Thursday 19 July 2012

دتہ خیل میں اسکول کا پہلا دن اور میڈیکل کیمپ کی داستان

اسلام و علیکم 
محترم دوستوں اور ساتھیوں آج صبح ہمارا رابطہ ٹیم آشیانہ سے ممکن ہو سکا ہے، ٹیم کے کارکن کی ڈائری کے کافی صفحات ایک ساتھ موصول ہوے ہیں جن کو ضروری تدوین اور ایڈیٹنگ کے بعد یہاں لکھا جا رہا ہے. یاد رکھیں کہ یہ ڈائری ١-٢ دن پرانی ہے.
========================================================================

اسلام و علیکم،
سب سے پہلے کچھ اپنے بارے میں لکھتا ہوں، گوشتہ شب جب ہم لوگ یہاں (دتہ خیل) کے بزرگوں سے مل کر اور اپنا چھوٹا سا اسکول چلانے کے اجازت لے کر آئے ہیں، میرے دل میں ایک عجیب سی بیچینی ہو رہی ہے. کچھ ہے جو  نہیں آرہا ہے. میں نی کراچی سے آیا ہوا اپنی امی کا خط بھی نہیں پڑھا کہ جانے اس میں کیا حالات لکھ ہونگیں. امی کو یہاں کے حالات کا کچھ علم نہیں ہے. بہت پریشان ہونگی. میں پہلے آج کے دن ہوے سارے معملات کو ایک دفع پھر سے سوچنا چہ رہا تھا اور نہیں چاہتا تھا کے کوئی ذاتی خیال میرے دل اور دماغ پر حاوی ہو.
میں نے پہلے امی کا خط پڑھنے کے لئے کھولا، خط کیا ہے ایک کتاب ہے. میری خیریت، اور اپنی خیریت، کراچی کے حالات، بہنوں کے خیریت، دوستوں اور احباب کی میرے بارے میں فکر، اور بہت سری نصیحتیں. میرے کھانے پینے کے بارے میں احتیاط، کچھ کراچی کا احوال اور بہت کچھ، اکھڑ میں امی کا بہت سارا پیار. آنکھوں میں آنسو آگئے. اور خیال آیا کے کتنا خوش نصیب ہوں کے میری ماں ہے. اور خیال آیا یہاں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ماں نہیں ہے. میں نے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی آنکھیں بند کریں اور امی سے باتیں کرتا چلا گیا. کب آنکہ لگی پتہ نہیں. 

صبح فجر کی نماز پر ایک ساتھی کارکن نے جگایا، جاگا تو احساس ہوا کے میں گھر پر نہیں ہوں بلکے گھر سے بہت دور شمالی وزیرستان میں موجود ہوں. جلدی جلدی اٹھ کر نماز کی تیاری کری. نماز ادا کرتے ہی ہم سب کو ہماری آج کی ذمہداریوں سے آگاہ کیا گیا. (گزشتہ شب جو سامان ہمارے ساتھیوں نی ہم کو یہاں بھیجا تھا اس کو دیکھ لیا گیا تھا اور تمام سامان کی ایک لسٹ بنا کر اگلے کاموں کی تیاری کر لی گئی تھی). میرے پاس پہلے سے ہی اسکول کا کام موجود تھا جس کے لئے مجھ کو آج سے عملی کام کرنا تھا. تو مجھ کو اور میرے ساتھ بلال اور ایک دوسرے کارکن کو روک دیا گیا. باقی کارکنان ایک میڈیکل کیمپ   لگانے کی تیاری میں لگ گئے. امدادی سامان بہت کم مقدار میں تھا اسی لئے میڈیکل کیمپ یہیں (آشیانہ کیمپ، دتہ خیل) لگانے  کا فیصلہ کیا گیا تھا. نماز فجر کے وقت تمام قریبی مساجد اور جگہوں پر بتا دیا گیا تھا کے آج یہاں ایک فری میڈیکل کیمپ لگایا جا رہا ہے. (شمالی وزیرستان) کے لوگ نماز فجر کے وقت جاگ جاتے ہیں اور نماز کے بعد جس کے جو کام ہوتے ہیں وہ نمٹاتے ہیں، بڑے شہروں کی طرح یہاں دیر تک جاگنے اور کام شروع کرنے کا رواج نہیں ہے). ابھی میڈیکل کیمپ پوری طرح ترتیب بھی نہیں دیا گیا تھا کہ مقامی افراد کی آمد شروع ہو گئی. میں میڈیکل کیمپ سے قریب ہی بیٹھا کچھ کاغذات ترتیب دے رہا تھا اور بلال کو سمجھا رہا تھا کے اپنے دوستوں اور دوسرے بچوں کو کس طرح سمجھا کر یہاں لانا ہے. یہ کام اتنا آسان نہیں تھا. گزشتہ شب ہوئی ملاقات کے بعد میرے لئے اور مشکلات کھڑی ہو چکی تھی جن سے بہت احتیاط اور تحمل کے ساتھ نکلنا تھا. 

آشیانہ اسکول کا پہلا دن:
قریب ٩ بجے بلال (محسود) اپنے کچھ دوستوں کو جن کی تعداد ٢٥ کے لگ بھگ ہوگی جمع کر کے لے آیا، میں نے ان بچوں کے ساتھ بہت شفقت اور پیار سے ہاتھ ملایا ان کے سروں پر ہاتھ رکھا اور انتہائی دوستانہ رویہ اختیار کیا. (ان کے بڑوں کے دماغ شاید ہم کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں مگر ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے ہم کو ان بچوں کے ساتھ بچا بن کر اور ان کا دوست بن کر ہی کام کرنا ہوگا) 
میں نے سب بچوں کو ایک ترتیب سے بٹھانا شروع کیا جس کے لئے بلال نے میری مدد کاری، میرے ساتھ موجود دوسرے کارکن کو میڈیکل کیمپ کے لئے بلوا لیا گیا تھا. میرے لئے مشکل یہ تھی کے اکثر بچے اردو بھی سہی طرح نہیں جانتے تھے اور میں بہت مشکل سے مقامی زبان کو اب تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگا تھا نہیں تو ہمیشہ مقامی لوگوں سے بات کرنے کے لئے ایک ترجمان کی ضرورت رہتی ہے.بلال اس وقت میرے لئے ایک ترجمان کا کردار ادا کر رہا تھا اور بہت اچھی طرح اپنے کام کو کر رہا تھا. میرے پاس ابھی کوئی بلیک بورڈ وغیرہ نہیں تھا اسی لئے بچوں کے ہاتھوں میں ایک ایک کاپی اور پنسل دے دی تھی    اور بلال کو کہا تھا کے جیسا میں کرتا ہوں ویسا ہی بچوں سے کروانے کی کوشش کرے. 
آج میں نے اردو کے پہلے لفظ الف ( ا) سے شروع کیا. اور الف (ا) سے الله ہی بولا اور الله کی تعریف میں حمد و ثنا پڑھی. بچوں نی اس انداز کو پسند کیا. پھر الف سے شروع ہونے والے باقی الفاظ جیسے جگہوں کے نام، چیزوں کے نام، مشہور اشخاص کے نام  وغیرہ بولے اور سمجھانے کی کوشش کری. بلال نے اضافہ کیا، الف سے اسلام بھی آتا ہے. اور میں نے  کہا، الف سے اسلام آباد بھی آتا ہے، یہاں بہت سے لوگوں کو پاکستان کے شہروں تک کا ہی پتہ نہیں.  میں نے بہت ہلکا سا بتایا. ان سب میں دن کے گیارہ (١١) بج گئے تھے. ادھر میڈیکل کیمپ پر رش بھی کافی بڑھ گیا تھا اور میں ٹیم آشیانہ کے کارکنان پر بڑھتے ہوے دباؤ کو محسوس بھی کر رہا تھا. میں نے بلال کو بچوں کو واپس روانہ کرنے کا کہا اور کچھ بچے خوشی خوشی کاپی  اور پنسل لے کر چلے گئے کچھ بچے روک گئے وہ میڈیکل کیمپ میں خود کو دکھانا چاہتے تھے بظاھر ان بچوں میں کوئی تکلیف یا بیماری نظر نہیں آرہی تھی مگر میں ان بچوں کو منع نہیں کرنا چاہتا تھا. میں جلدی جلدی اپنے کم کو سمیٹ کر میڈیکل کیمپ میں پہنچ گیا. 

ٹیم آشیانہ کا میڈیکل کیمپ:

یہاں (میڈیکل کیمپ) آکر احساس ہوا کہ آج مریضوں اور لوگوں کا رش کچھ زیادہ ہے. وجہہ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی. میڈیکل کیمپ میں صرف ایک ڈاکٹر (ڈاکٹر آصف) موجود تھے جو کہ میران شاہ سے تشریف لائے تھے اور ان کا انتظام اکرم بھائی نے کیا تھا. پیرا میڈیک صرف ٣ تھے باقی کارکنان نظم و ضبط رکھنے کا کام کر رہے تھے،   میں نےعدنان بھائی کو بتایا کہ میں اب فارغ ہوں اور میڈیکل کیمپ کے لئے کام کرنےکو تیار ہوں. انہوں نی مجھ کو فورن ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کو کہا (میں تھوڑا بہت ادویات اور دیگر کے بارے میں جانتا ہوں اور گزشتہ میڈیکل کیمپ کے دوران پیرا میڈیک کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہوں) میں جب ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو وہ بہت زیادہ دباؤ میں کام کر رہے تھے، انکے پاس ایک وقت میں ٥-٦ مریض جمع تھے، میں نیں اپنا مختصر تعرف کرایا اور ان کے ساتھ مریضوں کے تشخیص میں مدد  لگا. اکثر بڑی عمر کے لوگ تھے ، بچوں کی تعداد بہت زدہ تھی اور کچھ اپنے گھر کی خواتین کے بارے میں بتا کر دوا لینا چاہتے تھے. میں ایک کے بعد ایک مرز ڈاکٹر کے پاس بھیجتا اور جب وہ وہا سے فارغ ہوتا تو اس کو دوسری طرف موجود ادویات والے ساتھی کارکن کے پاس بھیج دیتا. جلدی میں ڈاکٹر صاحب کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کے ہمارے پاس کون کون سی ادویات موجود ہیں جس کی وجہہ سے اکثر مریض واپس ہمارے طرف آرہے تھے کہ ان کو دوسری دوا لکھ دی جاۓ. 

ادھر ظہر کی نماز کا وقت بھی ہونے والا تھا اور ہم کو کچھ دیر کے لئے نماز کا وقفہ بھی لینا تھا. (سچ یہ ہے کے مجھ سمیت ٹیم آشیانہ کے اکثر کارکنان نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا، اسی لئے بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی، جس کا اظہر اکثر کارکنان نے کر دیا) اکرم بھائی نے کھانے کے لئے کچھ مقامی لوگوں سے مدد لی تھی نماز کے بعد کھانے کا انتظام کیا گیا تھا. نماز کے وقفے سے قبل مریضوں کا کچھ دباؤ کم ہوا تو مجھ کو ڈاکٹر آصف صاحب سے بات کرنے کا موقع ملا، ڈاکٹر آصف اس سے پہلے بھی ٹیم آشیانہ کے فری میڈیکل کیمپ میں تشریف لا چکے ہیں اور اپنی خدمات مفت فراہم کرتے رہے ہیں. ڈاکٹر صاحب نے مجھ کو میران شاہ میں موجود میڈیکل سہولیات کے بارے میں آگاہ کیا اور اپنی بے بسی کے بارے میں بتایا کہ وہ کس طرح وہاں مجبور ہیں جہاں وہ اپنی خدمات تو دینے کو تیار ہیں مگر اکثر ادویات کی کمی کا سامنا رہتا ہے (جیسا کے آج ابھی کے میڈیکل کیمپ میں ہو رہا ہے). اسی دوران ایک بہت بوڑھی خاتون لائی گیں. ان خاتون کی عمر ٧٠- برس سے اپر ہوگی، نہایت کمزور اور لاغر. پھر بھی مقامی روایات کے مطابق مکمل پردے میں. (میں یہی سوچ رہا تھا کہ ان خاتون کا چک اپ کس طرح ممکن ہوگا، کیونکہ یہاں تو کوئی بھی غیر مرد کسی خاتوں کو دیکھ تک نہیں سکتا) لیکن ڈاکٹر صاحب یہیں کے ہیں اور یہاں کی روایت سے پوری طرح واقف بھی ہیں.ڈاکٹر صاحب نے خاتون کے ساتھ ہے آے ہوے ایک بزرگ سے مقامی زبان میں بات کری اور اور ان خاتون کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ایک پرچے پر لکھتے چلے گئے. ان کے چہرے پر تفکر اور پریشانی کے آثار تھے. خاتون کو بظاھر الٹی، پیٹ میں درد اور کمزوری کی شکایات تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کے بات اس سے کچھ زیادہ ہے. ڈاکٹر صاحب نے خاتوں کو لٹانے کے لئے انتظام کرنے کو کہا اور میرے ساتھ اٹھ کر باہر آگئے. انہوں نے مجھ سے دواؤں (جو ہمارے پاس اس وقت موجود تھی) کی فہرست مانگی جو میرے پاس موجود تھی اور میں نے دے دی. پھر وہ بہت تیزی کے ساتھ دواؤں والی ٹیبل پر ہے خود ہی دواؤں کو دیکھنا شروع کیا اور ایک ڈرپ کے ساتھ کچھ انجکشن لئے اور واپس کیمپ میں جانے لگے ساتھ مجھ کو بھی کہا کے ہم کو کسی بھی طرح ان خاتون کو یہ ڈرپ لگانی ہوگی. اب مسلہ  یہ ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی خاتون پیرا میڈیک یا نرس موجود نہیں ہے تو ان لوگوں کو سمجھانا ہوگا کے ان خاتوں کی زندگی کے لئے ہم کو ڈرپ لگانے کی اجازت دیں. میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اندر (کیمپ) میں داخل ہوا جہاں وہ خاتوں موجود تھیں اور ان کے ساتھ کچھ مرد حضرات بھی موجود تھے. انہوں نی ان بزرگ کو جو ان کے ساتھ موجود تھے مقامی زبان میں سمجھانا شروع کیا جو سمجھ گئے اور ڈاکٹر صاحب کو ڈرپ لگانے کی اجازت مل گئے. ڈاکٹر صاحب نی ان خاتون کو درپ لگائی. کچھ ادویات ان کے ساتھ موجود لوگوں کو دیں اور استعمال کرنے کا طریقے کر بتایا اسی دوران ظہر کی ازاں ہو گئی اور ہم لوگ کیمپ سے باہر آگئے. ڈاکٹر صاحب نے بتایا کے شک ہے کہ ان خاتون کو ایک موزی بیماری (ایچ آی وی) ہے لیکن کچھ ضروری ٹیسٹ ہونا چاہیے جس سے سہی تشخیص ممکن ہو سکے گی. (میں سوچنے لگا اب کیا کریں) یہاں (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) میں ہمارے پاس ضروری ادویات موجود نہیں ان خاتون کے ٹیسٹ کہاں اور کیسے ہو سکے گے؟ اسی سوچ میں نماز ادا کری اور جیسے تیسےکر کے کھانا کھایا اور عدنان بھائی کی پاس آگیا ڈاکٹر صاحب پہلے ہی تمام صورت حال سے عدنان بھائی کو آگاہ کر چکے تھے. عدنان بھائی بھی فکرمند تھے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے. ایک دم انہوں نے ہم سب سے کہا کے چلو ایک دفع پھر نماز والی جگہ پر چلو، پہلے تو ہم کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ ایک طرف ایک دفع پھر میڈیکل کیمپ پر مریضوں کا رش بڑھ رہا تھا، بارش کا بھی امکان تھا. ان خاتون کو ڈرپ بھی لگی ہوئی تھی اور دوسری طرف عدنان بھائی نماز والی جگہ پر لے جا رہے تھے، ہم کو ایک دفع پھر سے وضو کرنے کو کہا گیا ہم سب نے وضو کیا تو عدنان بھائی نے ہم سب کے آگے روتے ہوے کہا کے ہم سب دو رکعت نماز نفل برائے حاجات ادا کریں اور الله کے حضور گڑ گڑا کر، رو رو کر بھیک مانگیں کے وہ ہماری اور ان لوگوں کی مدد کرے غیب سے ہماری مدد کے لئے اسباب مہیا کرے. اور درد دل اور انسانیت رکھنے والوں کو کے دل میں یہاں کے لاچار لوگوں کی مدد کرنے کے لئے درد اور سوچ ڈالے. ہم سب نے ہی نماز ادا کری اور سچی بات یہ ہے کہ جب ہم سب نی ایک ساتھ دعا کری تو ہماری دعا میں مقامی لوگ بھی شامل ہو گئے. عدنان بھائی نے ایک دفع پھر اجتمائی دعا کروائی. جس نے ہم سب پر رقت طاری کر ڈالی. آنسو خود بخود نکل رہے تھے، اور سوچ یہی تھی کے الله پاک ہماری مدد کے لئے اسباب مہیا کرے، اس طرح کی بیماری اگر ان خاتوں میں موجود ہے تو یہ اکیلی نہیں ہونگی اور بھی لوگوں میں یہ بیماری ہو سکتی ہے. دعا کے بعد ہم لوگوں کو ایک دفع پھر میڈیکل کیمپ شروع کرنے کے لئے کہا گیا، عدنان بھائی، اکرم بھائی، میں اور ڈاکٹر صاحب ان خاتون کے پاس آگے ابھی ڈرپ  چل رہی تھی اور خاتون بری طرح کرہ رہی تھی. ان خاتون کے ساتھ جو لوگ تھے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کیمپ کے بہار اور مرز بھی جمع تھے جن کو دیکھنا ضروری تھا. ڈاکٹر صاحب نے مجھ کو کہا کے اس وقت تک موجود ادویات کی فہرست بنا کر ان کو دوں میں اس کام پر لگ گیا اور ڈاکٹر صاحب ان خاتون کے ساتھ لوگوں کو کچھ سمجھانے لگے. میں کچھ ہی دیر میں ابھی تک موجود ادویات کی فہرست بنا کر لے آیا. بلال محسود بھی اپنے گھر اور دوستوں سے فارغ ہو کر آگیا تھا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا. میں جب میڈیکل کیمپ کے اندر گیا تو ڈاکٹر صاحب ان لوگوں کو بتا چکے تھے کے خاتوں کو کس  کی بیماری ہونے کا شبہ ہے. یہ لوگ حالات سے بے  خبر تھے،اس طرح کی بیماریوں کے بارے میں نابلد (ناواقف) اسی لئے صرف یہی کہ رہے تھے کے ان (خاتوں) کو الٹی اور پیٹ درد کی دو دے دو باقی الله شفا دے گا (بے شک الله پاک ہی شفا دینے والا ہے) مگر حکمت اور دوا کے بغیر شفا کیسے مل سکتی ہے. عدنان بھائی اور اکرم بھائی ایک طرف بیٹھ کر ان لوگوں کو میران شاہ (شمالی وزیرستان) جانے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے، فلحال صرف میران شاہ کے ایک سرکاری اسپتال اور ملٹری اسپتال میں ہی کچھ ٹیسٹ اور تھوڑا سہی علاج ہونے کی امید کی جا سکتی تھی. مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا کے یہ لوگ راضی نہیں ہیں. ہم لوگ ابہ دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگے تھے، ان مریضوں میں  خاصی تعداد بچوں کی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کے یہاں (دتہ خیل) اور اس پاس کے علاقوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائےجا سکے ہیں وجہہ مقامی بڑوں اور حکومت کےدرمیان کوئی ٹسل ہے. (الله پاک ان سب کو ہدایت دے آمین). میں نی ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا کے ہم نے اپنی اپیل میں اور ضروری اشیا کی فراہمی کی فہرست میں پولیو کی دوا کے لئے درخواست کری تھی مگر ہم کو نہیں ملی. ویسے بھی ان حالت میں مقامی لوگوں کی مرضی  کے خلاف کام کرنا خود ہمارے لئے اور ہمارے مقصد کے لئے کافی نقصان دے ہو سکتا ہے. ڈاکٹر صاحب خاموش ہو کر دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگے. وہ دوا لکھتے وقت اس بات کا پورا خیال رکھ رہے تھے کے جو دو وہ لکھ رہے ہیں وہ موجود ہو اور بار بار مجھ سے ادویات کی سہی مقدار کا پوچھ رہے تھے. عدنان بھی ان خاتوں کے ساتھ موجود ایک مزرگ مرد کو اپنے ساتھ لے کر باہر جا چکے تھے، ڈاکٹر صاحب درمیان میں ایک دو دفع ان خاتوں کو دیکھنے کے لئے ان کے پاس گئے. 
اچانک ہی ایک اور افتاد آ پڑی، ایک ساتھ ٣ بچے جن کی عمریں ٨-١٢ برس کے درمیان ہونگی ایک ساتھ لائے گئے. ان بچوں کو بہت تیز بخار تھا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کے یہ بچے دتہ خیل سے کچھ دور موجود ایک گاؤں سے لائے گئے ہیں. جہاں ڈاکٹر  یا علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں. ہم اس طرح کی صورت حال کے لئے بلکل تیار نہیں تھے اور نہ ہی ہمارے پاس اس ترہان کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے  کوئی انتظام موجود تھا. پھر بھی ہم نے دوسرے مریضوں کو ایک طرف کھڑا کر کے ان بچوں کو دیکھنا شروع کیا. ان بچوں کا بخار ١٠٣-١٠٤ تھا، شدید بخار کی وجہہ سے یہ بچے نیم بیہوشی کی حالت میں تھے. ڈاکٹر آصف نی بہت پھرتی کے ساتھ ان بچوں کو چیک  کیا اور ہمارے پاس موجود ادویات میں سے کچھ ادوایٹ فورن ان بچوں کو فراہم کری. یہ تینوں بچے خسرہ کی بیماری کا شکار ہیں - ڈاکٹر صاحب نے بتایا اور سہی علاج نہ ہونے اور ادویات نہ ملنے کے سبب خسرہ بہت زیادہ بگڑ گیا ہے. اور ایک دفع پھر وہی مسلہ کے جو ادویات ہم کو چاہیے وہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں. یا الله ہم پر اور ہماری قوم پر رحم فرما، ہم کو اس مشکل اور امتحان سے نکال. ڈاکٹر صاحب نے ان تینوں بچوں کو بھی ایک طرف لٹانے کا اور ان کے بکھر اور حالت کو بار بار چیک کرنے کا کہا، کیمپ میں جگہ ناکافی تھی تو ایک دوسرے کیمپ میں (جس میں آج ہی میں نی اپنا اسکول شروع کیا ہے) اسی میں ان بچوں کو  لٹایا گیا،اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق  ان بچوں کو چہرے اور ہاتھ پیروں کو دستیاب ٹھنڈے پانی سے بار بار دھونے کا انتظام کیا گیا، (ٹھنڈا پانی تو دور یہاں پینے کے لئے صاف پانی تک بہت مشکل سے دستیاب ہوتا ہے) ادویات میں موجود کچھ دعوی ان بچوں کو کچھ وقفوں سے دینا لازم تھا، کچھ اور ادویات کی ضرورت تھی جو ہمارے پاس موجود نہیں تھی. الله کا نام لے کر جو کچھ ہو سکتا تھا شروع کر دیا گیا. ان بچوں کے تعلق الگ الگ گھروں سے ہے، اسی لئے ان کے ساتھ بہت لوگ ہیں جن کو صبر کا کہ کر  ایک طرف بیٹھا دیا گیا. اب مجھ میں اور ہمت نہیں تھی کے میں ڈاکٹر آصف کے ساتھ بیٹھ کر کام کر سکوں میں نے ان کو کہا کے میں ادویات والے جگہ جا رہا ہوں اور ایک اور ساتھ کو یہاں بھیج رہا ہوں تو ڈاکٹر آصف نے کہا کے آپ زیادہ بہتر کام کر رہے ہیں اسی لئے آپ یہاں ہی رہیں. . . . . 
 =======================================================================
دوستوں مزید ڈائری اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے. آج شام تک ڈائری کے سارے صفحات یہاں لکھ دے جائیں گے انشا الله.
جزاک الله
آپ کی دعاؤں  کے محتاج
ٹیم آشیانہ برائے شمالی وزیرستان.