اور برداشت کا حوصلہ عطا فرماۓ، کوئی شک نہیں کے انسانی جانوں کا ایسے چلے جانا ایک قومی حادثہ ہے. الله پاک ہم سب کو ایسے حادثات سے محفوظ فرمایں، آمین.

گزشتہ ڈائری میں عرض کر رہا تھا کہ دتہ خیل میں میرا پہلا جمعہ مبارک کیسا گزرا. مگر شام تک حالات کافی بہتر ہو چکے تھے، عشا کی نماز کے بعد ٹیم آشیانہ کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی گئی تھی اور میں اپنے سارے تجربے، حالات کو سامنے رکھتے ہوۓ اپنی ڈائری میں نوٹس لکھ رہا تھا. اچھی خاصی تقریر ہو چکی تھی.  ابہ یہی سوچ رہا تھا کہ مجھ کو اپنی بات کہنے اور سمجھنے کا وقت مل جاۓ، ابہ کوئی انہونی یا ہلچل نہ ہو. 

عدنان بھائی نے بلوا لیا اور میں اپنی ڈائری لے کر دل ہی دل میں دعا کرتا ہوا ساتھیوں کی طرف بڑھنے لگا. میں نے سب کو بلند آواز سے سلام کیا، رسماً حال وغیرہ دریافت کیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا. اکرم بھائی اور عدنان بھائی سے اجازت مانگی، اور اکرم بھائی سے کہا کہ جہاں جہاں میری بات کا پشتو میں ترجمہ کرنا ضروری ہو براہ کرم کریں اور اگر کوئی بات پشتو میں ہو تو مجھ کو اردو میں ترجمہ کر کے سمجھا دیں. اکرم بھائی نے اثبات میں سر ہلایا اور میں نے دل میں الله کا  نام aلیکر پنی بات (تقریر) شروع کری،
    "محترم عدنان بھائی، اکرم بھائی، ٹیم آشیانہ کے ساتھیوں، اور وزیرستان کے بھائی اور بزرگوں، آپ سب ہی اب مجھ کو اچھی ترہان جان گئے ہیں، میں ایک دفع پھر اپنا تعارف کرانا نہیں چاہتا، میں جو ہوں جیسا ہوں آپ سب کے سامنے ہوں، میں وزیرستان ٹیم آشیانہ کی دعوت پر آیا،کیوں کہ ٹیم آشیانہ میری دعوت پر سندھ کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے iکراچی اور بدین (سندھ) آئ تھی. یہ میرا اخلاقی فرض اور ٹیم آشیانہ کے دوستوں سے محبت اور ان سب کا خلوص ہی تھا جس نے مجھ کو یہاں آنے پر مجبور کیا. میں اپنی مہمان نوازی پر، ٹیم آشیانہ اور دتہ خیل  کے سب دوستوں کا دل کی گہرایوں سے شکرگزار ہوں.  یہاں پر  رہتے ہوۓ ا کچھ زیادہ وقت تو نہیں گزرا مگر جتنا بھی وقت گزرا، اس سےبہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا. ٹیم آشیانہ کی مشکلات کا بھی احساس ہوا اور یہاں پر رہنے والوں کے دکھ اور کرب کو بھی بہت قریب سے محسوس کیا. میں اس وقت صرف دعا ہی کر سکتا ہوں کہ الله ہم سب کو صبر عطا فرماۓ اور ان مشکلات سے نکلنے کی ہمت اور توفیق عطا فرماۓ، آمین.
محترم دوستوں، آج جو باتیں میں آپ سے کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بہت لوگ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں، مگر انسان کو ہمیشہ حقیقت پسند ہونا چاہیے، اور حقیقت پسند انسان کی حثیت سے آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا  ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ سب ہی میری ان باتوں کو ٹھنڈے دل اور دماغ سے سنیں گے اور اپنی آراہ سے آگاہ کریں گے، اور اگر کہیں میری معلومات درست نہیں یا کمزور ہیں تو آپ اس میں اضافہ کریں گے.
آپ سب ہی  جانتے ہیں کہ وزیرستان شمالی یا جنوبی، یا ایسے ہی دوسرے علاقوں کہ حالات اتنے برے یا خراب کیوں ہیں؟ کیوں یہاں کہ لوگ مارے جا رہے ہیں؟ کیوں یہاں کے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہی اور رہنے پر مجبور ہیں؟ کیوں یہاں پاکستان کے دوسرے علاقوں کی ترہان ترقی اور خوشحالی نہیں؟ اور بھی بہت سارے سوالات ہم سب کے ذہنوں میں ہیں. سب سے بڑھ کر یہ کے اتنے خراب موسم اور حالات میں کیوں کوئی بینلاقوامی فلاحی یا قومی فلاحی انجمن آکر آپ لوگوں کی مدد نہیں کر رہی؟ ان سب کا کون ذمے دار ہے یہ ایک الگ بحث ہے جس پر پھر کبھی بات ہو سکتی ہے. ہم کو اپنا آج دیکھنا ہے تا کہ ہم اپنے آنے والے کل کو محفوظ بنا سکیں. آج آپ کے مسائل کیا ہیں؟
آپ کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہیں؟
آپ کے بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہے؟
آپ کے پاس زندگی کی بنیادی سہولیات موجود نہیں؟
آپ کی زندگیاں محفوظ نہیں؟ (کسی بھی وقت فوجی حملوں کا ڈر لگا رہتا ہے)
آپ کے پاس ادویات کی قلت ہے؟
آپ کے پاس کھانے پینے کے لئے غذائی اجناس نہیں؟     
یہی بہت بنیادی سوال ہیں  جن کا جواب حاصل کرنا کچھ مشکل کم نہیں. برسوں پہلے کچھ نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں آپ نے خود کو سونپ ڈالا، ظاہر ہے آپ کے پاسس بنیادی رہنمائی ہی موجود نہیں تھی جس کا سبب آپ کا غیر تعلیم یافتہ ہونا تھا. اگر آپ کے پاس تعلیم ہوتی تو آپ کے پاس شعور ہوتا اور شعور ہوتا تو آپ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ضرور سوچتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط. ٹیم آشیانہ جیسے لوگ آخر کب تک آپ کے ساتھ یہاں بیٹھے رہے گئی، جہاں تک میں سمجھا ہوں ٹیم آشیانہ خود ہمیشہ زندگی اور موت کے درمیان کھڑی لگتی ہے. آپ کو ابہ خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ آخر آپ کو کرنا کیا ہے؟ کیا ہمیشہ ہی ایسے ہی جینا ہے، کہ کچھ لوگ بھیک مانگ مانگ کر، چندہ زکات، فطرہ صدقات اکھٹا کر کر یہاں لائیں اور آپ کو دیتے رہیں؟ میرے خیال میں یہ کوئی مستقل حال نہیں. آپ یہ دیکھیں کے پاکستان کے قومی ادارے، جیسے آرمی وغیرہ کے جوان آپ کی حفاظت کے لئے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں. اور پتا نہیں کتنے ہی جوان خود  اپنوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں. خود آپ لوگ بھی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، (tابھی میری بات جاری ہی تھی کے عدنان بھائی اور اکرم بھائی نے اشارے سے مجھ کو روکا اور کہا کے بھائی آپ ان باتوں کو پھر کبھی کر لائیں ابھی ہم کام کی بات کر لیتے ہیں) میں بہت اچھی ترہان سمجھ رہا تھا کہ کیوں روکا گیا ہے. آخر کسی نہ کسی کو تو منہ کھولنا ہوگا، کہی آسمان سے فرشتے تو نہیں اتریں گے ان لوگوں کو کچھ سمجھنے کے لئے نہ ہی ہمارے محترم سیاست دان صاحبان یہاں آکر ان لوگوں سے بات کریں گے. آرمی والوں کو یہ پتا نہیں کیوں اپنا دوست سمجھنے کو تیار نہیں. تو کون ان لوگوں سے بات کرے گا؟ کون ان کو سمجھنے کو کوشش کرے گا، کسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا. پھر بھی میں نے اپنی بات کو مختصر کر کے بیان کرنے کی کوشش کری اور اپنا پلان پیش کرنا شروع کیا.t
محترم دوستوں، ہم سب کو مل کر ان حالات سے باہر نکلنے کی کوشش کرنا ہوگی، پاکستان میں رہنے والوں، اور دنیا کو احساس دلانا ہوگا کہ وزیرستان دہشت گردو کی پناہ گاہ نہیں ہے بلکے یہاں یہ نام نہاد اسلام کے ٹھیکے دار بندوق کی نوک پر دہشت دکھا کر سب کو یرغمال بنا لیتے ہیں. اور جب گھر محفوظ نہ ہوں تو وہ سب کرنا پڑھتا ہے جو دوسرے ہم سے چاہتے ہیں. ہم کو یہاں اپنی مسجدوں کو پھر سے آباد کرنا ہوگا، جہاں ہم اسلامی دہشت گردی کی تعلیم نہیں بلکے صحیح اسلام کی تعلیم دے سکیں، جس میں ہم جہاد کے سہی مسائل بیان کر سکیں، اپنے بچوں کو اسلام کا صحیح نظریہ سکھا سکیں. ہم کو اپنی پوری کوشش کرنا ہوگی کہ اب یہاں کا بچہ بچہ تعلیم حاصل کر سکے، اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا. میں وعدہ کرتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کی مدد کے لئے مجھ کو جو کچھ بھی کرنا پڑا میں کروں گا. میں یہاں کوئی سکول کھولنے کا وعدہ نہیں کر سکتا مگر آپ کی مسجدوں میں ہی سکول کی سہولیات دینے کی پوری کوشش کروں گا. آپ کے بچوں کے لئے کتابیں اور تعلیم کے لئے ضروری چیزوں کا بندوبست کرنے کے لئے محنت کروں گا، اور مجھ کو پورا یقین ہے کہ ٹیم آشیانہ کے کارکنان اور آپ سب اس مقصد میں میری مدد کریں گے.
تعلیم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی  مقصد نہیں ہوتاکہ نوکری کرنی ہے بلکے تعلیم سے ہم میں شعور بیدار ہوتا ہے، سچ اور جھوٹ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، صحیح اور غلط بات کا فیصلہ کرنے کے لئے حوصلہ ملتا ہے اور ہماری زندگی میں رہنمائی ملتی ہے. آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کے اب آپ خود اور آپ کے بچے علم حاصل کرنے میں لگ جائیں. الله پاک ہم سب کی مدد کریں گے. انشا الله.

دوسرا بڑا مسلہ امن و امان، حفاظت کا ہے، مقامی لوگ مل کر آرمی اور پاکستان کے دوسرے اداروں سے اگر تعاون  کریں تو کسی کی مجال نہیں کہ آپ کا بال بھی بانکا کر سکے. یہاں ہم کو اپنے نوجوانوں کی مدد چاہیے ہوگی، جو بھٹک گئے ہیں، جن کو دوسروں نے اپنے جال میں پھنسا لیا ہے. ہم کو ان نوجوانوں سے بات کرنا ہوگی، ان نوجوانوں کو ان کی ذمے داری کا احساس دلانا ہوگا. سرحد پر سے اگر کوئی انجانا کسی بھی حوالے سے آپ کا مہمان بننے آتا ہے تو اس کے eبارے میں پہلے سے اچھی ترہان سوچنا ہوگا.  کہی یہ مہمان ہمارے لئے مشکل کا سبب نہ بن جائے، اس مہمان کے بارے میں مقامی سیکوریٹی کے اداروں کو اطلاع دیں، اور ایک ذمے دار انسان ہونے کا ثبوت دیں، ایک دفع پاکستان کے سیکوریٹی اداروں کا آپ پر اور آپ کا ان پراعتماد بحال ہو گیا تو آپ دیکھیں گے کی بہت جلد یہاں خوشحالی آنی شروع ہو جائے گی - انشا الله. اور ایک دفع یہاں سیکوریٹی کے معاملات ٹھیک ہونا شروع ہو گئے تو انشا الله یہاں کاروبار بھی شروع ہوگا، اور روزگار بھی ملنا شروع ہو جائے گا. یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکے اس کے لئے ہم سب ہی کو محنت اور خلوص سے پہلے خود سے، پھر اپنے مذھب سے اور اپنے وطن (پاکستان) سے مخلص ہوکر کام کرنا ہوگا.
ایک اور اہم مسلۂ غذائی قلت اور ادویات یا میڈیکل کی سہولتوں کا نہ ہونا ہے. میران شاہ میں تو کچھ اسپتال نظر آتے ہیں مگر یہاں (دتہ خیل) یا جہاں جہاں میں گیا ہوں  وہاں ایسا کچھ نہیں دیکھتا. یہ مسلہ بھی فورن حل طلب ہے. اس کے لئے ہم سب حکومت سے مدد مانگ سکتے ہیں، ویسے ہماری حکومت تو خود آپ کا نام لے لے کر دنیا سے مدد اکھٹا کر رہی ہے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا جواب دے، مگر مجھ کو اپنی آرمی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ اگر آرمی کی میڈیکل کور سے مدد مانگی جاۓ تو مل سکتی ہے، ٹیم آشیانہ جیسے ایک چھوٹے سے سوشل گروپ کے لئے اتنا بڑا انتظام کرنا ممکن نہی. آپ کو بلکل اندازہ نہیں، کہ جب ہم اپنے دوستوں، رشتےداروں اور دنیا والوں کے سامنے آپ کے لئے مدد مانگتے ہیں تو لوگ کتنی  حقارت سےہم کو دیکھتے ہیں. کچھ تو یہ کہتے ہیں "تم ان لوگوں کے لئے مدد مانگ رہے ہو جو پوری دنیا میں دہشت گردی hپھیلا رہے ہیں؟" کچھ لوگ ہم کو جھوٹا کہتے ہیں، کچھ ہم کو غلط سمجھتے ہیں، میں آپ کو  کس ترہان بتاؤں کے کتنی ذلت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑہتا ہے. مگر پھر بھی ہم آپ کو اپنا سمجھتے ہیں اور تھوڑا دیر تھک جانے کے بعد پھر سے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں. آپ اپنے بڑوں سے بات کریں کہ ہم کو یہاں ہمارے کام کی تصاویر، بنانیں دیں. تا کہ ہم وہ دنیا کو دکھا سکیں، اور ہماری مدد ہو سکے.
آپ سب ہی نے میری بات کو بہت خاموشی سے سنا، ہو سکتا ہے میری کچھ باتیں آپ کو اچھی نہ لگیں ہوں، اور آپ کو برا محسوس ہوا ہو جس کے لئے میں آپ سے معزرت اور معافی چاہتا ہوں. آپ سب کا بہت بہت شکریہ. اسلام و علیکم.
جزاک الله


Friday 20 April 2012

وزیرستان ڈائری: دتہ خیل میں میرا پہلا جمعہ، میران شاہ میں ڈرون حملہ اور ہم

اسلام و علیکم، 
آج کی ڈائری لکھتا ہوں. 

آج جمعہ مبارک کا دن ہے، خوش قسمتی سے آج کی رات نسبتاً پرسکون گزری، میری بھی آنکھ صبح فجر کے وقت ہی کھلی، صبح فجر میں اٹھنے کی عادت جو ہوتی جا رہی تھی، آج کسی کو اٹھانا نہیں پڑا. میں اپنے بستر سے اٹھ کر باہر آیا تو دیکھا کے ٹیم آشیانہ کے سارے ساتھی نماز کی تیاری میں مشغول ہیں. میں بھی وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر نماز کی جگہ آکر بیٹھ گیا. تھوڑا ہی دیر میں باقی ساتھی بھی آگئے، امامت ظہیر خان بھائی نے کری، ماشا الله بہت ہی خوش کلامی سے تلاوت قرآن کری، نماز پڑھنے میں خود ہی بہت مزہ آیا. روح اور جسم سب الله کے حوالے کر دینے کا فیصلہ کیا اور نماز کی سہی حقیقت آج ہی کھلی. الله اکبر، کاش کہ میں پہلے ہی ان سب سچائیوں کو جان پاتا. اپنے ماضی پر افسوس اور کردار پر ندامت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا تھا. نماز کے بعد رو رو کر دعا کری کہ،
 "الله پاک، مجھ کو سیدھا راستہ دکھا، وہ راستہ جس میں میری فلاح ہو، میرے غیر والو کی فلاح ہو، میرے دوست احباب، عزیز اور رشتےداروں کی فلاح ہو، اور جس میں توحید کا کلمہ پڑھنے والو کی فلاح ہو."  
دعا کے بعد، عدنان بھائی نے ایک تعلیمی نشست کا اہتمام کیا تھا. جس میں قرآن پاک کی کچھ آیات پڑھ کر اس کا اردو اور پشتو ترجمہ کیا گیا، ایک اور بھی سے کہا گیا کے ان آیات پر علمی روشنی ڈالیں، سورج کی روشنی اب ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی، نیند تو کب کی ختم ہوچکی تھی اب درس قرآن کے بعد ناشتہ کرنا تھا اور آج کیا کام کرنا ہے اس کی معلومات اور نماز جمعہ کی تیاری. 
میں نہیں، درس کے بعد اکرم بھائی سے معلوم کیا کے آج ہم (ٹیم آشیانہ) کیا کام کر رہی ہے تو جواب ملا کہ ناشتے کے بعد ہی پاتا لگے گا کہ آج کیا کرنا ہے. شاید اب ہمارے پاس ادویات اور امدادی سامان بہت کام رہ گیا تھا جس کی وجہہ سے کوئی نئی حکمت عملی بنانا مشکل ہو رہی تھی، میں نے اکرم بھائی سے معلوم کرنے کی کوشش کری کہ اگر یہاں سے فون کرنا چاہوں تو؟ جواب ملا کے ہمارے پاس کوئی جدید سہولت میسر نہیں، ایسی سہولیات تو صرف بڑے خان، طالبان، یا حکومتی اہلکاروں کے پاس ہے ہم ایسی سہولیات سے آراستہ نہیں. تھوڑا سا دکھ ہوا، کیوں کہ کافی دنوں سے امی سے بات نہیں ہوئی تھی پتہ نہیں وہ کیسی ہونگی؟ الله پاک امی کو صحت اور تندرستی دی، آمین.
ناشتہ بہت رسمی سے تھا جس میں رات کی بچی ہوئی روٹی اور چائے تھی. میں نے صرف چائے پینے پر ہی بس کیا کیوں کہ بھوک نہ ہونے کے برابر تھی. اچانک مجھ کو دونوں خواتین کے بڑے میں خیال آیا تو میں نے پوچھا تو پتہ چلا کے ایک اور خاتوں کے ہاں بیٹا ہوا ہے مگر تیسری خاتوں کی حالات کچھ بہتر نہیں، دعا کی اشد ضرورت ہے، دل سے دعا کری کہ الله پاک خاتون کو صحت عطا فرماے، آمین. 
دل کچھ بوجھل ہونے لگا. میں ٹہلنے کی غرض سے اٹھا ہی تھا کہ سارے ساتھیوں کو ایک جگا جمع ہونے کی ہدایت کی گئی. ہم سب ایک کھلی جگہ پر اکھٹا ہو گئے. عدنان بھائی اور اکرم بھائی بھی آگئے. پھر اکرم بھائی نے ابتدا کری. "ساتھیوں، ٹیم آشیانہ کے پاس اب صرف ضروری سامان رہ گیا ہے. ہمارے پاس اب اتنی ادویات نہیں کہ کوئی اور میڈیکل کیمپ لگا سکیں، نہ ہی ہم اب غذائی اجناس کی فراہمی کر سکتے ہیں، اس لئے آج جمعہ مبارک کی نماز کے بعد ٹیم آشیانہ کے کچھ اراکین میران شاہ اور پشاور روانہ ہو رہے ہیں جہاں سے کچھ سامان اکھٹا کیا جا سکے، آپ میں سے جو جو یہاں روک کر کام کرنا چاہتا ہے وہ ایک طرف ہو جائیں اور جو بھیک مشن کے لئے جانا چاہتا ہے وہ ایک طرف ہو جائیں اور جو آرام کرنے کی غرض سے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں. 
میں بہت حیران زدہ تھا کہ کل تک ایسی کوئی بات بیان نہیں کری گئی تھی اور آج اچانک یہ صبح، اور جو لوگ ٹیم آشیانہ کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتے اور واپس جانا چاہتے ہیں ان کو بہت عزت اور احترام کے ساتھ واپس جانے کا بھی کہہ دیا گیا تھا. میرے حساب سے ایک میں ہی تھا جو بہت دور (کراچی) سے آیا تھا، باقی افراد زیادہ تر یہاں ہی کے تھے مطلب وزیرستان ہی کے کسی نہ کسی علاقے کے یا پشاور کے. مجھ کو کچھ اچھا محسوس نہیں ہوا، میری خود سمجھ نہیں آرہا تھا کے میں کس طرف کھڑا ہوں، اسی سوچ میں جہاں تھا وہی کھڑا رہ گیا جبکے باقی ساتھی تین الگ الگ جگہوں پر کھڑے ہو گئے. عدنان اور اکرم بھائی نے آواز دی کے بھائی منصور آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ میں نے کہا میں ابھی کچھ دن اور یہاں روک کر آپ کے ساتھ فلاحی کاموں میں حصہ لینا چاہتا ہوں، یہ سن کر ہلکی ہلکی سی آواز ہے جن میں صدا تھی، الله اکبر، ماشا الله، سبحان الله. . . ایسا لگا کے جیسے میں نے کسی جہاد میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہو. اکرم بھائی نے آگے بڑھ کر مجھ کو گلے سے لگایا. مگر عدنان بھائی کسی سوچ میں تھے، عدنان بھائی نے مجھ کو ایک طرف آنے کے اشارہ کیا اور اکرم بھائی باقی ساتھیوں کو ہدایات دینے لگے. 
عدنان بھائی نے مجھ کو ٹیم آشیانہ کی ملی مشکلات سے اگاہ کیا، یہ بتایا کے ہو سکتا ہے کے اب ہمارے پاس دو (٢) وقت کا کھانا بھی مشکل ہو، یا پھر کسی دن کا روزہ بھی رکھنا پڑے، ادویات کا انتظام کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں. باقی حالات تو میرے سامنے ہی ہیں. "آپ کو واپس جانا چاہیے آپ کراچی میں رہ کر ہماری بہتر مدد کر سکتے ہیں" عدنان بھائی نے کہا مگر میں نے جواب دیا کہ میں کچھ دن اور یہاں روکنا چاہتا ہوں، سمجھنا چاہتا ہوں حالات کو دیکھنا چاہتا ہوں کیوں کہ جب میں واپس جاؤں تو بہت بہتر طریقے سے یہاں کے حالت بیان کر سکوں، یہاں کی مشکلات کو سمجھ سکوں اور کوئی بہتر حل تلاش کر سکوں. ہو سکتا ہے کے یہاں روک کر جو دکھوں میں کوئی اچھی راے دے سکوں. لیکن اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کے میں آپ پر بوجھ بنوں گا تو میں نماز کے بعد چلا جاتا ہوں، میں نے کہا. عدنان بھائی نے مجھ کو گلے لگا لیا اور ان کی آنکھوں میں آنسوں تھے، میری بھی آنکھیں بھر آی. کراچی میں رہ کر کبھی ایسے حالت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، آج پہلی دفع محسوس ہوا، کہ فاقہ کیا ہوتا ہے ابھی کیا نہیں تھا صرف سوچا ہی تھا تو ادھ جان جا رہی تھی. الله اکبر، پتہ نہیں یہاں کے لوگ کتنے فاقے کرتے ہونگے، کتنے ہی لوگ بغیر ادویات اور علاج کے مر جاتے ہونگے، کتنے ہی لوگ ایسے بورے حالات سے تنگ اور پریشان ہو کر ملک دشمنوں کے ہاتھوں کا ہتھیار بن جاتے ہونگے، نام نہاد طالبان بھی شاید ایسے ہی موقے اور لوگوں کی تلاش میں رہتے ہونگے، تبھی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان اور نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں کا علاقہ ہے. اور ان کا زور چلتا ہے. ان سب کے ذمے دار ہم سب ہی ہیں. ہم خود تو شہسروں میں بیٹھ کر اپنی روزی روٹی کی فکر کرتے ہیں مگر کبھی نہیں سوچتے کے پتہ نہیں کتنے لوگ ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں، ہم کو تھوڑا سا سر درد ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس بھاگتے ہیں. اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں دوا لیتے ہیں، مگر یہاں تو ایک ٹیبلٹ تک مشکل سے ملتی ہے. یا الله! یہ کیسا امتحان ہے؟ یہ کیسی مشکل ہے؟ مجھ کو ہمت دینا، صبر دینا، کہ میں اپنے اس فیصلے پر ثابت قدم رہوں. آمین.

دن کے ١١ بجے کا وقت:
اچانک ہی کچھ افرا تفری مچی، اکرم بھائی میرے طرف بھاگتے ہووے آی اور میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف بھاگنے لگے، میں اس بھاگم بھگ کے لئے بلکل تیار نہیں تھا. بلال بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا. نہ ہی ٹیم کا کوئی دوسرا کارکن نظر آرہا تھا. 
یا الله یہ کیا ماجرا ہے؟ میں اکرم بھائی کے ساتھ تیز نہیں بھگ سکتا تھا. اپنی معذوری پر پہلی دفع بہت غصہ آیا. ١٥ منٹ کے بعد ہم ایک جگا روکے، میری سانس بوری تارہا چل رہی تھی، حلق میں کانٹے پڑھ رہے تھے، فکر اور گھبراہٹ الگ ہو رہی تھی. اکرم بھائی مجھ کو ایک چھوٹے سے گھر میںلے گئے ہے مجھ کو ہدایت دی کے جب تک وو واپس نہیں آتے مجھ کو اسی گھر میں روکنا ہے اور کسی سے کوئی بات نہیں کرنی. میں ہکا بکا، تھا. کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا. وہ مجھ کو چھوڑ کر چلے گئے، میں ایک طرف بیٹھ گیا، صبح سے ہونے والی سری باتوں کو یاد کرنے لگا. آج جمعہ بھی ہے، میں سمجھا کے آج کسی بڑے میدان میں نماز کی تیاری ہوگی جس سے مجھ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دیکھنا اور ملنے کا موقع ملے گا، مگر یہ سب تو الٹا ہی ہو رہا تھا. تھوڑی دیر میں ایک بچہ (١٢-١٣) برس کا میرے لئے ایک پلیٹ میں چاول اور دنبے کے گوشت کا سالن دل کر لے آیا، ساتھ پانی بھی تھا، میں نے بچے کو اردو میں ہی کہا الله اجر عظیم دے، میں بھوکا نہیں بس پانی دی دو. بچا اردو سمجھ گیا اور کہا کھاؤ، میں نے انکار کر دیا، اور یہ انکار صرف خوف کی وجہہ سے نہیں تھا، مجھ کو سچ میں بھوک نہیں لگ رہی تھی. وہ بچہ پلیٹ واپس لے کر چلا گیا. میں نے آگے بڑھ کر پانی کا گلاس اٹھایا، پانی پر نظر پڑی تو دیکھا پانی بہت مٹی والا تھا. بہت مٹی تھی. میں کیسے پی سکتا تھا پانی. میں نے اپنی قمیض کا دامن پانی کے گلاس پر رکھا اور جتنا پانی پی سکتا تھا الله کا شکر ادا کر کے پی لیا. 
  دن کے ایک (ا) بجے:  
ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے باہر ہو کیا رہا ہے ہر طرف سناٹا تھا. ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں کسی قبرستان میں آگیا ہوں. وہ بچہ جو کھانا اور پانی لیا تھا واپس نہیں آیا تھا. میں کمرے سے باہر نکلنا نہیں چاہتا تھا کے کوئی گڑ بڑ ہوئی تو اکرم بھائی جانے کیا کہے گے. پریشان اور لاچار ایک طرف بیٹھ گیا، صرف گھڑی میں وقت دیکھ کر سوچ میں تھا کے آج نماز بھی ادا ہوگی کہ نہیں؟
اسی سوچ میں تھا کہ، اکرم بھائی آگئے، میری جان میں جان آی، ایک انجانی خوشی کا احساس ہونے لگا. میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی اکرم بھائی نے بتایا، "منصور بھائی آج صبح نماز فجر کے بعد دتہ خیل سے کچھ آگے، اور میران شاہ پر ڈرون نے حملہ کیا ہے، جس میں بہت جانی نقصان ہوا ہے. کافی غیر ملکی (نام نہاد) جہادی مارے گے ہیں. اور کچھ مقامی لوگ بھی مارے گئے ہیں. پورا امکان ہے کے آج جمعہ کی نماز پرایک دفع پھر سے حملہ ہو. اسی خدشے کے پیش نظر ہم کو سر پر پیر رکھ کر جس حال میں تھے بھاگنا پڑا. ہم کسی بھی قسم کا نقصان برداشت کر سکتے ہنی مگر جانی نقصان بلکل نہیں. میرا کچھ سامان جو میرے بستر پر تھا وہ بھی لا کر دیا. کے فلحال آپ کو یہی روکنا ہوگا. میں نے باقی ساتھیوں کا پوچھا تو بتایا گیا الله کے فضل اور کرم سے سب ہی محفوظ جگہوں پر ہیں. اب کچھ اور پوچھنے کے لئے باقی نہیں رہ گیا تھا. نماز کا پوچھا تو کہا کے آج نماز اسی کمرے میں ادا کرنی ہے کچھ مقامی لوگ آرہے ہیں، کیوں کے ڈرون حملے کی وجہہ سے نماز کھلی جگہ پر اور اجتماع کے ساتھ ادا نہیں کی جا سکتی. 
مجھ کو وضو کا پانی دیا گیا، مجھکو کچھ حجت محسوس ہو رہی تھی میرا اشارہ سمجھ کر اکرم بھائی نے مجھ کو راستہ دکھایا، میں باہر نکلا کھلے آسمان کی طرف دیکھا، الله کا شکر ادا کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوکر وضو کر کے کمرے میں واپس آگیا. میری واپسی تک ٨-١٠ مقامی افراد کمرے میں موجود تھے اور نماز کی تیاری کر لی گئی تھی. مقامی افراد سے میرا تعارف کرایا گیا جو رسماً تھا. ایک مولانا ٹائپ کے صاحب نے جمعہ کا عربی خطبہ دیا، اقامت ہوئی اور نماز پڑھی گئی، نماز کے بعد بقیہ نماز ادا کری اور ایک ایک کر کے وہ سب رخصت ہوتے چلے گئے، صرف اکرم بھائی اور ایک اور صاحب جن کا نام نہیں پتہ وہی رک گئے.

دن کے ٣ بجے:  
کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی، اکرم بھائی تلاوت قرآن کر رہے تھے اور وہ صاحب تسبیح پر کچھ پڑھ رہے تھے، وہی بچہ جو پہلے کھانا لے کر آیا تھا ایک دفع پھر کمرے میں داخل ہوا اب اس کے پاس تین (٣) پلیٹیں تھی کھانا وہی تھا جو وہ پہلے لے کر آیا تھا، گلاس کی جگہ ایک چھوٹی سی مٹکی تھی جس میں پانی بھرا تھا. میں خود کو پتھروں کے دور کا انسان محسوس کر رہا تھا یا ایسا لگ رہا تھا کے میں افغانستان میں کہیں موجود ہوں. اکرم بھائی نے اشارے سے بچے کو کھانا رکھ کر جانے کا کہا اور تھوڑا دیر میں فارغ ہو کر کھانا خانے بیٹھ گئے. بھوک بھی تھی مگر حالات کی وجہہ سے خانے کو دل نہیں کر رہا تھا. پھر بھی کوشش کری کے جتنا کھا سکتا ہوں کھاؤں کیا پتہ آنے والا وقت کیسا ہو. اکرم بھائی میری دوا کی تھیلی بھی لے آی تھے میں نے دوا کھائی، اور ایک طرف بیٹھ گیا. اس میں کوئی شک نہیں کے میں بہت زیادہ پریشان تھا. ایسے حالات کے لئے تیار ہی نہیں تھا. مجھ کو تیار رہنا چاہیے تھا. آج پہلی دفع احساس ہوا کے میں ایک ایسے علاقے میں ہوں جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے. آج ہی یہ پتہ چلا کے کیوں فلاحی ادارے اور حکومتی ادارے یہاں آکر کام نہیں کرتے. اور آج ہی عدنان بھائی کی عزت، وقار،ٹیم آشیانہ کی ہمت، صبر سب ہی میری نظروں میں بہت بڑھ گے، دل چہ رہا تھا کے اگر سب میرے سامنے ہوں تو اک ایک کا ہاتھ چوموں ان سب کو سلام کروں کہ کتنے سالوں سے یہ لوگ اتنے برے حالات میں ایسے خطرناک علاقوں میں کام کر رہے ہیں. اس کا کوئی صلہ نہیں  دی سکتا. صرف الله پاک کی ذات ہی ہے جو اس کا صلہ دے سکتی ہے. 
اکرم بھائی نے میری ڈائری کی طرف دیکھا اور پوچھا کے یہ کیا ہے؟میں نے کہا کے یہ میری ڈائری ہے جو میں لکھتا ہوں. انہوں نے کہا کے اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کرنا کیوں کے ایسی تحریر تم کو کسی مشکل میں نہ ڈال دیں. میں نے سر ہلا کر ان کی مشورے کا شکریہ ادا کیا. اور پوچھا کے اور کب تک یہاں روکنا ہوگا؟ جواب ملا کچھ اندازہ نہیں. میں ایک طرف بچی ہوئی چادر پر لیٹ گیا.

شام کے ٤-٥ کا وقت ہوگا جب مجھ کو اٹھایا گیا میں سو گیا تھا. نماز عصر ادا کری، پھر بیٹھ کر تھوڑا قرآن پڑھا. نماز مغرب کا وقت ہوا تو ادا کری. اور ایک طرف بیٹھ گیا. آج رات یہاں نہ ہی لالٹین تھی نہ ہی چراغ. ہر طرف اندھیرا تھا. جس میں میں اور اکرم بھائی بیٹھے تھے. اکرم بھائی کبھی کبھی کچھ کہتے تو میں ہاں یا ہوں میں جواب دے دیتا. یہ اندھیرا مجھ کو کاٹنے لگا تھا. باہر جانے کی اجازت نہیں تھی. میں سوچنے لگا کے اس وقت کراچی میں میرے گھر پر کیا ہو رہا ہوگا. آج جمعہ ہے میری بہنیں گھر آئ ہونگی، کھانے بن رہے ہونگے. گلی میں بچے ادھر ادھر بھگ رہے ہونگے. یہ خیال بھی میرے کو بہت اچھا لگ رہا تھا. تھوڑا دیر میں ایک شب آے اندھیرے میں پتہ نہیں لگا کے کون ہیں، اکرم بھائی نے پشتو میں کچھ کہا اور مجھ کو اردو میں کہا کے چلو بھائی منصور، خطرہ کچھ کام ہوا باہر چلتے ہیں. اف، میں بتا نہیں سکتا تھا کے باہر جانے کا سن کر جو خوشی محسوس ہوئی تھی وہ کیسی تھی. میں فورن کھڑا ہو گیا اور اکرم بھائی کے آواز کے سہارے کمرے سے باہر نکلنے لگا. باہر کھلی فضا میں آکر گہرے گہرے سانس لئے دل کو بہت اطمینان ہوا. اکرم بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف چلنے لگے، اور ہم تھوڑا دیر چلنے کے بعد ایک ڈھلوان والی جگہ پر آکر. روک گئے، یہاں دیکھا کے عدنان بھائی موجود ہیںاور ٹیم کے کچھ دوسرے ارکان بھی خوشی کے مارے میرے مون سے آواز نکلی "عدنان" اور میں جھپٹ کر ان کے گلے لگ گیا. میںنے ان سے کہا کے حالت کچھ بھی ہوں آپ مجھ کو اکیلا نہ چھوڑنا. انہوں نے کہا، بھائی سب کچھ اتنا جلدی اور تیزی سے ہوا کے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کا وقت نہیں ملا اور یہ سب تو یہاں چلتا ہی رہتا ہے. فٹ بھی میں پوری کوشش کروں گا کے اگر ایسا ہو تو تم میرے ساتھ ہی رہو. ہم سب نے مل کر عشا کی نماز ادا کری، رات میں کچھ کھانے کا انتظام نہیں تھا بس ہلکا پھلکا جو ملا کھا لیا، آج عدنان بھائی نے بتایا کے، "٥ ساتھی جو مختلف علاقوں سے آے تھے وہ آرام کرنے واپس چلے گئے ہیں، ٥ ساتھی پشاور کے لئے نکل گئے ہیں جو ادویات، غذائی اجناس وغیرہ کے لئے وہاں بھیک مہم چلیں گئی اور دوسرے ساتھیوں سے رابطہ کر کے مدد مانگے گئی. اور ہم یہاں رہ گئے ہیں. ابہ تم بتاؤ کے ایسے حالت میں کیا کرنا چاہیے. کیا ہم کو امداد کا انتظار کرنا چاہیے یا یہاں روک کر ہم کچھ اور کر سکتے ہیں؟ میں نے اکرم بھائی کے کان میں کہا کے بھائی اگر ممکن ہو تو چائے پلوا دو اور اگر ایک سگریٹ مل سکتی ہے تو مہربانی ہوگی. "یہ بتا دوں کے مجھ کو بے شک دن میں ایک دفع کھانا ملے، مگر میں چاہیے اور سگریٹ ضرور پیتا ہوں." آج کافی دن کے بعد مجھ کو شدت سے چائے اور سگریٹ کی طالب محسوس ہو رہی تھی. اکرم بھائی نے مسکرا کر کہا جی بلکل!اور وہ اٹھ کر ایک طرف چلے گئے.
  
عدنان بھائی کے چہرے پر ایک اطمینان تھا، جس کو دیکھ کر مجھ کو بھی سکوں مل رہا تھا کے چلو دن بھر کی ٹینشن کے بعد کچھ ذہنی سکوں تو ملا. اب عدنان بھائی نے ایک دفع پھر سے دہرایا کہ " بھائی کچھ سوچا کہ اب کیا کرنا ہے؟" میں نے کہا بھائی جی، آپ تو سالوں سے یہاں ہو آپ کیا کرتے ہو جب آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا؟ جواب ملا کے میں مقامی لوگوں کی ساتھ ان کے کام کاج میں مدد کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ. میں نے کہا کے اکرم بھائی کو آجانے دیں جب تک میں کچھ نوٹس لکھ لیتا ہوں پھر کھل کر بات کرتے ہیں. میں نے آج اپنے سارے تجربے اور تجزیے کو ایک دفع پھر سے لکھنا شروع کیا، ڈائری کا ایک ایک صفحہ بار بار پڑھا اور جو بھی بہتر سے بہتر مشورے لکھ سکتا تھا لکھنا شروع کیا. 
رات کے ٩-٩:٣٠ کا وقت ہوگا جب اکرم بھائی واپس آے تو ان کے ایک ہاتھ میں برتن (چائے والا) تھا، میں نے شکر کیا کے آج پیٹ بھر کے چائے تو پینے کو ملے گی، سگریٹ شاید نہیں ملی ہوگی. مگر اکرم بھائی نے قریب آتے ہی میرے ہاتھ میں مارون گولڈ کے ٢ پاکٹ رکھے اور گلاس میں چائے نکال کردی. الله کا شکر ہر حال میں کرنا چاہیے اب یہ سگریٹ کا نشہ کا شکر ادا کروں کے نہیں. دل میں آسمان کی طرف دیکھ کر الله کا شکر ادا کیا کے دن بھر کے ہنگامے کے بعد رات کتنی پرسکون عطا کری. الله تیرا شکر ہے!

   دوستوں اور ساتھیوں، اگر آپ مجھ اپنی آراہ ، تجاویز یا مشورے سے اگاہ کرنا چاھتے ہیں، یا پھر ٹیم آشیانہ (شمالی وزیرستان) کے لئے کوئی پیغم دینا چاہتے ہیں یا مدد کرنا چاہتے ہیں تو براہ کرم مجھ کو لکھیے: 
waziristandairy@gmail.com
یا ٹیم آشیانہ کے کسی ممبر سے رابطے کے لئے لکھیے:
team.ashiyana@gmail.com
یا عدنان بھی سے رابطے کے لئے لکھیے:
s_adnan_ali_naqvi@yahoo.ca

عدنان بھی اپنے بھک مشن کے سلسلہ میں آج کل  پشاور میں موجود ہیں، جہاں وہ مقامی لوگوں سے، وزیرستان کے بچوں اور خواتین کے لئے کپڑے، غذائی اجناس اور ادویات کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں. ہم دوسرے ساتھی بھی اپنے اپنے شہروں میں رہتے ہوے ٹیم آشیانہ کے لئے امداد جمع کرنے کرنے کی کوشش میں nمصروف ہے. آپ بھی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں. ہم اور آپ مل کار وزیرستان کے بچوں، اور لوگوں کے لئے تھوڑا تھوڑا کر کے بہت کچھ کر سکتے ہیں. الله پاک ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرماے، اور ٹیم آشیانہ کی مشکلات کو آسان فرماے، آمین.
جزاک الله خیر.       
 

  

Thursday 19 April 2012

وزیرستان ڈائری: ڈائری کہ اگلا صفحہ

اسّلام و علیکم 
ڈائری ایک دفع پھر ایک دن اور لیٹ ہو گئی، وجہہ وہی ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں. آج پشاور میں عدنان بھائی اور فریال باجی سے بات کرنے کا موقع ملا، دل کو اطمینان ہوا کہ ٹیم آشیانہ خیریت سے ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہے. عدنان بھائی اور فریال باجی کی تحریر پڑھنے کہ بھی موقع ملا. عدنان بھائی اور فریال باجی کے خیالات سے آگاہی ملی، بہن فریال کہ مشورہ اپنی جگہ بلکل درست ہے میں بھی اب اپنی پوری کوشش کروں گا کہ کچھ ایسا تحریر نہ کروں جس سے ٹیم آشیانہ کے ساتھیوں اور وزیرستان میں رہنے والے بھائی بہنوں کے لئے کسی بھی طرھ کی کوئی بھی مشکلات پیدا ہوں. آج صبح کیوں کے یہاں نہم جماعت کہ پرچہ تھا اس میں مصروف تھا اس سے فارغ ہو کر سیدھا بس سٹاپ گیا اور جتنا بھی سامان پچھلے دنوں میں جمع کیا تھا وہ سامان بس میں لوڈ کروایا اور اب سے تھوڑا ہی دیر قبل گھر آیا ہوں اور ضروری کاموں سے فارغ ہو کر ڈائری لکھنے بیٹھ گیا ہوں کیوں کہ رات کہ کچھ پتا نہیں بجلی ہو بھی کہ نہیں کیوں کہ آج کراچی کہ موسم ابر آلود ہے اور بارش کہ امکان ہے. 
"اور محترم دوستوں، وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مطلب کے بجلی چلی گئی. اسی لئے میری ڈائری ادھوری رہ گئی."  

میں نماز پڑھنے کو تو تیار تھا مگر یہاں (وزیرستان) میں پتہ نہیں کے میرے نماز پڑھاۓ جانے کے کیا اثرات ہونگیں بس یہی ایک خوف تھا. شکر الله کا کے عدنان بھی آگئے اور انہوں نے اکرم بھی کو امامت کے لئے کہا. میں نے الله پاک کا دل ہی دل میں بہت شکر ادا کیا اور نماز میں مشغول ہو گیا.
نماز سے فارغ ہو کر عدنان بھائی نیں بتایا کے ابھی تک ان خواتین کے لئے hکچھ نے ہو سکا جن کو فوری طور پر اسپتال منتقل کرنا ضروری تھا. کوئی مدد میسر نہیں ہے. بس الله پاک غیب سے مدد فرماے اور تینوں خواتین کو اور ان کی ہونے والی اولادوں کو صحت، تندرستی عطا کرے اور زندگی عطا فرماے، آمین. یہی دعا نماز کے بعد مانگی گئی. میں سوچنے لگا کہ انسان کتنی بھی ترقی کر لے، دنیا منی کسی بھی مقام پر پہنچ جاۓ مگر الله پاک کہی نہ کہی ایسا امتحان دیتے ہیں جس سے بندے کے ایمان کا اندازہ ہو جاتا ہے. مجھ جیسے گھن چکر کے لئے یہ بلکل نیا مگر روح کو سکون دینے والا تجربہ تھا.
ہم سب کچھ دیر کے لئے آرام کی غرض سے ایک طرف بیٹھ گئے، بلال محسود ابھی تک ہمارے ساتھ ہی تھا. میں نے عدنان بھائی سے باتوں ہی باتوں میں ذکر کیا کہ بلال کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟ عدنان بھائی نے مجھ کو کہا جیسا تم کو بہتر لگتا  ہے کرو. میں نے بلال اور اس کی بوڑھی ماں اور بیمار بہن کو اپنے ساتھ کراچی لیجانے کی بارے میں سوچا مگر کراچی کے حالت اور وزیرستان کا نام اپر سے نام میں محسود، یہی کچھ باتیں تھی جو مجھ کو بلال کو کراچی لیجانے سے روک رہی تھی. میں نے ایک دفع پھر بلال سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کو صاف صاف  بتانے کا سوچا کہ میں کیوں اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا، ہاں میں کراچی رہ کر اس کے لئے  وہاں سےکچ نہ کچھ مدد ضرور کر سکتا ہوں. 
تھوڑی ہی دیر میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا، یہاں (دتہ خیل) میں عصر اور مغرب کی نمازوں میں کچھ زیادہ  وقفہ نہیں ہے.
نماز مغرب ادا کر کہ فارغ ہوے ہی تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ آج جلدی کھانا کھا کر نمازعشا پڑھتے ہی آرام کروں گا مگر نماز سے فارغ ہوتے ہی کسی نے اطلاع دی کہ ایک خاتون کے بیٹا ہوا ہے اور دونوں زچہ اور بچہ الله پاک کے فضل اور کرم سے ٹھیک ہیں ہم سب نے الله کہ شکر ادا  کیا اورباقی دو خواتین کے لئے بھی دعا کری کہ الله پاک دونو خواتین کی بھی مدد کرے اور آسانی کرے. آمین.
آج کے میڈیکل کیمپ کی وجہہ سے تھکن بہت ہو رہی تھی اور بھوک بھی  لگ رہی تھی. اوپر سے ایک اور مشکل تھی کہ ٹیم آشیانہ کے پاس پینے کہ پانی تک ختم ہو گیا تھا. (یہاں یہ بتانا ضروری ہے کے ٹیم آشیانہ جس علاقے میں موجود ہے وہاں پینے کہ پانی ڈیڑھ کلومیٹر دور سے لانا پڑھتا ہے). اس وقت صرف رات کے کھانے تک کے لئے پانی موجود تھا. عدنان بھائی نے کچھ مقامی لوگوں سے مدد مانگی اور کچھ لوگ کسی نہ کسی برتن میں پانی لے ہے. یہاں ایک بہت اچھی بات یہی تھی کہ مقامی لوگ ہم وقت مدد کے لئے تیار رہتے ہیں. وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی کم ان کو دیا جاۓ وہ پورا کریں. یہاں ویسے بھی کوئی کام وغیرہ تو ہے نہیں جس میں یہاں کے لوگ مصروف رہے، سکول کہ نام تو جانتے ہیں مگر ہے کوئی نہیں، میران شاہ کے حالت اور دتہ خیل کے حالت میں زمیں آسمان کہ فرق ہے. نمازعشا کہ وقت ہوتے ہے نماز کی تیاری ہوئی اور میرے چاہنے کے باوجود بھی کھانا ہم نے نماز کے بعد ہی کھایا. کھانے میں دن کہ ہی بچہ ہوا کھانا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کے اب ٹیم آشیانہ کے پاس کھانے پینے کہ ذخیرہ بھی ختم ہونے کو ہے. فریال باجی کی یاد بہت آرہی  ہے مگر مل نہیں سکتا تھا کیوں کے یہاں کا پردہ قانون بہت ہی سخت ہے.  اور میں فریال باجی یہ ٹیم آشیانہ کے لئے کوئی مشکل کھڑی کرنا نہیں چاہتا تھا.  
کھانا ابھی تک لذیز تھا اور خوب پیٹ بھر کہ کھایا، الله پاک کا شکر ادا کیا کے بد ترین حالات میں بھی ہم کو سونے سے پہلے پیٹ بھر کھانا عطا فرمایا. یہاں قرآن کی ایک سورہ "اور تم اپنی پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟" بہت بار پڑھنے کا دل کرا. میں عدنان بھائی، اکرم بھائی اور کچھ دوسرے ساتھ ایک طرف بیٹھے تھے کہ ایک بچے نے آکر یاد دلایا کہ آج ابھی تک اردو کی کلاس نہیں ہوئی ہے، میں بہت تھکا ہوا تھا عدنان بھائی کو  اشارہ کرکے اپنی آرام گاہ مطلب ٹینٹ میں چلا گیا. میرے پیچھے پیچھے بلال بھی آیا اور مجھ سے اجازت لے کے روانہ ہو گیا. میں ابہ اپنی ڈائری لکھنے بیٹھا ہوں، لالٹین کی روشنی میں لکھنا آسان نہیں. آج سارا دن کی کارستانی لکھی ہے، مگر بلال کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں. اس کے رویہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کے جیسے  ان کومجھ سے بہت امیدیں ہیں، الله مجھ کو ہمت اور توفیق دے کہ میں کسی ایک کی امید پر پورا اتر سکوں. آمین.
آج شب جمعہ ہے کل جمعہ کی نماز ادا کرنی ہے. اسی لئے سوتا ہوں. اس امید پر کے آنے والی صبح ہم سب ہی کے لئے خوشی اور آسانی کا پیغام لیے گی. انشا الله
                                           

Monday 16 April 2012

دتہ خیل کہ مصروف دن


جب ہم بلال محسود کے ساتھ روانہ ہوے تو عدنان بھائی کی دی ہوئی ہدایت بھی میرے دماغ میں تھیں، اور بلال محسود کی باتیں بھی بار بار میرے ذہن میں گونج رہی تھی. میں اور ٹیم آشیانہ کا ایک مقامی ساتھی اور بلال محسود، ٹیم آشیانہ کے لگائے ہوے میڈیکل کمپ سے آگے کی جانب بڑھنے لگے، ہم کو زیادہ دور نہیں جانا پڑا. دتہ خیل کوئی بہت برا شہر یا قصبہ نہیں ہے، بہت معمولی سی آبادی ہے جو قریب قریب ہی مقیم ہے، ڈرون حملوں کی وجہہ سے یا وزیرستان کے حالات کی وجہہ سے اس جگہ کے لوگ مختلف علاقوں میں چلے گئے ہیں، یہاں صرف وہی لوگ رہ گے ہیں جو کسی مجبوری کی وجہہ سے کہی اور منتقل نہیں ہو سکے ہیں. یہاں کے معاشی حالات کا کچھ پتا نہیں کیوں کے نہ ہی کاروبار ہے نہ ہی یہاں کاشتکاری کا کوئی نظام، بس اگر ہے تو صرف اتنا کا یہاں کے جو لوگ شہروں میں مقیم ہیں وہ یہاں کے لوگوں (اپنے رشتے داروں) کے لئے کچھ کھانے پینے کی اشیا بھیج دیتے ہیں، یا پھر کوئی مقامی بڑا انسان یہاں کے مقامی لوگوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کر دیتا ہے. غربت، بیروزگاری، معاشی تنگی اور اس نام نہاد جنگ کی وجہہ سے یہاں کے لوگ بہت ہی بری حالات میں ہیں، نہ ہی گیس ہے نہ ہی ایندھن کی فراہمی کا کوئی معقول انتظام، بجلی کا تو شاید یہاں کے لوگ نام یا استعمال جانتے ہی ہوں. غیر کیا ہیں، بس حجرے ٹائپ کی چہار دیواریں ہیں، جن میں شاید ایک چھوٹا کمرہ باقی کھلی جگہ ہے. خواتین کو سخت ترین پردے میں رکھا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ ١٣ - ١٤ برس کی بچوں کو بھی باہر بغیر پردے کے آنے کی کوئی اجازت نہیں ہے. دوسری طرف مرد (خاندان کے سرپرست) اس علاقے میں موجود نہیں ہیں یا تو وہ دوسرے شہروں کی طرف چلے گے ہیں یا صرف ویسے ہی ہیں جو کہی بھی جانے سے معذور ہیں. سڑک یا پکی گلی کا کوئی تصور نہیں، بس آڑی سیدھی راستے ہیں جن سے گزر کے جانا ہوتا ہے، اگر غور سے دیکھا جاۓ تو ڈرون حملوں کی کہانیاں بھی صاف صاف نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں. ہم بلال محسود کے ساتھ چلتے چلتے دتہ خیل کے آخری مقام تک آگے جہاں سے آگے جانا میرے لئے منع تھا. یہی ایک طرف ایک چھوٹا سا ٹنٹ لگا ہوا تھا جس کے باہر ایک مقامی عورت بہت ہی گندے لباس میں بیٹھی ہوئی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اندر بھی کسی کے موجود ہونے کا احساس ہو رہا تھا. میں نے آگے بڑھ کر ان خاتون کو سلام کیا خاتون نے جیسے ہی مجھ کو دیکھا ایک دم سے اٹھ کر پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا جو میری سمجھ نہیں آرہا تھا، مجھ کو ایک دفع پھر سے پشتو زبان کے سمجھ نہ آنے پر خود پر ملال کیا، بلال نے بتایا کے بھی، میری ماں شکوہ کر رہی ہے کے میرا باپ (والد) اور بھائی ایک ڈرون حملے میں مارے گے، اور ایسے وقت مارے گے جب وہ ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے گے تھے. اب میں کیسے سمجھوں کے ڈرون کو جو ہدایت دی جاتی ہیں وہ اسی پر عمل کرتے ہیں. قصور کس کا ہے؟ کچھ پتہ نہیں مگر جہاں ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے وہاں بہت سارے  معصوم اور بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں. کاش، ہمارے ملک کے خفیہ ادارے اتنے طاقتور ہو جائیں کے ایسے حملوں میں صرف دہشت گرد ہی مارے جائیں. میں نے ایک دفع پھر بلال محسود سے اظہار افسوس کیا، بلال ٹینٹ کی اندر گیا اور اپنی ماں کو واپس لیا، ساتھ ہی وہ اپنی ماں کو پشتو میں کچھ سمجھا بھی رہا تھا. میں نے بلال سے جو ناشتہ ہم ساتھ لیے تھے وہ لیا اور اس کو پلیٹ لانے کو کہا، اس نے مسکرا کر کہا "بھائی ہم صرف ٹینٹ اور کچھ کپڑے ہی رکھتے ہیں باقی اور کچھ نہیں." الله اکبر، الله اکبر، کراچی میں صرف میرے ہی غیر میں پتہ نہیں کتنے برتن ہوتے ہیں، ہر فرد کا الگ گلاس جس میں پانی پینا ہوتا ہے، ٣ وقت کے خانے کے لئے الگ الگ پکوان، مہینے بھر کا راشن، گرمی سے بچنے کے لئے ہر کمرے میں پنکھنے اور بلب، سوئی کے لئے موٹر سائیکل، اور جانے کیا کیا سہولیات اور ایک بلال کا گھر ہے کہاں کھانے کے لئے برتن تک نہیں، یا الله، یہ ہم کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم کس غفلت میں ہیں؟ یہ وہ مذھب نہیں جس کی تربیت ہمارے نبی نے ہم کو دی تھی، اور جس کے لئے قرآن پاک اتارا گیا. میں نے اپنی ساری ہمت جمع کری اور کہا "بلال اپنی امی اور بہن کو یہ کھانا کھلا دو" اس نے پشتو میں اپنی امی کو کچھ کہا تو اس کی ماں نے وہ کھانے والی تھیلیاں لے کر اپنی بیٹی کو آواز دی اور ایک خوشی کے اظہار کے ساتھ ٹینٹ کے اندر کی جانب چلی گئی. میں بلال کے ساتھ باہر ہی بیٹھ گیا، اور بلال سے مزید جاننے کی کوشش کرنے لگا. بلال نے جو کچھ مجھ کو بتایا وہ صبح بہت تکلف دینے والا اور دکھوں سے بھرا ہوا تھا. بس اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بلال کے بھائی اور والد کو دفنایا گیا تو ان کی لاشوں پر کفن تک نہ تھا. آج یہ ڈائری لکھتے ہوے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں. میری سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں، کراچی میں رہتے ہوے ان حالات کے بارے میں ہم کو کچھ نہیں پتہ تھا ہم تو بس سمجھتے تھے کہ وزیرستان دہشت گردوں کو پیدا کرنے والی اور تربیت دینے والی کسی جگہ کا نام ہے جہاں کے رہنے والے خود بھی ان سب کے ذمہ دار ہیں. مگر آج بلال کے خاندان سے مل کر بہت کچھ اندازہ ہو گیا، اور خود پر شرم آنے لگی. اور اب عدنان بھائی کے یہاں ہونے کا مقصد اور مطلب بھی سمجھ آنے لگا. میں نے بلال سے پوچھا کہ تم کو بخار ہے؟ جواب میں اس نے کہا ہاں بھائی اکثر ہو جاتا ہے.مگر میں ٹھیک ہوں. میں نے کچھ اور وقت یہاں بلال کے ساتھ گزارا، بلال کو جاننے والے کچھ اور لوگ بھی ادھر سے گزرتے وقت سلام کرتے اور حال پوچھتے جا رہے تھے. میں نے بلال کو ہمت دلائی، کچھ دیر بعد بلال کی والدہ ٹینٹ سے باہر ہے اور کہا کا اس کی بہن بہت خوش ہے. میں نے خاص کر اپنے ساتھ لاے ہووے بسکٹ بھی بلال کو دے تھے جو اس کی بہن کو پسند آئے تھے. بلال کی ماں نے اپنا روپٹہ اٹھا کر ہم کو بہت دعا دی، میرے اور میرے ساتھی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک دفع پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر آسمان کی طرف بیٹھ گئی. مجھ کو ان کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں لگ رہی تھی. ہم سب خاموشی سے واپس ٹیم آشیانہ کے میڈیکل کمپ کی طرف آگئے. ہماری واپسی میں کوئی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگا ہوگا، ادھر ٹیم آشیانہ کے سارے کارکن میڈیکل کمپ میں مصروف تھے، میںبھی عدنان بھائی کو سب خیر کی خبر دی کر اپنے حصے کے کام میں لگ گیا. آج میرا کام بیمار بچوں اور بزرگوں کو دو دینے کا تھا جو کے ڈاکٹر صاحبہ تجویز کر کے ایک پرچے پر تحریر کر رہی تھی. میں نے کیوں کا اس سامان کی پیکنگ میں حصہ لیا تھا تو اچھی ترہان علم تھا کہ کون سی دوا کہاں رکھی ہے. آج میڈیکل کمپ میں رش بھی کہیں زیادہ تھا.پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ آج کے کیمپ میں آرہے تھے، بلال اور ایک دوسرے ساتھی بھی میرے ساتھ ہی تھے، میں ایک جگا بیٹھ کر صرف ہدایات دے رہا تھا اور میرا ساتھی اور بلال ڈبوں میں سے دوا نکال کر مریضوں کو دے رہے تھے. ان سب میں ظہر کی نماز کہ وقت ہوا اور صبح کچھ جیسے تھم سا گیا. میں بھی اٹھ کر نماز کی تیاریوں میں لگ گیا، نماز کے بعد دال چاول کھانے کو ملا. اور اک دفع پھر کیمپ کی کروائی شروع ہو گی. بلال بہت خامشی اور اچھے طریقے سے اپنا کام کر رہا تھا. میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ تم اتنی اچھی اردو کیسے بول لیتے ہو؟ تو جواب ملا، کہ عدنان بھائی اکثر شام میں یہاں اردو پڑھاتے ہیں اور کچھ اچھی باتیں بتاتے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ سیکھ لیتے ہیں. میں نے دل ہی دل میں عدنان بھائی کی تعریف کری. اور مسکرا دیا، ٣ بجے کے لگ بھگ عدنان بھائی کہ بلاوا آیا، میں چونکا ضرور مگر اٹھ کر ان کی طرف گیا وہ ایک طرف گم سم سے کھڑے ہوے تھے، "معاملہ کچھ سنگین لگتا ہے" میں نے دل میں سوچا اور کہا جی عدنان بھائی؟ حکم؟ انہوں نے مجھ کو دیکھا اور کہا کہ یہاں ٣ خواتین اسی ہیں جن کو بچا ہونے والا ہے مگر تینوں ہی کی حالت ایسی نہیں کی ہم اس میڈیکل کیمپ میں کچھ کر سکیں، ان کو شہر یا کسی اسپتال کی ضرورت ہے. یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ میں بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا. میں نے کہا بھائی تو اب کیا ہوگا؟ یہی میں سوچ رہا ہوں کے اب کیا کیا جاۓ؟ زیادہ سے زیادہ ایک دیں اور رکا جا سکتا تھا. میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحبہ کیا فرما رہی ہیں؟ ان کہ جواب بہت مایوس کرنے والا تھا، کیوں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماملے میں پہلے ہی معذرت کر لی تھی. میں اور عدنان بھائی ایک طرف بیٹھ گے، کی ایک بچہ پیغام لے کر آیا جو کہ ایک پرچے پر لکھا تھا، فریال باجی جب سے یہاں آیی تھی میں نے ان کو دیکھا نہیں تھا یہ پیغام انہوں نے بھیجا تھا کہ میرے یہاں آجانے فارغ ہونے والے مریضوں کو دوا نہیں مل رہی تھی. عدنان بھائی نے مجھ کو واپس جانے کو کہا اور کہا "الله ملک ہے." میں بھی دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ الله پاک کوئی راستہ دکھا، جس سے ہم اس مشکل سے نکل سکیں. میں واپس اپنی جگہ آیا اور اپنے ساتھیوں کو دوا دینے کی ہدایات دینے لگا. مگر دل میں وہی چل رہا تھا جو عدنان بھائی نے بتایا تھا. میرے دل میں ایک اور خیال آیا اور میں نے ایک پرچی پر لکھ کر عدنان بھائی کو اپنا پیغام بھجوایا، جواب  بھی آگیا، لکھا تھا کی یہاں کی لوگ آرمی والوں کی مدد لینا ہی نہیں چاہتے؟ مگر کیوں؟ میران شاہ بہت دور نہیں اور اگر آرمی کی کوئی گری مل جاتی ہے تو ان تینوں خواتین کو میران شاہ پہنچایا جا سکتا ہے. میں نے ایک دفع پھر ایک مقامی ساتھی کو کچھ ہدایات دیں اور عدنان بھی کی طرف جا کر ان سے بات کری انہوں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کر کی دیکھتا ہوں. آپ اپنا کام جاری رکھیں، بلال نے جب مجھ کو کچھ پریشان دیکھا تو پوچھا کیا کہ بات ہے بھائی؟ میں نے اس کو ساری بات بتا ڈالی. اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا بھائی یہاں کچھ عورتیں ہیں جو یہ کام کرتی ہیں اگر آپ کہو تو میں بات کروں؟ میں نے کہا یہ گھر کا نہیں اسپتال کہ معاملہ ہے اس نے کہا کی اگر اسپتال نہیں گے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا. میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کو اجازت دی کہ اگر کوئی اس معاملے میں کام آسکتا ہے تو یہ اچھی بات ہے. آج بہت رش تھا اور زیادہ تر مریض بچے یا خواتین ہی تھے، جو بچوں کی ہاتھ دوا منگوا رہی تھیں، خوشی اس بات کی تھی کہ آج بہت لوگ ہے تھے، مریضوں میں بخار، فلو، نزلہ، گلے کی بیماری کی علاوہ پیٹ کی بیماری والے مریض بھی تھے، ادھر ہماری دواؤں کہ ذخیرہ بھی کام ہوتا جا رہا تھا. کچھ وقت کی لئے تو ایسا رش لگا کی محسوس ہونے لگا کہ جیسے ابھی ساری ادویات ختم ہو جائے گی. بلال کو گئے کافی دیر ہو چکی تھی وہ واپس نہیں آیا تھا. ادھر شام ہونے کو تھی اور رش بھی کچھ کام ہونے لگا تھا. مجھ کو ایک دفع پھر عدنان بھائی  کا پیغام ملا کہ ابھی ملو، یہ پیغام بھی ایک پرچی پر لکھا آیا تھا، میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کراچی میں تو بس موبائل پر میسج کر کے سارے کام ہو جاتے ہیں یاں پرچی کے ساتھ ایک بندہ بھی چاہیے. میں پھر عدنان بھائی کی طرف گیا تو وہاں بلال بھی کھڑا ہوا تھا، پتہ لگا کہ وہ ایک خاتوں کو اپنے ساتھ لایا ہے جو اس علاقے میں زچگی کے کاموں کے لئے مشہور ہیں. میں نے دل ہی دل میں دعا کری کے الله پاک کوئی آسانی کہ راستہ نکالے. تھوڑا دیر وہی کھڑا رہا تو پتہ لگا کہ ان خاتوں نے ٢ خواتین کے معاملے میں تو ہاں کر دی ہے کہ وہ کیس دیکھ لیں گی مگر ایک اور خاتوں کہ معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے جو آسانی سے حال ہوتا نظر نہیں آتا. عدنان بھائی اور میں نے الله پاک کا شکر ادا کیا کہ کچھ تو راستہ نظر آیا، انشا الله آگے بھی کچھ بہتری ہوگی. پھر بھی عدنان بھائی کو کہا کہ آپ آرمی والوں سے رابطہ کر کے دیکھو. شاید کچھ بات بن جاۓ، عدنان بھائی نے ایک دفع پھر مجھ کو میری جگہ جانے کی ہدایت دی اور خود دوسری طرف چلے گے.
جب تک میں اپنی جگہ واپس آیا وہاں کچھ لوگ جمع تھے جو دوا لینے کے لئے ایک قطار میں کھڑے ہوے تھے، میں نے جلدی جلدی دوا دینے کہ عمل شروع کیا اور جیسے ہی کیمپ کے ختم ہونے کہ وقت ہوا باقی بچا ہوا سامان ترتیب سے رکھنے لگا. اور دوسرے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا، بلال ابھی تک ہمارے ساتھ ہی لگا ہوا تھا. کام کے ساتھ ساتھ بلال مجھ سے کراچی کی زندگی، تعلیم اور دوسرے معملات پر بات بھی کر رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کے وہ بہت جلدی جلدی سب کچھ جان لینا چاہتا ہو. .  . میں بھی اس کو ہر بات بہت طریقے سے اور آسان طریقے سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا. 
عصر کی نماز کہ اعلان ہوا اور ہم اپنا سامان سمیٹ کر واپس آشیانہ کیمپ کی طرف آگئے. یہاں یہ بتا دوں کہ آشیانہ کیمپ کوئی ترتیب وار یا ڈھنگ کہ کیمپ نہیں ہے بس ایک جگہ پر ٹیم آشیانہ کو رکنے کی اجازت دی گئی ہے جہاں ٹیم آشیانہ اپنا سامان رکھ کر بیٹھ گئی ہے یہاں صرف چار (٤) ٹینٹ ہیں جن میں سے ایک میں امدادی سامان کو رکھا گیا ہے باقی تین میں رکنے اور کھانے پینے کہ سامان. ٹیم کے اکثر ساتھی مقامی ہیں جو خود ہی صبح آجاتے ہیں اور ہدایات لے کر کام میں لگ جاتے ہیں، فریال باجی یہاں آکر یہاں کی عورتوں کے ساتھ مل جاتی ہیں اور ان کو سلائی ، کڑھائی، اور پڑھنا سختی ہیں. سلام ہے اس خاتوں کی ہمت، حوصلے اور عظمت پر، جو کناڈا میں اچھی خاصی نوکری کرتی ہے زندگی کی سب آسائشیں رکھتی ہے مگر رہتی یہاں کے لوگوں کے انداز میں ہی ہے، یہ بھی عدنان بھائی کی تربیت کہ ہی نتیجہ لگتا ہے. میں اگر خود کہ کہوں، تو آج سارا دیں میری ٹوٹی تنگ میں زیادہ درد نہیں ہوا اور میں نے خود بھی کچھ خاص توجہہ نہیں دی اور آج مجھ کو یہاں رکنا اچھا لگا. 
میں نے واپس آنے کے بعد خود ہی دوسرے ساتھیوں کو کچھ ہدایات دیں اور نماز کی تیاری میں لگ گیا. ابہ صبح کچھ سلجھتا جا رہا تھا اور مجھ کو اس فلاحی کام میں مزہ بھی آرہا تھا. دل کو سکوں اور قلب کو اطمینان بھی محسوس ہو رہا تھا. بلال ابھی تک میرے ساتھ تھا میں نے اس کو کہا بھی کے تم اپنی امی اور بہن کی خیر خبر لیتے او تو اس نے بتایا کے وہ بھی آج یہاں ہی ہیں اور خواتین کے ساتھ موجود ہیں. 
وضو سے فارغ  ہو کر جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوے تو ایک مقامی ساتھی نے اچانک مجھ کو کہا کے منصور بھائی آج نماز آپ پڑھائیں. میں ہرات سے اس کی طرف اور باقی ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا، کوئی ٣٠-٣٥ افراد تو ہونگے ہی جن کو نماز ادا کرنا تھی. میرے پسینے چھوٹ گئے کہ یہ کام میں کیسے کروں؟ میری تو داڑھی بھی نہیں، اور سچ کہوں تو نماز کہ ارکان تو شاید میں اب سیکھ رہا تھا. میں نے ہمت کر کے منع کرنے کی کوشش کری تو سب نے ہی کہا کے یہ عدنان بھائی نے کہا ہے کہ آج عصر اور عشا کی نماز منصور بھائی نے پڑھانی ہے. میں نے ایک ساتھی اکرم بھائی سے کہا کہ آج آپ پڑھا لیں میں بعد میں کبھی پڑھا لوں گا. مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ نماز آپ نے ہی پڑھانی ہے، میں نے عدنان بھائی کو تلاش کرنے کی کوشش کری مگر وہ کہی نظر نہیں آے، میں نے دل ہی دل میں اللہ سے مدد مانگی اور نماز کی امامت کے لئے کھڑا ہو گیا. 


وزیرستان ڈائری: بلال محسود سے ایک ملاقات اور ٹیم آشیانہ کا دتہ خیل میں میڈیکل کمپ

اسلام و علیکم،
آج کا صفحہ، 
پتہ نہیں کہ یہ ڈرون آنے کا ڈر تھا یا موت کا خوف مجھ کو بہت پسینے آرہے تھے، موسم ٹھنڈا تھا مگر پھر بھی دل بہت زیادہ ہی گھبرا رہا تھا، آج مجھ کو امی کی یاد بہت آرہی تھی، مجھ کو جب بھی کوئی خوف، ڈر یا گھبراہٹ ہوتی ہے تو میں امی کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور وہ مجھ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر دم کر دیتی ہنی جس سے دل کو بہت اطمینان ملتا ہے. مگر آج یہاں امی بھی نہیں اور پتہ نہیں کیوں دل بیٹھا جا رہا ہے، پھر وہ آواز جو تھوڑا پہلے سنائی دی تھی دوبارہ آی، "بھائی آپ کراچی سے آے ہو نا؟" میں نی اندھیرے میں آنکھیں پھر پھر کر دیکھنے کی بھرپور کوشش کری مگر ناکام رہا، پھر دوبارہ آواز آی، "بھائی؟" خدا کی قسم اس آواز میں ایک عجیب سی کشش، ایک پیغام تھا، ایک التجا تھی، صرف ایک لفظ "بھائی" جس محبت اور خلوص سے کہا تھا اس نے میرے دل کو دہلا دیا تھا، میں نے بھی اپنا ایک بھائی کراچی میں کھو دیا تھا اور بھائی کی اہمیت سے بہت اچھی ترہان واقف تھا. میں نے جوابن آواز لگائی، جی میں یہاں ہی ہوں آپ کون؟ تو اک ہاتھ میری طرف بڑھا اور میں نے بھی ہاتھ بڑھایا، وہ لڑکا کوئی ١٣-١٤ برس کا ہوگا، اندھیرے کی وجہہ سے چہرہ صاف نظر نہیںآرہا تھا مگر اس بچے کے ہاتھ بہت بری طرھ کانپ رہے تھے، بچے کو بخار بھی تھا. ہم کو اس سرنگ میں زور سے آواز نکلنے کی بھی کوئی اجازت نہیں تھی. میں سب کچھ بھول بھال کر اس بچے کی طرف متوجہ ہو گیا. میں نے ہلکی آواز میں بچے کا نام پوچھا تو اس نے کہا "میرا نام بلال محسود ہے". بچہ بہت اچھی اور سہی اردو بول رہا تھا. لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ کوئی وزیری بچہ ہے. محسود نام کے اندر ایک الگ خوف اور دہشت ہے. مگر اس بچے کی حالات دیکھ کر میں نے محسود کا نام بھول کر بلال ہی پر توجہ دی. اس بچے نے بتایا کہ،
 " بھائی، یہاں تو ہر روز کا یہی معمول ہے، کوئی رات ایسی نہیں جس میں ڈرون یا فوج کے حملے کا ڈر نہ ہو. ہر رات ہم اپنی زندگی کی آخری رات سمجھ کر گزارتے ہیں. ہم دیں میں صرف ایک دفع کھانا کھاتے ہیں وہ بھی اگر نہ ملے تو کسی سے کوئی شکایات نہیں کرتے، یہاں ہمارے کرنے کی لئے کچھ نہیں، صرف اتنا کی پاکستانی فورسس کا انتظار کریں یا پھر ڈرون کا. میرا بھائی، اور باپ اس جنگ میں مارا گیا، میری بہن آدھی پاگل ہو چکی ہے، رہنے کو گھر نہیں ہے، میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کبھی ادھر کبھی ادھر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بڑے ملا (مولانا) سے کہ کر جہاد پر چلا جاؤں، مگر اپنی ماں اور بہن کو دیکھتا ہوں تو رک جاتا ہوں، آپ کراچی سے آے ہو، کیا آپ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلو گے؟ میری ماں اور میں آپ کے گھر کا سارا کام کریں گے، آپ کو کسی بھی شکایات کا موقع نہیں دیں گے، بس آپ ہم کو ٢ وقت کی روٹی دے دینا میں ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوں بس میری ماں اور بہن کی کوئی زمیداری لے لے. بھائی ہم خود بھی شہر جانا چاہتے ہیں، مگر یہاں کے لوگ ہم کو ڈرا دیتے ہیں کے شہر میں جو گے تو وہاں کوئی تم کو جینے نہیں دے گا، تم محسود ہو، تم وزیرستانی ہو، کبھی پولیس تم کو تنگ کرے گی کبھی خفیہ والے، اور خود شہر والے تم کو قبول نہیں کرے گے. بھی، کیا ہم لوگ انسان نہیں ہیں؟ کیا ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ بس مجھ کو اپنی بہن اور ماں کی فکر ہے اور کسی کی نہیں. کوئی میری ماں اور بہن کو سمبھال لے میں خود کو بیچنے تک کو تیار ہوں."
اس بچے کی باتیں ختم نہیں ہو رہی تھی اور میں اپنی سوچ میں کے میں اسس بچے کے لئے کیا کر سکتا ہوں، یہ میں بھی جانتا تھا کی فلحال کراچی کے کسی بھی شہر میں اس بچے یا اس کی فمیلی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی. میں بھی اگر کچھ کروں تو کیا کروں؟ میں نے اسس معاملے میں عدنان بھائی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، تھوڑا ہی دیر بعد ایک صاحب اندر آے اور پشتو میں کچھ کہا، جس کے جواب میں سب نیں الحمد الالله کہا میں نے بھی کہا اور آہستہ آہستہ ہم اس سرنگ سے باہر نکلنا شروع ہووے، وہ بچہ میرے ساتھ ہی تھا، جبہ ہم باہر آے تو وہ بچہ جس کا قد تقریبن ٥ یا ساڑھے ٥ فٹ ہوگا، میرے گلے لگ گیا، اور رونے لگا، میں نے اس کو ہمت دلانے کی کوشش کری تو اس بچے نے مجھ کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا وہ مجھ کو اپنی ماں اور بہن سے ملوانا چاہتا تھا. مگر عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کی طرف سے سختی سے یہ ہدایت تھی کی کسی بھی صورت میں خواتین کے قریب نہ جانا، یہاں پردے کا قانون بہت سخت ہے، جس کی سزا دونوں مرد اور عورت کو ملتی ہے . میں نے اس کو منا کرنے کی پوری کوشش کری مگر اس بچے نے میرے ہاتھ کچھ اس انداز میں پکڑا ہوا تھا کہ میں چاہ کر بھی چھڑا نہیں پا رہا تھا. میں ان سب کے لئے بلکل تیار نہیں تھا. میں نے اس کو کہا کا عدنان بھائی کو اطلاع تو کر دوں، پھر وہ راضی ہوا، ہم دونوں ہی عدنان بھائی کو تلاش کرتے ہوے ان تک پہنچے اور اپنا مقصد ان کے سامنے رکھا. عدنان بھائی نے اشارے سے مجھ کو ایک طرف بولا کر ایک دفع پھر احتیاط سے کام لینے کو کہا، جس کی حامی میں پہلے بھی بھر چکا تھا. عدنان بھائی نے کہا کہ، جو کرو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر، یہ بچہ دیکھا بھلا ہے اور کسی ایک ٹھکانے پر نہیں رہتا. مطلب کے اسس کا کوئی گھر نہیں ہے، ہاں اس کی ماں اور بہن کو ہم جبہ بھی موجود ہوتا ہے کھانا اور دوا دیتے رہتے ہیں. مگر یہ بچہ کچھ نہیں لیتا. صرف اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کہی نہ کہی موجود رہتا ہے. میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر عدنان بھائی سمجھانا کیا چاہ رہے تھے. میں تو انجانے میں بلال محسود پر پورا بھروسہ اور یقین کر بیٹھا تھا، کیوں کے اس کے لہجے میں کہی بھی جھوٹ یار مکر اور فریب نظر نہیں آرہا تھا. پھر آخر ایسی کیا بات تھی جو عدنان بھائی مجھ کو بتانا بھی چاہ رہے تھے مگر بتا بھی نہیں رہے تھے. خیر، میں نے بچے کو کہا کی صبح انشا الله ساتھ چلیں گے ابھی آپ جہاں ہو وہی جو. بچہ بھی کچھ نہ کچھ سمجھ گیا تھا سر جھکا کر ایک طرف کو چلا گیا. مجھ کو میرے خیمے میں جانے کا کہا گیا اور میں بھی سر جھکا کر خیمے میں اکر بیٹھ گیا، نیند تو کب کی اڑھ چکی تھی، صبح ہونے کے قریب تھی.  پھر بھی لیٹ گیا مگر نیند نہیں آی. " یہ بھی کیا زندگی ہے نہ دن کا پتہ ہے نہ رات کی خبر، نہ جینے کی کوئی امنگ، نہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ، بس ڈر اور خوف. کوئی اپنا نہیں تو بہار والا آکر مار جاۓ گا، میں نے بہت سوچ سمجھ لینے کا بعد صبح بلال محسود کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا اور نماز فجر میں ٹیم آشیانہ کو بتا بھی دیا، جس پر سب ہی نے مجھ کو احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کری، میں نے بھی جوابن کہا کا میں کونسا رات کے اندھیرے میں جا رہا ہوں، دن کا اجالا ہے اور یہی قریب ہی کہی رہتا ہے. میں اس کا رہن سہن دیکھ کر آجاؤں گا. تا کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تو ہو سکے. اگر ڈرتا رہوں گا تو یہاں کے صحیح حالت اور لوگوں کو سمجھ کیسے سکوں گا؟" سب ہی نے میری بات سے اتفاق کیا اور ایک اور مقامی لڑکے کو ہدایت دی کے وہ میرے ساتھ رہے گا، بلال بھی فجر کی نامز میں ہمارے ساتھ موجود تھا اور ہمارے ہی ساتھ ناشتہ کر کہ اپنی ماں اور بہن کے لئے ناشتہ لے کر ہم سب ہی نکل پڑے، آج ٹیم آشیانہ نے اپنا کمپ یہی دتہ خیل میں لگایا جہاں بچوں اور خواتین کے لئے ایک ڈاکٹر صاحبہ کہ انتظام بھی ہے اور ادویات بھی فراہم کی جانی ہیں. 

Sunday 15 April 2012

Waziristan Dairy: A night at D'tta Khel (North Waziristan)

اسلام و علیکم،
کل جو بات ادھوری رہ گے تھی آج وہی سے شروع کرتا ہوں، سب سے پہلے سب دوستوں کا شکریہ کہ مجھ کو ای میل کری اور جہاں کچھ تعریفیں کریں وہیں کچھ تنقید اور کچھ اچھے مشورے بھی دے، سب سے زیادہ شکایات ڈائری کے مختصر اور ڈائری سے اپڈیٹ ہونے سے مطلق ہے، اس کے بارے میں یہی کہنا ہے کہ اس شہر میں بجلی کب آتی ہے اور کب جاتی ہے کچھ پتا نہیں، مزید آپ کے علم میں ہوگا کے میں ایک استاد بھی ہوں اور آج کل شہر میں میٹرک کے امتحانات چل رہے ہیں جس میں میری بھی کچھ ذمہداریاں ہیں وہ بھی نبھانا ہے. پھر میں ایک دفع پھر ٹیم آشیانہ سے ملنے کی تیاری میں ہوں جس کے لئے مجھ کو رات کے وقت اپنے دوستوں، رشتے داروں اور احباب کے گھر جانا ہوتا ہے تاکہ کچھ امداد وغیرہ جما کر سکوں. بس یہی کچھ وجوہات ہیں جس کی وجہہ سے میں اپنی ڈائری اور ٹیم آشیانہ کی اپڈیٹ وقت پر نہیں کر پا رہا ہوں جس کے لئے آپ سب سے معذرت کا طلبگار ہوں، آپ سب  دعا کریں کہ الله پاک کچھ اسے وسیلہ بنا دے کے ہمارے سارے کام وقت پر ہونا شروع ہو جائیں، آمین.

"عزیز منصور بھی اور محترم ساتھیوں، آج جو سوالات پوچھے گئے یہ مجھ سے پہلے بھی کافی دفع پوچھے جا چکے ہیں بس انداز ہر دفع نیا ہوتا رہا ہے. افسوس اس بات کا ہے کے جبہ لوگ مجھ کو جاننا چاہتے ہیں تو میرے پاس کیوں نہیں آتے، میرے سے ملتے کیوں نہیں؟ کیوں خود ہی خود سے میرے بارے میں عجیب اور غریب قسم کی آرا قائم کر لیتے ہیں. میں آج جس راستے پر ہوں مجھ کو خود علم نہیں کے مجھ کو ابھی اور کتنا اس راستے کا مسافر رہنا ہے، میرا یہ سفر ٢٠٠٥ کے زلزلے سے شروع ہوتا ہے، جس میں میں نی اپنے خاندان کو کھو دیا، میری جن سے زیادہ عزیز بہن، میری بھانجی، مارگلہ ٹاور، اسلام آباد میں ماری گی، میرا بھی بالاکوٹ کے کھرب لاپتا ہوگیا آج تک اس کا پتا نہیں. میری زندگی کا آخری سہارا اپنے بچوں کو یاد کرتے کرتے اس غم میں ہی دنیا سے رخصت ہو گی. اکتوبر ٢٠٠٥ کے زلزلے نے مجھ سے میرا گھر، میری زندگی کی خوشیاں، میرا خاندان سب کچھ ہی چھین لیا، مگر میری مرحومہ والدہ ہمیشہ مجھ کو صبر، ہمت اور استقامت کا درس دیتی رہی، میری والدہ نی ہمیشہ مجھ کو نصیحت کری کہ ابہ تم کو صرف اور صرف انسانیت کو دیکھنا ہے، اور تم جو کچھبھی سکتے ہو کرنا، اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سےگزرنے والا عدنان، جس کے لئے زندگی ایک فن تھی، ہسنا، گھومنا، دوستوں کے ساتھ پارٹیاں کرنا ناچ گانا، ہلا گلا کرنا تھی، وہی عدنان    زلزلے کے بعد ایک دم بدل گیا تھا، کراچی سے مارگلہ ٹاور، وہاں سے پھر کراچی اور پھر کراچی سے بالاکوٹ، بالاکوٹ سے اسلام آباد، اسلام آباد سے مظفرآباد (کشمیر). اور کشمیر میں پورا سال، پھر کشمیر سے بالاکوٹ، پھر واپس کشمیر، پھر کراچی، کراچی سے خیبر پختونخوا، بہت لمبا، تھکا دینے والا اور دل کو دھلا دینے والا سفر ہے. مگر میں نے یہ سفر کیا، بہت تکلیفیں، مصائب، پریشانیاں اور کرب اٹھایا، مگر میں رکا نہیں، بڑھتا گیا. ہاں، انسان ہوں، تھک جاتا ہوں، ہمت ٹوٹ جاتی ہے، وہ سب غم جو ایک عام انسان کو ہیں میرے ساتھ بھی ہیں، مگر میری والدہ کی دیں، میری والدہ کی نصیحت، میرے دوستوں کی دی ہوئی ہمت، اور سب سے بڑھ کر، الله پاک کر خاص کرم، اور عنایات ہونے کی وجہہ سے آج میں یہاں ہوں، اور پتا نہیں مجھ کو ابھی کتنا سفر اور کرنا ہے. میری دعا ہے کے الله پاک مجھ کو ہمت عطا فرماے کہ میں صبر، ہمت اور استقامت کے ساتھ اپنی رہ پر چلتا رہوں اور مجھ کو موت بھی اسی حالات میں آے، امین. 
کراچی ہو یا وزیرستان، یا کشمیر، یا پاکستان کا کوئی بھی شہر یا علاقہ، ہر جگہ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو کسی نہ کسی ترہان ہماری مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. مگر کبھی ایسے لوگوں کا سوچا ہے جو کسی کو مدد کے لئے نہیں پکارتے بلکے اپنی سفید پوشی کی وجہہ سے ایک جگہ پڑے رہتے ہیں، کی کوئی الله کا بندہ آکر خاموشی سے مدد کر جاۓ اور شرمندگی نہ ہو. یا کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے، جو زندگی اور موت کے درمیان ہوں، اور ہم اپنی زندی میں مگر ایسے لوگوں کا سوچ کر تھوڑا افسوس تو کرلیں مگر خود سے کچھ نہ کریں الٹا دعا دیں کہ الله ان کے حال پر رحم فرماے اور ان مدد کرے. میں بے حس نہیں ہوں، میرا انسان ہونا اور مسلمان ہونا مجھ کو یہی سکھاتا ہے کے اٹھو اور ایسے ہی لوگوں کو تلاش کر کی ان کی مدد کرو جو بے اسرا ہیں، غم اور دکھوں سے چور چور ہیں، اور یہی کام میں پچھلے ٦-٧ برسوں سے کر رہا ہوں. اب تو مجھ کو شہر کے نام سے بھی خوف آتا ہے جہاں انسان نہیں مشینیں رہتی ہیں، جو اپنے اپنے کاموں میں اور زندگیاں بنانے میں اتنا مصروف ہیں کے ان کو اپنے برابر والے تک کی کوئی خبر نہیں. الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت ہی عطا فرماے، امین.


عدنان وہی کر رہا ہے جو اس ملک میں رہنے والے ہر انسان کو کرنا چاہیے، ہر پاکستانی کو کرنا چاہیے، پاکستان کے ایسے علاقے جہاں کوئی جانا نہیں چاہتا، فلاحی کام نہیں کرنا چاہتا، میں اپنی چھوٹی سی ٹیم بنا کر، لوگوں سے بھیک مانگ کر،  زکات، چندہ، خیرات، عطیات، لوگوں کے پرانے کپڑے لے کر، دکان داروں سے تھوڑا تھوڑا راشن جمع کر کے، بس اور ٹرک والوں کی منت سماجت کر کے، ریموٹ ایریا میں جاتا ہوں، اور ایسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی جتنی مدد ہو کرتا ہوں، مجھ کو کوئی افسوس نہیں کہ میں بھیک مانگتا ہوں، لوگوں کی منٹن سماجت کرتا ہوں، کیوں کے میرا رب جانتا ہے کہ یہ سب میں کیوں اور کس کے لئے کرتا ہوں. اسی لئے آج تک بہت پریشانیاں، دکھ، مصائب ہونے کے باوجود بھی جبہ ان لوگوں کے چہروں پر اطمینان. اور مسکراہٹ دیکھتا ہوں تو مجھ میں ایک توانائی آجاتی ہے، یہاں ہزاروں بچے ہیں جن کے ماں، باپ نہیں، یہاں ہزاروں مریض ہیں، جن کے پاس دوا نہیں، یہاں ہزاروں خواتین ایسی ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں، ایسے ہی لوگ عدنان کے رشتے دار ہیں، ایسے ہی لوگ عدنان کے دوست اور گھر والے ہیں. میں الله پاک کا شکر گزر ہوں کے الله پاک نے مجھ کو کسی نیک مقصد کے لئے چننا اور مجھ کو ہمت صبر دیا کہ میں اپنے کام میں لگا رہوں. 
رہی وزیرستان کی بات، تو منصور بھائی آپ ہی بتا دیں کہ "یہاں کون آنا چاہتا ہے؟ کون یہاں کے یتیم بچوں کا سر پر ہاتھ رکھ کر ان کی کفالت کرنا چاہتا ہے؟ کون یہاں "دہشت گردی کی جنگ" سے متاثر لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے؟ کون یہاں کے بھوکے لوگوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانا چاہتا ہے؟ کون یہاں کی بیوہ، عورتوں کو ان کے جینے کی آس دینا چاہتا ہے؟ کون وزیرستان جیسے آفت زدہ اور دہشت زدہ علاقوں میں آکر کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے؟"
منصور بھائی، شہر میں بیٹھ کر یہاں کے لوگوں کے حالات پر بحس کرنا، یہاں کے لوگوں کے لئے افسوس کر لینا بہت ہی آسان کام ہے مگر حقیقت میں یہاں آکر، ان لوگوں کے درمیان رہ کر فلاحی کام کرنا کہیں زیادہ مشکل. جبہ کوئی نہیں آیا تو عدنان آگیا، بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی غرض کے، کسی بھی قسم کے انجام کی پروا کے بغیر، کیوں کے یہاں کے لوگوں کو پاکستان میں کہی اور نہیں بسایا جا سکتا تھا، کیوں کے پورا پاکستان ہی یہاں کے رہنے والوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے، کراچی بھی لے جاۓ گئے تھے یہاں کے لوگ مگر افسوس کے سندھ کے رہنے والوں نے افسوسناک استقبال کیا اور کراچی والوں نے یہاں کے رہنے والے لوگوں کو دوسرے درجی کا شہری بنا کر بعد ترین سلوک کیا تو یہ بیچارے خود ہی وہاں سے بھاگ آے جو نہیں بھاگے ان کو جس شان و شوکت کے ساتھ سندھ والوں نے رخصت کیا وہ سب ہی جانتے ہیں. اب آپ ان لوگوں سے کیسے سلوک کی امید رکھتے ہیں؟ آپ کو یہاں آکر ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں؟ کیوں خدمت خلق کا سارا شوق پورا ہوا؟ سارے جذبے ختم ہو گے یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں الله ہی مدد کرنے والا ہے اور آپ کے ہسے کا کام پورا ہو گیا ہے. یا آپ کی سوچ بھی بدل گی؟ منصور بھائی، ایک دفع اور سمجھ لیں، کہ  صرف وزیرستان ہی نہیں سارے پاکستان کو ہم جیسے لوگوں کی بہت سخت ضرورت ہے. ہم جیسے لوگ ہی اسس ترہان کے محروم لوگوں کہ لئے کچھ بھاگ دوڑ کر سکتے ہیں، باقی کسی اور سے امید کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے.
یہاں (وزیرستان) میں رہنے والا ہر شخص دہشت گرد نہیں ہے، پاکستان کا غدار نہیں ہے. بلکے صرف کچھ مٹھی بھر لوگوں نے پورے وزیرستان کو دہشت میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے. یقین نہ آے تو کل سے میرے ساتھ فیلڈ میں چلیں، میں آپ کی ملاقات یہاں کے مقامی لوگوں سے کرواتا ہوں، آپ ان سے ملیں اور یہاں کے لوگوں کی سوچ، فکر اور خیالات کو جانیں. . . . 
ابھی عدنان بھائی کی بات جاری ہی تھی کہ رات کے اس پھر ایک دفع پھر سے بھاگم بھاگ مچنے لگی، ہماری چاروں طرف جلدی جلدی روشن کی گئی لالٹین اور چراغ مجھے جانے لگے عدنان بھائی اور دوسرے ساتھ پھر کی دوسری طرف جانے کا اشارہ کر کے دوسرے کمپ میں موجود بچوں کی طرف لپکے، مجھ کو اپنی ٹوٹی تنگ پر افسوس ہوا کے کاش کے اگر تنگ سہی ہوتی تو آج میں بھی دو (٢) بچوں کو اپنی گود میں لے کر چل پڑتا. پھر کی دوسری طرف، ایک سرنگ بنی ہوئی تھی جس میں سارے لوگ جمع ہو رہے تھے، خواتین کے لئے دوسری طرف انتظام تھا جبکے مرد اور بچے ایک طرف. سب ہی آہستہ سے قرآن پاک کا ورد کر رہے تھے، اور میں یہ سب تماشا بہت دکھ کے ساتھ دیکھ رہا تھا، پتہ لگا کے یا تو پاک فوج کے جہاز یا پھر امریکی ڈرون آنے والے ہیں.. . . 
میں ایک اور نے سوچ میں مبتلا ہو گیا، سب سے بے خبر اپنے خیالات میں مگن، سوچتا چلا گیا، پھر ایک آواز آی، "آپ کراچی سے آے ہو نہ بھائی؟"  
  

Friday 13 April 2012

Another Page of my dairy: وزیرستان ڈائری کا اگلا صفحہ

اسلام و علیکم دوستوں اور ساتھیوں، 
جہاں اپنی ڈائری ختم کی تھی وہی سے شروع کر رہا ہوں، مگر شروع کرنے سے پہلے ایک اپیل اپنے دوستوں سے، اپنے بھائی بہنوں سے، اپنے فمیلی ممبرز سے، اپنے پڑھنے والوں سے، یہ اپیل مجھ کو عدنان بھائی کی طرف سے آج ہی ملی ہے، اور میں اپنی طرف سے جو کچھ ہو سکتا ہے کرنے کی کوشش میں ہوں، الله پاک مجھ کو ہدایت اور توفیق عطا فرماے اور ٹیم آشیانہ کی وزیرستان میں مشکلات کو آسان فرماے، آمین.
"ٹیم آشیانہ شمالی وزیرستان میں متاثرین "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے لئے فلاحی خدمات سر انجام دے رہی ہے، ٹیم آشیانہ بغیر کسی غرض، لالچ یا نام کے یہ خدمات ادا کر رہی ہے، ٹیم آشیانہ کی بنیادی ذمداری جنگ میں برباد ہوۓ خاندانوں اور یتیم، معذور بچوں کے لئے غذا، ادویات اور کپڑوں کی فراہمی ہے، ٹیم آشیانہ اپنے گھر والوں، دوستوں، احباب اور پڑھنے والوں کی مدد سے ہی یہ سارے کم سر انجام دیتی ہے. مہنگائی اور بگڑتے ہوۓ حالات کی وجہہ سے ٹیم آشیانہ کو ملنے والا فنڈ اب بہت کم رہ گیا ہے، شمالی وزیرستان میں اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، آی ڈی پی کمپ جلو زئی، کے حالات سے آپ سب ہی واقف ہیں، وہاں پر مقیم وزیرستان کے لوگ آہستہ آہستہ اب واپس آرہے ہیں. یہاں ایسے لوگوں کے رہنے اور کھانے پینے اور صحت جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں، ہم کچھ زیادہ تو نہیں کر سکتے مگر متسیریں کے لئے دو (٢) وقت کے کھانے اور بیماروں کے لئے ادویات کا انتظام ضرور کر سکتے ہیں، اسس کے علاوہ شدید بیمار افراد کو یہاں سے کسی بھی شہر منتقل کرنے کے لئے یہاں ایک بھی گاڑی موجود نہیں ہے، صرف آرمی کی گروں کو ہی استعمال کیا جا سکتا ہے جو ہر کسی کے لئے نہیں ہیں. ہم (ٹیم آشیانہ) انسانیت کے نام پر محترم جناب عبدلستار ایدھی صاحب، محترم انصار برنی صاحب، محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اور دوسرے فلاحی اداروں کے سربراہوں اور نامی گرامی انسانیت کے ٹھیکیداروں سے اپیل کرتے ہیں، ان سے بھیک مانگتے ہیں کے یہاں ادویات کی قلت ہوتی جا رہی ہے، غذائی اجناس بھی بہت کم ہو جاتی ہے، بچوں اور خواتین کے لئے کپڑوں کی بھی کمی ہے. یہاں کے لوگ تنگ دست ہیں، یہاں کمی کا کوئی راستہ نہیں، یہاں سکول نہیں، یہاں میڈیکل سنٹر نہیں، یہاں مریضوں کو منتقل کرنے کے لئے گاڑیاں نہیں، آیئں آپ اور ہم مل کر تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں کے مفلس، تنگ دست، لاچار، بےبس، یتیم، مسکین، بیوہ، معزور لوگوں کے لئے کچھ انسانیت کا کام کریں، باتیں تو سب ہی کرتے ہیں آپ یہاں (شمالی  وزیرستان) میں آیئں  اور ہم سب مل کر ایک نیا وزیرستان بناتے ہیں، ہمارے پاس یہاں فلاحی کم کرنے کا ٢ سال کا تجربہ ہے، ہم یہاں کے لوگوں کو اور یہاں کے لوگوں کی حالات کو بہت بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں. ہم یہاں کسی بھی سیاسی، مذہبی یا بیرونی معملات کو کرنے نہیں آی ہیں، ہم صرف اور صرف اپنے پیارے وطن پاکستان کے لوگوں اور اپنے بھائی بہنوں کو یہ احساس دلانے کے لئے آے ہیں کے ہم سب پاکستانی اور مسلمان ہیں، اور ابھی پاکستان میں بہت لوگ ایسے ہیں جو یہاں کے لوگوں کے لئے دل میں درد رکھتے ہیں اور اپنا مانتے ہوۓ ان کی مدد کر رہے ہیں. 
ٹیم آشیانہ کو آپ سب کی محبت، خلوص اور دعاؤں کی بہت ضرورت ہے، ساتھ ہی ہر قسم کی امداد کی بھی اشد ضرورت ہے ہم یہاں ذکر نہیں کر سکتے کے یہاں کے حالات کیسے سخت ہوتے جا رہے ہیں. اسس سے پہلے کے بہت دیر ہو جاۓ ہم سب کو مل کر یہاں کے لوگوں کے لئے کام کرنا ہوگا، خاص کر، عبدالستار ایدھی صاحب اگر ایک دفع یہاں آجائیں تو دوسرے فلاحی تنظیموں اور لوگوں میں بھی یہاں اکر فلاحی کام کرنے کے لئے ہمت اور حوصلہ ملے گا. ہم سب ہی لوگوں سے یہ اپیل اور درخواست کرتے ہیں کے آپ لوگ اپنے اپنے طریقے سے ایسی عظیم ہستیوں سے رابطہ کر کے ان کو ہمارا پیغم دیں، ہو سکتا ہے کہ کسی کی بات ان لوگوں کو دل میں اتر جاۓ اور یہاں موجود ہزاروں لوگوں کے لئے خوشی اور خوش حالی کا کچھ سامان ہو جاۓ، 
جزاک الله خیر، سید عدنان علی نقوی، ٹیم ممبر، ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان. 
رابطے کے لئے، 
+92 345 297 1618
+92 333 342 6031
team.ashiyana@gmail.com
faryal.zehra@gmail.com
s_adnan_ali_naqvi@yahoo.ca

محترم دوستوں اور بھائی بہنوں، اپر لکھا گیا پیغام مجھ کو جس ترہان ملا تھا بلکل اس کو ویسے ہی لکھ دیا ہے. میں نے پچھلے ایک ہفتے میں جو کچھ جمع کیا ہے، وہ صبح اپنے دوستوں، خاندان والوں اور عزیز احباب کی مدد سے، کیا ہے اور انشا الله کل کسی وقت یہ سامان لے کر میں ایک دفع پھر یہاں سے وزیرستان (شمالی) کے لئے روانہ ہو جاؤں گا، انشا الله.
الله پاک مجھ کو اور ہمت، توفیق اور حوصلہ عطا فرماے اور مجھ کو وزیرستان جا کر لوگوں کے لئے فلاحی کام کرنے کی توفیق عطا فرماے، آمین. 
==============================================
==============================================
اور اب میری ڈائری کا اگلا صفحہ،
  محترم نماز عشا سے فارغ ہوکر، ہم کچھ لوگ ایک ساتھ بیٹھ گئے، عدنان بھائی نے بھی اس میٹنگ کے لئے کچھ خاص لوگوں کو ہدایت دی تھی. اس لئے ٹیم آشیانہ کے خاص ممبرز اور کچھ مقامی دوست بھی اس میٹنگ میں شریک تھے، عدنان بھائی نے ایک اور ممبر کو ہم سب کے لئے چائے بنانے کا کہ دیا تھا. ابہ مجھ کو کہا گیا تھا کہ میں وہ سب کچھ کہ ڈالوں جو میرے دل می ہے اور دماغ میں چل رہا ہے. میں نے ایک گہری سانس لی اور ساری ہمت کو جوڑ کر اپنی بات کہنا شروع کری، میری پوری کوشش یہی تھی کے میرا لہجہ اور زبان کسی بھی لمحہ سخت نہ ہو. اور ماحول میں گرمی نہ آجاۓ.
 میں نے الله کا نام لے کر اپنی بات شروع کری، "محترم عدنان بھائی، اور ٹیم آشیانہ کے جانباز ساتھیوں، عزیز ترین، وزیرستانی بھائیوں، اسلام و علیکم، الله پاک مجھ کو میری بات سہی طریقے سے بیان کرنے کی اور آپ تک پہچانے کی توفیق، ہمت اور سمجھنے کی عقل عطا فرماے، آمین.
میں پچھلے ٧ برسوں سے عدنان بھائی کو جانتا ہوں، مجھ کو اچھی ترہان یاد ہے جب عدنان بھائی کا تقریبن پورا خاندان ہی زلزلے کی نظر ہو گیا تھا اور اس کے بعد عدنان بھائی کی والدہ محترمہ کی موت کے بعد عدنان بھائی نے خود کو ایک دم تبدیل کر لیا، کراچی میں رہنے والا ایک ایسا جوان جس کی زندگی، میں ہمیشہ خوشیاں، ہلا گلہ، موج مستی، وغیرہ شامل تھی ایسے مقصد کی تلاش میں لگ گیا جس کی سمجھ ابھی تک مجھ کو نہیں آرہی ہے. کیا عدنان مجھ کو تھوڑا تفصیل سے باتیں گے کہ اکھڑ یہ سب چل کیا رہا ہے، وہ بہت تعلم یافتہ انسان ہیں، ان کو ایک بہترین نوکری اور زندگی کی ساری آسائش مل سکتی ہیں، وہ اپنا گھر بسا سکتے ہیں، اور وہاں رہ کر بھی یہاں کے لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں. اس کے علاوہ، کبھی کبھی مجھ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کے عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کے ممبرز کسی خاص مقصد کے لئے فلاحی کام کرتے ہیں، کہیں یہ اندرونی طور پر کسی خفیہ ادارے یا کسی بیرونی ادارے کے کارکن تو نہیں ہیں، کیوں فریال باجی کناڈا سے پاکستان آجاتی ہیں اور یہاں کے لوگوں کے لئے فنڈز جمع کرتی ہیں، اور ہفتوں وزیرستان کی پہاڑیوں میں گم ہو جاتی ہیں؟ کیوں عدنان بھائی، گلی گلی محلے محلے، جا کر خود بھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں، اور باقی کارکنان سے بھی منگواتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر جب یہاں (وزیرستان) کے رہنے والے (معذرت) کے ساتھ ہم کو پاکستانی اور خود کو وزیری کہتے ہیں تو پھر ہم کو کسی غیر کی مدد کر کے کیا حاصل؟ کیوں کے اگر ہم پاکستانی ہیں تو ہم کو سب سے پہلے اپنے پاکستانی بھائی بہنوں کی مدد کرنا چاہیے، پاکستان میں بھی ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی اسی ترہان کی مدد کی ضرورت ہے. جتنی جلدی اور جتنی روانی سے میں اپنی بات کہنا چاہتا تھا کہ ڈالی اور مجھ کو صاف محسوس ہوا کے ٹیم آشیانہ کے ممبرز، اور مقامی لوگوں کے ماتھوں پر شکنی پڑھ چکی تھی. عدنان بھائی بھی کسی گہری سوچ میں تھے، اور جب انہوں نے اپنا چہرہ اپر کی جانب اٹھایا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا عدنان بھائی کی آنکھیں نام ہو رہی تھی، اور چہرہ بھی سرخ ہو رہا تھا. میں عدنان بھائی کے قریب گیا اور ان سے اپنی باتوں کی سختی پر ندامت کا اظھار کیا اور معذرت چاہی تو انہوں نے اشارے سے مجھ کو سب ٹھیک ہے کہا اور خود کو نارمل ظاہر کرنے لگے. ٹیم آشیانہ کے چہروں پر خفگی اور مقامی لوگوں کے چہروں پر ناراضگی صاف محسوس کی جا سکتی تھی، اب مجھ کو اپنی باتوں کی گہری کا بہت اچھی ترہان احساس ہونے لگا تھا. اور ندامت کی وجہہ سے میں نے اپنا چہرہ نیچے کر لیا اور اشارے سے مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا. 
اسی اثنا میں چائے بھی آگئی اور ہم سب چپ چاپ بیٹھ کر چائے پینے لگے، چائے پینے کے دوران عدنان بھائی نے کہا، اگر منصور بھائی اپنی بات مکمل کر چکے ہیں تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور اگر منصور بھائی کی بات مکمل نہیں ہے تو یہ پہلے اپنی بات مکمل کر لیں، میں نے اشارتاً کہا کا میری بات ختم ہو چکی ہے اگر آپ کی گفتگو کے دوران کسی بات کا پوچھنا مقصود ہوا تو آپ کی اجازت سے پوچ لوں گا. میں نے اپنے ساتھ اپنی عزیز ڈائری بھی رکھی ہوئی تھی جس پر میں نوٹس لیتا جا رہا تھا. 

دوستوں، یہاں بجلی کا معملات ٹھیک نہیں ہیں، کب اتی ہے اور کب جاتی ہے کچھ نہیں پتہ. اسی لئے ابھی تک کی ڈائری لکھ کر اجازت چاہتا ہوں، اور انشا الله اپنی ڈائری کا یہ صفحہ آج ہی مکمل کرنے کی کوشش کروں گا. ٹیم آشیانہ کے لئے جو سامان میں نے جمع کیا ہے ابہ اس کی پیکنگ کرنی ہے جس کے لئے میرے بھانجا بھانجی آگئے ہیں. تو مجھ کو ابھی کے لئے اجازت دیں، الله پاک آپکا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب پر سلامتی فرماے، آمین. 
جزاک الله
آپ کا بھائی، آپ کا دوست،
منصور احمد.
waziristandairy@gmail.com
mansoorahmed.aaj@gmail.com

    

    

Thursday 12 April 2012

Childrens of D'tta Khel "North Waziristan"

اسلام و علیکم، کل جہاں ختم کیا تھا آج وہی سے شروع کر رہا ہوں. مگر اس سے پہلے میں اپنے دوستوں، ٹیم آشیانہ کے ممبرز اور سب پڑھنے والوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نی میری حوصلہ افزائی کری اور مجھ کو مزید لکھنے کا حوصلہ دیا. ساتھ ہی میں ٹیم آشیانہ کے لئے دعا کرتا ہوں کے الله پاک تمام ساتھیوں کو ہمت صبر اور حوصلہ اتا فرماے آمین.

مغرب کی نماز کے بعد میں نے عدنان بھائی کے سامنے اپنی بات رکھی اور ان سے کہا بھی کہ مجھ کو میرے سوالوں کے جواب چاہیے، آخر آپ کو اپنا گھر چھوڑ کر، زندگی کے آرام چھوڑ کر یہاں مل کیا رہا ہے؟ جو ایسے لوگوں کے درمیان کام کر رہے ہو جو نہ کسی کی سنتے ہیں نہ مانتے ہیں الٹا آپ لوگوں کی جانیں اور زندگیاں ہمیشہ خطروں سے گھری رہتی ہیں. جواب میں عدنان بھائی نے کہا " بھائی منصور، بہت ساری وجوہات ہیں میں آج رات انشا الله عشا کی نماز کے بعد صبح کچھ تفصیل سے بتاؤں گا، فلحال آپ کچھ دور موجود بچوں کے پاس جائیں اور ان سے باتیں کریں، ان کا ذہن کو آزمائیں، اور ان میں تعلیم کا شعور جگانے کی کوشش کریں."
ایک طرف میرا الجھا ہوا ذہن، دوسری طرف بچے اور ایک طرف ٹیم آشیانہ کے باقی ممبرز کل ایک اور لگاۓ جانے والے میڈیکل کمپ کی تیاری میں تھے، کہیں ادویات کی جانچ پڑتال ہو رہی تھی، کہیں ادویات کو الگ الگ ڈبوں میں رکھا جا رہا تھا، جو ادویات موجود تھی ان کی فہرست بنائی جا رہی تھی اور جو نہیں تھی ان کے لئے ڈیمانڈ کی فہرست. ایک اور طرف کچھ مقامی لوگ بچوں اور بڑوں کے کپڑوں کو ترتیب سے رکھ رہے تھے (مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ، عطیات میں ملنے والے کپڑے اکثر ایسے تھے جو پہننے کے قبل نہیں تھے.) میں یہ سب ہوتا دیکھتے ہوے بچوں کی طرف بڑھ گیا.  
جب انسان کا ذہن کہی اور الجھا ہوا ہو تو کسی دوسرے کم میں دل کا لگنا نہ ممکن ہے، ممکن ہے میرے کھیلت کی وجہہ سے کچھ دوست مجھ کو پرو امریکن یا ماڈرن اسلام کے خیالات رکھنے والا سمجھتے ہوں مگر حقیقت میں میں ایسا نہیں ہوں، میں جو بھی دیکھتا ہوں اس کو عقل اور علم کی کسوٹی پر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، منافقت سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں، جبہ کوئی بات سمجھ آتی تو سیدھے سے پوچھنے پر ہی اسرار کرتا ہوں، شاید اسی لئے میرے اکثر دوست اور احباب مجھ کو پکاؤ یا پروفیسر کے نام سے مجھ کو یاد رکھتے ہیں. 
خیر، بچوں کے پاس گیا تو بچے جو کچھ کھیل کھیلنے میں مصروف تھے میری طرف متوجہ ہو گئے، میں نے سب کو بہت پیار اور خلوص سے سلام کیا جس کا جواب مجھ کو ہر بچے نے دیا اور پھر سارے بچوں سے خوش دلی کے ساتھ ہاتھ ملایا. یہی کوئی 1٠ - ١٢ بچے ہونگے جن کی عمریں، ٩-١٤ برس کی تھی. سب ہی بچے بہت پرانے کپڑوں میں تھے اور بال بھی دھول مٹی میں ہو رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کے جیسے ہفتوں سے نہایا ہی نہ ہوں. میں نے سوچا کا تعلیم کا کیا پوچھو اور کہوں، پہلے ان بچوں کو صفائی کی تلقین کرنا ضروری ہے. ابہ دوسرا مثلا ووہی زبان کا تھا، میری پشتو نہیں تھی اور اکثر بچے اردو سے نابلد . میں نے آواز لگا کر اکرم بھائی جو کے کسی حساب کتاب میں مصروف تھے بولیا تو انہوں نے آکر میری  بات سنی اور ایک دوسرے مقامی لڑکے کو میرے ساتھ بیٹھا دیا جو میری بات کو سن کر بچوں تہ اور بچوں کی بات مجھ تک پہنچا رہا تھا. میری بچو سے گفتگو شروع ہوئی تو بچوں کے دماغ میں بھی بہت سوال تھے اور یہ بچے بہت بے باک ہو کر بات کر رہے تھے. میں بچوں کے سوالات سے پریشان ہوا کیوں کہ بہت ساری باتوں کے جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھے. ایک بچے نے مجھ سے پوچھا، "دہشت گری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا ہم بھی دہشت گرد ہیں؟" میں نے اپنے انداز میں کوشش کری سمجھنے کی مگر صاف لگ رہا تھا کے بچے میری بات سمجھ نہیں رہے تھے یا مطمئن نہیں تھے، میں نے اپنے ساتھی کی مدد سے بچوں کو تعلیم اور اس کی اہمیت بتانا شروع کری تو ایک بچے نے جواب دیا، "یہاں سکول کہاں ہے؟ یہاں تو مدرسہ ہے جہاں ہم روز جاتے ہیں." اور جب میں نیں پوچھا کے مدرسوں میں کیا پڑھاتے ہیں تو جواب ملا "دین کی تعلیم". عجیب معملات ہیں، الجھن پر الجھن ہی ہوتی جا رہی ہے. کہاں سے شروع کروں اور کیا شروع کروں میں خود بہت الجھ کر رہ گیا تھا، یہاں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی دین کے بارے میں کوئی بھی بات سننے یا سمجھنے کو تیار نہیں تھے، ان کے لئے ان کے بڑوں کی باتیں، اور مولانا کا سکھایا ہوا سبق ہی دین ہے.  
میں نے کچھ باتیں اور کری، بچوں کے مسائل معلوم کرنے کی کوشش کری، بچوں کی خواہش معلوم کرنے کی کوشش کری اور وہاں سے اٹھ کر پھر سے کمپ میں آگیا. اور بچوں سے ہوئی ساری باتوں پر غور کرنا شروع کیا.
میں بہت زیادہ الجھ گیا تھا اور ابہ میرا دل کر رہا تھا کے یہاں سے چلا جاؤں، کیا فائدہ یہاں روکنے کا جہاں روک کر جن کو بھی خطرہ اور عزت کو بھی خطرہ. 
میں نے آج رات ہی ٹیم آشیانہ کے ممبرز سے بات کرنے کا فیصلہ کیا.   

Wednesday 11 April 2012

دتہ خیل کی یادیں، بلی جیسے ڈرون اور ہم

اسلام و علیکم ،
گزشتہ سے شروع کرتے ہوۓ اپنی ڈائری لکھ رہا ہوں.

خان صاحب کے ہاں جس طریقے کی  دعوت کا انتظام کیا گیا تھا اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کے جیسے کسی جانور کو حلال کرنے سے پہلے اس کی اچھی ترہان خاطر مدارات کی جاتی ہیں وہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے، ابہ بس سہی وقت کا انتظار ہو رہا تھا کے کب گلے پر الله اکبر کا نعرہ لگا کر چھری پھیری جاۓ. پتا نہیں کیوں دل سے موت کا خوف کم ہو چکا تھا. یہ شاید یہاں کے حالات کی وجہہ سے تھا یا جانے کوئی اندر کا جانور جاگ گیا تھا. میں نے بھی خود کو حالات کے اوپر چھوڑ دیا ہے جو ہونا ہے وہ ہونا ہے، بس اب حق کا کلمہ نہیں چھوڑنا باقی جو الله پاک کی رضا وہی میری رضا.....
رات کے جانے کس پہر میری آنکہ لگ گے، سونے کا من تو نہیں تھا مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے، یہی کچھ میرے ساتھ ہوا. 

اور ڈرون آدھمکے:
تھا جس کا انتظار وہ شہکار آگیا، مجھ کو ہمیشہ سے بلی جیسے ڈرون کو دیکھنے کا تجسس اور شوق ہی رہا ہے، یہ تو ٹیم آشیانہ کی مہربانی کے مجھ جیسے دنیا پرور انسان کو یہاں (وزیرستان - شمالی) آنے کی دعوت دے ڈالی اور آج میرا یہ شوق بھی پورا ہو ہی گیا، بس بہت دکھ اور ملال ہوا کے میرا کمیرہ میرے پاس نہیں تھا.
میں سو ہی رہا تھا کے اچانک بھاگم دوڑ کی آواز نے مجھ کو جگا دیا، ایک افراتفری ہر طرف تھی، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ وزیرستان میں بجلی بیبی دور دور تک نہیں ہیں، یہاں زیادہ تر چراغ جلا کر ہی گزارا ہوتا ہے، گویا انسان پتھروں کے دور میں جی رہا ہو، اکرم بھی میری طرف ہے اور کہا کے اٹھو اور چلو ابھی، کچھ پوچھنے کا وقت نہیں تھا بس جس حال میں تھا اٹھ گیا. پھر کے ایک طرف سب جا رہے تھے،    میں بھی اکرم بھی کے پیچھے پیچھے ہی چل پر، قریب ٢ منٹ کے بعد ایک سیٹی جیسی آواز آی می سمجھا کے کوئی بچا یا انسان بجا رہا ہے مگر یہ تو آسمانی مخلوق تھی، نظر تھوڑا اوپر کری تو پتا لگا کے یہی تو ہیں میرے خوابوں کے اڑان کھٹولے، جن کو میں بلی جیسے ڈرون کے نام سے یاد کرتا ہوں، مگر بس ایک جھلک ہی دیکھ سکا، پھر پتا نہیں کہاں غایب ہو گے، ہم کو ایک کھولی نما غار میں لے جایا گیا، اور حکم ملا کہ جب تک کہا نہ جاۓ یہاں سے نکلنا نہیں ہے. ہم بھی بہت اچھے بچوں کی ترہان یہاں چپ چاپ بیٹھ گئے، غار کیا تھی بس ١٠-١٢ کا کھولی تھی، جہاں مجھ جیسے ٢٥ - ٣٠ کے قریب لوگوں کو ٹھونس دیا گیا تھا، میں کھسک کر اکرم بھی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا رہا اور جب تھوڑا فاصلہ رہ گیا تو ان سے کہا، "اکرم بھی جن، یہ میڈیکل کمپ تو بہت بھاری پڑھ گیا،" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا بھی "آپ کے لئے یہ سب نیا ہے ہم کو اب عادت ہو گے ہے، آپ اطمینان رکھو الله پاک سب بہتر کرے گا. انشا الله. ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈرون کبھی بھی اتے ہی حملہ نہیں کرتے بلکے پہلے یہ یہاں کا چکر لگاتے ہیں اپنے بڑے باس کو یہاں کہ حالات بتاتے ہیں پھر جب ان کو حکم ملتا ہے تو آگ کی بارش کر کے بہت اطمینان سے واپس چلے جاتے ہیں." میں نے دل ہی دل میں سوچا، "وہ جی کیا بات ہے، پہلے آو، حالات دیکھو پھر حملہ کرو." کوئی بری بات نہیں." 

ایک گھنٹہ ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد میری ٹانگین سن ہونا شروع ہو گے تھی اور میری ٹوٹی تنگ میں شدید درد اب یا تو مجھ کو کھڑا ہونا تھا یا پھر اپنی ٹانگوں کو لمبا کرنا تھا جو ممکن نظر نہیں آرہا تھا، میں نے ہمت کر کے کھرے ہونے کا فیصلہ کیا اور سیر ایک طرف جھکا کر کھڑا بھی ہو گیا، تو میری اس حرکت پر سب ہی پریشن ہوۓ مگر اکرم بھی نے پشتو میں ان سے کچھ کہا تو مجھ کو آرام سے کھڑا ہونے کی جگا مل ہی گے، جیسے ہی کھڑا ہوا ایک اور سیٹی آی اس کی بعد ٢، ٣، ٤ آتی گے، میں دل ہی دل میں آیتلکرسی کا ورد کر رہا تھا، اور الله پاک سے دعا   بھی کہ  "مجھ کو جلا کر نہ مارنا اور نہ ہی میرا نام برے لوگوں میں کرنا، میں تو ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں میری مدد کرنا." آدھا گھنٹہ کے بعد شاید ڈرون کے مالکان کو علم ہوا ہو کہ یہاں کوئی ایسی ویسی بات نہیں اور وہ ڈرون چپ چاپ بغیر آگ برساۓ واپس چلے گے، صبح کے ٤ بج رہے ہوں ہونگے. جب ہم کو حکم ملا کے ہم باہر آکر وضو کر سکتے ہیں، ہم نے وضو کیا نماز ادا کری اور دل کے ساتھ الله پاک کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری حفاظت کری. 
                         "اور بے شک، الله ہی بہتر حفاظت کرنے والا ہے." 
نیند تو بہت پہلے ہی کہی جا چکی تھی، صبح بھی ہو ہی چکی تھی ابہ آرام کا کوئی خیال نہیں تھا، بس ایک خیال اور فکر تھی کے سورج کے نکلتے ہی ہم یہاں سے روانہ ہوں اور دتہ خیل میں اپنی ٹیم سے جا ملیں. 
صبح ہوتے ہی ہم کو پر تکلف کھانا ناشتہ دیا گیا، خان صاحب کی مہربانی کی کوئی خاص وجہہ سمجھ نہیں آرہی تھی، اور سچی بات ہے کے مجھ کو تو کوئی بڑی گڑ بڑ محسوس ہو رہی تھی. خیر، خان صاحب نے ایک دفع پھر اپنے حجرہ نما کمرے میں ہم سب کو بولایا اور بہت اچھی اردو میں ہماری مہمان نوازی کا ذکر کیا اور کسی بھی قسم کی غلطی اور رات (ڈرون) والی بات پر ہوئی بے آرامی پر معزرت کری اور ہم کو رخصت کی اجازت دی. میں نے خاص کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں بہت خوش تھا کا جن بچی تو لاکھوں پاۓ.
ہمارے ساتھ ادویات بھی تھی تو نکلتے نکلتے اکرم بھی نے خان صاحب سے پوچھا " محترم اگر ا کو ادویات کی ضرورت ہو یا آپ اپنے علاقے میں میڈیکل کمپ لگوانا چاہتے ہوں تو ہم کو ضرور یاد کریے گا،" جواب میں خان صاحب نے تیز آواز میں اور پشتو میں کچھ کہا جو میری سمجھ نہیں آیا. اور اکرم بھی نے سلام کر کے اجازت لی اور ہم ایک دفع پھر اپنے کندھوں پر بیگ ٹانگ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑے. 
راستے میں میں نے اکرم بھی سے پوچھا کہ اکھڑ خان صاحب نے کیا جواب دیا تھا تو انہوں نے کہا ." خان صاحب نے فرمایا، ہم کو زکات، خیرات، بھیک اور فرنگیوں کی دی ہوئی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اپ لوگ جو کر رہے ہو خاموشی سے کرتے رہو، یہی بہت ہے کے آپ لوگوں کو یہاں روکنے کی اجازت دی گی." 
میں نے سوچا یہ بھی کھلم کھلا دھمکی  یا تنبیہ ہی ہے. کا ہم (ٹیم آشیانہ) اپنی حدوں سے باہر نہ نکلے. ہمارا سفر بہت مشکل رہا، سارا راستہ پیدل اور کچے راستوں پر تھا، جگہ جگہ ہی کو میری وجہہ سے رکنا پڑ رہا تھا، کیوں کے میری ٹوٹی ٹانگ میں بہت جلدی درد ہونے لگتا تھا. 
راستے میں ہی ایک جگہ روک کر ہم سب نے ظہر کی نماز ادا کری اور تھوڑا کھایا. اس جگہ سے دتہ خیل صرف ٣٠-٣٥ منٹ کی دوری پر تھا مگر راستہ ٹھیک نہیں تھا جس کی وجہہ سے ہم کو شام ہی ہو جانی تھی. ایک جگہ کچھ لوگ ہم کو روک کر کھڑے ہو گے، اکرم بھی نے ایک دفع پھر اپنی پشتو زبان میں کچھ کہا تو ان لوگوں نے کچھ ادویات کا مطالبہ کیا اور ہم نے بغیر کسی حیل حجت کے ان کو ادویات فراہم کر دی. ایسے ہمارا بھی کچھ بوجھ کم ہوا اور اطمینان بھی کے ہماری ادویات کچھ اور لوگوں کے کام آسکتی ہیں. 
عصر کی نماز کے وقت ہم دتہ خیل میں اپنے کمپ تک پہنچے، بہت زیادہ تھکے ہوۓ تھے، عدنان بھی اور باقی کارکن ہمارے لئے بہت پریشاں تھے، اکرم بھی نے جتنا جلدی ہو سکتا تھا ہمارے ساتھ پیش آے واقعات ان کو بتاۓ، ہم نے ایک بار پھر وضو کیا اور میں نے نے نماز کے بعد چاۓ کا مطالبہ کیا جو فورن پورا کر دیا گیا. کچھ دوا کھائی، ایک درد کا انجکشن لگایا اور لیٹ گیا. پتا نہیں کب کی کب میں آنکہ لگ گی.
 ١٠ -١٥ منٹ سویا ہونگا کی مغرب کی نماز کے وقت مجھ کو اٹھا دیا گیا، نماز ادا کری کھانا کھایا اور سب کے ساتھ بیٹھ گیا، آج مجھ کو میرے ہر سوال کا جواب حاصل کرنا تھا،
 "عدنان بھی ان علاقوں میں پچھلے ٢- سالوں سے فلاحی کام کر رہے ہیں، مگر اس کی وجھہ کیا ہے. کیوں وہ یہاں پڑے ہوۓ ہیں، جہاں نہ زبان اپنی ہے نہ گھر اپنا، نہ ہی لوگ اپنے، یہاں رہنے والے ہم کو پاکستانی کہتے ہیں، اور ہم ان کو پاکستانی سمجھتے ہیں، یہاں کے لوگ ہم کو کام عقل مسلمان سمجھتے ہیں اور ہم یہاں کے لوگوں کو کٹر شدت پسند مسلمان، یہاں کے لوگ امریکا کو ہمارا دوست اور اپنا دشمن سمجھتے ہیں. اور ہم امریکا کو ایک زمینی حقیقت مانتے ہوۓ اس سے روابط رکھتے ہیں. یہاں کے لوگ بلی جیسے ڈرون کو پاکستان اور امریکا کی دی ہوئی دین سمجھتے ہیں اور کم از کم میں اس کو جارحیت، مجھ کو ان سارے سوالات کے ضوابط آج ہی معلوم کرنے تھے بھلے اس کے بعد عدنان بھائی مجھ کو یہاں سے جانے کا حکم ہی دے ڈالیں."