Thursday 26 July 2012

Applogy for not updating this dairy

Dear Brother And Sister's,
Asalam O Alikum

Please accept our appology for not updating Waziristan Dairy since few days as Syed Adnan Ali Naqvi Brother is in Peshawar for Bheek Mission and we are all busy with him to collect the things and funds for the victims of North Waziristan. Although, we are reciving dairy from the volunteer of team ashiyana from Waziristan (North). Insha ALLAH this page will be updated shortly.

Thanks for your visit for this page.
Looking for your prayers in the holy month of Ramadan Karim.
Jazak ALLAH Kher
Faryal Zehra
Volunteer, Team Ashiyana.

Wednesday 25 July 2012

سید عدنان علی نقوی کا پشاور یونیورسٹی کے طلبہ سے ملاقات پر ایک گفتگو

محترم دوستوں 
اسلام و علیکم،
الله پاک سے دعا کرتا ہوں کے آپ جہاں بھی ہوں الله پاک اپنی رحمتوں کا سایہ آپ پر سلامت رکھے، آمین. 
میں وہی ہوں جس نے ٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد اس دنیا کے عیش و عشرت اور آرام کو چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان کےپریشان حال، دکھ درد میں مبتلاہ بھائی، بہنوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا. میرے اس فیصلے کی میرے گھر والوں نے، میرے دوستوں نے، میرے احباب نے اور میرے سے ملنے والے ہر انسان نے بہت حوصلہ افزائی کری، مجھ کو یقین دلایا کے میں جو بھی کروں گا یہ سب لوگ ہمیشہ میرے ساتھ ہونگیں. اپنی بہن اور بھائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈھتے میں آج یہاں تک آگیا کہ کبھی کشمیر، کبھی سوات، کبھی ملاکنڈ، کبھی جنوبی وزیرستان، کبھی بدین (سندھ)، کبھی شمالی وزیرستان، کے لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا. ہر جگہ کے لوگوں سے ملنے، وہاں کے حالات جاننے کا موقع ملا. اور سب سے بڑھ کر الله پاک نہیں مجھ سے وہ کام لیا جو کام الله پاک ہر انسان سے نہیں لیتا. 

وادی کشمیر میں فلاحی کام شروع کرتے وقت کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا سفر اتنا لمبا اور طویل ہو سکتا ہے. میں نے تو صرف اتنا سوچا تھا کہ وہاں (کشمیر) میں زلزلے سے متاثر بھائی بہنوں کی خدمت کروں گا دنیا بہت کما لی اب آخرت کماؤں  گا. خود بھی فلاحی کام کروں گا اور دوسرے بھائی بہنوں کو بھی فلاحی کام کرنے کی ترغیب دوں گا. الله نے مدد کری. بی بی سی اردو سروس والوں نے رابطہ کیا اور میرے کام کو میری سوچ کوساری دنیا تک پہنچایا. (مے آج بھی بی بی سی اردو سروس کے مصدق سانول، عالیہ نازکی اور ساری اردو سروس کا صدق دل سے شکر گزار ہوں کہ میرے خیالات کو جس طرح ان لوگوں نے دنیا تک پہنچایا وہ میرے خود کے لئے ایک مثال بن گیا. الله پاک بی بی سی اردو سروس کی تمام ٹیم کو اور ساتھیوں کو بہت ترقی عطا کرے اور دین و دنیا کی فلاح دے - آمین). 
میرے فلاحی کاموں کے اس سفر میں بہت اتار چڑھاؤ آے. بہت مشکلات، تنگی، پریشانی، اداسی، خوشی، غم، مسکراہٹیں، مصائب آے، الله پاک نی مجھ کو ہمت دی، صبر دیا، حوصلہ دیا، اور ایک کے بعد ایک میں ہر وقت سے گزرتا چلا گیا. الله پاک کا شکر گزر ہوں کے اس نے مجھ کو اپنے مقرب اور ایسے بندوں میں چنا جن کا کام اس (الله) کے بندوں کا خیال رکھنا اور سکھ درد میں کام آنا ہے. 
میں آج بھی جب کسی شہر میں جاتا ہوں، (جیسے آج پشاور میں ہوں) تو یہاں کی افراہ تفریح دیکھ کر میرے کو گھٹن اور تکلیف ہوتی ہے. ہر انسان صرف ایک ہی کام میں مشغول نظر آتا ہے. وہ کام اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر سی بہتر اسباب، سہولیات کی فراہمی ہے. بہت کم لوگ الله کو اور الله کی دی ہوئی تعلیم کو یاد رکھے ہوے ہیں الله کو اور الله کے دین کو صرف مساجد اور صدقات تک محدود کر رکھا ہے. (معزرت کے ساتھ کافی لوگ یہ کام بھی صرف دنیا دکھاوے کے لئے کرتے ہیں - الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت عطا کرے، آمین). میری تعلیم، علم اور معلومات کے مطابق یہ کام (فلاحی کام) تو صرف الله کی رضا، خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، ناکہ قرب دنیا اور کسی اور مقصد کے لئے. (اگر میرا علم محدود ہے، تعلیم اور تجربہ میں کوئی کمی ہے تو الله پاک مجھ کو سہی علم عطا کرے اور مجھ کو دروغ گوئی سی محفوظ رکھے، آمین). 
٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد حالات کیسے رہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے. کس کس (فلاحی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، حکومتی اہلکاروں، اور ہم جیسے لوگوں) نے کیا کیا یہ بھی سب پر عیاں اور واضح ہے. میں یہ نہیں کہتا کے میں نے اور میرے ساتھیوں نہیں نے جو کیا وہ ہی سہی تھا اور نہ ہی کسی ادارے یا جماعت پر کوئی انگلی اٹھا رہا ہوں، میں صرف اتنا کہتا ہوں کے جس کام (فلاحی کام) کو جس طرح ہونا چاہیے تھا وہ کام اس انداز میں نہیں ہوا. ہم سب مل کر زلزلے کے متاثرین کو بہت جلد اور بہت اچھے انداز میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے مدد کر سکتے تھے مگر افسوس کے آج بھی ہم کشمیر، اور خیبر پختونخواہ میں ایسے بہت لوگ دیکھ سکتے ہیں جو ٧ (سات) برس گزر جانے کے باوجود بھی اپنے گھروں کے نہیں ہو سکے ہیں، نہ ہی ان کے کوئی مالی اسباب کے وسیلے بن سکے ہیں. (ہم سب نے مل کر ان لوگوں کو فقیر اور بھیک مانگنے جیسے مکروہ کام پر لگا دیا). آج بھی مجھ سے بہت لوگ رابطہ کرتے ہیں کہ میں ان کے لئے کچھ کروں، مگر میں کیا کروں، عدنان اور عدنان کے ساتھی کوئی انجمن یا ادارہ نہیں ہیں، ہم کو تو لوگ چندہ، ادویات، غذائی اجناس وغیرہ تک بہت مشکل سے دیتے ہیں. (شاید ہم دوسروں کی طرح کسی میڈیا گروپ کے ساتھ جڑے ہوے نہیں ہی، ہماری تصاویر کسیاور فلمیں کسی ٹی وی چینل اور اخبار کی زینت نہیں بنتی، ہم دوسروں کی طرح مجبور، بے بس، بیمار، لاچار اپاہج، یتیموں، بیواؤں، بزرگوں کو فوٹیج بنا کر دکھاوا نہیں کرتے. اور ہم ایسا کریں بھی تو کیوں کریں؟ صرف دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سب سے زیادہ انسان دوست ثابت اور مخلص ظاہر کرنے کے لئے؟  یا لوگوں کے سامنے ان لوگوں کو پیش کر کے کے ان لوگوں کے نام پر چندہ اور چیزیں اکھٹا کر کے خودنمائی کرنے کے لئے؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکل نہیں، یہ کبھی بھی عدنان اور عدنان کے ساتھیوں کا انداز نہیں رہا. فرینڈز آف عدنان جو زلزلے کے وقت ایک سوشل ورکنگ گروپ تھا آج ٹیم آشیانہ بن گیا، ان برسوں میں بہت سارے ساتھ اور دوست ہمارے ساتھ ملے کام کیا کچھ آج بھی ساتھ ہیں اور کچھ اپنی اپنی زندگیوں میں مشغول ہو گئے. مگر ہم نی کبھی بھی جھوٹی نمائش اور دیکھ ریکھ کا سہارا نہیں لیا. الله پاک نی ہم کو اب تک ان سب سے محفوظ اور دور رکھا ہوا ہے. الحمد الالله)
میرے بھائی، میں نے فلاحی کاموں کے اس سفر میں بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ جانا، کچھ ایسے نام جو دنیا کی نظروں میں بہت اچھے جانے جاتے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں کے مکروہ چہرے دیکھے، میرا خود کا بھی ایمان ڈگمگایا مگر خود کو سمبھالا اور آج اس مقام پر ہوں جہاں میں الله کا شکر گزار ہوں کہ میرے ساتھیوں نے ایسی ایسی جگہوں پر فلاحی خدمات سر انجام دی ہیں جہاں کا نام سن کر ہی لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. الله نے ہمیشہ ہم پر کرم کیا اور فضل کیا، ہماری جانوں کی حفاظت کا بندوبست کیا، ہمارے پاس بے شک مال کی، اسباب کی کمی رہی ہو مگر ہمارے جذبے ہمیشہ بلند رہے، ہمرے دل اور دماغ ہمیشہ خدمت انسانیت کے جذبات سے بھرے رہے، اور ہم کبھی کمزور نہیں پڑے. 
ہاں، ہم بھی انسان ہیں، ہر انسان کی طرح ہم میں بھی احساسات ہیں، دکھ، تکلیف ہم کو بھی محسوس ہوتی ہے. ہم بھی مسکراتے ہیں ہم بھی رو پڑتے ہیں. اور جب ہم تنہا ہوتے ہیں، کوئی مدد نہیں ہوتی تو ہم صرف اور صرف ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ہم سے زیادہ برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں. ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ہم سے زیادہ تنگدستی کا شکار ہیں، بھوک، افلاس، غربت، علم سے محرومی کا شکار ہیں. اور ہم ہمت کرتے ہیں کے اگر ہم ان لوگوں کے لئے کوئی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ بیٹھے تو ہیں. یہی ٹیم آشیانہ کی تربیت ہے، یہی ٹیم آشیانہ کا اصول ہے، کہ اگر مال سے کچھ نہ کر سکو تو جان سے کر گزرو، قبول کرنے والا، برکت دینے والا، ہمت دینے والا، بگڑی کو بنانے والا، الله پاک ہے، جو ہم کو اس امتحان سے بہار نکالے گا. میں خود بہت کمزور اور لاچار انسان ہوں، جس کا کوئی گھر نہیں، خاندان نہیں، وسیلہ نہیں (میں اپنا سب کچھ دکھی انسانیت کی خدمات کے لئے وقف کر چکا ہوں، یہ میں اس لئے نہیں کہ رہا کے مجھ کو اپنے اس کیے پر کوئی افسوس یا ملال ہے، یہ صرف اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ کو اور دوسرے بھائی بہنوں کو ترغیب ملے). کراچی میں اپنے خاندان والوں سے ملاقات ہوے پتہ نہیں کتنا عرصہ ہو گیا ہے. 
میں نے  کراچی میں ایک بہت اچھا وقت گزارا، زلزلے (٢٠٠٥) سے پہلے میں بھی بہت چلبلا، شرارتی، عیش و عشرت کی زندگی گزارتا رہا ہوں، میری بھی یہی کوشش ہوتی تھی کہ دنیا کی ساری سہولیات جتنا جلدی حاصل کر سکتا ہوں کروں. خود کو اور دوسروں کو اپنی شخصیت سے متاثر کرتا رہوں، لوگ مجھ کو میری حثیت اور میرے رتبے سے پہچانیں. لیکن ٢٠٠٥ کے زلزلے نے میری زندگی اور میری زندگی کا مقصد ہی بدل دیا. میں جب کشمیر گیا، میں جب سرحد (آج کے خیبر پختونخواہ) گیا تو میں نہیں الله کا قرب محسوس کیا، بہت غور کیا کے میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ الله پاک نے مجھ کو تخلیق کیا تو کیا وجہہ ہوگی؟ اور اسی سوال کے جواب میں آج تک کا سفر جاری ہے. الله پاک کا احسان ہے، شکر ہے، کرم ہے کہ الله پاک نے مجھ کو اپنے ایسے بندوں میں شامل کیا جو کم از کم سوچتے تو ہیں. 
آج مجھ کو پشاور یو نیورسٹی کے کچھ طلبا نے یہاں (پشاور) بلوایا. مجھ سے شمالی وزیرستان کے حالات معلوم کیے، وہاں موجود لوگوں کی زندگی گزارنے کے بارے میں پوچھا، وہاں کیا ہو رہا ہے یہ معلوم کرنے کی کوشش کری. تو جتنا میرے علم میں تھا آپ کو بتا دیا. میرے پاس بتانے کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں، کچھ نیا نہیں، کچھ ایسا نہیں جس کو جان کر آپ لوگ کو تسلی ہو سکے. میرے پاس تو جو معلومات ہیں ان کے مطابق وہاں ہم وہاں کے لوگوں کے لئے زندگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. وہاں کے لوگوں کو ان کا سہی مقام دلانے کی کوشش کر رہے ہیں. وہاں کے لوگوں میں تعلیم، ہنر  کی کوشش کر رہے ہیں. بیماروں کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں. مرنے والوں کو کفن دفن کے انتظامات میں مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں. کوشش اور صرف کوشش، اس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں کر پا رہے ہیں. ہمارے بہت ساتھ خاص کر کراچی سے آئے ہوے ساتھ وہاں (شمالی وزیرستان) کے حالات سے تنگ اور پریشان ہو گئے ہیں اور چاہتے ہیں کے وہ اور ہم اب شمالی وزیرستان سے واپس نکل کر کسی اور طرف جائیں اور فلاحی کام کریں. میں یہ کہتا ہوں کہ اگر ہم بھی وہاں (شمالی وزیرستان) سے نکل گئے تو وہاں کون ہوگا جو وہاں کے لوگوں کو پاکستان اور اسلام کے بارے میں اپنے عمل سے سمجھائے گا؟ میران شاہ کے علاوہ مجھ کو تو کہی بھی کوئی فلاحی انجمن یا ادارہ نظر نہیں آتا. ادارہ تو دور کی بات ہے، میران شاہ سے آگئے حکومت پاکستان کا کوئی اہلکار نہیں دکھتا، نہ ہی حکمتی رٹ نظرآتی ہے.  ہر طرف صرف طاقتور کا راج ہے، جن کو آپ طالبان یا طالبان متاثرکہتے ہیں. وہاں جینے کے اپنے اصول ہیں، وہاں رہنے کے اپنے اصول ہیں، وہاں مرنے کے بھی اپنے ہی اصول ہیں. اور ہم (عدنان اور ٹیم آشیانہ) کو وہاں کے اصول کے مطابق ہی فلاحی کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے. اور ہم کر بھی کیا رہے ہیں. فری میڈیکل کیمپ، جن میں ادویات ہمیشہ کم رہتی ہیں. ٹیموں اور بیواؤں کے گھروں میں کچھ راشن کی تقسیم جو ٤- ٥ (چار سے پانچ) افرد کے لئے ایک ہفتہ بھی نہیں چلتا. یا کبھی کبھی کپڑوں کی تقسیم وغیرہ جیسے کام، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کے دتہ خیل، میر علی، شوال کی وادی یا کسی بھی علاقے میں ایک چھوٹا سا اسکول بنا دیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں. وجھہ مقامی اور بیرونی دباؤ ہی رہتا ہے. یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کے ٹیم آشیانہ پچھلے ٢ (دو) برسوں کے دوران ٥ ہزار (پانچ ہزار) سے زیادہ لوگوں میں مفت کپڑوں کی تقسیم کر چکی ہے، ٣٨٥٠ (تین ہزار آٹھ سو پچاس لوگوں میں غذائی اجناس کی تقسیم کا کام کیا ہے). ٦٠٠٠ ہزار (چھہ ہزار) سے زیادہ لوگوں جن میں بچے، بزرگ، نوجوان اور کچھ خواتین شامل ہیں کا مفت علاج کیا ہے آج بھی ٹیم آشیانہ کے میڈیکل کیمپ دتہ خیل اور آس  پاس کےعلاقوں میں کافی مقبول ہیں. الله پاک کا شکر ہے، کرم ہے کہ ہم اتنا کچھ کر سکے ہیں. 

میں یہاں آپ سے ٹیم آشیانہ کی کامیابی، کارناموں کی بات کرنا نہیں چاہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کے جن علاقوں میں ہم جا کر فلاحی کام کر سکتے ہیں وہیں آپ لوگ بھی جا کر کر سکتے ہیں، دنیا کی کوئی بھی انجمن، فلاحی ادارہ جا کر کر سکتا ہے، صرف جذبہ اور ہمت کی ضرورت ہے. شمالی وزیرستان کے لوگ جنگجو ضرور ہیں، مگر بہت ملنسار، محبت کرنے والے، مہمان نواز ہیں. اور شاید اپنی اسی خوبیوں کی وجہہ سے آج وہاں کے لوگ اتنی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں. میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کے وہاں کے لوگ کتنے طالبان ہیں اور کتنے پاکستان مخالف، نہ ہی میں وہاں کے سیاسی حالات پر کوئی رائے دینا چاہتا ہوں. میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کے جس کا جو کام ہے صرف وہی کام پوری دیانت  داری کے ساتھ کرنا شروع کریں تو وہاں کے حالات مہینوں میں نہیں بلکے ہفتوں میں درست ہونا شروع ہو جائیں گے. انشا الله.
یہاں اگر میں پاکستانی افواج اور سیکورٹی کے اداروں کے کردار کے بارے میں کچھ نہ کہوں تو یہ غلط ہوگا. ہم کو اپنے سیکورٹی اداروں، اور افواج پر ناز ہے، فخر ہے، الله پاک نے ہم کو جو افواج دی ہے اس کے جوان کسی بھی مشکل، دشمن اور حالات کا سامنا کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں. میں خود اور میرے ساتھ ہمارے جوانوں کو کام کرتا دیکھ رہے  ہیں. اور جو بھی وہ کر رہے ہیں اسی کی وجھہ سے ہم جیسے لوگ شمالی وزیرستان میں موجود ہیں. اور شمالی وزیرستان، پاکستان میں موجود ہے. نہیں تو ملک دشمن عناصر نے اس ملک کو توڑنے اور برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے. الله پاک ہمارے فوجی جوانوں کو ہمت دے صبر دے، حوصلہ دے. آمین.

میں اپنی عزیز بہن فریال زہرہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو کینیڈا سے یہاں آتی ہیں کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارتی ہیں اور خاص کر خواتین کے لئے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں. الله پاک ان کے جذبے کو قبول کرے، ہمت دے، حوصلہ دے اور استقمت عطا کرے. میرے ساتھی جو لاہور سے، کراچی سے، راولپنڈی سے، پشاور سے اور وزیرستان سے ٹیم آشیانہ میں حصہ لیتے ہیں شمولیت اختیار کرتے ہیں کو سلام پیش کرتا ہوں. الله پاک ان کو ہمت دے اور زندگی میں فلاحی کام کرنے کی توفیق عطا کرے - آمین.

آخر میں، پشاور یونیورسٹی کے ساتھیوں کا شکریہ جنہوں نے مجھ کو یہاں بہت محبت دی، ہمت دی اور میرا حوصلہ بڑھایا. میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب زندگی میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور ایک دفع ضرور وزیرستان جائیں گے، جہاں آپ کے بھائی، بہن آپ کی مدد اور ساتھ کے منتظر ہیں. یہ ضروری نہیں کے آپ صرف ہمارے ساتھ ہی کام کریں، آپ کچھ دوست مل کر ایک سوشل گروپ بنیں، اور جو کچھ سامان، ادویات وغیرہ اکھٹا کر سکتے ہیں کریں اور آجائیں. نیت اور ارادہ اگر پختہ ہو تو الله پاک کی مدد ہمیشہ ساتھ رہتی ہے. 

میرے لئے اور میرے ساتھیوں کے لئے دعا کریں کہ الله پاک ہمارے ارادوں کو، ہماری ہمت کو، ہمارے حوصلے کو بلند رکھے، ہم کو صبر اور استقامت دے کے ہم اسی طرح اپنے بھائی بہنوں کی مدد کرتے رہیں اور ہم کو غیب سے اسباب مہیا کرے کے ہم ہر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے کام آسکیں - آمین.

جزاک الله خیر 
اسلام و علیکم 

 

Tuesday 24 July 2012

سید عدنان علی نقوی کی دعا


محترم دوستوں اور ساتھیوں اسلام و علیکم 

ماہ رمضان کی برکتیں اور رحمتیں ہم سب سمیٹ رہے ہیں، ان برکت بھرے لمحات میں ہم کو اور آپ کو ہر لمحہ الله پاک کی عظمت، بڑھائی، شان کا ذکر کرتے رہیں. 

ماہ رمضان ہم کو درس دیتا ہے اخلاص کا، امن کا، رواداری کا، ایک دوسرے کے خیال کرنے کا. یہ ماہ ہم کو تربیت دیتا ہے کے ایک مسلمان کے فرائض کیا ہیں؟ اور کس طرح اس دنیا میں اپنی اور دوسرے انسانوں کی فلاح کا خیال رکھنا ہے. 

میری الله پاک سے دعا ہے کہ "اے میرے پروردگار، مجھ کو ہمت دے،   حوصلہ دے، صبرعطا فرما کہ میں تیرے نیک بندوں میں شمار ہوں. مجھ کو ایک ایسا انسان بنا جو تیرے بتاۓ ہوے راستے پر چلے، اور میرے فلاحی کاموں کو آسان فرما، میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے غیب سے اسباب مہیا فرما، ایسے اسباب جو ہم سب کے لئے فلاح کا سبب بن سکیں. اے میرے رب، ہم لوگ جن جگہوں پر فلاحی خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہاں ہم کو ہمیشہ جانی اور مالی نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے، ہماری حفاظت فرما، مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو پوری امانت داری، دیانتداری کے ساتھ مستحق لوگوں تک ان کا حق پہچانے کی توفیق عطا فرما. 
میرے رب، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم جہاں ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے، ہم کو سچ اور حق کا ساتھ دینے کی  عطا فرما. ہماری، ہمارے اہل       خانہ کی، ہمارے دوستوں کی، ہمارے ساتھیوں کی، ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کی، سارے عالم اسلام کی  مغفرت فرما، اس ماہ مقدس کی برکت سے ہمارے کبیرہ،   صغیرہ گناہوں کو معاف فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما. ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما. آمین. اے الله، ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما. آمین."

میرے ساتھیوں اور دوستوں، لکھنے اور کہنے کے لئے ابھی بہت کچھ ہے جو انشاالله بہت جلد آپ لوگوں کے ساتھ ضرور share کروں گا فلحال کے لئے         اتنا ہی کافی ہے. 
الله پاک آپ سب کا اور میرا حامی و ناصر ہو - آمین 

جزاک الله خیر 


Sunday 22 July 2012

List of Urgent Required Items for Ashiyana Camp, North Waziristan - Pakistan

Dear Brother, Sisters and Readers, اسلام  علیکم 


Here's is the list of Urgent required items for the Team Ashiyana, Datta Khel - North Waziristan, Pakistan.

Medicines:
Team Ashiyana is collecting medicines in Bheek Mission from Karachi, Lahore, Rawalpindi  and Peshawar. We need extra amount of medicines for all ages and all diseases including life saving drugs and medicines a short list of medicines is given below. We are requesting you to to please donate us as much as you could to save the life of suffering peoples in North Waziristan. 


Syrups And suspensions:

Brofin, Ponstan, Panadol, Calpol, Mucain, Ulsanic, Flygel, Flyzol, Britanyl, Metronidazol, Liveract, Augmenten, Velosef, Leaderplex, Promethazine, Ponstan Fort, Marzine,
And Anti-biotic Syrups (Urgently Required)

Tablets and Capsules:

Perasetamol, Panadol, Panadol Extra, Ponstan Fort, Gravinate, Marzine, Lomotive, Flygel, Bascopan, Metodine, D.F, Amoxil, Augmenton, Folic Acid, Trisil, Velosef, Cafcol,Surbex-z, Surbex-b and Anti-biotic Tablets (Urgently Required).

Other Medicines:
O.R.S, Peditral Water, Dexta Drip, Syringes, Injection for pain relief, multivitamins etc
(Urgently Required)


Food Stuff (in raw)

Ashiyana camp has the responsibility of 40 families and about 300 Poor, Sick, Orphans, and widows to supply them two time food in Datta Khel, North Waziristan. for that we need an extra amount of food stuff in raw condition.
A short list is as under:
List of Urgently Required Food Stuff:

1. Wheat Flour (Atta): 2000kg (for a month)
2. Rice (Chawal): 2000kg (for a month)
3. Sugar (Chini): 800kg (for a month)
4. Beans (Dalain): 1200kg (for a month)
5. Cooking Oil / Ghee: 800kg (for a month)
6. Salt (Namak): 200kg (for a month)
7. Spices (Mirch, dhnya, haldi, etc): 600kg (for a month)
8. Milk Powder: 1000kg (for a month)
9. Tea: 800kg (for a month)


General Items:
Tents 8' / 10': 2 (two)
Soap (for washing hand and clothes): any quantity (if available)
Plastic Sheets (to cover goods and tents from raining): any quantity
Kerosene Oil: any quantity 
Match Box: any quantity
Biscuits, Wafers, etc for kids only: any quantity
Jug, Glasses, Cups, Plates, Dishes, etc: (Old and if available any quantity)

Books, Copies, & Stationary:
Books from Class 1 to 10th: any quantity (most welcome for old / used books)
Copies: any quantity
Pencils, Shopners, Erasers, Pen etc: in any quantity
Black Board with chalk: 2 (two) 

Mat or Carpet (or any thing which we can use to sit on the ground): any quantity.

Dear Brother & sisters, 
Team Ashiyana is a social working group we are working with our very limited resources for the poor, sick, Orphans, and Widows in North Waziristan. 
You are all requesting to give us a hand of courage with your prayers, donatations and contributions.
We will update you about our upcoming social projects and daily social working routine at North Waziristan.
We are not looking for your money or wealth, We are looking for the things which can be help to save many life in this area (North Waziristan).

You can contact us at any time via email or given number, as our volunteer can collect the goods from Karachi, Lahore, Rawalpindi & Peshawar.
Our Email:

team.ashiyana@gmail.com
faryal.zehra@gmail.com
s_adnan_ali_naqvi@yahoo.ca
mansoorahmed.aaj@gmail.com
Our contact:
+92 345 297 1618

Our location:
Datta Khel, (Link Road Miran Shah). North Waziristan - Pakistan




If you wanna contribute with your funds (in cash) so please use the following account:
"Ashiyana"
Ms. Badar un Nissa.
 
A/c # 0100-34780.
 
United Bank Limited.
 
Gulistan e Joher Branch. (1921)
 
Karachi, Pakistan.
 
Swift Code:UNILPKKA
  

Brother and sisters, here's a lot of the peoples are living under the poverty level, they need our assistance and help. 
We are waiting for the help from our brother and sisters.


Jazak ALLAH Kher
Volunteer
Team Ashiyana, Datta Khel - North Waziristan. Pakistan.
A group of Friends of Syed Adnan Ali Naqvi.

Saturday 21 July 2012

اور ایک اور بچہ ہم سے جدّ ہوا (طبی امداد نہ ہونے کی بنا پر ایک اور بچا چل بسا)

محترم دوستوں  ساتھیوں، اسلام و علیکم.
آپ کی دعاؤں، محبت ، خلوص اور مدد کے وعدوں کا بہت شکریہ، ہماری دعا ہے کہ الله پاک آپ سب کو ماہ رمضان کی برکتیں، نعمتیں اور رحمتیں عطا فرماے، ساتھ آپ سب کو سدا خوش رکھے - آمین.
ٹیم آشیانہ اس وقت دتہ خیل میں مقیم ہے، اور فلاحی خدمات میں مصروف ہے، جس کی تفصیلات جیسے ہی ہم تک پہنچتی ہیں ہم آپ کو آگاہ کرتے جاتے ہیں. آج کی ڈائری اور آشیانہ کیمپ شمالی وزیرستان کی تفصیلات جو ہم کو ملی ہیں وہ آپ کو دی جا رہی ہیں. الله پاک ہماری محنت، اور فلاحی جذبے کو قبول فرماے اور ہم کو مزید فلاحی کام کرنے کی توفیق، ہمت، صبر حوصلہ اور استقامت عطا کرے - آمین.
آج کی اپ ڈیٹ ڈائری ملاحظہ ہو:
=====================================================================

رات تو جیسے تیسے گزر ہی گئی، ساری رات دونوں بچوں کی فکر اور دیکھ بھال میں ہی سوتے جاگتے رہے، فجر کے وقت ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ وہ جو بھی کر سکتے تھے کر چکے ہیں مگر دونوں بچوں کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آرہی ہے، اسی لئے دن ہوتے ہی ان بچوں کو جتنا جلدی ممکن ہو یہاں سے میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ تو اچھا ہوگا. ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے، اکرم بھائی سے ایک دفع پھر کہا گیا کہ وہی کچھ کر سکتے ہیں تو کریں.
 میں نے سب کے ساتھ بوجھل دل اور تھکن کے ملے جلے جذبات کے ساتھ نماز ادا کری، اور ایک دفع پھر بیمار بچوں کی طرف آگیا. مجھ کو کل لگائے گئے میڈیکل کیمپ کی تفصیلات بھی لکھنی تھی وہ رات کو ڈائری لکھنے کی وجہہ سے رہ گئی تھی تو اب میں نی ایک دفع پھر قلم اور کاپی اٹھائی اور کل کے میڈیکل کیمپ کے اعداد و شمار لکھنے شروع کیے.

گزشتہ روز لگائے گئے میڈیکل کیمپ کے اعداد و شمار:
کیمپ صبح ساڑھے آٹھ بجے لگایا گیا جو ظہر اور عصر کی نماز کے وقفے کے ساتھ شام ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہا. میڈیکل کیمپ کل ٩٧ مریض لائے گئے جن میں ٦٣ بچے اور باقی مرد  شامل تھے


میڈیکل کیمپ میں ایک بزرگ خاتون (شاندانہ عمر ٨٠-٨٥ برس) کی لائی گیں. جن کو الٹی، پیٹ درد اور کمزوری کی شکایات تھی، ڈاکٹر آصف کے چیک اپ کرنے پر پتہ لگا ان خاتون میں (ایچ، آی، وی) بیماری ہو سکتی ہے (ان خاتون کو مقامی کارکنان کی مدد سے کل ہی میران شاہ منتقل کر دیا گیا)


میڈیکل کیمپ میں تین (٣) بچے جن کی عمریں ٨-١٢برس کے درمیان تھی لائے گئے، ان بچوں کو تیز بخار کے ساتھ جسموں پر دانوں کی شکایات تھی. ڈاکٹر صاحب کے چیک کرنے پر پتہ لگا کے یہ تینوں بچے خسرہ کا شکار ہیں. ان میں سے ایک بچے کے گھر والے ہمارے اسرار کرنے پر بچے کو میران شاہ لے گئے ہیں باقی دو (٢) بچے ابھی آشیانہ کیمپ میں ہی موجود ہیں جن کی حالت بہتر نہیں ہے.


ادویات جو ہم کو کارکنان نی امدادی طور پر روانہ کاری تھی اچھی خاصی اس کیمپ میں تقسیم کر دی گئی ہیں باقی ادویات اور آنے  والی امداد کے ساتھ ایک اور میڈیکل کیمپ جلد ہی لگایا جاۓ گا - انشا الله.


میرا ذاتی تجربہ اس میڈیکل کیمپ میں بہت تکلیف دے رہا ہے، میں چہ کر بھی یہاں کے لوگوں کے لئے کچھ خاص نہیں کر پایا ہوں صرف ذاتی حثیت سے تسلی  اور ادویات کی تقسیم میں ٹیم آشیانہ کے کارکنان کا ہاتھ ہی بٹا سکا ہوں.
میڈیکل کیمپ سے چیک اپ اور ادویات حاصل کرنے والے مقامی افراد کی فہرست اس رپورٹ کے ساتھ منسلک ہے.


 عدنان بھائی، اور دیگر کارکنان آج نماز فجر کے بعد سے ہی راشن کی تقسیم کے نظام کو ترتیب دی رہے ہیں. جو انشا الله آج شام تک تقسیم کرنا شروع کر دیا جاۓ گا.


اپنی رپورٹ لکھ لینے کے بعد میں آج ناشتہ (صبح کا کھانا) بنانے والے ساتھیوں میں گھل مل گیا، آج میری ذمہداری ہے کے میں کھانے کا انتظام سمبھالوں.


عدنان بھائی، اور فیصل بھائی (لاہور والے) آج یا کل کسی وقت پشاور اور اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں اور آج ناشتے کے دوران اس بات پر بحث ہوئی کہ عدنان بھائی کے بعد یہاں (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) میں کون ٹیم آشیانہ کی نگرانی کرے گا. اکرم بھائی، اور کچھ دوستوں نے میرا نام تجویز کیا. مگر عدنان بھائی نے (بوجھہ) میرا نام رد کر دیا. اور ایک مقامی کارکن، گلریز خان کو ٹیم آشیانہ کی نگرانی کی ذمہداری دینے کا فیصلہ کیا گیا. (مجھ کو نگران نہ بنانے کے فیصلے کی عدنان بھائی نے جو وجھہ بیان کاری وہ بلکل سہی اور درست تھی، میں اکثر بہت زیادہ جذباتی ہو جاتا ہوں اور جذباتی ہونے کے بعد کسی بھی کام کو سہی طرح یا عقل اور شعور کے ساتھ کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہوں، جبکہ یہاں کے حالات ایسے نہیں ہیں جن میں کسی بھی طرح کے جذباتی کام یا فیصلے کی کوئی گنجائش ہو) عدنان بھائی نے مجھ کو سب کے سامنے اور بعد میں علیحدہ سے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا جس سے میں پوری طرح مطمئن ہوں.


عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کے مقامی کارکنان نی مجھ سے ایک دفع پھر ڈائری یا یادداشت لکھتے وقت بہت احتیاط سے کام لینے کو کہا، (ہو سکتا ہے کے میری پچھلی ڈائری یا تحریر میں کوئی ایسی بات سامنے آگئی ہو جو ٹیم آشیانہ یا مقامی افراد کے لئے  نقصان دے ثابت  ہو سکتی ہو، میں جو محسوس کرتا ہوں اور جو یہاں ہو رہا ہے وہ سادہ ترین الفاظ میں لکھ دیتا ہوں، ایک دفع پھر میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے کہوں گا کے وہ میرے صفحات یا ڈائری کو اپ ڈیٹ کرتے وقت سارے صفحات  کو ایڈیٹ کر کے لکھا کریں، اور کوشش کریں کے حقیقت کو مسخ نہ کیا جاۓ، ہم یہاں کسی بھی طرح کی مشکل یا مخالفت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا مقصد یہاں کسی گروپ، گروہ یا تنظیم کے حق میں یا مخالفت میں کم کرنے کا ہے، ہم یہاں صرف ایک ہی مقصد اور مشن لے کر یہاں بیٹھے ہیں اور وہ ہے سہی اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی فلاح اور پاکستان کے بے بس لوگوں کے لئے کم کرنے کا)


اکثر یہ سوال میرے دماغ میں بھی آتا تھا کے اگر ہم کو فلاحی کام کرنے ہی ہیں اور انسانیت کی خدمات کرنی ہی ہے تو ہم یہاں اتنے دشوار گزر اور مشکل علاقے میں کیوں موجود ہیں؟ جہاں ہر وقت شدت پسندوں (اس لفظ کو لکھنے کے لئے منع کیا گیا ہے، مگر میں ان لوگوں کو اور کس لفظ سے لکھوں؟ اگر کوئی رہنمائی کرے تو میں شکر گزار رہوں گا). کی طرف سے کسی نہ کسی کروائی  کا خدشہ رہتا ہے، یا طالبان جیسے عناصر کی آمد کی فکر، یا کچھ نہیں تو ڈرون (بلی جیسے ڈرون) کی اچانک  ہتیار بند آمد کی تیاری. مگر کچھ عدنان بھائی، کچھ ٹیم آشیانہ کے کارکنان اور کچھ یہاں کے حالات کو سمجھتے ہوے اندازہ ہو گیا کے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں فلاحی کام کرنا بہت آسان ہے، شہروں میں تو کوئی مسلہ ہی نہیں، مگر کوئی بھی یہاں (شمالی وزیرستان) یا ان جیسے علاقوں میں آنا اور کام نہیں کرنا چاہتا (وجوہات جو اپر بیان کری ہیں وہی ہیں). کوئی سیکورٹی  رسک کا بہانہ کرتا ہے کوئی کچھ بھی بہانہ، (اس سلسلے میں مجھ کو ذاتی تجربہ بھی ہے - کچھ تفصیل لکھ دیتا ہوں)


ملکی فلاحی اداروں سے بات چیت اور نتیجہ:
جب میں کراچی میں تھا تو اکثر عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کی اپیل مجھ کو ملا کرتی تھی، میں نے عدنان بھائی کے کہنے پر ہی    کراچی میں موجود مختلف فلاحی اداروں سے رابطہ کیا جن میں دو (٢) بڑے فلاحی ادارے تھے، مجھ کو بہت افسوس ہے کے میں یہاں چہ کر بھی ان اداروں کے  نام نہیں لکھ سکتا. بہرحال، ان رابطوں کے نیتجے میں ان اداروں کے کرتا دھرتا افراد سے کافی ملاقاتیں ہوئی، کچھ ملاقاتوں میں ایسا بھی محسوس ہوا کے جیسے یہ لوگ بھی وہاں (شمالی وزیرستان) جا کر کام کرنا چاہتے ہیں. مگر جب کام کا وقت آیا تو تمام لوگ ہی ایک دم پیچھے ہٹ گئے ہن ہم کو کچھ امدادی سامان جیسے، کپڑے، کفن، کچھ ادویات  وغیرہ ضرور ملیں جس کے لئے ہم ان اداروں کے آج تک احسان مند اور شکر گزار ہیں. اس سے زیادہ یہ نامی گرامی ادارے  آج تک کچھ بھی نہیں کر سکے (ایک اور وجہہ جو مجھ کو سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کے یہاں کام کرنے کے دوران ان اداروں یا لوگوں کو وہ شہرت یا نام نہیں مل سکتا جو یہ لوگ شہروں میں دکھا دکھا کر کام کر کے حاصل کر سکتے ہیں، عدنان بھائی بلکل سہی کہتے ہیں کہ "جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے.")


اب ہم جیسے لوگ تو ہمیشہ ہی میڈیا یا نام، شہرت سے دور ہی رہتے ہیں، عدنان بھائی کا فلسفہ یہی ہے کہ جو فلاحی کام نام کے لئے کیا گیا وہ کام نہیں بلکے گناہ ہے اور اس طرح سے ہم الله کی نظروں میں اور اپنے کام سی مخلص نہیں رہ سکتے (اس کا تجربہ عدنان بھائی کو  بی بی سی اردو سروس کے لئے زلزلہ نامہ لکھتے وقت ہوا).


آج کا دن:
خیر آج کا دن بھی کچھ مختلف نہیں تھا. دونوں بچے جو آشیانہ کیمپ میں موجود ہیں کی حالت بہتر ہوتی نذر نہیں آتی، دونوں ہی بچوں کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اب بچوں کو الٹی کی شکایات بھی ہو گئی ہے، ڈاکٹر آصف پہلے ہی ایک رات گزار چکے تھے واپس میران شاہ جا چکے ہیں، عدنان بھائی ٢-٣ دن میں پشاور اور اسلام آباد جانے کا سوچ رہے ہیں. یہاں سے دور موجود کارکنان سے ملی معلومات کے مطابق ہمارے کارکنان اور ہمدرد ٹیم آشیانہ کے لئے امدادی سامان جمع کرنے میں مصروف ہیں.  (الله پاک ان کارکنان کی مدد کرے اور ہمت دے، مجھ کو بہت اچھی طرح اندازہ ہے کے ہم جیسے لوگوں کو امدادی سامان جمع کرتے وقت کس کس طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے).


راشن کی تقسیم کی منصوبہ بندی کرنے کے بعد ہم نے دستیاب راشن اور جن لوگوں (خاندانوں) میں راشن تقسیم کرنا ہے کی فہرست بنائی. میں hیہ کام پہلی دفع کر رہا ہوں تو پوری کوشش کر رہا تھا کے پرانے اور تجربہ کار کارکنان سے بار بار مشورہ کروں. ١١ بجے صبح تک میں لکھت، پڑھت کے کام سے فارغ ہو گیا تھا. اگلا مرحلہ ایسے گھر اور خاندانوں کی نشاندہی کرنے کا تھا جو راشن حاصل کرنے کے اہل ہوں، (میرے نزدیک تو یہاں ہر کوئی راشن لینے کا مستحق ہے، مگر ہمارے فنڈز اور دستیاب راشن اتنے نہیں کے ہم سب کو ہی راشن دے سکیں). میں یہ کام تنہا ہی کرنا چاہتا تھا، مقامی افراد کی مدد اگر لیتا تو بہت ممکن تھا کے وہ اپنے جن پہچان کے لوگوں سے ہی مجھ کو ملواتے، ابھی میں اس کام کے لئے نکلنے ہی والا تھا کہ، میرے اسکول کے بچے آنا شروع ہو گئے، میں نے صبح سی اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، ہمارے پاس کل دو (٢) ٹینٹ ہیں ایک ٹینٹ میں ٹیم آشیانہ راشن کے پیکٹ بنا رہی ہے اور دوسرے ٹینٹ میں دونوں بچے موجود ہیں جہاں ان کے ساتھ آئے ہوے لوگ بھی. رات بھر ہلکی بارش ہوئی تھی جس کی وجہہ سے کھلی جگہ میں بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا. میں نی بچوں کو ظہر کی نماز کے بعد آنے کا کہا. بچے ادھر ادھر بکھر گئے اور میں ایک مقامی ساتھی کے ہمراہ پہلی دفع دتہ خیل کی گلیوں میں نکل پڑا (پہلی دفع اس لئے کے جب بھی میں یہاں آیا ہوں صرف آشیانہ کیمپ یا ان کے ساتھ جہاں جہاں میڈیکل کیمپ لگا وہی تک گیا ہوں، مقامی لوگوں سے راہ  و رسم اور تعلقات  قائم کرنے کا یا بنانے کا کوئی موقع نہیں ملا صرف آشیانہ کیمپ تک جو آیا اسی سے ہی بات ہو سکی. بلال اور اکرم بھی جو ہمیشہ ٹیم آشیانہ کے ہمراہ ہوتے ہیں تو ان سے بہت اچھی بات چیت ہو گئی ہے).


دتہ خیل، میران شاہ اور میر علی کے بعد شمالی وزیرستان کا مشور ترین علاقہ ہے یہاں کی اکثر آبادی مقامی قبائل پر مشتمل ہے، مقامی زبان پشتو یا وزیری ہے، یہاں کے لوگ نہایت سیدھے سادھے مگر اسلامی شدت پسندوں، طالبان یا رجعت پسندوں کی طرف مائل سوچ اور فکر کے حامل ہیں، خیبر پختونخواہ کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی اپنی خواتین کو پردوں میں رکھنے کے حامی ہیں اور خواتین نہایت پردے میں رہتی ہیں، (میں نے خود بہت کم خواتین کو یہاں دیکھا ہے اور جو دیکھی بھی ہیں وہ بہت پردے میں اور امر رسیدہ خواتین ہیں). چھوٹی عمر کے بچے بچیاں مجھ کو یہاں گلیوں میں نظر آییجن کو گلیوں میں بھاگتا، کھیلتا دیکھ کر مجھ کو بہت اچھا لگا. میں ابھی تک بہت مشکل سے مقامی زبان سمجھ سکتا ہوں اسی لئے ایک مقامی کارکن میرے ساتھ تھا، ہم لوگ دتہ خیل کے بازار کی طرف نکل آے یہاں کافی چہل پہل تھی اور اکثر افراد رمضان کے حوالے سے خریداری کرنے میں مصروف تھے، (بازار کو دیکھ کر مجھ کو کراچی اور گھر یاد آگیا). یہاں ایک کریانہ کی دکان پر میں نے ایسے ہی کچھ چیزوں کے دام معلوم کے تو میری روح کانپ گئی ، شکر (چینی) ٢٠٠ (دو سو) روپے کلو مل رہی تھی. اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں. پتہ نہیں یہاں کے لوگ کیسے یہ چیزیں خرید رہے ہونگیں. بازار میں رش نہیں تھا بس افراد کی چہل پہل تھی، میں عدنان بھائی کی دی ہوئی پرانی لسٹ لے کر ان لوگوں سے ملنا چاہتا تھا جو پہلے ٹیم آشیانہ سے امداد لیتے رہے ہیں.


ظہر کی نمازتک میں اچھے خاصے لوگوں سی مل کر کافی معلومات  کر چکا تھا. اب صرف لسٹ کو آخری شکل دینا باقی تھا. جو کہ ٹیم آشیانہ کے کارکنان سے مشورہ کر کے ہی  ہو سکتی تھی.


ہم نے ظہرکی نماز سب ساتھیوں کے ہمراہ ہی ادا کری، نماز سے فارغ ہوے ہی تھے کہ  افسوس ناک خبر نے ہمارے ہوش اڑا دے.


آج کے دن کی اور میرے لئے نہایت بری اور افسوسناک خبر:


آشیانہ کیمپ میں جو دو (٢) بیمار بچے موجود ہیں ان میں سے ایک بچے کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی. ہم سب بھاگے بھاگے جب ان بچوں کی طرف پہنچے تو بچا بہت بری حالت میں تھا ہمارے پاس اس وقت کسی ڈاکٹر کا انتظام نہیں تھا، عدنان بھائی نے چیختے ہوے اکرم بھائی اور باقی کارکنان کو آس پاس کسی  ڈاکٹر کے انتظام کرنے کے لئے کہا. جو لوگ یہاں کے مقامی تھے کسی ڈاکٹر کو دیکھنے کے لئے گئے. میرے خود کی ہمت جواب دے رہی تھی. بہت مشکل اور کرب ناک وقت ہم لوگ یہاں دیکھ رہے ہیں. میرے ہاتھ خد با خد دعا کے لئے اٹھ گئے. (یا الله، یہ کیسا امتحان ہے؟ ہم یہاں صرف تماشا ہی دیکھتے رہیں گے؟ یا یہاں ان لوگوں کی کی مدد کرنے کے لئے کوئی ہے گا بھی یا نہیں؟) اکرم بھائی واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک صاحب موجود تھے جو ڈاکٹر تو نہیں مگر اچھے پیرا میڈیک ضرور تھے. انہوں نی بچے کی نبض چیک کری اور بخار بھی بچے کا بخار بہت تیز  تھا اور بچہ بری طرح کراہ رہا تھا. ان صاحب نے ہم کو بتایا کے جو دوائیں ہم اس بچے کو دے رہے ہیں وہ اس وقت کے لئے ناکافی ہیں، بچے کو اسپتال کی اور بہتر دواؤں کی فوری ضرورت ہے. یہ اب ہمارے لئے ممکن نہیں رہا تھا. بس دعا ہی کر سکتے ہیں. 


اورمیں سارے کام چھوڑ کر اس بچے کے ساتھ ہی بیٹھ گیا میرے اسکول کے جو بچے آئے تھے ان بچوں کو عدنان بھائی اور بلال نے دوسرے ٹینٹ میں بیٹھا کر آگے کا سبق دیا ہم سب ہی بہت بری طرح پریشان تھے کہ کیا کری؟ الله پاک ایسا مشکل وقت سے ہم سب کو محفوظ رکھے - آمین. بچے کے ساتھ آئے ہوے اس کے گھر والے اب صورت حال کو سمجھ رہے تھے اور ہم سی بچے کو واپس اپنے گاؤں (گھر) لے جانے کی ضد کر رہے تھے، یہاں (دتہ خیل) سے ان کے گاؤں کا سفر ایک گھنٹے کا ہوگا راستہ انتہائی دشوار گزار ہو چکا ہے. ہلکی ہلکی بارش نے سفر اور مشکل کر دیا ہے. ہم سب بہت بری طرح الجھن میں تھے کے کیا کریں اور کیا نہ کریں. میں آج پہلی دفع عدنان بھائی کی طرح بار بار آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا. اور کسی غیبی مدد کا انتظار کر رہا تھا. مگر کوئی مدد نہ آئی.


قریب تین (٣) بجے اس بچے کی سانسیں بہت تیز ہو چکی تھی ہمارے پاس اس بچے کے سر اور پیروں کو بار بار دھونے کے علاوہ کوئی اور علاج نہیں تھا. 
اور اس بچے کے والد اس بچے کا سر اپنی گود میں رکھ کر رو رہے تھے. ساتھ ساتھ ہم سب دعا کر رہے تھے کے الله پاک اس بچے کو صحت عطا کرے، مگر الله پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا.


بچے کی سانسیں آہستہ آہستہ تھمنے لگیں مجھ کو لگا کے بچا اب شاید نارمل ہو رہا ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا پتہ نہیں کب کی کب میں اس بچے کی سانسیں پوری طرح تھم چکی تھی اور بچے کا جسم بلکل سکوں کی حالت میں آچکا تھا، اس بچے کے باپ نے جب بچے کو زور زور سے آوازیں دینا شروع کاری اور چیخنے لگا تو اسی وقت اندازہ ہوا کہ اب یہ بچہ ہمارے درمیان نہیں رہا. میری حالت کا کیا لکھوں ٹینٹ کے باہر موجود کارکن اندر آئے اور بچے کی طرف دیکھا میری حالت بھی سہی آہی تھی، ایک بچہ ہماری پوری کوشش کے باوجود ہم کو چھوڑ کر جا چکا تھا. ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، بچے کا باپ مقامی زبان میں چیخ چیخ کر الله سے فریاد کر رہا تھا. میں اب بھی کسی معجزے کی امید کر رہا تھا، (یہ بھی بھول گیا تھا کے معجزے تو الله کے بہت خاص بندوں کے لئے ہوتے ہیں، ہم تو بہت گنہگار لوگ ہیں. ہماری دعا بھی جانے قبولیت کی کس منزل پر جا کر روک جاتی ہوگی).


اس بچے کا نام گلریز خان تھا، والد نہ نام اباسین خان.  اس بچے کو  پچھلے ٣ہفتوں سے بخار کی شکایات تھی جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی، جس گاؤں سی یہ لوگ آئے تھے وہاں ڈاکٹر تو کیا کوئی ڈسپنسری بھی موجود نہیں. دتہ کھل میں صرف ایک اسپتال ہے وہ بھی نام کا جہاں ہمارے پاس موجود ادویات سی بھی کم ادویات ہوتی ہیں. یہ لوگ ہمارے میڈیکل کیمپ کا سن کر اس بچے کو یہاں لائے تھے اس امید پر کے شاید ہم اس بچے کے لئے کچھ کر سکیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا یہ بچا ہمارے ہی سامنے دم توڑ گیا اور ہم صرف دیکھتے ہی رہ گئے. عدنان بھائی ٹینٹ سے باہر جا چکے تھے. اکرم بھائی نہیں ہم سب کو ہمت دلائی، بچے کے گھر والوں سے مقامی زبان میں بات کر کے اس بچے کو واپس لے جانے کا انتظام کرنے چلے گئے. بچے کے ساتھ آئے ہوے ایک اور صاحب نے بچے کے پیروں کو اپس میں جوڑ کر انگھوٹوں میں گرہ لگی سر اور منہ کے درمیان پٹی باندھی اور بچے کے اپر ایک چادر ڈال دی، میں تھوڑا سمبھلا تو دوسرے بچے کی فکر ہوئی اس بچے کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی، میں نے لڑنے والے انداز میں دوسرے بچے (اسد) کے گھر والوں کو سمجھانا چاہا کے خدا کے لئے اس بچے کو مرنے سے بچا لو، ہم لوگ بہت کمزور ہیں، ہمارے پاس اتنی ادویات اور انتظام نہیں کے اس بچے کا سہی علاج کر سکیں، آپ لوگ اس بچے کو ابھی میران شاہ لے جو شاید وہاں اس بچے کا سہی علاج ہو سکے، بچے کے ساتھ موجود اس کے بھائی اور والد نے رقم نہ ہونے کا کہا میں نے بلال کو عدنان  بھائی کو اندر بولنے کے لئے کہا، وہ عدنان بھائی کو بلا لایا تو میں نہیں ان کو سری صورت حال سے آگاہ کیا. جواب میں انہوں نے کہا کے ہم کچھ انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں. میرے پاس اپنے ١٥٠٠ (پندرہ سو روپے) تھے وہ میں نے عدنان بھائی کو دے عدنان بھی نی باہر جا کر باقی ساتھیوں کے سامنے ساری بات رکھی اور قریب ٣٠٠٠ (تین ہزار روپے) جمع کر کے دوسرے بچے (اسد) کے والد کو دیے. اتنی دیرمیں اکرم بھائی بھی واپس آگئے تھے، انتقال کے ہوے بچے کو واپس اس کے گاؤں منتقل کرنے کے لئے ایک خچر گاڑی کا انتظام ہو چکا تھا. ہلکی بارش کی وہا سے راستے خراب تھے اسی لئے کوئی اور گاڑی شاید وہاں نہیں جا سکتی تھی، میں نی خود آج صبح یہاں صرف کچھ موٹر بائیک ہی دیکھی تھی یا ایک ڈاٹسن جیپ اس کے علاوہ مجھ کو کہی کوئی دوسری گاڑی نظر نہیں آئی. بچے (گلریز)  کے والد نے اپنی تنگدستی کے بارے میں بتایا ان کے پاس بھی کفن دفن کے لئے کوئی انتظام نہیں تھا. ٹیم آشیانہ کے پاس ہر وقت ٨-١٠ کفن موجود ہوتے ہیں (عدنان بھی کے مطابق، ہم کو اپنے کفن کا کپڑا ایسے حالت میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہیے)، ایک اور ساتھی نے عدنان بھائی کے کہنے پر ان کے والد کو کفن کا کپڑا دیا اور ساتھ کچھ رقم (شاید ١٠٠٠ روپے) دی. بچے کے والد اور گھر والے کافی سمبھل چکے تھے اور سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھر (گاؤں) پہنچ جانا چاہتے تھے، بچے کو لے جانے کی  تیاری کری. دوسرے بچے کو ایک اور خچر گاڑی سے میران شاہ منتقل کرنے کا انتظام ہو چکا تھا. ایک مقامی ساتھی بچے کی دیکھ بھال کی غرض سی ان کے ساتھ رہا تھا. پہلے انتقال ہوے بچے (گلریز) کو رخصت کرنے کی تیاری ہوئی. میں جو بہت دیر سے بہت ضبط، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر رہا تھا اب برداشت نہ کر سکا، (میں نے اس بچے پر بہت  محنت کری تھی،  مگر مری اور ہم سب کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، کاش کے ہم اس بچے کے والد کو کل ہی سمجھا سکتے اور ان کے جانے کا انتظام کر سکتے) مگر کوئی کیا کر سکتا ہے ہم ان لوگوں سے لڑ نہیں سکتے، یہ لوگ بھی جب پانی سر سی گزر جاتا ہے  کچھ سمجھتے ہیں. ہم سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہم کو حوصلہ دیا اور  سمجھایا کے اسی میں الله کی رضا تھی. (کاش کے ہم الله کی رضا کو سمجھ سکیں) 
یہ لوگ گلریز کو لے کررخصت ہوے،  عدنان بھائی جو بہت ہمت اور صبر والے ہیں نے بھی ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے. اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئے، میں ان کی طرف جانا چاہتا تھا مگر مجھ کو دوسرے ساتھیوں نے روک دیا. سب نے یہی کہا کے اس وقت عدنان بھائی کو اکیلا ہی رہنے دو.  (شاید یہ ہدایت خود عدنان بھی نے دی ہوں). دوسرے بچے اسد کو میران شاہ لے جایا جا چکا ہے، الہ پاک اس بچے کو صحت دے اور میران شاہ میں موجود طبی سہولیات سے اس بچے کا علاج ممکن ہو سکے - آمین.


میں آج اس سے زیادہ اور کچھ نہیں لکھ سکتا. مایوسی حرام ہے، مجبوری کا رونا کمزور لوگ روتے ہیں تو ایسے میں میں خود کو اور ٹیم آشیانہ کو کیا سمجھوں؟ خود کو کیسے  دوں؟ یہی پاکستان ہے جہاں ایک طرف علاج کی بہترین سہولیات سے آراستہ اسپتال ہیں جہاں اس ملک کے امرا اور سرکاری لوگ علاج کرتے ہیں، یہی پاکستان ہے جہاں سڑکوں پر لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، اور یہی پاکستان ہے جہاں دتہ خیل میں خسرہ کی بیماری میں مبتلا ایک بچہ صرف اس لئے مر جاتا ہے کے اس پورے علاقے میں ڈاکٹر تک موجود نہیں. (اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا نہ ہی لکھنا چاہتا ہوں)


=============================================
امی کے نام:
پیاری امی جان، اسلام و علیکم و قدم بوسی!
آپ کو ایک خط لکھا ہے جانے وہ خط کب آپ کو ملے، جس جگہ میں موجود ہوں یہاں کسی بھی قسم کا رابطہ کرنا ممکن نہیں، یہاں بجلی تک نہیں تو موبائل فون یا کسی اور چیز کا انتظام نہیں. اور ہم لوگ (ٹیم آشیانہ) خود کے لئے دو وقت کے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے توکسی اور چیز کا انتظام کس طرح ممکن ہے؟ 
آج آپ کے بیٹے کے سامنے جو خود کو ایک جذباتی اور بہت اچھا فلاحی کارکن سمجھتا ہے، ایک بچہ اپنی جان سے گیا، مجھ کو اچھی طرح یاد ہے جب بھی کراچی میں خسرہ کی وبا کا امکان ہوتا ہے آپ ہم سب کو اور گھر کے بچوں کے لئے کس طرح گھریلو ٹوٹکوں اور ادویات کا انتظام کرتی ہیں. یہاں رابطہ نہ ہونے کے سبب میں آپ سی کچھ بھی نہ پوچھ سکا. بس جو کچھ یہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر کر سکتا تھا کیا. آپ کسی بھی طرح فریال باجی سے رابطہ کر کے ان کو کچھ احتیاطی تدابیر بتائیں. یہاں خسرہ بہت تیزی سے پھل رہا ہے. 
امی جان، میں یہاں خود کو سبب کے ہوتے ہوے بھی بہت کمزور، تنہا اور بے بس سمجھ رہا ہوں، سچ کہوں تو میں واپس آنا چاہتا ہوں، مگر پھر سوچتا ہوں کہ واپس تو آنا ہی ہے. تو کیوں نہ کچھ اور وقت یہاں کے لوگوں کے لئے کچھ کم کر کے ہی آؤں. میرے لئے بہت بہت بہت دعا کریں، میں کمزور نہیں ہونا چاہتا، آپ کا بتا ہوں اور آپ کی سکھائی ہوئی ایک ایک بات پر عمل کرتا ہوں. نماز پڑھتا ہوں دل سی الله سی فریاد کرتا ہوں. ہر وقت یہی امید کرتا ہوں کے الله پاک غیب سی ہماری مدد کرے گا مگر ابھی تک کوئی مدد نہیں ملی. مگر امید کم نہیں ہونے دیتا. یہاں کے حالت کا علم آپ کو میری ڈائری پڑھ کر ہو رہا ہوگا. آپ ہم سب کی ہمت کے لئے اور مدد کے لئے دعا کریں، باقی حالات کا علم آپ کو میرے خط ملنے پر ہو جاۓ گا. 
آپ کی بہت یاد آتی ہے. آپ کا خط میری جیب میں ہی پڑھا رہتا ہے. ساتھ ہی ان بچوں کے لئے بھی دعا کریں جو یہاں بری حالت میں ہیں. یہاں کے لوگنو کے لئے بھی دعا کریں کے الله پاک ان سب کو مشکلات سی نکالے. 
انشا الله بہت جلد ملاقات ہوگی.
آپ کا بیٹا.
دعاؤں اور مغفرت کا محتاج                                             
   

 


Thursday 19 July 2012

آج کی ڈائری کا بقیہ صفحہ: میڈیکل کیمپ کا مکمل احوال

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
 پوسٹ میں لکھ دیا  تھا کے ڈائری اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے اور جتنی ڈائری اپ ڈیٹ ہو سکتی تھی کر کے یہاں لکھی جا رہی ہے. ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اس ڈائری کو ایک کہانی سمجھ کر نہ پڑھیں یہ ٹیم آشیانہ کے کام اور شمالی وزیرستان کے حالات کے بارے میں ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی سچی آپ بیتی ہے، جس کو یہاں لکھنے کا مقصد ٹیم آشیانہ کے کارکنان کے گھر والوں کو یہ بتانا ہے کے ہم لوگ شمالی وزیرستان میں کیا کر رہے ہیں اور اپنے دوستوں، ساتھیوں، اور پڑھنے والوں کو شمالی وزیرستان کے زمینی حقائق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے. ہم امید کرتے ہیں کے تمام پڑھنے والے ٹیم آشیانہ اور شمالی وزیرستان میں رہنے والوں کے مسائل کو سمجھتے ہوے ہم سب کے لئے خصوصی دعا کریں گے.
اور اب باقی کی ڈائری.
========================================================================
 ڈاکٹر آصف کے کہنے پر میں انہی کے پاس رک گیا. میرا دل اندر سے بہت بے چین ہے، ہم لوگ کہاں تک دیکھیں اور کیا کیا دیکھیں؟ کیا یہاں کے حالت دوسری فلاحی تنظیموں کو نہیں پتا؟ کیا شمالی وزیرستان کے بارے میں سب اندھے، بہرے، لولے لنگڑے ہو گئے ہیں؟ کیا ان بچوں کو اور یہاں کے لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ پورے پاکستان کی سر زمیں یہاں کے لوگوں پر تنگ کر دی گئی ہے، یہ کہیں جا نہیں سکتے، کوئی یہاں آنا نہیں چاہتا ہے؟ تو اکھڑ یہ لوگ ایسے ہی سسکتے بلکتے مر جائیں گے؟ ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا؟ پھر خود ہی کو سمجھایا کے یہاں سے باہر کے لوگ اس علاقے کو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں. جب تک کوئی یہاں آے تب تک ہم کو ہی جتنا بھی بن پڑے یہاں اپنا فرض پورا کرنا ہے. اسی سوچ کے ساتھ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے کام میں ہاتھ بٹاتا رہا. عدنان بھائی اور دیگر ساتھی وقفے وقفے سے ہمارے پاس آکر حالات کا جایزہ لیتے رہتے اور ہم کو ادویات کی صورت حال سے آگاہ کرتے رہتے. 
شام کے ٤ (چار) بجے:
جو تین (٣) بچے شدید بخار کی حالت میں اس میڈیکل کیمپ میں لائے گئے تھے ان کی حالت سہی نہیں ہو رہی تھی اور جو خاتون کو ڈرپ لگ رہی تھی وہ بھی تکلیف میں اضافے کا اظہار کر رہی تھی. ڈاکٹر آصف نے ایک دفع پھر ان چاروں کا چیک اپ کیا. اور اس کے بعد جو کہا وہ ہم سب کو لرزہ دینے کے لئے کافی تھا. خاتون کے پاس اب زیادہ وقت نہیں تھا (دو ہی راستے تھے، ایک یا تو ان خاتون کو ابھی میران شاہ روانہ کر دیا جاۓ، یا ان خاتوں کے گھر والوں سے معافی مانگ کر ان کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا جاۓ). دونوں ہی راستے ہمارے لئے دشوار تھے، اکرم بھی اور باقی ساتھیوں کے سامنے صورت حال رکھی گئی تو وہ تھوڑا دیر میں واپس آنے کا کہ کر کہیں چلے گئے، ایک اور بچا جو شدید بخار میں مبتلا تھا اس کی حالت بھی بہت خراب تھی اس بچے کو بھی کسی اسپتال کی ضرورت تھی، ٹیم آشیانہ تو ایک عام سا میڈیکل کیمپ لگا کر بیٹھی ہے، ہمارے پاس اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی سامان اور ادویات میسر نہیں ہیں. لہذا اس بچے کو بھی میران شاہ لیجانے کے لئے کہا گیا. ان بچوں اور خاتون کے گھر والوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ یہ اپنے پیاروں کو بہتر علاج کے لئے  میران شاہ لے جائیں، ہماری بدقسمتی یہ ہے کے ہم پشاور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود اپنے کارکنان سے کوئی رابطہ کر کے کچھ کرنے کا کہہ سکیں. ادھر ہماری پاس ادویات کا ذخیرہ بھی ختم ہو رہا تھا، ہلکی ہلکی بارش نی سر ماحول ہی بدل دیا. الله پاک بھی ہم کمزور انسانوں کو کس کس طرح کے امتحانات میں ڈال کر آزماتا ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا. ہمارے رجسٹر کے مطابق آج صبح سے اب تک ہم ٨٠ (اسی) کے قریب بیمار لوگوں کو دیکھ چکے ہیں، مزید مریضوں کو دیکھنے کے لئے اب وقت اور ادویات میسر نہیں، ڈاکٹر صاحب بھی واپس میران شاہ جانا چاہتے ہیں.
اکرم بھی عصر کی نمز کے وقت واپس آے تو ہم لوگ اپنا میڈیکل کیمپ سمیٹ رہے تھے. بچے اور خاتون ابھی تک ہمارے کمپ میں موجود تھے، صرف ایک بچے کا بخار ١٠١ پر آیا تھا باقی دونوں بچے بری طرح بخار میں تپ رہے تھے. ڈاکٹر آصف کے ساتھ ساتھ ہم سب لوگ اس صورت حال پر بہت زیادہ پریشان تھے کہ اکرم بھائی نے ایک گاڑی کا انتظام کر دیا اور ہم نی کسی نہ کسی طرح سمجھا کر ایک بچے اور ان خاتون کو اس گاڑی میں سوار کرایا اور میران شاہ کے لئے روانہ کیا. باقی دو بچوں کے گھر والے ان بچوں کو میران شاہ لیجانے پر تیار نہیں تھے وہ ہمارے ساتھ ہی رات گزر کر صبح واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے.  اور ہمارے لئے ان بچوں کو ایسی حالات میں اپنے ساتھ رکھنا بہت بڑا رسک ہو  سکتا تھا.آج کے میڈیکل کیمپ میں دو دفع ہم کو یہاں کے لوگوں کے غصے کا سامنا کرنا پر صورت حال کو اکرم بھائی، عدنان بھائی اور یہاں کے مقامی ساتھیوں نے ہی سمبھالا نہیں تو آج ہی ہمارا جانے کا حال ہوتا. ایسے میں ان بچوں کی حالت اور یہاں رکھنا خطرناک تھا، ہمارے بہت سمجھنے پر بھی یہ لوگ نہیں مانے اور ہم کو مجبورن ان بچوں کی وجہہ سے ڈاکٹر آصف کو اپنے ساتھ رکنے کے لئے مجبور کرنا پڑا. ڈاکٹر صاحب تھوڑا حیل حجت کے بعد رضامند ہو گئے. اثر کی نماز پڑھ کر ہم لوگ تھوڑا دیر  کے لئے آرام کرنے کی غرض سے ادھر ادھر بیٹھ گئے. میں نہیں ایک دفع پھر اپنی جیب سے امی کا بھیجا ہوا خط نکالااور پڑھنے لگا. تھوڑا دیر میں عدنان بھائی بھائی بھی آگئے اور پشاور سے فریال باجی کا بھیجا ہوا خط نکل کے مجھ کو دیتے ہوے کہا کے تم پڑھ لو کے فریال باجی کیا کہ رہی ہیں. میں نی امی کا خط اپنی جیب میں رہا اور فریال باجی کا خط پڑھنے لگا. جیسے جیسے میں خط پڑھ رہا تھا میری آنکھوں سے آنسو خود بخود نکلتے جا رہے تھے. میں یہاں وہ خط نہیں لکھ سکتا مگر اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کے عدنان بھائی اور فریال باجی جیسے لوگ مجھ کو اس دنیا کے نہیں لگتے، فریال باجی ایکچے خاصے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں کینیڈا میں اچھی خاصی نوکری کرتی ہیں. اچھا خاصا کما لیتی ہیں مگر یہ کیسا جانوں ہے جو ان جیسی خاتون کو یہاں (پاکستان) لے کر آگیا ہے. اور وہ یہاں (ہمارے پاس شمالی وزیرستان) آنے کے لئے بری طرح تڑپ رہی ہیں. مگر عدنان بھائی نی ان کو وہی (پشاور) میں (بوجھ) روک رکھا ہے. فریال باجی کے خط سے اندازہ ہوا کہ ٹیم آشیانہ کے کارکنان اور ہمدردوں کو یہاں کے لئے امداد جمع کرنے میں کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے. الله پاک ہماری مدد کے اسباب مہیا کرے اور انسانو کے دکھ، تکالیف کو سمجھنے والے لوگوں کو یہاں (شمالی وزیرستان) میں مدد کرنے کے لئے بھیجے. مجھ کو پورا یقین ہے یہاں سرکار جب اے گے جب یہاں انسان نہیں صرف زمیں ہی بچے گے. اور سرکار نے آکر یہاں پاکستان کے جھنڈے ہی لہرانے ہیں، اس سے زیادہ سرکار کچھ بھی نہیں کر سکتی.  جو کرنا ہے یہاں کے لوگوں کو خود ہی کرنا ہے، ہم (ٹیم آشیانہ) بہرحال کسی بھی طرح بارے پیمانے پر یہاں کے انتظام کو چلانے میں کوئی مدد نہیں دے سکتی. 
ہم آج کے میڈیکل کیمپ کے بارے میں اور حالات کے بارے میں بات کرتے رہے اور آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے رہے.. اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا. (یہاں آنے کا سب سے بڑا  فائدہ مجھ نافرمان کو یہ ہوا کے تمام نمازیں با جماعت ادا کر رہا ہوں) الله پاک کا شکر اور احسان ہے مجھ پر کے اس نے مجھ کو اپنی بارگاہ میں سجدہ کرنے کی توفیق عطا کری.
نماز مغرب سے فارغ ہو کر ہم نی رات کے کھانے کی تیاری کری، ڈاکٹر آصف ہمارے ساتھ ہی تھے اور بچوں کی بگڑتی حالت  پر بہت فکرمند، میں نی بلال (محسود) کو کہا کے وہ آج یہاں ہی روک جاۓ اور بچوں کے ساتھ رہے، میں خود بھی بچوں کے تیمارداری کے لئے ان کے ساتھ رہوں گا. آج دن میں جو کھانا پکا (دال  چاول) وہی کھانا رات کے لئے بھی تیار ہو رہا تھا. یہاں سب سے سستا اور جلدی تیار ہونے والا کھانا یہی (دال چاول) ہی ہے. 
ہم سب نے الله کا شکر ادا کر کے کھانا کھایا اور میں بلال اور ڈاکٹر آصف کے ساتھ بچوں (جو بیمار ہیں) کی طرف آگیا. ایک اور بچے کی حالت بگاڑ رہی تھی اور اس کے گھر والے رو رہے تھے، اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا ہمارے پاس جو بھی ادویات ہیں ہم انہی کو استعمال کر رہے ہیں. الله پاک ہی شفا دینے والا ہے. ہم تھوڑا تھوڑا دیر میں بچوں کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہے تھے کبھی ہاتھ دھلاتے  اور کبھی پیر دھلاتے. دل ہی دل میں الله سے دعا کرتے کے کہ الله پاک ان بچوں کو زندگی دے، صحت  دے، ہم سے جو ہو سکتا ہے ہم کر رہے ہیں اب اللہ پاک ہی ان بچوں کو صحت اور شفا دینے والا ہے. 
 مجھ کو تھکن اور اتنے دباؤ میں کام کرنے کی وجہہ سے سر درد ہو رہا تھا اور چائے کی طلب ہو رہی تھی، (میں بہت زیادہ سگریٹ پیتا ہوں اور پچھلے کچھ دنوں سے، جب سے یہاں آیا ہوں سگریٹ میں بہت کمی آگئی ہے مگر اس وقت مجھ کو چائے اور سگریٹ دونو کی ہی طلب ہو رہی تھی) . میں نی چپکے سے اکرم بھائی اور بلال کو اپنی اس حاجت کے بارے میں بتایا. اکرم بھائی نےکہا "ابھی تھوڑا دیر میں پوری ٹیم (کارکنان) کے لئے چائے کا انتظام کر دیتا ہوں اور آپ (میرے لئے) سگریٹ بھی لےآتا ہوں آتا ہوں. شام مے ہوئی ہلکی بارش کی وجہہ سے  موسم کافی اچھا ہو گیا تھا مگر دل کا موسم بہت خراب. 
تھوڑا دیر میں چائے اور میری سگریٹ بھی آگئی، اکرم بھائی کا  ادا کیا اور بلال کو ان بچوں کے پاس چھوڑ کر خود باقی کارکنان کے ساتھ چائے  پینے چلا گیا.ان بچوں کے ساتھ جو مرد حضرات تھے ان کو بھی چائے دی گئی. وہ وہی اپنے بچوں کے ساتھ ہی  رکے رہے. تمام کارکنان کچھ مقامی لوگوں کے ساتھ ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے اور حالات پر اپنی اپنی رائے دے رہے تھے. میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا تو کچھ لوگوں نے مجھ سے میرے  کے بارے میں پوچھا، میں نی  " دیا،آج پہلا دیں تھا اور بچےآہستہ آہستہ پڑھائی سے مانوس ہونگے. پھرعشا کی نماز کا وقت ہو گیا اور اسی وقت ہم کو پتا لگا کے آج سے ٢-٣ دیں میں ماہ رمضان شروع ہونے والے ہیں. میں جب سے یہاں آیا ہوں جب سے ہی نہ وقت کا پتہ چلتا ہے نہ ہی دیں کا نہ ہی مہینے کا. جب کوئی خاص بات ہوتی ہے تو ہی پتہ لگتا ہے کے آج کیا دیں ہے اور کیا تاریخ ہے. 
نماز عشا ادا کر کے میں، بلال، عدنان بھائی اور اکرم بھائی ڈاکٹر آصف کے ہمراہ بچوں کی طرف آگئے. مقامی  اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، باقی کارکنان نے ایک اورٹینٹ میں اپنے سونے کا انتظام کیا. پہلے ہم دو (٢) ٹینٹوں میں سوتے تھے آج اس ایک ٹینٹ میں بچے اور ہم لوگ بیٹھے تھے تو ایک ہی ٹینٹ ہے جہاں ان ٣-٤ لوگوں کو سونا ہوگا. میں اپنے ساتھ ڈائری لے کر بیٹھا ہوا ہوں. ایک طرف موم بتی جل رہی ہے اور دوسری طرف ایک لالٹین جل رہی ہے، دونوں بچوں کو ڈرپ لگی ہوئی ہے اور ابھی تک دونوں بچوں نی ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے (بخار کبھی کم ہوتا ہے کبھی تیز) ڈاکٹر صاحب پوری توجہہ  ان بچوں پر رکھے ہوے ہیں. الله پاک ان بچوں کو صحت، تندرستی دے، امین 
میں اس وقت (شاید رات کے ٩-١٠ بج رہے ہیں) تھکن سے برا حال ہے. ہلکی بارش ایک دفع پھر شروع ہو چکی ہے. اور یہ ڈائری لکھ رہا ہوں. عدنان بھائی مجھ کو آج کافی دفع بہت احتیاط سے یہ ڈائری لکھنے کے لئے کہ رہے ہیں. اور میں اپنے ان دوستوں سے کہتا ہوں جو یہ ڈائری اپ ڈیٹ کرتے ہیں کے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاۓ، الفاظ میں غلط انتخاب ہوجاۓ  تو آپ لوگ سہی طرح سے لکھ لینا. میں یہاں بہت دباؤ میں ہوں اور شاید اپنی ذاتی جھنجھلاہٹ کا اظہار ڈائری میں کر دیتا ہوں. 

آج کی ڈائری لکھتے لکھتے میں بھی تھک گیا ہوں. پورا احوال ہی لکھ ڈالا. دونو بچے سو رہے ہیں بلال بھی سو گیا ہے، عدنان بھائی اور اکرم بھائی  کسی کتاب کو پڑھ رہے ہیں. اور میں اپنی یہ ڈائری ختم کر کے اب تھوڑا لیٹوں گا. بچوں کے ساتھ ہے ہووے مرد حضرت ابھی ہیں رہے ہیں. ڈاکٹر آصف نماز ادا کر رہے ہیں .

الله حافظ 
انشا الله کل کی ڈائری وقت پر لکھ کر روانہ کرنے کی کوشش کروں گا.
آپ کی دعاؤں کے محتاج 
کارکنان، ٹیم آشیانہ 
دتہ خیل، شمالی وزیرستان.
      

دتہ خیل میں اسکول کا پہلا دن اور میڈیکل کیمپ کی داستان

اسلام و علیکم 
محترم دوستوں اور ساتھیوں آج صبح ہمارا رابطہ ٹیم آشیانہ سے ممکن ہو سکا ہے، ٹیم کے کارکن کی ڈائری کے کافی صفحات ایک ساتھ موصول ہوے ہیں جن کو ضروری تدوین اور ایڈیٹنگ کے بعد یہاں لکھا جا رہا ہے. یاد رکھیں کہ یہ ڈائری ١-٢ دن پرانی ہے.
========================================================================

اسلام و علیکم،
سب سے پہلے کچھ اپنے بارے میں لکھتا ہوں، گوشتہ شب جب ہم لوگ یہاں (دتہ خیل) کے بزرگوں سے مل کر اور اپنا چھوٹا سا اسکول چلانے کے اجازت لے کر آئے ہیں، میرے دل میں ایک عجیب سی بیچینی ہو رہی ہے. کچھ ہے جو  نہیں آرہا ہے. میں نی کراچی سے آیا ہوا اپنی امی کا خط بھی نہیں پڑھا کہ جانے اس میں کیا حالات لکھ ہونگیں. امی کو یہاں کے حالات کا کچھ علم نہیں ہے. بہت پریشان ہونگی. میں پہلے آج کے دن ہوے سارے معملات کو ایک دفع پھر سے سوچنا چہ رہا تھا اور نہیں چاہتا تھا کے کوئی ذاتی خیال میرے دل اور دماغ پر حاوی ہو.
میں نے پہلے امی کا خط پڑھنے کے لئے کھولا، خط کیا ہے ایک کتاب ہے. میری خیریت، اور اپنی خیریت، کراچی کے حالات، بہنوں کے خیریت، دوستوں اور احباب کی میرے بارے میں فکر، اور بہت سری نصیحتیں. میرے کھانے پینے کے بارے میں احتیاط، کچھ کراچی کا احوال اور بہت کچھ، اکھڑ میں امی کا بہت سارا پیار. آنکھوں میں آنسو آگئے. اور خیال آیا کے کتنا خوش نصیب ہوں کے میری ماں ہے. اور خیال آیا یہاں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ماں نہیں ہے. میں نے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی آنکھیں بند کریں اور امی سے باتیں کرتا چلا گیا. کب آنکہ لگی پتہ نہیں. 

صبح فجر کی نماز پر ایک ساتھی کارکن نے جگایا، جاگا تو احساس ہوا کے میں گھر پر نہیں ہوں بلکے گھر سے بہت دور شمالی وزیرستان میں موجود ہوں. جلدی جلدی اٹھ کر نماز کی تیاری کری. نماز ادا کرتے ہی ہم سب کو ہماری آج کی ذمہداریوں سے آگاہ کیا گیا. (گزشتہ شب جو سامان ہمارے ساتھیوں نی ہم کو یہاں بھیجا تھا اس کو دیکھ لیا گیا تھا اور تمام سامان کی ایک لسٹ بنا کر اگلے کاموں کی تیاری کر لی گئی تھی). میرے پاس پہلے سے ہی اسکول کا کام موجود تھا جس کے لئے مجھ کو آج سے عملی کام کرنا تھا. تو مجھ کو اور میرے ساتھ بلال اور ایک دوسرے کارکن کو روک دیا گیا. باقی کارکنان ایک میڈیکل کیمپ   لگانے کی تیاری میں لگ گئے. امدادی سامان بہت کم مقدار میں تھا اسی لئے میڈیکل کیمپ یہیں (آشیانہ کیمپ، دتہ خیل) لگانے  کا فیصلہ کیا گیا تھا. نماز فجر کے وقت تمام قریبی مساجد اور جگہوں پر بتا دیا گیا تھا کے آج یہاں ایک فری میڈیکل کیمپ لگایا جا رہا ہے. (شمالی وزیرستان) کے لوگ نماز فجر کے وقت جاگ جاتے ہیں اور نماز کے بعد جس کے جو کام ہوتے ہیں وہ نمٹاتے ہیں، بڑے شہروں کی طرح یہاں دیر تک جاگنے اور کام شروع کرنے کا رواج نہیں ہے). ابھی میڈیکل کیمپ پوری طرح ترتیب بھی نہیں دیا گیا تھا کہ مقامی افراد کی آمد شروع ہو گئی. میں میڈیکل کیمپ سے قریب ہی بیٹھا کچھ کاغذات ترتیب دے رہا تھا اور بلال کو سمجھا رہا تھا کے اپنے دوستوں اور دوسرے بچوں کو کس طرح سمجھا کر یہاں لانا ہے. یہ کام اتنا آسان نہیں تھا. گزشتہ شب ہوئی ملاقات کے بعد میرے لئے اور مشکلات کھڑی ہو چکی تھی جن سے بہت احتیاط اور تحمل کے ساتھ نکلنا تھا. 

آشیانہ اسکول کا پہلا دن:
قریب ٩ بجے بلال (محسود) اپنے کچھ دوستوں کو جن کی تعداد ٢٥ کے لگ بھگ ہوگی جمع کر کے لے آیا، میں نے ان بچوں کے ساتھ بہت شفقت اور پیار سے ہاتھ ملایا ان کے سروں پر ہاتھ رکھا اور انتہائی دوستانہ رویہ اختیار کیا. (ان کے بڑوں کے دماغ شاید ہم کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں مگر ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے ہم کو ان بچوں کے ساتھ بچا بن کر اور ان کا دوست بن کر ہی کام کرنا ہوگا) 
میں نے سب بچوں کو ایک ترتیب سے بٹھانا شروع کیا جس کے لئے بلال نے میری مدد کاری، میرے ساتھ موجود دوسرے کارکن کو میڈیکل کیمپ کے لئے بلوا لیا گیا تھا. میرے لئے مشکل یہ تھی کے اکثر بچے اردو بھی سہی طرح نہیں جانتے تھے اور میں بہت مشکل سے مقامی زبان کو اب تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگا تھا نہیں تو ہمیشہ مقامی لوگوں سے بات کرنے کے لئے ایک ترجمان کی ضرورت رہتی ہے.بلال اس وقت میرے لئے ایک ترجمان کا کردار ادا کر رہا تھا اور بہت اچھی طرح اپنے کام کو کر رہا تھا. میرے پاس ابھی کوئی بلیک بورڈ وغیرہ نہیں تھا اسی لئے بچوں کے ہاتھوں میں ایک ایک کاپی اور پنسل دے دی تھی    اور بلال کو کہا تھا کے جیسا میں کرتا ہوں ویسا ہی بچوں سے کروانے کی کوشش کرے. 
آج میں نے اردو کے پہلے لفظ الف ( ا) سے شروع کیا. اور الف (ا) سے الله ہی بولا اور الله کی تعریف میں حمد و ثنا پڑھی. بچوں نی اس انداز کو پسند کیا. پھر الف سے شروع ہونے والے باقی الفاظ جیسے جگہوں کے نام، چیزوں کے نام، مشہور اشخاص کے نام  وغیرہ بولے اور سمجھانے کی کوشش کری. بلال نے اضافہ کیا، الف سے اسلام بھی آتا ہے. اور میں نے  کہا، الف سے اسلام آباد بھی آتا ہے، یہاں بہت سے لوگوں کو پاکستان کے شہروں تک کا ہی پتہ نہیں.  میں نے بہت ہلکا سا بتایا. ان سب میں دن کے گیارہ (١١) بج گئے تھے. ادھر میڈیکل کیمپ پر رش بھی کافی بڑھ گیا تھا اور میں ٹیم آشیانہ کے کارکنان پر بڑھتے ہوے دباؤ کو محسوس بھی کر رہا تھا. میں نے بلال کو بچوں کو واپس روانہ کرنے کا کہا اور کچھ بچے خوشی خوشی کاپی  اور پنسل لے کر چلے گئے کچھ بچے روک گئے وہ میڈیکل کیمپ میں خود کو دکھانا چاہتے تھے بظاھر ان بچوں میں کوئی تکلیف یا بیماری نظر نہیں آرہی تھی مگر میں ان بچوں کو منع نہیں کرنا چاہتا تھا. میں جلدی جلدی اپنے کم کو سمیٹ کر میڈیکل کیمپ میں پہنچ گیا. 

ٹیم آشیانہ کا میڈیکل کیمپ:

یہاں (میڈیکل کیمپ) آکر احساس ہوا کہ آج مریضوں اور لوگوں کا رش کچھ زیادہ ہے. وجہہ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی. میڈیکل کیمپ میں صرف ایک ڈاکٹر (ڈاکٹر آصف) موجود تھے جو کہ میران شاہ سے تشریف لائے تھے اور ان کا انتظام اکرم بھائی نے کیا تھا. پیرا میڈیک صرف ٣ تھے باقی کارکنان نظم و ضبط رکھنے کا کام کر رہے تھے،   میں نےعدنان بھائی کو بتایا کہ میں اب فارغ ہوں اور میڈیکل کیمپ کے لئے کام کرنےکو تیار ہوں. انہوں نی مجھ کو فورن ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کو کہا (میں تھوڑا بہت ادویات اور دیگر کے بارے میں جانتا ہوں اور گزشتہ میڈیکل کیمپ کے دوران پیرا میڈیک کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہوں) میں جب ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو وہ بہت زیادہ دباؤ میں کام کر رہے تھے، انکے پاس ایک وقت میں ٥-٦ مریض جمع تھے، میں نیں اپنا مختصر تعرف کرایا اور ان کے ساتھ مریضوں کے تشخیص میں مدد  لگا. اکثر بڑی عمر کے لوگ تھے ، بچوں کی تعداد بہت زدہ تھی اور کچھ اپنے گھر کی خواتین کے بارے میں بتا کر دوا لینا چاہتے تھے. میں ایک کے بعد ایک مرز ڈاکٹر کے پاس بھیجتا اور جب وہ وہا سے فارغ ہوتا تو اس کو دوسری طرف موجود ادویات والے ساتھی کارکن کے پاس بھیج دیتا. جلدی میں ڈاکٹر صاحب کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کے ہمارے پاس کون کون سی ادویات موجود ہیں جس کی وجہہ سے اکثر مریض واپس ہمارے طرف آرہے تھے کہ ان کو دوسری دوا لکھ دی جاۓ. 

ادھر ظہر کی نماز کا وقت بھی ہونے والا تھا اور ہم کو کچھ دیر کے لئے نماز کا وقفہ بھی لینا تھا. (سچ یہ ہے کے مجھ سمیت ٹیم آشیانہ کے اکثر کارکنان نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا، اسی لئے بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی، جس کا اظہر اکثر کارکنان نے کر دیا) اکرم بھائی نے کھانے کے لئے کچھ مقامی لوگوں سے مدد لی تھی نماز کے بعد کھانے کا انتظام کیا گیا تھا. نماز کے وقفے سے قبل مریضوں کا کچھ دباؤ کم ہوا تو مجھ کو ڈاکٹر آصف صاحب سے بات کرنے کا موقع ملا، ڈاکٹر آصف اس سے پہلے بھی ٹیم آشیانہ کے فری میڈیکل کیمپ میں تشریف لا چکے ہیں اور اپنی خدمات مفت فراہم کرتے رہے ہیں. ڈاکٹر صاحب نے مجھ کو میران شاہ میں موجود میڈیکل سہولیات کے بارے میں آگاہ کیا اور اپنی بے بسی کے بارے میں بتایا کہ وہ کس طرح وہاں مجبور ہیں جہاں وہ اپنی خدمات تو دینے کو تیار ہیں مگر اکثر ادویات کی کمی کا سامنا رہتا ہے (جیسا کے آج ابھی کے میڈیکل کیمپ میں ہو رہا ہے). اسی دوران ایک بہت بوڑھی خاتون لائی گیں. ان خاتون کی عمر ٧٠- برس سے اپر ہوگی، نہایت کمزور اور لاغر. پھر بھی مقامی روایات کے مطابق مکمل پردے میں. (میں یہی سوچ رہا تھا کہ ان خاتون کا چک اپ کس طرح ممکن ہوگا، کیونکہ یہاں تو کوئی بھی غیر مرد کسی خاتوں کو دیکھ تک نہیں سکتا) لیکن ڈاکٹر صاحب یہیں کے ہیں اور یہاں کی روایت سے پوری طرح واقف بھی ہیں.ڈاکٹر صاحب نے خاتون کے ساتھ ہے آے ہوے ایک بزرگ سے مقامی زبان میں بات کری اور اور ان خاتون کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ایک پرچے پر لکھتے چلے گئے. ان کے چہرے پر تفکر اور پریشانی کے آثار تھے. خاتون کو بظاھر الٹی، پیٹ میں درد اور کمزوری کی شکایات تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کے بات اس سے کچھ زیادہ ہے. ڈاکٹر صاحب نے خاتوں کو لٹانے کے لئے انتظام کرنے کو کہا اور میرے ساتھ اٹھ کر باہر آگئے. انہوں نے مجھ سے دواؤں (جو ہمارے پاس اس وقت موجود تھی) کی فہرست مانگی جو میرے پاس موجود تھی اور میں نے دے دی. پھر وہ بہت تیزی کے ساتھ دواؤں والی ٹیبل پر ہے خود ہی دواؤں کو دیکھنا شروع کیا اور ایک ڈرپ کے ساتھ کچھ انجکشن لئے اور واپس کیمپ میں جانے لگے ساتھ مجھ کو بھی کہا کے ہم کو کسی بھی طرح ان خاتون کو یہ ڈرپ لگانی ہوگی. اب مسلہ  یہ ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی خاتون پیرا میڈیک یا نرس موجود نہیں ہے تو ان لوگوں کو سمجھانا ہوگا کے ان خاتوں کی زندگی کے لئے ہم کو ڈرپ لگانے کی اجازت دیں. میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اندر (کیمپ) میں داخل ہوا جہاں وہ خاتوں موجود تھیں اور ان کے ساتھ کچھ مرد حضرات بھی موجود تھے. انہوں نی ان بزرگ کو جو ان کے ساتھ موجود تھے مقامی زبان میں سمجھانا شروع کیا جو سمجھ گئے اور ڈاکٹر صاحب کو ڈرپ لگانے کی اجازت مل گئے. ڈاکٹر صاحب نی ان خاتون کو درپ لگائی. کچھ ادویات ان کے ساتھ موجود لوگوں کو دیں اور استعمال کرنے کا طریقے کر بتایا اسی دوران ظہر کی ازاں ہو گئی اور ہم لوگ کیمپ سے باہر آگئے. ڈاکٹر صاحب نے بتایا کے شک ہے کہ ان خاتون کو ایک موزی بیماری (ایچ آی وی) ہے لیکن کچھ ضروری ٹیسٹ ہونا چاہیے جس سے سہی تشخیص ممکن ہو سکے گی. (میں سوچنے لگا اب کیا کریں) یہاں (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) میں ہمارے پاس ضروری ادویات موجود نہیں ان خاتون کے ٹیسٹ کہاں اور کیسے ہو سکے گے؟ اسی سوچ میں نماز ادا کری اور جیسے تیسےکر کے کھانا کھایا اور عدنان بھائی کی پاس آگیا ڈاکٹر صاحب پہلے ہی تمام صورت حال سے عدنان بھائی کو آگاہ کر چکے تھے. عدنان بھائی بھی فکرمند تھے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے. ایک دم انہوں نے ہم سب سے کہا کے چلو ایک دفع پھر نماز والی جگہ پر چلو، پہلے تو ہم کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ ایک طرف ایک دفع پھر میڈیکل کیمپ پر مریضوں کا رش بڑھ رہا تھا، بارش کا بھی امکان تھا. ان خاتون کو ڈرپ بھی لگی ہوئی تھی اور دوسری طرف عدنان بھائی نماز والی جگہ پر لے جا رہے تھے، ہم کو ایک دفع پھر سے وضو کرنے کو کہا گیا ہم سب نے وضو کیا تو عدنان بھائی نے ہم سب کے آگے روتے ہوے کہا کے ہم سب دو رکعت نماز نفل برائے حاجات ادا کریں اور الله کے حضور گڑ گڑا کر، رو رو کر بھیک مانگیں کے وہ ہماری اور ان لوگوں کی مدد کرے غیب سے ہماری مدد کے لئے اسباب مہیا کرے. اور درد دل اور انسانیت رکھنے والوں کو کے دل میں یہاں کے لاچار لوگوں کی مدد کرنے کے لئے درد اور سوچ ڈالے. ہم سب نے ہی نماز ادا کری اور سچی بات یہ ہے کہ جب ہم سب نی ایک ساتھ دعا کری تو ہماری دعا میں مقامی لوگ بھی شامل ہو گئے. عدنان بھائی نے ایک دفع پھر اجتمائی دعا کروائی. جس نے ہم سب پر رقت طاری کر ڈالی. آنسو خود بخود نکل رہے تھے، اور سوچ یہی تھی کے الله پاک ہماری مدد کے لئے اسباب مہیا کرے، اس طرح کی بیماری اگر ان خاتوں میں موجود ہے تو یہ اکیلی نہیں ہونگی اور بھی لوگوں میں یہ بیماری ہو سکتی ہے. دعا کے بعد ہم لوگوں کو ایک دفع پھر میڈیکل کیمپ شروع کرنے کے لئے کہا گیا، عدنان بھائی، اکرم بھائی، میں اور ڈاکٹر صاحب ان خاتون کے پاس آگے ابھی ڈرپ  چل رہی تھی اور خاتون بری طرح کرہ رہی تھی. ان خاتون کے ساتھ جو لوگ تھے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کیمپ کے بہار اور مرز بھی جمع تھے جن کو دیکھنا ضروری تھا. ڈاکٹر صاحب نے مجھ کو کہا کے اس وقت تک موجود ادویات کی فہرست بنا کر ان کو دوں میں اس کام پر لگ گیا اور ڈاکٹر صاحب ان خاتون کے ساتھ لوگوں کو کچھ سمجھانے لگے. میں کچھ ہی دیر میں ابھی تک موجود ادویات کی فہرست بنا کر لے آیا. بلال محسود بھی اپنے گھر اور دوستوں سے فارغ ہو کر آگیا تھا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا. میں جب میڈیکل کیمپ کے اندر گیا تو ڈاکٹر صاحب ان لوگوں کو بتا چکے تھے کے خاتوں کو کس  کی بیماری ہونے کا شبہ ہے. یہ لوگ حالات سے بے  خبر تھے،اس طرح کی بیماریوں کے بارے میں نابلد (ناواقف) اسی لئے صرف یہی کہ رہے تھے کے ان (خاتوں) کو الٹی اور پیٹ درد کی دو دے دو باقی الله شفا دے گا (بے شک الله پاک ہی شفا دینے والا ہے) مگر حکمت اور دوا کے بغیر شفا کیسے مل سکتی ہے. عدنان بھائی اور اکرم بھائی ایک طرف بیٹھ کر ان لوگوں کو میران شاہ (شمالی وزیرستان) جانے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے، فلحال صرف میران شاہ کے ایک سرکاری اسپتال اور ملٹری اسپتال میں ہی کچھ ٹیسٹ اور تھوڑا سہی علاج ہونے کی امید کی جا سکتی تھی. مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا کے یہ لوگ راضی نہیں ہیں. ہم لوگ ابہ دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگے تھے، ان مریضوں میں  خاصی تعداد بچوں کی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کے یہاں (دتہ خیل) اور اس پاس کے علاقوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائےجا سکے ہیں وجہہ مقامی بڑوں اور حکومت کےدرمیان کوئی ٹسل ہے. (الله پاک ان سب کو ہدایت دے آمین). میں نی ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا کے ہم نے اپنی اپیل میں اور ضروری اشیا کی فراہمی کی فہرست میں پولیو کی دوا کے لئے درخواست کری تھی مگر ہم کو نہیں ملی. ویسے بھی ان حالت میں مقامی لوگوں کی مرضی  کے خلاف کام کرنا خود ہمارے لئے اور ہمارے مقصد کے لئے کافی نقصان دے ہو سکتا ہے. ڈاکٹر صاحب خاموش ہو کر دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگے. وہ دوا لکھتے وقت اس بات کا پورا خیال رکھ رہے تھے کے جو دو وہ لکھ رہے ہیں وہ موجود ہو اور بار بار مجھ سے ادویات کی سہی مقدار کا پوچھ رہے تھے. عدنان بھی ان خاتوں کے ساتھ موجود ایک مزرگ مرد کو اپنے ساتھ لے کر باہر جا چکے تھے، ڈاکٹر صاحب درمیان میں ایک دو دفع ان خاتوں کو دیکھنے کے لئے ان کے پاس گئے. 
اچانک ہی ایک اور افتاد آ پڑی، ایک ساتھ ٣ بچے جن کی عمریں ٨-١٢ برس کے درمیان ہونگی ایک ساتھ لائے گئے. ان بچوں کو بہت تیز بخار تھا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کے یہ بچے دتہ خیل سے کچھ دور موجود ایک گاؤں سے لائے گئے ہیں. جہاں ڈاکٹر  یا علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں. ہم اس طرح کی صورت حال کے لئے بلکل تیار نہیں تھے اور نہ ہی ہمارے پاس اس ترہان کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے  کوئی انتظام موجود تھا. پھر بھی ہم نے دوسرے مریضوں کو ایک طرف کھڑا کر کے ان بچوں کو دیکھنا شروع کیا. ان بچوں کا بخار ١٠٣-١٠٤ تھا، شدید بخار کی وجہہ سے یہ بچے نیم بیہوشی کی حالت میں تھے. ڈاکٹر آصف نی بہت پھرتی کے ساتھ ان بچوں کو چیک  کیا اور ہمارے پاس موجود ادویات میں سے کچھ ادوایٹ فورن ان بچوں کو فراہم کری. یہ تینوں بچے خسرہ کی بیماری کا شکار ہیں - ڈاکٹر صاحب نے بتایا اور سہی علاج نہ ہونے اور ادویات نہ ملنے کے سبب خسرہ بہت زیادہ بگڑ گیا ہے. اور ایک دفع پھر وہی مسلہ کے جو ادویات ہم کو چاہیے وہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں. یا الله ہم پر اور ہماری قوم پر رحم فرما، ہم کو اس مشکل اور امتحان سے نکال. ڈاکٹر صاحب نے ان تینوں بچوں کو بھی ایک طرف لٹانے کا اور ان کے بکھر اور حالت کو بار بار چیک کرنے کا کہا، کیمپ میں جگہ ناکافی تھی تو ایک دوسرے کیمپ میں (جس میں آج ہی میں نی اپنا اسکول شروع کیا ہے) اسی میں ان بچوں کو  لٹایا گیا،اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق  ان بچوں کو چہرے اور ہاتھ پیروں کو دستیاب ٹھنڈے پانی سے بار بار دھونے کا انتظام کیا گیا، (ٹھنڈا پانی تو دور یہاں پینے کے لئے صاف پانی تک بہت مشکل سے دستیاب ہوتا ہے) ادویات میں موجود کچھ دعوی ان بچوں کو کچھ وقفوں سے دینا لازم تھا، کچھ اور ادویات کی ضرورت تھی جو ہمارے پاس موجود نہیں تھی. الله کا نام لے کر جو کچھ ہو سکتا تھا شروع کر دیا گیا. ان بچوں کے تعلق الگ الگ گھروں سے ہے، اسی لئے ان کے ساتھ بہت لوگ ہیں جن کو صبر کا کہ کر  ایک طرف بیٹھا دیا گیا. اب مجھ میں اور ہمت نہیں تھی کے میں ڈاکٹر آصف کے ساتھ بیٹھ کر کام کر سکوں میں نے ان کو کہا کے میں ادویات والے جگہ جا رہا ہوں اور ایک اور ساتھ کو یہاں بھیج رہا ہوں تو ڈاکٹر آصف نے کہا کے آپ زیادہ بہتر کام کر رہے ہیں اسی لئے آپ یہاں ہی رہیں. . . . . 
 =======================================================================
دوستوں مزید ڈائری اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے. آج شام تک ڈائری کے سارے صفحات یہاں لکھ دے جائیں گے انشا الله.
جزاک الله
آپ کی دعاؤں  کے محتاج
ٹیم آشیانہ برائے شمالی وزیرستان.
  

Wednesday 18 July 2012

ٹیم آشیانہ (شمالی وزیرستان) آج رابطہ ممکن نہیں ہو سکا

اسلام و علیکم 
محترم دوستوں ہم کو افسوس سے کے دتہ خیل (شمالی وزیرستان) میں موجود ٹیم آشیانہ سے آج ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہو  ہے جس کی وجہہ سے آج ڈائری اپ ڈٹ نہیں ہو سکی، ہم الله پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ٹیم آشیانہ  بھی ہو تمام کارکنان خیریت سے ہوں. 
آپ کو ہوئی زحمت کے لئے ہم معافی چاہتے ہیں.
ٹیم آشیانہ برائے شمالی وزیرستان،
پشاور  


Volunteer Required to work with Team Ashiyana "North Waziristan"

Dear All,
اسلام و علیکم 

Team Ashiyana for North Waziristan is looking for the Volunteers to work with us in North Waziristan.
Please click on the link below for the further details.
Volunteer Required for Team Ashiyana "North Waziristan" Click Here!

Jazak ALLAH Kher
Team Ashiyana
North Waziristan, Pakistan

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
اسلام و علیکم،
ٹیم آشیانہ کو اپنے فلاحی کاموں میں شدت اور مکمل کرنے کے لئے فلاحی کارکنوں کی ضرورت ہے، ایسے خواتین اور حضرات جو ٹیم آشیانہ (شمالی وزیرستان) میں شامل ہونا چاہتے ہیں براہے کرم درج ذیل لنک پر کلک کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں. 

جزاک الله خیر 
ٹیم آشیانہ 
شمالی وزیرستان، پاکستان.
 

Tuesday 17 July 2012

دتہ خیل، شمالی وزیرستان: جرگے کے ارکان اور بڑوں سے ملاقات کا احوال

اسلام و علیکم 

گزشتہ ڈائری میں ذکر کیا تھا کہ میں اور عدنان بھی ایک اور ساتھ کارکن (ٹیم آشیانہ) کے ساتھ دتہ خیل کے بزرگوں اور بڑوں سے یہاں تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے اجازت لینے جانے کی تیاری کر رہے ہیں.
ہمارا ادمدی سامان تو آگیا ہے مگر ابھی تک ہم کو تفصیلات کا نہیں پتہ کے سامان میں کیا چیز کتنی مقدار میں ہے، لگتا ہے کے آج کی رات بھی جاگ کر ہی گزارنا ہوگی. ہم عشا کی نماز کے بعد لوگوں سے ملنے کے لئے جانے کی تیاری کر ہی رہے تھے، بلال محسود اپنے گھر چلا گیا تھا. اور باقی ساتھ امدادی سامان کے ساتھ آئے ہوے کارکنان کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے. میں دل اور دماغ کو سمجھا رہا تھا کہ وہاں کیا بات کرنا ہے؟ پتہ نہیں یہ کون لوگ ہونگیں؟ ان کے کیا دماغ ہونگیں؟ اور کیا سوچ ہوگی؟ پھر بھی الله کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوے مجھ کو اپنی بات سمجھنے کی پوری کوشش کرنا تھی پھر ان لوگوں نہیں ہم کو رات میں ہی کیوں بلایا؟ یہ سوال بھی دماغ میں بار بار آرہا تھا. عدنان بھائی، نے کہا کے ہم اب جانے کو تیار ہیں. میں نی دل ہی دل میں آیتہ الکرسی پڑھی. الله سے مدد کی بھیک مانگی اور عدنان بھائی کے ساتھ نکل پڑا، ہمارے ساتھ ٹیم آشیانہ کے مقامی کارکن اکرم بھائی بھی موجود تھے. اکرم بھی کے بارے میں یہی سنا ہے کہ یہی عدنان بھائی کو یہاں (شمالی وزیرستان) لے کرآئے تھے. اور جب سے عدنان بھائی یہاں فلاحی کام کر رہے ہیں اکرم بھائی ٹیم آشیانہ کے ساتھ ہیں اور ہر اچھے برے وقت میں ٹیم کا اور کارکنان کا ساتھ دیتے ہیں. میرے پہلے وزٹ کے دوران اکرم بھائی نے ہی میرے دل سے ڈرون جہازوں کا ڈر اور خوف دور کیا تھا. اکرم بھی مقامی زبان کے علاوہ فارسی، ہندکو، اردو اور پنجابی زبان جانتے ہیں. اور میں نے ان کو تھوڑا بہت انگریزی زبان بھی سکھا  دی ہے.  ہم کہاں جا رہے تھے اس کا پتہ صرف اکرم بھائی کو ہی تھا. اس علاقے کے بڑے اور جرگے کے ممبر ہیں. اردو زبان سمجھتے ہیں اور بہت نیک صفت انسان ہیں. 
میں اب آگے کیا لکھوں؟ مجھ کو اجازت نہیں ہے کے میں وہ باتیں بھی لکھوں جو لکھنی چاہیے تاکہ لوگ کچھ تو سمجھیں میں کچھ تو سمجھوں، مگر ووہی سیکورٹی رسک کا بہانہ اس بات پر میری عدنان بھائی سے بہت بار بحث ہوئی ہے کے ہم جو کر رہے ہیں اور جو دیکھ رہے ہیں ووہی لکھ دینا چاہیے مگر عدنان بھائی ہمیشہ مجھ کو کبھی نرمی اور کبھی سختی سے روک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "وقت آنے پر سب سمجھ جاؤ گے،" اب پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا. 
خیر! شام سے ہوئی بارش کی وجہہ سے راستے میں پھسلن زیادہ تھی. ہم ایک مقامی مسجد کی طرف گئے تو وہاں ہم سے پہلے دو  (٢) قبائلی موجود تھے. یہاں بجلی یا روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے. میرے خیال سے بجلی صرف میران شاہ تک ہی موجود ہے اور اگر آگے ہے بھی تو نہیں ہوتی. اندھیرے میں سہی طریقے سے چہرے نہیں دیکھ سکا. سلام بہت گرم جوشی سے ہوا اکرم بھی نی اپنی زبان میں ان کو ہمارے بارے میں بتایا اور ہم لوگ ان کے پہچے پیچھے چل پڑے. عدنان بھی سارا راستہ کچھ نہیں بولے میں بھی صرف یہی کہ سکا کی "اور کتنا چلنا ہوگا؟" ہم مقامی مسجد سے یہی کوئی ١٠ منٹ تک پیدل چلتے رہے ہونگے تو آگے دو (٢) لوگ اور ملے یہ ہتھیار بند لوگ تھے یہ میرے لئے سہی نہیں تھا، ہم لوگ کوئی جنگ کرنے یا کسی کو قتل کرنے کے مقصد سے نہیں جا رہے تھے تو ان لوگوں سے ملوانے کا کیا مطلب. میں کچھ کہنے ہی والا تھا کے عدنان بھائی نے میرا ہاتھ دبا کر مجھ کو روک دیا، ہم ان لوگوں سے سلام دوا کر کے آگے بڑھ،. مزید ١٠-١٥ منٹ تک پیدل چلنا پر پھر کچھ روشنی نظر آئی. یہ جگہ دتہ خیل کے مقام سے تھوڑا آگے ہے. سب سے الگ تھلگ کچھ مکان جو شاید ام نظروں سے نظر بھی نہ آے. کچھ لوگ ادھر ادھر بیٹھے تھے، حلیہ تو قبائلی تھا مگر . . .  خیر ہم کو ایک جھونپڑی نما حجرے میں لے جایا گیا جہاں کوئی نہیں تھا، میں اکرم بھائی اور عدنان بھائی نیچے بچی کہتی پر بیٹھ گئے. میرا تھکن کے مارے براحال تھا  اوپر سے سے یہ لوگ ہم سے اس طرح ملاقات کر رہے تھے جیسے ہم کوئی حکومتی نمائندے ہوں یا ان کے لئے کوئی بہت بڑا خطرہ ہوں. مجھ کو پورا یقین ہے کے یہ لوگ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں. دتہ خیل کوئی بہت بڑا علاقہ نہیں ہے جہاں کسی کے بارے میں جاننا مشکل ہو، اسی لئے مجھ کو پورا یقین تھا کہ یہ لوگ ٹیم آشیانہ، عدنان بھائی، کارکنان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہونگے. پھر اتنی احتیاط کیوں؟
کچھ ہی دیر میں ایک (١) خوفناک شکل اور لمبا چوڑا انسان (انتہائی مکروہ شکل - الله معاف کرے) اندر آیا اور ہم کو سلام کیا ہم کو کھڑا ہونے کا کہا اور ہماری بہت بدتمیزی کے ساتھ تلاشی لی، اکرم بھائی نے دبے لفظوں میں احتجاج بھی کیا مگر وہ بعد تمیز انسان نہیں مانا. تلاشی کے بعد میرے پاس موجود کاپی اور پین لیتے ہووے مقامی زبان میں کچھ کہا جس پر اکرم بھائی نے اس سے بحث کرنا شروع کردی بات تلخ کلامی تک پہنچی تو عدنان بھائی نی مداخلت کری اور اردو میں کہا "اکرم بھائی، یہ کاپی اور پین ہے، لے لینے دو علم کی چیز ہے کسی نقصان کی نہیں. شاید ان کے کچھ کام آسکے." اکرم بھائی ایک دم چپ اور خاموش ہو گئے. (عدنان بھائی نے اپنی محنت اور اخلاص سے یہاں کے لوگوں میں بہت عزت بنا لی تھی اور آج اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا). یہ بات میرے لئے انتباہ بھی تھی، اور ہوشیار رہنے کے لئے کہی گئی تھی.
تھکن بہت تھی میں نے خود ہی چائے نکال کر سب کو دی. خود بھی پی. تھودا فرحت کا احساس ہوا اور اب  لگ پڑی.   وہ بچہ جو چائے لایا تھا وہی ایک طرف کھڑاہوا تھا. پھرباہر کچھ شور ہوا، وہی مکروہ  شکل انسان (الله معاف کرے) اندر آیا اس دفع اس کے بات کرنے کا انداز الگ تھا، اکرم بھائی سے مقامی زبان میں کچھ کہا اور اکرم بھائی نے ہم کو چلنے کے لئے کہا. ہم اٹھ کھڑے ہوے میں دل ہی دل میں دوا کر رہا تھا کے بس میں جذباتی نہ ہوں اور میرے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جس سے ہم میں سے کسی کو پریشانی ہو، (میں کسی بھی صورت میں ان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتا تھا). 
ہم ایک اور بارے حجرے میں لے جائے گئے یہاں کہتی پر نرم بستر لگے ہوے تھے. ہم آرام سے بیٹھ گئے میں خود کو پرسکوں رکھنے اور پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا. تھوڑا ہی دیر میں اس حجرے نما کمرے میں ایک ستہ ٦-٧ افراد داخل ہونا شروع ہوے. حلیے سے قبائلی کچھ بڑی عمر  کے لوگ تھے اور ٢ کی عمر ٢٠-٢٢ برس کی ہوگی. حلیے سے پڑھے لکھ اور با ادب لگ رہے تھے، ہم بھی اپنی جگہ سے کھڑے ہوے. نہایت ادب سے سلام کیا اور انہوں نے ہم کو گلے لگایا اور خوش آمدید کہا. سب سے پہلے ایک لڑکے نے جو ان کے ساتھ آیا تھا ہم سے اردو میں بات کرنا شروع کاری اور ہم کو ہوئی تکلیف پر معزرت کری (میں نی دل ہی دل میں کہا، پہلے  دہراتے ہو،تکلیف دیتے ہو پھر معزرت طالب  کرتے ہو،یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟) عدنان بھائی نے کہا "کوئی بات نہیں یہاں کے حالات کے مطابق آپ نے جو کیا وہی مناسب ہوگا"    
عدنان بھائی بھی کبھی کبھی ایسی بات کر جاتے ہیں جس کو سمجھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں. پھر اس لڑکے نے اپنے بارے میں بتایا وہ لڑکا اسلام آباد ا ایک تلمی ادارے سے ١٤ کلاس پڑھ کر آیا تھا اور انگریزی بھی اچھی خاصی بول رہا تھا، مجھ کو ہرات ہوئی کے یہ لڑکا ان لوگوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے. کاش کے میرے کو یہاں تصاویر کھنچنے کی اجازت ہوتی، کش کے مجھ کو یہاں کے حالات سہی سہی لکھنے کی اجازت ہوتی. (افسوس ہی افسوس). مجھ کو تو کچھ پوچھنے کی بھی اجازت نہیں تھی، ہم تو یہاں اپنی بات کرنے آے تھے، ان سے کیا پوچھتے؟
اکرم بھائی نے مقامی زبان میں کچھ کہا اور عدنان بھائی اور میری طرف اشارہ کر کہ کچھ کہا. پھر عدنان بھائی سے کہا کے آپ اپنے یہاں آنے کا مقصد بیان کریں. عدنان بھائی نے میری طرف اشارہ کیا اور اردو میں ہی بات شروع کری،
محترم بھائیوں، (میں نی کہا لو جی عدنان بھائی کی تقریر شروع)، مگر ایسا ہوا نہیں، ہم یہاں پچھلے کچھ برسوں سے فلاحی کام سر انجام دے رہے ہیں جن کی تفصیلات کے بارے میں آپ لوگ اور شمالی وزیرستان کے کچھ لوگ باخبر ہیں، میرے یہ دوست (میری طرف اشارہ کر کے کہا) کراچی سے تشریف لائے ہیں اور یہاں (دتہ خیل) کے بچوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں. جس کے لئے آپ کی اجازت اور رہنمائی کی ضرورت ہے (میں نی ایک دفع پھر دل میں سوچا، کے ان سے کسی رہنمائی کی امید؟ ان کو تو خود ہی رہنمائی کی ضرورت ہے) اور زیر لب مسکرا دیا. (شاید میری مسکراہٹ کو کسی نے محسوس کیا ہو)، باقی بات میرے یہ دوست خود بیان کریں گے. پھر میری طرف اشارہ کر کے مجھ کو اپنی بات مکمل کرنے کے لئے کہا گیا (ایک اچھی بات یہ تھی کے ہماری بات چیت کے دوران کوئی بھی مداخلت نہیں کر رہا تھا، اس کے پیچھے کیا راز تھا یہ الله ہی جانے) میں نے عدنان بھائی کے انداز بیان کو اپناتے ہوے ایک دفع پھر سب کو سلام کیا، جس کا جواب سب نے با آواز بلند دیا، پھر میں نی کہا، "جیسا کے آپ سب ٹیم آشیانہ اور کارکنان کی محنت کے بارے میں جانتے ہی ہیں، میں یہاں صرف اتنا کہنے آیا ہوں کے ہم کو یہاں کے بچوں کے لئے ایک مدرسہ / اسکول کھولنے کی اجازت دیں جہاں ہم مقامی بچوں کو جدید علوم کے بارے میں آگاہی دے سکیں، میں یہ نہیں کہتا کے اسلامی تعلیمات چھوڑ دیں، مگر اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کے بارے میں آگاہی ہونا بہت ضروری ہے. اور . . . . ایک بڑی عمر کے قبائلی نے مجھ کو اشارہ کر کے روک دیا. مجبورن مجھ کو چپ ہونا پڑا  (بعد میں پتا لگا کے یہ صاحب  یہاں کے جرگے کے رکن ہیں) انہوں نی سب سے کچھ باتیں کرنا شروع کریں یہ بات چیت مقامی زبان میں ہو رہی تھی. درمیان میں وہ عدنان بھائی اور میری طرف اشارہ کر کہ   کچھ کہتے اور اکرم بھی سے مقامی زبان میں کچھ پوچھتے جس کا جواب اکرم بھائی نہایت سکوں سے دیتے. (صبح کے وقت عدنان بھائی نے جس طرح کے شک اور شبے کا اظہار بلال محسود کے لئے کیا تھا پتا نہیں کیوں مجھ کوایسی ہی سوچ اکرم بھائی کے لئے آرہی تھی) میں نی لاہولولہ پڑھا. اور زمین کی طرف دیکھنے لگا. جب ان لوگوں کی بحث رکی تو عدنان بھائی سے کہا گیا کہ ہم لوگ تھوڑا انتظار کریں ایک اور صاحب آرہے ہیں ووہی کوئی فیصلہ کریں گے. اب کون آرہا ہے؟ یہی میں سوچنے لگا. (قسم سے، دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا، کہ کس مصیبت میں پڑھ گیا ہوں، اچھا خاصا کراچی میں تھا، نوکری کر رہا تھا، شام میں دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، زندگی کتنی سکوں سے گزر رہی تھی، یہاں آگیا ہوں جہاں مر بھی گیا تو کسی کو پتہ نہیں لگنے والا کے ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے) پھر اچانک دوسرے ساتھیوں کا خیال آیا کہ عدنان بھائی بھی تو کراچی والے ہیں، فریال باجی تو کینیڈا سے آتی ہیں، فیصل بھائی لاہور سے، ڈاکٹر نگہت پشاور سے اور بھی ساتھی، دوست دوسرے شہروں سے آتے ہیں ظاہر ہے زندگی صرف خود کے لئے جینے کا نام نہیں ہے، الله پاک مجھ کو نیک ہدایت دے میں یہ کیا الٹا سیدھا سوچ رہا ہوں. ہم کو انتظار کرنے کا کہا گیا اور ساتھ ہی کچھ لانے کا بھی کہا گیا، وقت کا پتا نہیں تھا ہمارے پاس گھڑیاں نہیں تھی اکرم بھی سے سرگوشی کر کے کہا کہ بھی بہت تھک گیا ہوں، یہ لوگ چاہ کیا رہے ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے کے جیسے ہم کسی مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں. خدا نہ کرے، اگر ڈرون آگئی تو سب کے سب مارے جائیں گے اور پتا نہیں ہم کو کس نام سے  جاۓ؟ اکرم بھائی مسکرا دیے، ساتھ ہی عدنان بھائی بھی مسکرا دیے. تھوڑا دیر میں ایک لڑکا کچھ کھانے پینے کا سامان لے آیا. خوشبو سے لگ رہا تھا کے تازہ تازہ پکایا گیا ہے، بہت بھوک لگنے کے باوجود بھی میں نے کھانے سے انکار کر دیا مجھ کو کہا گیا کے تھوڑا چک لوں مگر میں نے  منع  کر دیا، میرے لہجے میں سختی بھی تھی اب اس وقت یہ تو نہیں کہ سکتا تھا کے میرا روزہ ہے مگر میں یہ کھانا کسی صورت نہیں کھانا چاہتا تھا کیوں کے آج میری فرمائش پر آشیانہ کیمپ میں آلو کا سالن بنا ہے اور مجھ کو پورا یقین ہے کے ہمارے ساتھ ہماری آمد تک کچھ نہیں خانے والے تو میں یہاں بیٹھ کر یہ گوشت، مرغ مسلم کیسے نوش کر سکتا تھا. (پتہ نہیں کیوں میں خود کو بہت طاقتور محسوس کرنے لگا) عدنان بھی نے تو کھانا ہی نہیں تھا کیوں کے ان کی طبیت سہی نہیں تھی) اکرم بھی نی مصلحتا ایک دو ٹکرے اٹھا کر چبا لئے. ہم کو بتایا گیا کے رات کے ١١ بجے سے اپر کا وقت ہو گیا ہے. یہ وقت سہی نہیں ہے، میں نی عدنان بھی سے کہا کے ہم کو اب چلنا چاہیے پتہ نہیں ان کے آنے والا کب تک آے گا، ہم کل دن میں  آکر ان لوگوں سے بات کر لیں گے. مگر اکرم بھائی نے کہا کے ہم اس طرح یہاں سے نہیں جا سکتے (میں بھی یہ بات بھول گیا تھا کے یہاں آتے اپنی مرضی سے ہیں اور جاتے ان لوگوں کی مرضی سے ہیں). بیٹھے رہے، چپ اور خاموش، میں سوچ رہا تھا کے کش میں کراچی سے آیے ہووے امی کے خط ہی پڑھ لیتا، یا ساتھ رکھ لیتا یہاں اب کرنے کو تو کچھ ہے نہیں، جب ان کے وہ (؟؟؟) آے گے تب جانے کیا ہوگا. مگر ہم کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا. تھوڑا ہی دیر میں سیکورٹی سخت ہونے کا اندازہ ہوا، حجرے کے اندر اور باہر روشنی بہت کم کر دی گئی. حجرے کے اندر ٥ (پانچ) نوجوان جدید اسلحے سے لیس داخل ہوے اور مختلف جگہوں پر ہوشیار ہو کر کھڑے ہوے، مجھ کو اکرم بھی کی دبی دبی آواز اور الفاظ سنائی دیے، پخیر  راغلے! یہ پشتو کے الفاظ ہیں اور پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کے ان الفاظ کے کیا مطلب ہے؟ پھر مبارک سلامت کا ہلکا ہلکا شورسنائی دیا. حجرے کے اندر پہلے وہ لوگ داخل ہوے جن سے ہم پہلے ہی مل چکے تھی پھر ٢ (دو) بندوق بردار ہے ان کے پیچھے ایک نوجوان عمر ٢٨-٣٢ برس کے درمیان ہوگی، سرخ سفید چہرہ، سفید رنگ کے قمیض شلوار پہنا ہوا، آنکھوں میں سرما، سر پر سفید اور کالے رنگ کا عمامہ، پیر میں پشاوری چپل. (بہت جاندار شخصیت تھی) حجرے میں داخل ہوا. ہم سب ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوے. (اس بندے کا کیا نام تھا، یہ مجھ کو ابھی تک نہیں پتہ لگا، مگر اتنا یقین ہے کے یہ بندہ بہت اثر اور رسوق والا ہے) اس نے ہم سب سے بہت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا، سلام کا جواب دیا اور ایک طرف بہت پرسکوں ہو کر بیٹھ گیا، رات کے اس وقت جب میں اور میرے ساتھ عدنان بھائی، اکرم بھائی بہت تھکے ہوے تھے یہ انسان ایسا لگ رہا تھا کے جیسے بلکل فریش ہے. ایک مقامی صاحب نے ہم کو بتایا کے ان کے سامنے ہماری پوری بات رکھی گئی ہے اور ابہ آخری فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے. 
ہماری ان صاحب سے کیا بات ہوئی اس کا سب سے اچھا پہلو یہی ہے کہ ہماری بات کو بہت سکوں سے سنا گیا اور ہم کو کہا گیا کے ہم اپنے  آشیانہ کیمپ میں بچوں کو پڑھنے کے عمل کا آغاز کر سکتے ہیں لیکن اگر ہم کو کسی بھی قسم کی ایسی حرکت یا کام میں ملوث پایا گیا جو مقامی تہذیب، اور یہاں کے اصول، رسم اور رواج کے مطابق نہ ہوے تو ہم کو جرگے کے سامنا کرنا ہوگا اور ہم کو سزا دینے کے بعد  اس علاقے سے باہر نکال  دیا جاۓ گا. بحث کی یا اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں تھی. ہم کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ ہم صرف لڑکوں کو ہی پڑھائیں گے، کوئی لڑکی ہم سے پڑھنے نہیں آے گی. ہم کسی بھی طرح سے ان لڑکوں کو مقامی تہذیب، رسم اور رواج، اسلام کے منافی تعلیم نہیں دیں گے اور نہ ہی ایسی کتابیں تقسیم کریں گے جس سے یہاں کے لوگوں میں آپس میں سوچوں کا ٹکراؤ ہو. اور ہم کو کسی بھی وقت جرگے والے یا مقامی بڑے لوگ چیک کرنے آسکتے ہیں جس کے لئے ہم کو ان لوگوں سے ہر ممکن رابطہ رکھنا ہوگا اور ان کے ہر سوال کا جواب دینا ہوگا. اور بھی کچھ سخت باتیں کہی گئی. کچھ لوگوں نے ہم کو بیرونی ممالک کا ایجنٹ بولا تو کسی نے ہم کو پاکستانی اداروں کا ایجنٹ. اور بھی بہت کچھ (جو کچھ بھی کہا گیا بہت عزت دے کر کہا گیا) اور ہم کو یہ بھی بتا دیا گیا کے ہمارے ہر ہر کام پر ان لوگوں کی نظر ہے. اکھڑ میں اس آدمی نے ایک دفع پھر (منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوے) ہم سے کسی بھی قسم کی ہوئی تکلیف پر معذرت مانگی، اپنے بندوق بردار ساتھیوں سے کچھ (مقامی زبان میں) کہا، اور ہم سے اجازت لی وہ خود تو کھڑا نہیں ہوا اکرم بھائی نی اشارہ کیا کے ہماری ملاقات مکمل ہوئی. (میں اس ملاقات سے مطمئن نہیں ہوں، ہماری بات پوری طرح نہیں سنی گئی، نہ ہی ہم جو چاہتے ہیں وہ سنا گیا، بس اپنے ہی لوگوں کی باتیں سن کر ہم کو پابند کر دیا، یہ  غلط ہے) میں نی ان جذبات کا اظہر انگریزی زبان میں عدنان بھی سے حجرے سے نکلتے وقت کیا تو پہچے سے ایک صاحب کی آواز آئ کہ "اگلی ملاقات میں آپ کے سارے شکوے دور کر دے جائیں گے." (مطلب یہاں کسی نے میری انگریزی میں کہی ہوئی بتا کو سمجھ لیا ہے. ہم بندوق برداروں کے پیچھے پیچھے ٢٥-٣٠ منٹ تک چلتے رہے،  ایک دفع پھر ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی. تھکن تو تھی مگر اس ملاقات میں ہوئی تشنگی نے میرا دماغ ہلا کر رکھ دیا تھا. (پتہ نہیں عدنان بھی کس طرح خود کو قابو کرتے ہیں یہی سوچ رہا تھا) ہم لوگ دتہ خیل کی مقامی مسجد تک واپس آے جہاں ہم کو بندوق برداروں نے الوداع  کیا اور یہاں سے ہم اپنی مدد آپ کے تحت اکرم بھائی کی رہنمائی میں آشیانہ کیمپ کی طرف  بڑھنے لگے.

اب جب میں یہ ڈائری لکھ رہا ہوں، تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے، میں خود کو ایک بند گلی میں محسوس کر رہا ہوں، یہاں فلاحی کام کرنا بھی بہت مشکل ہے، کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہماری آس بنے، ہم کو سہارا دے، ہم کو مضبوط کرے، یہاں صرف ان لوگوں کی حکمرانی ہے جن کے پاس طاقت ہے، کمزور لوگ محکوم ہیں اور ان لوگوں کے ہر طرح کے فیصلے قبول کرنے کے پابند ہیں. ایسے میں یہاں کوئی کیسے علم اور تعلیم کی روشنی پھیلا سکتا ہے.  مجھ کو ایک چھوٹا سا اسکول چلانے کے لئے اتنی باتوں کا پابند کر دیا گیا ہے جیسے خدانخواستہ میں یہاں کوئی عیسائی تبلیغی مشن چرو کرنے والا ہوں، یا یہاں کے رواج کے مخالف میں کوئی مہم شروع کرنے والا ہوں. میں تو صرف یہاں کے بچوں کے لئے سوچ رہا ہوں، کے آخرکب تک یہ بچے ایسے ہی پھرتے رہیں گے؟ ان بچوں کا مستقبل کیا ہے. آج مجھ کو سبق صدر پاکستان پرویز مشرف اور آج کے چیف آف آرمی اسٹاف پرویز کیانی صاحب کی وہ بات بہت شدت سے یاد آرہی ہے جو ان دونوں نے ہی کہی تھی کہ، "ان  علاقوں (شمالی اور جنوبی وزیرستان) میں فوجی آپریشن خوشی سے نہیں کیا گیا بلکہ بہت مجبوری میں کیا جا رہا ہے، جس کے لئے پوری قوم کو افسوس ہے." ظاہر ہے جب حالات یہاں تک پہنچ جائیں جب حکموتی رٹ قائم نہ رہے، طاقتور اپنی طاقت کے بل پر حکومت کرنا چاہئے اور معصوم لوگوں کو اپنا غلام بنا لے (جیسا یہاں شمالی وزیرستان) میں دیکھا جا سکتا ہے تو اور کیا ہوگا. پاکستان کو قائم رکھنا ہے اور مسلمان کو مزید شرمندگی سے بچانا ہے تو ہم کو ایسے نام نہاد طاقتور لوگوں سے جان چھڑانا ہی ہوگی. اس کے لئے یہاں اگر فوجی کاروائی کی جاتی ہے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو بھی ساتھ  شامل کرنا ہوگا، یہاں کے لوگ خود بہت پریشن ہیں، اور تھک گئے ہیں. ان لوگوں کو سہارا ملے تو یہ خود ہی ان طاقتور لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے  ہونگے.

اس ملاقات میں مجھ کو بہت کچھ دیکھنے، سیکھنے اور سمجھنے کو ملا. ہو سکتا ہے کے میں یہاں سے واپس کراچی جا کر یہاں کے حالات پر اور  لکھ سکوں، فلحال جتنا لکھا ہے اگر میرے دوست (ٹیم آشیانہ کے ساتھ) ووہی لکھ کر بلاگ اور ایمیل کر دیں تو بہت ہوگا. 
اس ملاقات سے واپس آیا تو پتا لگا کے کافی رات ہو چکی ہے، بھوک اور تھکن سے حالت بری تھی، جلدی جلدی کھانا کھایا اور جس کو جہاں جگہ ملی وہی پر کر لیٹ گیا. میں نی جلدی جلدی ڈائری لکھ  ڈالی ہے،پتہ نہیں کل کیا ہو. ابہ سونے کے لئے لیٹ رہا ہوں. 
ہاتھ میں امی کا بھیجا ہوا خط ہے  مگر پڑھنے کی  ہمت نہیں،سینے پر خط رکھ کر لیتا ہوں اور امی کو اپنے ساتھ محسوس کر رہا ہوں. 
انشا الله کل کی ڈائری کے ساتھ حاضر ہونگا.
آپ سب کی دعاؤں کے محتاج 
ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان.

========================================================================
نوٹ:
  • ٹیم آشیانہ کی یہ ڈائری پڑھنے والے زیادہ تر پاکستانی ہیں یا اردو جانتے ہیں اسی لئے یہ ڈائری اردو میں لکھی جا رہی ہے. مزید اس ڈائری کو انگریزی میں ترجمہ کر کے دینا چاہیں تو وہ بھی یہاں لکھ دی جاۓ گے. 
  • ایسے دوست جو اس ڈائری کو انگریزی میں لکھ کر دینا چائیں وہ ہم سے فوری رابطہ کریں.
     waziristan.dairy@gmail.com
  • وزیرستان ڈائری، ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی آپ بیتی ہے جس کو لکھنے کی اجازت ٹیم آشیانہ کے کارکنوں کے مشورے سے دی گئی ہے. اس ڈائری کو پبلک کرتے وقت ہم کو حفاظتی اقدامات کے تحت کچھ باتوں کو ایڈٹ کرنا  پڑتا ہے.ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کے ڈائری کا اصل مفہوم پڑھنے والوں کو سمجھ میں آتا رہے.
  • اگر کوئی دوست یا ساتھ ڈائری لکھنے والے کارکن سے رابطہ کرنے چاہے تو وہ بھی اپر دی گئی ایمل کر کے رابطہ کر سکتا ہے.
  • ٹیم آشیانہ کو آپ کے مشوروں اور دعاؤں کی ہمیشہ ضرورت  رہتی ہے.
جزاک الله 
ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان