Wednesday 25 July 2012

سید عدنان علی نقوی کا پشاور یونیورسٹی کے طلبہ سے ملاقات پر ایک گفتگو

محترم دوستوں 
اسلام و علیکم،
الله پاک سے دعا کرتا ہوں کے آپ جہاں بھی ہوں الله پاک اپنی رحمتوں کا سایہ آپ پر سلامت رکھے، آمین. 
میں وہی ہوں جس نے ٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد اس دنیا کے عیش و عشرت اور آرام کو چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان کےپریشان حال، دکھ درد میں مبتلاہ بھائی، بہنوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا. میرے اس فیصلے کی میرے گھر والوں نے، میرے دوستوں نے، میرے احباب نے اور میرے سے ملنے والے ہر انسان نے بہت حوصلہ افزائی کری، مجھ کو یقین دلایا کے میں جو بھی کروں گا یہ سب لوگ ہمیشہ میرے ساتھ ہونگیں. اپنی بہن اور بھائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈھتے میں آج یہاں تک آگیا کہ کبھی کشمیر، کبھی سوات، کبھی ملاکنڈ، کبھی جنوبی وزیرستان، کبھی بدین (سندھ)، کبھی شمالی وزیرستان، کے لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا. ہر جگہ کے لوگوں سے ملنے، وہاں کے حالات جاننے کا موقع ملا. اور سب سے بڑھ کر الله پاک نہیں مجھ سے وہ کام لیا جو کام الله پاک ہر انسان سے نہیں لیتا. 

وادی کشمیر میں فلاحی کام شروع کرتے وقت کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا سفر اتنا لمبا اور طویل ہو سکتا ہے. میں نے تو صرف اتنا سوچا تھا کہ وہاں (کشمیر) میں زلزلے سے متاثر بھائی بہنوں کی خدمت کروں گا دنیا بہت کما لی اب آخرت کماؤں  گا. خود بھی فلاحی کام کروں گا اور دوسرے بھائی بہنوں کو بھی فلاحی کام کرنے کی ترغیب دوں گا. الله نے مدد کری. بی بی سی اردو سروس والوں نے رابطہ کیا اور میرے کام کو میری سوچ کوساری دنیا تک پہنچایا. (مے آج بھی بی بی سی اردو سروس کے مصدق سانول، عالیہ نازکی اور ساری اردو سروس کا صدق دل سے شکر گزار ہوں کہ میرے خیالات کو جس طرح ان لوگوں نے دنیا تک پہنچایا وہ میرے خود کے لئے ایک مثال بن گیا. الله پاک بی بی سی اردو سروس کی تمام ٹیم کو اور ساتھیوں کو بہت ترقی عطا کرے اور دین و دنیا کی فلاح دے - آمین). 
میرے فلاحی کاموں کے اس سفر میں بہت اتار چڑھاؤ آے. بہت مشکلات، تنگی، پریشانی، اداسی، خوشی، غم، مسکراہٹیں، مصائب آے، الله پاک نی مجھ کو ہمت دی، صبر دیا، حوصلہ دیا، اور ایک کے بعد ایک میں ہر وقت سے گزرتا چلا گیا. الله پاک کا شکر گزر ہوں کے اس نے مجھ کو اپنے مقرب اور ایسے بندوں میں چنا جن کا کام اس (الله) کے بندوں کا خیال رکھنا اور سکھ درد میں کام آنا ہے. 
میں آج بھی جب کسی شہر میں جاتا ہوں، (جیسے آج پشاور میں ہوں) تو یہاں کی افراہ تفریح دیکھ کر میرے کو گھٹن اور تکلیف ہوتی ہے. ہر انسان صرف ایک ہی کام میں مشغول نظر آتا ہے. وہ کام اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر سی بہتر اسباب، سہولیات کی فراہمی ہے. بہت کم لوگ الله کو اور الله کی دی ہوئی تعلیم کو یاد رکھے ہوے ہیں الله کو اور الله کے دین کو صرف مساجد اور صدقات تک محدود کر رکھا ہے. (معزرت کے ساتھ کافی لوگ یہ کام بھی صرف دنیا دکھاوے کے لئے کرتے ہیں - الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت عطا کرے، آمین). میری تعلیم، علم اور معلومات کے مطابق یہ کام (فلاحی کام) تو صرف الله کی رضا، خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، ناکہ قرب دنیا اور کسی اور مقصد کے لئے. (اگر میرا علم محدود ہے، تعلیم اور تجربہ میں کوئی کمی ہے تو الله پاک مجھ کو سہی علم عطا کرے اور مجھ کو دروغ گوئی سی محفوظ رکھے، آمین). 
٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد حالات کیسے رہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے. کس کس (فلاحی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، حکومتی اہلکاروں، اور ہم جیسے لوگوں) نے کیا کیا یہ بھی سب پر عیاں اور واضح ہے. میں یہ نہیں کہتا کے میں نے اور میرے ساتھیوں نہیں نے جو کیا وہ ہی سہی تھا اور نہ ہی کسی ادارے یا جماعت پر کوئی انگلی اٹھا رہا ہوں، میں صرف اتنا کہتا ہوں کے جس کام (فلاحی کام) کو جس طرح ہونا چاہیے تھا وہ کام اس انداز میں نہیں ہوا. ہم سب مل کر زلزلے کے متاثرین کو بہت جلد اور بہت اچھے انداز میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے مدد کر سکتے تھے مگر افسوس کے آج بھی ہم کشمیر، اور خیبر پختونخواہ میں ایسے بہت لوگ دیکھ سکتے ہیں جو ٧ (سات) برس گزر جانے کے باوجود بھی اپنے گھروں کے نہیں ہو سکے ہیں، نہ ہی ان کے کوئی مالی اسباب کے وسیلے بن سکے ہیں. (ہم سب نے مل کر ان لوگوں کو فقیر اور بھیک مانگنے جیسے مکروہ کام پر لگا دیا). آج بھی مجھ سے بہت لوگ رابطہ کرتے ہیں کہ میں ان کے لئے کچھ کروں، مگر میں کیا کروں، عدنان اور عدنان کے ساتھی کوئی انجمن یا ادارہ نہیں ہیں، ہم کو تو لوگ چندہ، ادویات، غذائی اجناس وغیرہ تک بہت مشکل سے دیتے ہیں. (شاید ہم دوسروں کی طرح کسی میڈیا گروپ کے ساتھ جڑے ہوے نہیں ہی، ہماری تصاویر کسیاور فلمیں کسی ٹی وی چینل اور اخبار کی زینت نہیں بنتی، ہم دوسروں کی طرح مجبور، بے بس، بیمار، لاچار اپاہج، یتیموں، بیواؤں، بزرگوں کو فوٹیج بنا کر دکھاوا نہیں کرتے. اور ہم ایسا کریں بھی تو کیوں کریں؟ صرف دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سب سے زیادہ انسان دوست ثابت اور مخلص ظاہر کرنے کے لئے؟  یا لوگوں کے سامنے ان لوگوں کو پیش کر کے کے ان لوگوں کے نام پر چندہ اور چیزیں اکھٹا کر کے خودنمائی کرنے کے لئے؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکل نہیں، یہ کبھی بھی عدنان اور عدنان کے ساتھیوں کا انداز نہیں رہا. فرینڈز آف عدنان جو زلزلے کے وقت ایک سوشل ورکنگ گروپ تھا آج ٹیم آشیانہ بن گیا، ان برسوں میں بہت سارے ساتھ اور دوست ہمارے ساتھ ملے کام کیا کچھ آج بھی ساتھ ہیں اور کچھ اپنی اپنی زندگیوں میں مشغول ہو گئے. مگر ہم نی کبھی بھی جھوٹی نمائش اور دیکھ ریکھ کا سہارا نہیں لیا. الله پاک نی ہم کو اب تک ان سب سے محفوظ اور دور رکھا ہوا ہے. الحمد الالله)
میرے بھائی، میں نے فلاحی کاموں کے اس سفر میں بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ جانا، کچھ ایسے نام جو دنیا کی نظروں میں بہت اچھے جانے جاتے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں کے مکروہ چہرے دیکھے، میرا خود کا بھی ایمان ڈگمگایا مگر خود کو سمبھالا اور آج اس مقام پر ہوں جہاں میں الله کا شکر گزار ہوں کہ میرے ساتھیوں نے ایسی ایسی جگہوں پر فلاحی خدمات سر انجام دی ہیں جہاں کا نام سن کر ہی لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. الله نے ہمیشہ ہم پر کرم کیا اور فضل کیا، ہماری جانوں کی حفاظت کا بندوبست کیا، ہمارے پاس بے شک مال کی، اسباب کی کمی رہی ہو مگر ہمارے جذبے ہمیشہ بلند رہے، ہمرے دل اور دماغ ہمیشہ خدمت انسانیت کے جذبات سے بھرے رہے، اور ہم کبھی کمزور نہیں پڑے. 
ہاں، ہم بھی انسان ہیں، ہر انسان کی طرح ہم میں بھی احساسات ہیں، دکھ، تکلیف ہم کو بھی محسوس ہوتی ہے. ہم بھی مسکراتے ہیں ہم بھی رو پڑتے ہیں. اور جب ہم تنہا ہوتے ہیں، کوئی مدد نہیں ہوتی تو ہم صرف اور صرف ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ہم سے زیادہ برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں. ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو ہم سے زیادہ تنگدستی کا شکار ہیں، بھوک، افلاس، غربت، علم سے محرومی کا شکار ہیں. اور ہم ہمت کرتے ہیں کے اگر ہم ان لوگوں کے لئے کوئی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ بیٹھے تو ہیں. یہی ٹیم آشیانہ کی تربیت ہے، یہی ٹیم آشیانہ کا اصول ہے، کہ اگر مال سے کچھ نہ کر سکو تو جان سے کر گزرو، قبول کرنے والا، برکت دینے والا، ہمت دینے والا، بگڑی کو بنانے والا، الله پاک ہے، جو ہم کو اس امتحان سے بہار نکالے گا. میں خود بہت کمزور اور لاچار انسان ہوں، جس کا کوئی گھر نہیں، خاندان نہیں، وسیلہ نہیں (میں اپنا سب کچھ دکھی انسانیت کی خدمات کے لئے وقف کر چکا ہوں، یہ میں اس لئے نہیں کہ رہا کے مجھ کو اپنے اس کیے پر کوئی افسوس یا ملال ہے، یہ صرف اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ کو اور دوسرے بھائی بہنوں کو ترغیب ملے). کراچی میں اپنے خاندان والوں سے ملاقات ہوے پتہ نہیں کتنا عرصہ ہو گیا ہے. 
میں نے  کراچی میں ایک بہت اچھا وقت گزارا، زلزلے (٢٠٠٥) سے پہلے میں بھی بہت چلبلا، شرارتی، عیش و عشرت کی زندگی گزارتا رہا ہوں، میری بھی یہی کوشش ہوتی تھی کہ دنیا کی ساری سہولیات جتنا جلدی حاصل کر سکتا ہوں کروں. خود کو اور دوسروں کو اپنی شخصیت سے متاثر کرتا رہوں، لوگ مجھ کو میری حثیت اور میرے رتبے سے پہچانیں. لیکن ٢٠٠٥ کے زلزلے نے میری زندگی اور میری زندگی کا مقصد ہی بدل دیا. میں جب کشمیر گیا، میں جب سرحد (آج کے خیبر پختونخواہ) گیا تو میں نہیں الله کا قرب محسوس کیا، بہت غور کیا کے میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ الله پاک نے مجھ کو تخلیق کیا تو کیا وجہہ ہوگی؟ اور اسی سوال کے جواب میں آج تک کا سفر جاری ہے. الله پاک کا احسان ہے، شکر ہے، کرم ہے کہ الله پاک نے مجھ کو اپنے ایسے بندوں میں شامل کیا جو کم از کم سوچتے تو ہیں. 
آج مجھ کو پشاور یو نیورسٹی کے کچھ طلبا نے یہاں (پشاور) بلوایا. مجھ سے شمالی وزیرستان کے حالات معلوم کیے، وہاں موجود لوگوں کی زندگی گزارنے کے بارے میں پوچھا، وہاں کیا ہو رہا ہے یہ معلوم کرنے کی کوشش کری. تو جتنا میرے علم میں تھا آپ کو بتا دیا. میرے پاس بتانے کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں، کچھ نیا نہیں، کچھ ایسا نہیں جس کو جان کر آپ لوگ کو تسلی ہو سکے. میرے پاس تو جو معلومات ہیں ان کے مطابق وہاں ہم وہاں کے لوگوں کے لئے زندگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. وہاں کے لوگوں کو ان کا سہی مقام دلانے کی کوشش کر رہے ہیں. وہاں کے لوگوں میں تعلیم، ہنر  کی کوشش کر رہے ہیں. بیماروں کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں. مرنے والوں کو کفن دفن کے انتظامات میں مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں. کوشش اور صرف کوشش، اس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں کر پا رہے ہیں. ہمارے بہت ساتھ خاص کر کراچی سے آئے ہوے ساتھ وہاں (شمالی وزیرستان) کے حالات سے تنگ اور پریشان ہو گئے ہیں اور چاہتے ہیں کے وہ اور ہم اب شمالی وزیرستان سے واپس نکل کر کسی اور طرف جائیں اور فلاحی کام کریں. میں یہ کہتا ہوں کہ اگر ہم بھی وہاں (شمالی وزیرستان) سے نکل گئے تو وہاں کون ہوگا جو وہاں کے لوگوں کو پاکستان اور اسلام کے بارے میں اپنے عمل سے سمجھائے گا؟ میران شاہ کے علاوہ مجھ کو تو کہی بھی کوئی فلاحی انجمن یا ادارہ نظر نہیں آتا. ادارہ تو دور کی بات ہے، میران شاہ سے آگئے حکومت پاکستان کا کوئی اہلکار نہیں دکھتا، نہ ہی حکمتی رٹ نظرآتی ہے.  ہر طرف صرف طاقتور کا راج ہے، جن کو آپ طالبان یا طالبان متاثرکہتے ہیں. وہاں جینے کے اپنے اصول ہیں، وہاں رہنے کے اپنے اصول ہیں، وہاں مرنے کے بھی اپنے ہی اصول ہیں. اور ہم (عدنان اور ٹیم آشیانہ) کو وہاں کے اصول کے مطابق ہی فلاحی کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے. اور ہم کر بھی کیا رہے ہیں. فری میڈیکل کیمپ، جن میں ادویات ہمیشہ کم رہتی ہیں. ٹیموں اور بیواؤں کے گھروں میں کچھ راشن کی تقسیم جو ٤- ٥ (چار سے پانچ) افرد کے لئے ایک ہفتہ بھی نہیں چلتا. یا کبھی کبھی کپڑوں کی تقسیم وغیرہ جیسے کام، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کے دتہ خیل، میر علی، شوال کی وادی یا کسی بھی علاقے میں ایک چھوٹا سا اسکول بنا دیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں. وجھہ مقامی اور بیرونی دباؤ ہی رہتا ہے. یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کے ٹیم آشیانہ پچھلے ٢ (دو) برسوں کے دوران ٥ ہزار (پانچ ہزار) سے زیادہ لوگوں میں مفت کپڑوں کی تقسیم کر چکی ہے، ٣٨٥٠ (تین ہزار آٹھ سو پچاس لوگوں میں غذائی اجناس کی تقسیم کا کام کیا ہے). ٦٠٠٠ ہزار (چھہ ہزار) سے زیادہ لوگوں جن میں بچے، بزرگ، نوجوان اور کچھ خواتین شامل ہیں کا مفت علاج کیا ہے آج بھی ٹیم آشیانہ کے میڈیکل کیمپ دتہ خیل اور آس  پاس کےعلاقوں میں کافی مقبول ہیں. الله پاک کا شکر ہے، کرم ہے کہ ہم اتنا کچھ کر سکے ہیں. 

میں یہاں آپ سے ٹیم آشیانہ کی کامیابی، کارناموں کی بات کرنا نہیں چاہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کے جن علاقوں میں ہم جا کر فلاحی کام کر سکتے ہیں وہیں آپ لوگ بھی جا کر کر سکتے ہیں، دنیا کی کوئی بھی انجمن، فلاحی ادارہ جا کر کر سکتا ہے، صرف جذبہ اور ہمت کی ضرورت ہے. شمالی وزیرستان کے لوگ جنگجو ضرور ہیں، مگر بہت ملنسار، محبت کرنے والے، مہمان نواز ہیں. اور شاید اپنی اسی خوبیوں کی وجہہ سے آج وہاں کے لوگ اتنی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں. میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کے وہاں کے لوگ کتنے طالبان ہیں اور کتنے پاکستان مخالف، نہ ہی میں وہاں کے سیاسی حالات پر کوئی رائے دینا چاہتا ہوں. میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کے جس کا جو کام ہے صرف وہی کام پوری دیانت  داری کے ساتھ کرنا شروع کریں تو وہاں کے حالات مہینوں میں نہیں بلکے ہفتوں میں درست ہونا شروع ہو جائیں گے. انشا الله.
یہاں اگر میں پاکستانی افواج اور سیکورٹی کے اداروں کے کردار کے بارے میں کچھ نہ کہوں تو یہ غلط ہوگا. ہم کو اپنے سیکورٹی اداروں، اور افواج پر ناز ہے، فخر ہے، الله پاک نے ہم کو جو افواج دی ہے اس کے جوان کسی بھی مشکل، دشمن اور حالات کا سامنا کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں. میں خود اور میرے ساتھ ہمارے جوانوں کو کام کرتا دیکھ رہے  ہیں. اور جو بھی وہ کر رہے ہیں اسی کی وجھہ سے ہم جیسے لوگ شمالی وزیرستان میں موجود ہیں. اور شمالی وزیرستان، پاکستان میں موجود ہے. نہیں تو ملک دشمن عناصر نے اس ملک کو توڑنے اور برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے. الله پاک ہمارے فوجی جوانوں کو ہمت دے صبر دے، حوصلہ دے. آمین.

میں اپنی عزیز بہن فریال زہرہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو کینیڈا سے یہاں آتی ہیں کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارتی ہیں اور خاص کر خواتین کے لئے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں. الله پاک ان کے جذبے کو قبول کرے، ہمت دے، حوصلہ دے اور استقمت عطا کرے. میرے ساتھی جو لاہور سے، کراچی سے، راولپنڈی سے، پشاور سے اور وزیرستان سے ٹیم آشیانہ میں حصہ لیتے ہیں شمولیت اختیار کرتے ہیں کو سلام پیش کرتا ہوں. الله پاک ان کو ہمت دے اور زندگی میں فلاحی کام کرنے کی توفیق عطا کرے - آمین.

آخر میں، پشاور یونیورسٹی کے ساتھیوں کا شکریہ جنہوں نے مجھ کو یہاں بہت محبت دی، ہمت دی اور میرا حوصلہ بڑھایا. میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب زندگی میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور ایک دفع ضرور وزیرستان جائیں گے، جہاں آپ کے بھائی، بہن آپ کی مدد اور ساتھ کے منتظر ہیں. یہ ضروری نہیں کے آپ صرف ہمارے ساتھ ہی کام کریں، آپ کچھ دوست مل کر ایک سوشل گروپ بنیں، اور جو کچھ سامان، ادویات وغیرہ اکھٹا کر سکتے ہیں کریں اور آجائیں. نیت اور ارادہ اگر پختہ ہو تو الله پاک کی مدد ہمیشہ ساتھ رہتی ہے. 

میرے لئے اور میرے ساتھیوں کے لئے دعا کریں کہ الله پاک ہمارے ارادوں کو، ہماری ہمت کو، ہمارے حوصلے کو بلند رکھے، ہم کو صبر اور استقامت دے کے ہم اسی طرح اپنے بھائی بہنوں کی مدد کرتے رہیں اور ہم کو غیب سے اسباب مہیا کرے کے ہم ہر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے کام آسکیں - آمین.

جزاک الله خیر 
اسلام و علیکم