Tuesday 26 February 2013

وزیرستان ڈائری: ایک اور دن کی ڈائری

محترم دوستوں 
اسلام و علیکم 

کچھ دن تھودا آسانی اور سہی گزرے سردی بہت زیادہ ہے کبھی کبھی بارش بھی ہو جاتی ہے. مگر ہمارے ٹینٹ اور شیلٹرز اتنے بہتر نہیں جو مستقل ہوتی بارش کا سامنا کر سکیں، اس بارے میں ہممقمی لوگوں سے مدد لینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں. مگر افسوس اکثر مقامی لوگ تو خود مدد کے مستحق ہیں. بلال محسود پچھلے ٣-٤ دن سے نظر نہیں آرہا ہے. کچھ دن سے وو بہت بجھا بجھا اور خاموش نذر آرہا تھا کیمپ میں جاری فلاحی کاموں میں بھی بہتر انداز میں حصہ نہیں لے رہا تھا. مجھ کو اس کی بہت فکر ہو رہی ہے، کہیں وقت اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بلال کسی غلط ہاتھوں میں چلا گیا ہو. میں نے باقی کارکنان سے بھی بلال کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے کہا ہے. الله کرے کوئی بہتر خبر مل جائے - آمین.

گزشتہ دنوں میں جو آئیڈیاز اور خیالات میں نے عدنان بھائی اور دیگر کارکنان کے سامنے رکھے تھے عدنان بھائی سے روزانہ ہی ان تمام پر بہت بات ہو رہی ہے. عدنان بھائی اور دیگر کارکنان میرے تمام خیالات اور ایدیز سے پوری طرح متفق نظر آتے ہیں مگر ایک تو یہاں (میرانشاہ، شمالی وزیرستان) میں امن و  امان کی بگڑتی صورت حال پھر ٹیم آشیانہ کے فنڈز کے حالات ہم کو کسی بھی طرح کی مستقل منصوبہ بندی کی کوئی اجازت نہیں دے رہے ہیں. الله پاک آسانی کرے. مگر ایک بات سب کو بہتر لگی ہے کے ہم یہاں بھی ایک اسکول کا آغاز کر سکتے ہیں. جہاں ہم آشیانہ کیمپ میں مقیم بچوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کے بچوں کو بھی مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ علم کی روشنی پھیلا سکتے ہیں. اک اسکول کھولنے کا تجربہ  ہم دتہ خیل میں بھی کر چکے ہیں. جہاں علم اور تعلیم کا مقصد وہاں موجود بچوں کو شعور دینے کا تھا مگر مقامی آبادی اور کچھ کم عقل لوگوں نے بہت مزاحمت کری اور ہم کو اسکول کے ساتھ ساتھ ایک مدرسه کا بھی آغاز کرنا پڑا. ہم نے دتہ خیل سے میرانشاہ منتقلی سے قبل آشیانہ اسکول اور مدرسه کا انتظام مقامی لوگوں کے ذمہ کیا تھا اور ابہ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ دتہ خیل میں جو آغاز ہم کر کے آئے ہیں وہ اپنے انجام تک موجود رہے - آمین.

ٹیم آشیانہ کے تمام کارکنان مقامی کارکنان کی مدد سے یہاں (میرانشاہ) میں ایک ایسا اسکول کھولنے کی کوشش میں ہیں جہاں ہم بچوں کو مستقل بنیادوں پر تعلیم دے سکیں اور علم کی اہمیت سے آگاہ کر سکیں. الله پاک ہماری مدد کرے. اس کے علاوہ عدنان بھائی اور دیگر کارکنان روزانہ دو (٢) وقت کے کھانے (دسترخوان) کی تجویز پر بھی متفق ہیں. یہ ایڈیا میں نے کراچی میں موجود چھیپا کے دستر خوان کو دیکھ کر دیا تھا. مگر اس کو شروع کرنے کے لئے اور جاری رکھنے کے لئے بھی بہت بارے فنڈ کی ضرورت ہے جبکہ آشیانہ کیمپ کو جاری رکھنے کے لئے بھی دستیاب فنڈز ناکافی ہیں. الله پاک بہتر کرے.   آمین. 

گزشتہ رات کا ایک واقعہ:
گزشتہ شب جب ہم لوگ نماز عشاء اور کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے تو ایک بزرگ جن کو میں نے اور شاید دیگر کارکنان میں سے بھی کسی نے پہلے نہیں دیکھا تھا ہمارے قریب آئے اور ہمارے کو سلام کر کے ہمارے ساتھ بیٹھنے کی اجازت مانگی، لہجہ مقامی تھا اور انداز دوستانہ تھا. وو بزرگ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور ہماری جاری گفتگو کو پوری توجھ کے ساتھ سننے لگے ہم ایک انجن بزرگ کی موجودگی میں اپنی گفتگو کو پہلے جیسے انداز میں جاری نہیں رکھ سکے. عدنان بھائی نے ہمت کر کے ان بزرگ سے ان کے آنے کا مقصد پوچھا تو تو ان بزرگ نے فرمایا کے الله کا بندا ہوں اور یہاں آپ لوگوں کو دیکھا تو ملاقات کی غرض سے چلا آیا. پھر میں نے ان بزرگ کا نام پوچھا تو پھر فرمایا کہ "الله کا بندا" ہوں. مزید کچھ پوچھنا مناسب نہیں لگ رہا تھا. کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ان بزرگ نے اپنا نام بتایا نام سن کر مجھ سمیت باقی ساتھیوں کو بھی ایک جھٹکا لگا، یہ نام ہم پہلے بھی سن چکے تھے، یہاں شمالی وزیرستان میں محترم کو بہت عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. میں بوجھ ان بزرگ کا نام نہیں لکھ سکتا ہوں. ان کے تعارف کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ بزرگ یہاں (شمالی وزیرستان) کے اکثر حلقوں میں بہت عزت و احترام کی نذر سے دیکھے جاتے ہیں. یہ بزرگ ہم سے پہلی دفع مل رہے تھے جس کی وجہہ سے ہم سب لوگ کم ہی گفتگو کر پا رہے تھے. محترم نے ہم کو خاموش دیکھ کر خود ہی گفتگو کا آغاز کیا بہت پرسکوں آواز، دھیما لہجہ اور شفقت بھری آواز میں ہم کو اور ہمارے فلاحی کاموں کو سراہا، اور کچھ کاموں کو بہتر کرنے، روکنے کے بارے میں اپنی رائے دی. میں نے ہمت کر کے سوال پوچھ ہی لیا کہ آپ اکیلے یہاں کیسے؟ تو محترم نے فرمایا کے وو بہت دنوں سے ہم سے ملاقات کرنا چاہتے تھے مگر کچھ ذاتی مصروفیت اور کچھ ہمرے موجود نہ ہونے کے سبب ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی. اور آج موقع مل ہی گیا. عدنان بھائی نے بھی اشارہ کر دیا تھا ک میں کوئی زیادہ بات نہ کروں اور نا ہی اپنی رائے دینے کی کوشش کروں، جس کے بعد میں نے خود کو سمجھایا کے مجھ کو خاموش ہی رہنا ہے.

محترم بزرگ نے ہمارے ساتھ ایک (١) گھنٹے کا وقت گزارا اور اس کے بعد ہم سے رخصت ہوے ہمارے حق میں بہت  دعا کر اور ہم کو صبر سے کام لینے اور ہمت و استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کری ساتھ ہی ایسے لوگوں سے مہتات رہنے کی ہدایت بھی دی جو نہیں چاہتے کے یہاں (شمالی وزیرستان) میں استحکام ہو اور کسی بھی طرح کے فلاحی کام ہوں. عدنان بھائی اور دیگر ساتھیوں نے محترم کی باتوں کو بہت غور سے سنا اور بزرگ کو نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا.  
           
    

Saturday 23 February 2013

شمالی وزیرستان ڈائری "بچوں کے لئے کچھ کرنے کا عزم"

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
اسلام و علیکم 

معزرت کے ساتھ کہ چند ذاتی وجوہات کی بنا پر نہ  ڈائری لکھ پا رہا ہوں نہ ہی ٹیم آشیانہ کی فلاحی خدمات میں بھرپور حصہ لے پا رہا ہوں. 
میری والدہ شدید بیمار ہیں اور ایک مقامی اسپتال میں داخل ہیں آپ سب سے دعا کی درخواست ہے. 

کوشش کرتا ہوں کے جتنا وزیرستان کے اپنے تجربے کے بارے میں لکھ سکتا ہوں لکھوں. مجھ سے ہوئی کوئی بھی غلطی اور تاخیر کو معاف اور در گزر کریے گا.

"آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کرنے کا ہمارا (کارکنان) کا فیصلہ بہت بروقت اور ٹھیک رہا. کیوں کے بعد کے حالات نے یہ سبط کیا کہ اگر ہم دتہ خیل میں مقیم رہتے تو ہمارے ساتھ ساتھ بہت اور لوگ جو آشیانہ کیمپ میں مقیم تھے مزید پریشانی کا شکار ہو سکتے تھے. 
مگر میرانشاہ آکر ہماری پریشانیاں ختم یا کم نہیں ہوئی بلکہ مزید اضافہ ہوا، کسی نئی جگہہ جا کر ایک دفع پھر سے فلاحی کیمپ کا آغاز کرنا جبکہ وقت اور حالات پر آپ کا اختیار نہ ہو بہت مشکل اور دقت طلب کام ہے. پھر بھی ہم سب کارکنان نے اپنی اپنی حثیت اور استعداد کے مطابق آشیانہ کیمپ کو میرانشاہ میں ایک دفع [پھر سے فعال کرنے کا کام شروع کیا جس میں کچھ دن صرف ہوۓ. کچھ لوگوں کو ہم اپنے ساتھ میرانشاہ  لے آئے تھے کیونکہ یہ لوگ کسی بھی صورت اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھے. لہٰذا ہمارے پاس ان لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہی تھا یہ وو لوگ تھے جن کا گھر بار اور خاندان کسی نہ کسی وجہہ سے ان سے بچار گیا تھا یا برباد ہو چکا تھا. پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں ان لوگوں کو منتقل کرنے کا کوئی راستہ اور صورت نہیں تھی. عدنان بھائی نے کافی دفع کوشش کر ہے کے کچھ بچوں اور خواتین کو پاکستان کے دیگر فلاحی اداروں میں منتقل کریں مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہی ہوا. 

یہاں میرانشاہ میں بھی بنیادی سہولتوں کا بہت فقدان ہے. شمالی وزیرستان سے پاکستان کے دیگر علاقوں کے رابطے کے لئے انٹرنیٹ جیسی سہولیات، موبائل فونے جیسی سہولیات، نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں موجود بھی ہیں تو بہت پابندی کے ساتھ. اپنے گھر والوں سے رابطے کے لئے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے. مزید نہ ہی ہم کسی کو کچھ کہ سکتے ہیں نہ ہی کچھ بیان کر سکتے ہیں. یہاں موجود سیکورٹی اداروں کے کارکنان مقامی افراد کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کے ان سیکورٹی اداروں کی موجودگی میں مقامی افراد خود کو محفوظ محسوس کریں اور جو بھی سہولیات یہ ادارے دے سکتے ہیں ان سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو سکے. مگر سیکورٹی اداروں کی اپنی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں جن سے بہار جانا ممکن نہیں. پھر بھی میں یہاں موجود سیکورٹی اداروں کی کارکردگی دیکھ کر ان پر فخر محسوس کرتا ہوں. 

میرانشاہ کا میں بازار یہاں کی کل دنیا ہے، مگر یہاں مہنگائی پورے پاکستان سے کہیں زیادہ ہے. شدید سردی میں اور زندگی کے لئے ضروری اشیا کی ترسیل یہاں بہت مشکل سے ہو پاتی ہے جس کی وجہہ سے یہاں ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے، ایسے میں صرف کچھ لوگ ہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں باقی صرف بازار کا چکر لگانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں.
یہاں فلاحی اداروں میں صرف ایدھی سحاب کا ادارہ ہی نظر آتا ہے جس کے مقامی کارکنان کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے چاق و چوبند نظر آتے ہیں.  

میں نے عدنان بھائی کو ایک تجویز دی ہے جیسا کہ میں نے کراچی میں دیکھا کہ جگہ جگہ دستر خوان کا انتظام کیا گیا ہے جو کراچی کے ایک فلاحی ادارے چھیپا کرتا ہے جہاں غریب، نادار، اور مزدور پیشہ طبقہ تین وقت کا کھانا کھلایا جاتا ہے. کچھ اسی طرح کا انتظام اگر ہم یہاں میرانشاہ میں کر سکیں تو بہت اچھا ہوگا. میری اس تجویز پر عدنان بھائی نے تمام کارکنان سے ان کی رائے پوچھ ہے اور انشا الله اگلے جمعہ تک کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو جائے گا. 

یہاں (میرانشاہ) میں سب سے برا حال بچوں کا ہے. دتہ خیل تو ایک چھوٹا علاقہ تھا مگر میران شاہ شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہونے کی وجھہ سے سارے وزیرستان والوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے.  یہاں شمالی وزیرستان کے دیگر علاقوں سے لوگ روزگار اور مدد کی تلاش میں آتے ہیں اور اسی امید میں یہی روک جاتے ہیں. جس کی وجہہ سے یہاں کے دستیاب  وسائل پر بہت بوجھ پڑھ رہا ہے. یہاں بچوں کے لئے تعلیم، غذا اور ضرورت پڑھنے پر طبی امداد کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں. جس کی وجہہ سے یہ بچے معاشرے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں. میری پہلی کوشش میں یہی بات شامل ہے کے کسی نہ کسی طرح یہاں کے بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کی کوئی امنگ جگا سکوں. اس بارے میں کچھ آئیڈیاز میرے دماغ میں ہیں جن کا ذکر میں نے عدنان بھائی سے کیا بھی ہے امید ہے کے ہم سب مل کر کوئی بہتر حل ضرور نکل سکیں گے - انشا الله   
  

Team Ashiyana, North Waziristan is looking for Volunteer

Respected Friends,
اسلام و علیکم 

Team Ashiyana is working for the poor, hunger and suffer of North Waziristan. Ashiyana Camp is an example presently at Miranshah, North Waziristan.
We are looking for some local (Waziri, Pakhtoon) Volunteer to work and assist Team Ashiyana.
We are working in Education Sector, Health and Food Supply. 

Interested personals who wants to be a part of Team Ashiyana, Miranshah, North Waziristan, Please feel free to contact at on the given;

team.ashiyana@gmail.com
s_adnan_ali_naqvi@yahoo.ca

Who can be Volunteer?
Age of above 18 years and holding Pakistani National Identity.
Can Speak and understand Urdu, Waziri, Pashtoo / Persian language.   
Capable to stay in tents and work with the local in friendly environment.
Local's are highly encourage to be volunteer themselves.

محترم دوستوں، 
اسلام و علیکم،
ٹیم آشیانہ جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں فلاحی خدمات سر انجام دے رہی ہے. جن میں بچوں میں تعلیم کا شعور اجاگر کرنا مفت طبی کیمپ کا قیام اور نادار لوگوں میں مفت غذائی اجناس کی تقسیم شامل ہیں. 
ٹیم آشیانہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں ایک فلاحی کیمپ "آشیانہ کیمپ" چلا رہی ہے. 
ہم کو اپنی فلاحی خدمات کو جاری رکھنے کے لئے مقامی کارکنان کی بطور والنٹیر ضرورت ہے. 
ٹیم آشیانہ میں شامل ہونے کے لئے: 
آپ کی عمر ١٨ برس سے زائد ہونا چاہیے 
پاکستانی شہریت رکھتے ہوں 
آپ اردو، وزیری ، پشتو / فارسی زبان بول سکتے ہوں اور سمجھ سکتے ہوں. 
آپ آشیانہ کیمپ میں موجود خیموں میں رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں 
مقامی لوگوں کے ساتھ دوستانہ انداز میں فلاحی خدمات سر انجام دے سکتے ہوں 
مقامی افراد کو ترجیح دی جاۓ گی. 

مزید تفصیلات یا ٹیم آشیانہ میں بطور کارکن شامل ہونے کے لئے ہم سے رابطہ کریں 
آشیانہ کیمپ، ١.٥ کلومیٹر، میرانشاہ، شمالی وزیرستان 
s_adnan_ali_naqvi@yahoo.ca
faryal.zehra@gmail.com
team.ashiyana@gmail.com

Saturday 16 February 2013

فلاحی کاموں کے بارے میں میرے خیالات

اسلام و علیکم 
الله کا  ہے کہ اب طبیعت میں کچھ بہتری ہوئی ہے، نمونیا کا اثر کم ہے اور ڈاکٹر صاحب نے تھوڑا آرام اور ادویات کے مستقل استعمال کا حکم صادر کر رکھا ہے، آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے. 

گزشتہ رات کینیڈا سے تشریف لائی ہوئی ہماری بہن اور ٹیم آشیانہ کی ساتھی کارکن فریال باجی کراچی سے راولپنڈی اور پشاور کے لئے روانہ ہو گئی ہیں. کراچی میں کچھ دن فریال باجی کے ساتھ وقت گزرنے کا موقع ملا اس دوران میں اور میری امی اور دیگر دوست احباب نے فریال باجی کا پورا خیال رکھنے کی کوشش کری اور اس دوران یہ بھی جاننا چاہا کہ آخر وہ  کونسا جذبہ ہے جس کے تحت فریال باجی کینیڈا میں ایک اچھی، خوشحال زندگی چھوڑ کر پاکستان آجاتی ہیں اور یہاں فلاحی خدمات سر انجام دیتی ہیں؟ فریال باجی بہت اچھی اردو نہیں بول سکتی تھیں مگر اب ماشا الله بہت روانی سے اردو بولتی ہیں اور اپنی روانگی سے پہلے وہ یہ بھی بول گئی کہ بہت جلد وہ کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر پاکستانی شہریت ہی رکھنے والی ہیں. یہ سب باتیں ہم جیسے لوگوں کے لئے کسی سر پرائز سے کم نہیں. 
کراچی میں اپنے قیام کے دوران فریال باجی نے کراچی میں موجود دوستوں کے ہمراہ آشیانہ کیمپ، میرانشاہ، شمالی وزیرستان کے لئے بھیک مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گزشتہ دن جمع کئے گئے امدادی سامان کی پیکنگ میں مصروف رہیں. لسٹ بناتیں، سامان کو بہتر سے بہتر انداز میں پیک کرتیں اور دیگر ساتھیوں کو بھی ہدایت دیتی رہتی کہ کس طرح سے کام کرنا ہے. میرا اور فریال باجی کا ساتھ کچھ لمبا نہیں رہا، اس دفع کراچی میں قیام کے دوران فریال باجی کو بہت سمجھنے کا موقع ملا. فریال باجی کی اجازت سے ہی ان کے آشیانہ کیمپ کے لئے خدمات اور جذبہ فلاحی خدمات کے بارے میں کچھ خیالات اور یادیں لکھ رہا ہوں.

جذبہ انسانیت خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا امتحان ہے گزشتہ برسوں سے جب سے میں عدنان بھائی کے ساتھ فلاحی کاموں کے ساتھ وابستہ ہوا ہوں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں لوگوں کی باتیں نہ سنی ہوں. اکثر لوگ (زیادہ تر میرے خاندان والے اور دوست احباب، اور ملنے والے) یہی کہتے رہے کہ یہ سب کرنا ہمارا کام نہیں ہے. بلکہ یہ کچھ اور لوگوں کا کام ہے. جبکہ میری معلومات، علم اور دماغ مجھ سے یہی کہتا رہا ہے کہ فلاحی خدمات تو ہر انسان پر لازم ہے. ہم کسی بھی طریقے سے فلاحی خدمات سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے. ہر انسان کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذھب، قوم سے ہو پر لازم ہے کہ  وہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو فلاحی خدمات کے ساتھ وابستہ رکھے. میرے خیال میں مغربی ممالک کی کامیابی کا اصلی راز بھی یہی ہے کہ وہاں کے لوگ ہر طرح کے فلاحی کاموں میں خود کو مشغول رکھتے ہیں اور درد انسانیت بھی رکھتے ہیں. ہمارے ہمسائے میں چین موجود ہے، ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں زندگی کے ہر طبقے کے لوگ اپنے سے کم تر لوگوں کی مدد کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں. میرا خود کا ذاتی تجربہ رہا ہے جب ٢٠٠٥ میں پاکستان کو تاریخ کے بعد ترین سانحے کا سامنا زلزلے کی صورت میں کرنا پڑا تھا اس وقت بھی سارا پاکستان بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کے کرنا کیا ہے؟ ایسے وقت دنیا کے دیگر ممالک سے آئے ہوۓ کارکنان نے ہماری مدد کری، ہم کو فلاحی کام کرنے کے طرز سے آگاہ کیا جس کے بعد ہی ہم کسی نہ کسی طور پر زلزلے سے متاثرہ اپنے پاکستانی قوم کی مدد کرنے میں کامیاب ہو سکے . اس کے بعد بھی سیلاب کی صورت حال میں بھی ہم پاکستانی قوم نے اپنے اپنے طور پر  کسی نہ کسی طرح سے سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی. مگر ان سب کے دوران سب سے برا نقصان خود متاثرین کا ہوا جو آج بھی اکثر علاقوں میں بہت بری مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں.

ٹیم آشیانہ کے تشکیل کے وقت میں نے عدنان بھائی کے سامنے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہم یہ ٹیم تو تشکیل دے رہے ہیں مگر ہم کوئی ادارہ نہیں ہیں نا ہی ہم کو فنڈز کی فراہمی کی کوئی یقین دہانی ہے تو آخر کس طرح ہم لوگ فلاحی خدمات کے کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں؟ تو عدنان بھائی نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں اس کے لئے فنڈز سے زیادہ پختہ ، مضبوط ارادوں اور صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے. جو ہم سب میں موجود ہے. فنڈز کے اسباب بھی الله پاک کرتا رہے گا اور اگر فنڈز نہ بھی ہوۓ تو ہم پریشان حال، بھوک و افلاس سے مجبور، ادویات، کپڑوں اور تعلیم سے محروم لوگوں کے ساتھ اپنی موجودگی سے ان کو حوصلہ تو دے ہی سکتے ہیں. اور آج بھی عدنان بھائی کے اسی فلسفے پر ٹیم آشیانہ کے کارکنان قائم ہیں اور عمل کر رہے ہیں.

فریال بہن، سے ہوئی گفتگو کے دوران میں نے تو یہی کچھ سکھا جو کہ اپر لکھ دیا ہے. کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوۓ یہ سب باتیں صرف سننے کی حد تک اچھی لگتی ہے، لیکن عمل کرنے کا وچن تو بہت ہی مشکل بلکہ اکثر تو نہ ممکن. میری والدہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور مجھ کو عدنان بھائی کی مثال بھی دیتی رہی ہیں اور شاید اسی وجہہ سے میں کیسے بھی حالت اور حالات میں خود کو فلاحی کاموں سے روک نہیں سکتا.