Saturday 29 December 2012

An Apology from Team Ashiyana - North Waziristan

Dear all,
اسلام و علیکم  
 
With due respect, this is to inform our all friends, volunteer on other locations, family members and respected readers that we have a very limited internet access with a lot of the power failure (electricity) problems here at Miransah, North Waziristan.
Please accept our deep apology in this regards, We are in our best try to upload "Waziristan Dairy" on regular basis.
Please remember us "Team Ashiyana - North Waziristan" in your prayers.
Jazak ALLAH
Team Ashiyana
Ashiyana Camp,
1.5km, Miranshah, North Waziristan.

محترم دوستوں اور ساتھیوں،
اسلام و علیکم 
ہم (ٹیم آشیانہ) کے کارکنان اپنے تمام دوستوں، ساتھیوں، دوسرے شہروں میں رہنے والے کارکنان، خاندان والوں اور قابل  احترام پڑھنے والوں سے معزرت اور معافی کے طلبگار ہیں کہ یہاں میرانشاہ، شمالی وزیرستان میں محدود انٹرنیٹ اور بجلی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے. 
ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آشیانہ کیمپ میں جاری  فلاحی خدمات اور وزیرستان ڈائری کو وقت پر لکھا جا سکے.

آپ کی دعاؤں کے طلبگار،
جزاک الله  
ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ ١.٥ کلومیٹر،
میرانشاہ، شمالی وزیرستان. 

Tuesday 18 December 2012

وزیرستان ڈائری: ایک اور دن کی داستان

اسلام و علیکم 
ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی جانب سے "وزیرستان ڈائری" تحریر کرنے کا عمل جاری ہے اور جیسے ہی ہم کو ڈائری موصول ہوتی ہیں ہم ضروری تدوین کے بعد اس کو یہاں شایع کر دیتے ہیں. اس ڈائری کو یہاں لکھنے کا مقصد خود کی تشہیر یا مقبولیت نہی ہے بلکہ ہم صرف شمالی وزیرستان کے زمینی حقائق اور مقامی افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں مزید "ٹیم آشیانہ" کے جو کارکنان مختلف شہروں سے یہاں آکر فلاحی کام سر انجام دے رہے ہیں ان کاموں کی تفصیلات سے اپنے دیگر دوستوں کو آگاہ کرنا ہے. 

گزشتہ ڈائری کا لنک:

آج کی ڈائری:
رات بھر جاگنے اور شدید ذہنی دباؤ کی وجہہ سے میرا سر درد سے بہت بری طرح پھٹ رہا تھا. میں نے سب ہی کو بولا کے میں اب سونے جا رہا ہوں. مجھ کو ظہر کی نماز میں جگا دیں. باقی معملات رحمت بابا اور دیگر ساتھ مل کر دیکھیں. میں عدنان بھائی کے ٹینٹ میں آیا اور ایک جانب پڑے بستر پر سو گیا.

ظہر کی نماز سے تھوڑا پہلے ہی بلال نے مجھ کو جگا دیا. نیند کا خمار اور سر درد میں کچھ کمی آ چکی تھی، مگر سستی اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی. 

جاگ کر نماز کی تیاری کری اور کیمپ کے دیگر کاموں کے بارے میں رحمت بابا اور بلال سے معلومات کری. فیصل بھائی ایک طرف کچھ بچوں کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے. میں نے بلال سے پوچھا کے اب تمہاری امی اور بہن کیسے ہیں اور کہاں ہیں؟ بلال میری بات سن کر اچانک سے رو پڑا، مجھ کو فوری طور پر کچھ سمجھ نہی آیا مگر رحمت بابا جب بلال کو دلاسہ دینے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا "صبر بچہ، صبر،" جب مجھ کو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگا. بلال کی باتیں بلال کی ڈائری، بلال کے نہ سمجھ آنے والے پیغامات سب ایک ایک کر کے سمجھ آنے لگے. 

مگر ہوا کیا؟ کوئی مجھ کو بھی تو بتائے؟ میں نے بلال کو اپنے سینے سے لگایا اور ایک طرف بیٹھ کر پوچھا: "بلال امی کہاں ہیں؟ بہن کہاں ہے؟ 

بلال نے روتے ہوۓ جواب دیا "بھائی امی نہیں ہیں وہ ہم کو چھوڑ کر بہت دور چلا گیا ہے." میں نے کہا اور بہن؟ تو بلال نے کہا وہ بھی چلا گیا اس کا شادی ہو گیا. 
میں حیران تھا کے یہ سب مجھ کو پہلے سے کیوں نہیں بتایا گیا؟ کیوں اور کیسے؟ تو رحمت بابا جو ابھی تک ہمرے ساتھ موجود تھے نے مجھ کو کچھ تفصیلات باتیں کہ کس طرح سے بلال کی والدہ کا انتقال ہوا اور بہن کی شادی ہوئی.

 "بلال کی والدہ کیوں کے بیمار تھی اور نفسیاتی مریض بھی تو کچھ ماہ قبل بلال کے کوئی رشتےدار یہاں آئے تھے اور بلال کی بہن کا ہاتھ مانگا تھا، بلال نے عدنان بھائی اور کچھ بڑوں سے مشورہ کر کے اپنی بہن کا نکاح کر دیا تھا اور رخصت کر دیا تھا. اس کی بہن میر علی کے کسی خان کے گھر کی بہو بنی ہے. اور بہن کی شادی کے بعد ہی بلال کی والدہ گزشتہ ماہ نومبر کی ١٧ کو انتقال  کر گئی تھی. "الله پاک مرحومہ کی مغفرت کرے اور بلال کو صبر عطا فرماۓ - آمین"

اب تو بلال اکیلا ہی رہ گیا ہے. اب کیا کرنا ہے؟ میں اسی سوچ میں تھا کے کیمپ میں مقیم کچھ بزرگ ہم سے ملنے ہماری طرف چلے آئے. بزرگ ہم سے یہ جاننا چاہتے تھے  اب ان کا مستقبل کیا ہے محترم رحمت بابا نے کوئی بھی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی شاید آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام ہی لوگوں کو یہ بتلا دیا تھا کہ ہم لوگ کیمپ میں مقیم کچھ لوگوں کو رخصت کرنا چاہتے ہیں. میں نے اور فیصل بھائی نے ان تمام لوگوں کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کری. 

ہم چاہتے تھے کہ کیمپ کی ابتر حالت کو جلد از جلد سدھار سکیں، فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں. دوست، احباب اور گھر والوں سے رابطہ  کرنا ناممکنات میں ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سب جیسے کسی   اور سیارہ کی مخلوق ہیں جس کا زمین والوں سے کوئی رابطہ فلحال ممکن نہیں. ایسی بے بسی کے عالم میں بہت سارے لوگ ہم سے پتا نہیں کیا کیا اور کس کس قسم کی امیدیں لگا کر بیٹھے تھے، ان میں سے اکثر لوگوں کو یہ تک نہیں پتا ہے کہ ہم لوگ تو خود پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا گزر بسر ہر مہینے ملنے والی تنخواہ پر یا جو چھوٹا کاروبار رکھتے ہیں اس کی آمدن پر ہوتا ہے اور اب تو ملک کے معاشی حالت ہم کو بچت کرنے کی کوئی اجازت تک نے دیتے تو ہم ان لوگوں کی بہت ساری امیدوں کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں. میرے خیال سے ہم (ٹیم آشیانہ کے کارکنان) کو اب آشیانہ کیمپ کے بگڑے حالت کو سدھار نے کے لئے کچھ تلق اور حقیقت پسند فیصلے کرنے ہی ہونگے. ابھی میں کوئی نامکمل یا ادھوری بات کہ کر یہاں کے لوگوں کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا نہ ہی کوئی ایسا قدم جس سے کیمپ کے اندر کسی بھی طرح کی کوئی بے چینی پھیلے یہ میرا مقصد تھا. 

ان لوگوں کو فارغ کر کے میں ایک دفع پھر سے عدنان بھائی کی دی ہوئی فائلز کھول کر بیٹھ گیا. سردی بڑھتی ہی جا رہی تھی. دل اور دماغ میں عجیب عجیب خیالات اور فکریں سوار ہو رہیں تھی. بہت بڑی ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی تھی، مگر ہمت تھی کہ بار بار ٹوٹے جا رہی تھی. 

فیصل بھائی میرے ساتھ ہی بیٹھے رہے اور میرے بتاۓ  ہوۓ اعداد و شمار کو نوٹ کرتے جا رہے تھے. آج میں کیمپ میں موجود تمام  مقامی افراد اور کارکنان کا حتمی ڈیٹا تشکیل دے رہا تھا، اور کیمپ میں موجود امدادی سامان کی تفصیلات اور دیگر باتیں بھی لکھ رہا تھا. میرا سب سے پہلا ٹارگٹ کیمپ میں موجود لوگوں کو بڑھتی ہوئی سردی سے محفوظ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا تھا. جس کہ لئے درکار سامان ابھی تک مہیا نہیں تھا.  ایک حتمی فہرست ترتیب پا گئی تو میں نے شام میں کیمپ میں موجود تمام مقامی کارکنان کو پیغام بھجوادیا کہ ہم آج 
 بعد نماز عشاء ایک میٹنگ کر رہے ہیں لہذا اس وقت سب حاضر رہیں.    

کب کی کب میں عصر اور مغرب ہو گئی کچھ پتہ ہی نہ لگا، بس ہم فائلز سے فارغ ہوتے، نماز ادا کرتے اور پھر سے فائلز لے کر بیٹھ جاتے. مغرب کی نماز کے بعد کھانا تیار تھا ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کچھ لکڑیوں کو جلا کر بیٹھ گئے. کچھ اپنی باتیں کریں کچھ لوگوں کی باتیں سنیں. یہاں دکھ، غم، بے بسی کی باتوں کے سوا کچھ اور بھی ایسا نہیں تھا جس کا ذکر اپنی ڈائری میں لکھ سکوں. باتوں ہی باتوں میں فیصل بھائی نے ذکر کیا کہ ہمارا امدادی سامان ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے تو مجھ کو بھی کچھ فکر لاحق ہوئی. میں نے ایک پرچہ لے کر عدنان بھائی کے لئے ایک پیغم لکھا اور رحمت بابا کے حوالے کیا کہ وہ اس پیغام کو کسی بھی طرح عدنان بھائی تک پہچانے کا اہتمام کریں. اسی اثنا میں عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا ہم سب نے مل کر نماز ادا کری اور سردی سے محفوظ رہنے کے لئے پھر سے کچھ لکڑیاں جلائیں.  

مقامی کارکنان اور ہم سب نے مل کر میٹنگ کر جس میں کچھ بنیادی فیصلے کیے اور پھر کل سے عملی اقدامات کرنے کا احد کر کے ہم سب اپنے اپنے بستروں میں داخل ہوۓ. آج ہوا بھی ہے اور شاید کسی وقت بارش بھی ہو. اگر بارش ہوئی تو ہمارے ٹینٹس کا کیا ہوگا؟ یہ تو پہلے سے ہی بہت خستہ حالت میں ہیں. یا الله ہماری مدد فرما اور ہم کو اس امتحان سے نکال - امین.

اب میں ٢ دن کی ڈائری ایک ساتھ لکھنے بیٹھا ہوں اور آج ہی لکھ کر ختم کر دوں گا، وہاں کراچی میں میری امی اور بہنیں میرے پیغام کے لئے راہ دیکھتی ہونگی اور بہت فکر مند ہونگی. ابھی تو اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کے لئے بس یہی ایک راستہ ہے کہ روز ڈائری لکھوں ار میران شاہ میں مجود مقامی کارکن کو بھجواؤں اور وہ اس کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردے. باقی امی کا ذاتی پیغام شاید کسی طرح مجھ تک یہاں پہنچ جائے. 

اب یہ ڈائری ختم پر ہے رات کا ایک بج رہا ہے، بہار تیز ہوا چل رہی ہے، سردی ایسی ہے کے بس جسم جمنا ہی باقی ہے. میں خود سے ہی سوال کر رہا ہوں کہ میں اس موسم میں یہاں کیوں ہوں اور خود کو ہی تسلی دے رہا ہوں کہ بس کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے پھر ہم اپنے گھر میں ہونگے اور یہ لوگ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں میرے پاس فلحال. 

شب بخیر، الله پاک ہم سب پر اپنا کرم کرے، آمین!
         

Sunday 16 December 2012

وزیرستان ڈائری: مقامی قبائل کے بڑوں سے ایک ملاقات کا احوال

اسلام و علیکم 
ہم ایک دفع پھر دیر ہونے پر معزرت چاہتے ہیں. یہاں مستقل بارش  کرا کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے جبکہ بجلی اور دیگر سہولیات بھی بہت مشکل سے دستیاب ہیں.

گزشتہ ڈائری کا لنک: http://waziristandairy.blogspot.com/2012/12/blog-post_13.html

اب آگئی پڑھیے؛

آج کی ڈائری:
یہاں آکر ہم کو تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہمارے سامنے قہوہ لا کر رکھ دیا گیا، فیصل بھائی نے بڑبڑایا "یہ اچھی مصیبت ہے. اتنی رات کو بلوا لیا، سردی کتنی ہے، اور یہ لوگ بتا بھی نہیں رہے کہ کیا بات ہے اور اب قہوہ پیو." 
میں صرف مسکرا سکتا تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہی کر سکتا تھا. 
تھوڑا دیر میں کچھ لوگ جو حلیے سے بھلے انسان معلوم پڑتے تھے. ان لوگوں نے آتے ہی ہم کو سلام کیا اور ہم کو گلے سے لگایا اور ہم کو بہت گرم جوشی سے خوش آمدید کہا. 
ہمنے بھی اپنی پوری کوشش کری کہ ہم سے کسی کو کوئی شکایات نہ ہو اور ہم بھی نرم الفاظ میں ہر بات کا جواب دیتے رہے. بولنے والوں کی اردو بہت اچھی اور صاف انداز میں تھی. 
ہماری بہت باتیں ان لوگوں سے ہوئیں جن میں سے کچھ حیح یہاں لکھ سکتا ہوں. 

آنے والوں میں سے ایک صاحب جو زیادہ عمر کے نہیں تھے نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ یہاں پر ایک قبیلے کے رکن ہیں اور ہم سے ہماری آمد کا مقصد جاننا چاہتے ہیں. جو سوال جواب ہوۓ وہ کچ اس طرح سے ہیں:

حاجی صاحب: آپ سب یہاں جس نیک مقصد کے لئے تشریف لائے ہیں میں اور میرے دوست، ساتھ اس پر آپ کے شکر گزار ہیں. ہم سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کون لوگ ہیں اور کراچی اور دوسرے شہروں سے یہاں آکر کام کرنے کا کیا مقصد ہے؟

میں (منصور): محترم، ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ یہاں میری اور میرے دوستوں کی آمد کا مقصد صرف اور صرف یہاں کے پریشان حال لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے. باقی آپ لوگ یہاں کے رہنے والے ہیں اور ہمارے بارے میں شاید ہم سے زیادہ جانتے ہیں. عدنان بھائی یہاں برسوں سے فلاحی خدمات سر انجام دے رہے ہیں آپ کو ان کے بارے میں بھی علم ہوگا. میں پیشے سے ایک ٹیچر (استاد) ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہاں کہ بچوں میں علم کی روشنی پھیلاؤں. اور اپنے پچھلے وزٹ میں ایک ٹینٹ میں آشیانہ اسکول قائم کیا تھا جو آشیانہ کیمپ میں چل رہا ہے. مگر فلحال فنڈز کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہم اس اسکول کو سہی سے چلا نہیں سکے ہیں. ابھی ہم چاہتے ہیں کہ آشیانہ کیمپ کی حالت کو سدھاریں  اور اسکول کا پروجیکٹ پھر سے شروع کیا جا سکے. اس کام کے سلسلے میں ہم کو یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد اور تعاون کی بہت ضرورت ہوگی.

حاجی صاحب: دیکھیں دوست، یہاں ہم لوگ یا کوئی بھی دوسرا دنیا کی تعلیم کو حاصل کرنا درست نہیں سمجھتا، یہاں کے لوگ خالص مذہبی رجحان رکھتے ہیں، بہتر ہوتا کہ آپ یہاں کوئی اچھا اور بڑا مدرسہ قائم کرتے جس میں ہم سب لوگ آپ کی مدد کر سکتے تھے. مگر یہ اسکول والا کام یہاں مشکل ہے کے کوئی آپ کا ساتھ دے سکے. دیگر یہاں کہ لوگ پہلے ہی مختلف آفت اور پریشانیوں کا شکار ہیں اس میں یہاں کہ لوگ کس طرح اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کا سوچ سکتے ہیں؟ تو آپ لوگ ایک دفع اور سوچیں عدنان بھائی سے ہمس بارے میں کافی دفع بات کر چکے ہیں اب آپ لوگ آگئے ہیں تو اب آپ کو بھی سوچنا ہوگا. 

میں: جی محترم میں بھی بہت سوچ اور سمجھ کر ہی یہ بات کر رہا ہوں. یہاں کے حالت اور مشکلات کے لئے اس سے بہتر کوئی حل نہیں کے ہم اپنی نئی نسل اور آنے والے بچوں کو علم کی روشنی دے سکیں. ہمارے بڑوں نے جو غلطیاں کری ہیں ضروری نہیں کہ وہی غلطیاں ہم بھی کریں. میری آپ سے اور آپ جیسے تمام مقامی لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں. ہمرے بچے ابھی سارا سارا دن فارغ گھومتے ہیں کرنے کو کوئی کام نہیں تھو یہ بچے کچھ پڑھ لکھ جائیں تو شاید سوچ میں کچھ فرق آئے.

حاجی صاحب: ٹھیک ہے ہم اپنے لوگوں سے بات کریں گے اور آپ کے خیالات ان تک پہنچائیں گے. مگر جب تک کوئی مناسب فیصلہ نہ ہو جاۓ آپ فلحال اپنے اس اسکول والے کام کو روکے رکھیں. میرا مشورہ ہے کہ آپ پہلے یہاں کے لوگوں کے حالت سدھارنے پر غور کریں. یہاں غربت ہے، تنگدستی ہے، لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں، بیماروں کے پاس ادویات نہیں ہیں، رہنے کے لئے گھر نہیں ہیں ان باتوں کو دیکھیں آپ پہلے. پھر یہ اسکول بھی دیکھ لیں گے. 

میں: (حاجی سحاب،باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ کہ چکے تھے اور سمجھا چکے تھے، یہ وقت تھا کہ حاجی صاحب کو بہت مناسب جواب دیا جائے، ایسے میں عدنان بھائی کا یہاں نہ ہونا بہت مشکل میں ڈال چکا تھا)، :میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میرے ساتھ جب تک یہاں موجود ہیں اپنے دستیاب وسائل اور امدادی سامان سے ان لوگوں کے کے لئے جو کچھ بھی کر سکے ضرور کریں گے. ہماری آمد کا مقصد بھی صرف یہاں کے لوگوں کی مدد کرنا ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہی. الله پاک سے دعا ہے کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب رہیں اور ہم کو ہر طرح کی آسانی رہے - آمین. 

رات بڑھ رہی تھی اور ماحول کافی سنجیدہ تھا. ایسے میں میرے ساتھ بیٹھے بلال، فیصل بھائی اور بابا بھی بہت بے چینی محسوس کر رہی تھے. 

حاجی صاحب: تو آپ کے یہ ساتھ کیا کرتے ہیں؟ "فیصل بھائی کی طرف اشارہ کر کے کہا"

 میں نے جواب دیا کہ یہ ابھی پڑھ رہے ہیں اور اپنے والد کی کپڑوں کی دکان ہے لاہور میں اس کو بھی دیکھتے ہیں.      
 میرا جواب سن کر حاجی صاحب نے صرف سر ہلایا، پھر عدنان بھائی کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا.

میں: عدنان بھائی دن میں میران شاہ جا چکے ہیں اور ابھی تک ان کے بارے میں ہم کو کوئی اطلاع نہیں.

حاجی صاحب: عدنان بھائی اور اکرم بھائی رات ہی میران شاہ پہنچ چکے ہے اور وہاں پر ایک مقامی اسپتال میں داخل ہیں. ان کا علاج شروع ہو چکا ہے. 

میں: میرے ساتھ باقی لوگ بھی حیران تھے کہ ان کے پاس یہ اطلاع کیسے آگئی جبکہ ہم تو ابھی تک انتظار ہی کر رہی تھے کے کوئی ہم کو بتائے کہ وہاں کیا ہواہے؟ خیر ہم کو تھوڑا سکوں ہوا کہ عدنان بھائی خیریت سے میران شاہ پہنچ گئے ہیں.
 میں نے پھر کہا کہ آپ کے پاس تو یہاں کی ساری معلومات ہیں. آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہم کو عدنان بھی کے بارے میں بتایا.

حاجی صاحب: ہم یہاں کے رہنے والے لوگ ہیں ہم کو یہ سب معلوم رکھنا ہی پڑھتا ہے. پھر ایک ایسا سوال کیا جس کے لئے ہم میں سے کوئی تیار ہی نہی تھا نہ ہی سوچ سکتا تھا. "آپ کے شہر میں ہم لوگوں کے لئے کوئی جگہ ہے؟"

 میں: تھوڑا سوچ کر. ہمارا شہر تو کیا سارا پاکستان ہی ہم سب کا ہے. اور جگہ کی کیا بات جب ہم کراچی، لاہور، پنڈی اور دوسرے شہروں سے یہاں آسکتے ہیں تو آپ لوگ پاکستان میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ فرق صرف سوچ کا ہے، زندگی کے انداز کا ہے. ہم جہاں رہتے ہیں وہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں کو سمجھنا ہوتا ہے اور اسی حساب سے رہنا ہوتا ہے. تضاد یا اختلاف جبھی شروع ہوتا ہے جب ہم دوسروں کی مرضی کے خلاف اپنی رائے کا اظہر کرتے ہیں اور وہی کرنا چاہتے ہیں جو ہم کرتے ہیں. (میں نے ایک ہی سانس میں سب کہ ڈالا). بلال اور فیصل بھائی خفت بھری نظروں سے مجھ کو دیکھ رہے تھے.

حاجی صاحب کے ساتھ باقی لوگ بھی میرے اس جواب کو بہت خفت محسوس کر رہے تھے. اس خفت کا اندازہ ان کے چہروں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا. 

آپ لوگوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنی آتی ہے؟ قران پڑھنا آتا ہے؟ حدیثیں پتہ ہیں؟ اچانک حاجی صاحب کے ساتھ موجود ایک اور سحاب نے سوال پر سوال کرنا شروع کر دیا. 
میں اس اچانک سوالات کی بوچھاڑ پر حیران بھی تھا اور دل ہی دل میں پریشان بھی، یہ کسی مشکل ہے اب کیا جواب دوں "میں نے دل ہی دل میں سوچا" شاید اسی دن کے لئے میری امی مجھ کو کہتی تھی کہ کچھ دن کو بھی سمجھ، ہر وقت یہ دنیا کی پڑھائی میں لگا رہتا ہے....
 میں نے ایک نظر فیصل بھائی کی طرف دیکھا جو سر جھکا کر بیٹھے تھے پھر حاجی صاحب کی طرف دیکھا، حاجی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے چہروں پر اک عجیب سی مسکراہٹ تھی.میں اچانک خود کو ایک مجرم سمجھنے لگا تھا یا ایسا چور جس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو. تھوڑا روک کر میں نے جواب دیا. بہت ہمت کری تھی میں نے....

میں: میرے دوست! الله پاک کے فضل و کرم سے میں ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہوں. میرے والد اور والدہ نے میری جو تربیت کری ہے اس کے مطابق میں تمام اسلامی فرائض سے واقف ہوں اور عمل بھی کرتا ہوں. دیگر مسلمانوں کی طرح کوتاہی ضرور ہوتی ہے مگر جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے الله پاک سے مدد طالب کرتا ہوں. (میں نے یہ جواب بہت صبر اور سوچ سمجھ کر دیا تھا، جس میں خود ان لوگوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانا بھی لازم تھا، اکھڑ کو میرے استاد ہونے کا کچھ تو فائدہ ہو) 

حاجی صاحب: ماشا الله، آپ بہت حاضر جواب ہیں، اور آپ کے جواب سے میں کافی حد تک مطمئن ہوں. ویسے جہاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (ادھر سردی بڑھ رہی تھی. رات بھی کافی ہو گئی تھی. سن بھر کی بھاگ دوڑ سے تھکن الگ تھی، اور یہ لوگ سوال پر سوال داغ رہے تھے.) 

میں: جی محترم، جہاد پر میرا پورا ایمان ہے، اسلام کا بنیادی رکن ہے. اس پر ایمان رکھے بغیر کوئی مسلمان خود کو مسلم کہلانے کا حقدار نہیں. 

حاجی صاحب: بہت خوب، مطلب کے آپ جہاد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس کے مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں؟

میں: جی جناب اور شاید اسی جہاد کے سلسلے میں یہاں موجود ہیں جو اتنے سرد موسم میں اپنے گھروں کے نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر، اپنے گھر والوں سے دور یہاں موجود ہیں. ہمارا یہ جہاد فلاحی مقصد کے لئے ہے، جس سے ہم مشکلات میں گھرے ہوۓ لوگوں کی مد کے لئے نکلے ہیں. مزید تعلیم کو پھیلانا بھی ایک جہاد ہے. (میں نے موقع پا کر اپنے دل کی بات کہ ڈالی).
جواب میں سب نے میری طرف بہت گہری نظروں سے دیکھا، حاجی صاحب بول پڑے یہ آپ کے دوست فیصل بھائی کافی چپ ہیں؟ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا "جی جناب یہاں کا موسم ان کو راس نہیں آیا جسکی وجہہ سے طبعیت کچھ خراب ہے. آپ نے بلوایا تو یہ یہاں میرے ساتھ چلے آئے."

حاجی صاحب: تو آپ کو اور قہوہ پلاتے ہیں. اور ایک بدنے کی طرف اشارہ کیا "محسوس ہو رہا تھا کہ یہ لوگ آج رات  ہم کو  اپنا مہمان ہی رکھنا چاہتے تھے."

میں: ہمت کرتے ہوۓ "محترم اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم اجازت چاہیں گے. آپ نے پھر یاد کیا تو ہم ضرور حاضر ہو جائیں گے. 

حاجی صاحب: ہم تو چاہتے ہیں کہ آج رات آپ ہمارے مہمان رہیں. صبح فجر کے بعد آپ کو رخصت دیں اگر آپ کے دوست کی تبیت زیادہ خراب ہے تو ان کے لئے بستر کا انتظام ہو سکتا ہے. "حاجی صاحب کی باتوں میں فرمائش کم اور حکم زیادہ تھا"

میں: جی بلکل اگر آپ ان کے لئے بستر کا انتظام کر دیں تو بہتر ہوگا میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھنا اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا "یہ میری خواہش نہیں مجبوری تھی). 

حاجی صاحب نے پھر کسی کو اشارہ کیا اور مقامی زبان میں کچھ بولا.

تھوڑا دیر میں تین کمبل لا دے گئے. ہم سب نے اپنے اپر کمبل لے لیا. فیصل بھائی کو میں نے اشارہ کیا کہ وہ لیٹ جائیں.
 قہوہ بھی آگیا اور قہوہ پتے ہوۓ ہم خود کو ایک نظر بندی میں محسوس کر رہے تھے. بلال بھی لیٹ گیا تھا. بابا ایک مقامی آدمی کے ساتھ سرگوشیوں میں باتوں میں مصروف ہو گئے تھے میں چپ چاپ قہوہ پی رہا تھا. (دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آج کی رات کیا ہوگا؟ یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں؟)

حاجی صاحب: تو بھائی ہم سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوا؟ 
میں: محترم اگر اجازت ہو تو وہ عرض کروں جو میرے دل میں ہے؟
حاجی صاحب: جی بلکل، الله بھی ہم کو سچ کہنے اور دروغ گوئی سے محفوظ رہنے کا حکم دیتا ہے. 
میں: میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہوں اور اپنے ساتھیوں کو بھی. (میں نے سچ کہ دیا)
حاجی صاحب: کس طرح سے؟
میں: محترم، جب سے ہم یہاں آئے ہیں ہم کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم نے کوئی جرم کیا ہے جس کی تحقیقات کے لئے ہم کو یہاں طلب کیا گیا ہے.
حاجی سحاب: بلکل نہیں، ہم آپ کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں اور جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں. بس ہم آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ  جاننا چاہتے ہیں.
میں: (دل ہی دل میں کہا، یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا) محترم جو میرے دل میں تھا کہ ڈالا اگر آپ کو برا لگا ہو تو معزرت چاہتا ہوں. 
حاجی صاحب: کوئی بات نہیں ہم کو آپ کا یہ انداز اچھا لگا. تو آپ جہاد کے بارے میں کچھ فرما رہے تھے. 
میں: جی جناب جو کچھ مجھ کو کہنا تھا کہ دیا.
حاجی صاحب: تو اب یہ جو کچھ وزیرستان، افغانستان،  عراق اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے یہ کیا ہے؟ کیا وہاں یہ غیر ملکی افواج اور آپ کی حکومت (حکومت پاکستان) جہاد کر رہی ہے؟ ہم پر ڈرون سے حملے کر کے کونسا جہاد ہو رہا ہے؟ آپ کی افواج (پاکستانی افواج) جو وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں کر رہی ہیں یہ بھی جہاد ہے؟
حاجی صاحب اچانک سے بہت زیادہ جذباتی ہو گئے تھے. اور وہ سب کہہ گئے تھے جو ان کو ہم کو بتانا مقصود تھا. ایسے میں مجھ کو عدنان بھائی کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی. یہ ضرور ہے کہ میں ایک ٹیچر (استاد) ہوں کراچی میں رہتا ہوں. ملکی اور غیر ملکی حالت اور سیاست کو دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہوں. مگر میں تو یہاں کسی ایسی بات کے لئے آیا ہی نہیں تھا اب کیا جواب دوں. مگر یہ صاحب میرے ملک، میری حکومت اور میری افواج کے بارے میں جو کچھ فرما رہے تھے یہ مجھ کو پسند نہیں آیا. میں نے سوچا کہ دروغ گوئی اور کچھ جھوٹ یا مصلحت سے کم لوں. مگر دل اور دماغ تیار نہیں ہوۓ "میں نے سوچا کے ہمارے بڑوں نے ٦٥ برس اسی دروغ گوئی، جھوٹ اور مصلحت سے کام لیا تو آج ہم کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے. میں ایک سے دم خود کو پاکستان کا نمائندہ سمجھنے لگا. کراچی میں ایک معمولی سی نوکری کرنے والا معمولی سا انسان ابھی خود کو بہت برا محسوس کرنے لگا تھا. پھر ایک دم خیال آیا کہ بات صرف میری نہیں  بلکہ میرے ساتھ اور بھی ساتھ یہاں موجود ہیں کہیں میرا کوئی جواب غلط ہو گیا تو ہم سب کسی مشکل میں نہ پڑھ جائیں. 
 جب میں کافی دیر تک خاموش رہا تو اچانک حاجی صاحب بول پڑے "کیا ہوا کیا سوچ رہے ہیں آپ؟"

میں: کچھ نہیں صرف اتنا کے میں جواب کس حثیت میں دوں. یہاں میں ایک فلاحی کارکن کی حثیت سے آیا ہوں. آپ مجھ کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہیں. پھر بھی اگر آپ میرا جواب سننا چاہتے ہیں تو ....

حاجی صاحب: جی بلکل ہم سب ہی سننا چاہتے ہیں.
میں: اور اگر میرا جواب آپ کے مطلب کا نہیں ہوا تو؟ 
حاجی صاحب: کچھ نہیں ہوگا بس ہم آپ کو یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہیں گے. (مسکراتے ہوۓ)
میں:  (ارے باپ رے سوچتے ہوۓ)،میں نے خود کو سمبھالتے ہوۓ کہا "محترم جناب اب جب آپ اپنے اظہار بغیر کسی خوف کے کر رہے ہیں تو مجھ کو بھی حق دیں کہ میں بھی کر سکوں. (میں نے محتاط انداز میں اجازت طلب کری)    
 حاجی صاحب: جی بلکل اجازت ہے (آخر کو جس ملک میں رہتے ہیں وہاں تو جمہوریت ہے) "حاجی صاحب کا انداز طنز کرنے والا تھا، جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ وزیرستان اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ سمجھتے ہیں"
اب مجھ کو کچھ ہمت ہی کرنی تھی.
میں: محترم جناب. دیکھیں پہلی بات یہ کے ہم سب ایک ہی ملک میں رہنے والے ہیں. اسی لئے جتنی جمہوریت پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہے اتنی ہی جمہوریت یہاں پر بھی ہے. اب آپ ہی دیکھو کے کتنی آسانی سے آپ اپنی ساری باتیں بیان کر رہے ہیں. (میں نے بھی ایک طنز کر ہی دیا) "فیصل بھائی سویے نہیں تھے کروٹ لے رہے تھے جس سے ان کی بیچنی کا اظہار ہو رہا تھا." حاجی صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا. 

حاجی صاحب: آپ اپنی بات بیان کریں. (یہاں باقی لوگ بھی اردو سمجھتے تھے اسی لئے خاموش تھے اتنی بات اور دیر میں کوئی درمیان میں نہیں بولا تھا. اس بات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ حاجی صاحب کی کوئی بڑی شخصیت ہے.

میں: شکریہ محترم، دیکھیں جناب میری سوچ اور فہم صرف یہی کہتی ہے کے جس کا جو کم ہے وہ کررہا ہے اور جو بھی کچھ کر رہا ہے وہ کسی بھی انسان کی ذہنی استطاعت، سوچ اور فہم اور کردار کی عکاسی کرتا ہے. شاید اسی لئے الله پاک فرماتا ہے کے انسان اپنے عمل سے اور کردار سے جانا جاتا ہے. مزید کیا  کہوں آپ سب ماشا الله سمجھدار اور فہم و فراست رکھنے والے لوگ ہیں. مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ آج کی دنیا میں فلاح انسانیت سے برا جہاد کوئی نہیں ہو سکتا، آج کے دور میں جہاں ہر طرف نفسہ نفسی ہے، ہر قوم اپنے حالت کو بہتر کرنے پر تلی ہی ہے تو ہم کو بھی پوری قوم کی حالت کو ٹھیک کرنے کے لئے فلاح انسانیت کے جہاد کی سخت ضرورت ہے، کچھ موقع پرست لوگ اس مقصد کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں. مگر ہم سب کو ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کو الله پاک کے آگے حاضر ہونا ہے روز حشر ہم سب سے ہمارے اعمال کا حساب ہونا ہے اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آنے والا. تو اس وقت ہم اور آپ سب ہی ایک صف میں ہونگے. (میں نے وو جواب دیا جو میں اس وقت دے سکتا تھا) 

حاجی صاحب: نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا "آپ پاکستان کی کس سیاسی پارٹی سے متاثر ہیں؟ اپ کراچی والے ہیں تو ...؟
میں: حاجی صاحب کو روکتے ہوۓ، محترم میں نے اپنی پوری زندگی میں ووٹ نہیں ڈالا. (میں یہی بتانا چاہ رہا تھا کہ میں سیاست سے دور رہنے والا انسان ہوں)
حاجی صاحب: جہاں تک مجھ کو یاد پڑتا ہے پچھلی دفع آپ یہاں آئے تھے تو مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" اپنے ساتھ لائے تھے جو یہاں آپ نے کچھ لوگوں کو پڑھنے کے لئے بھی دی تھی.
میرے جسم م سردی اور خوف سے ایک جھرجھری آگئی (ان کو تو بہت کچھ پتہ ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا)
میں: جی اس کتاب کو پڑھنے کا مقصد صرف اور صرف "سب سے پہلے پاکستان" کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا تھا، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ میں مشرف صاحب کی نمائندگی کرتا ہوں یا ایک حکمران کی حثیت سے دیکھنا چاہتا ہوں. 
(مجھ پر ابہ نیند کا خمار تھا مگر یہ لوگ لگتا ہے سونا جانتے ہی نہیں تھے)
حاجی صاحب نے اپنی گہری کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا " نماز تہجد کا وقت ہو گیا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم مل کر نماز ادا کرتے ہیں" 
میں نے بھی ہاں کہا، سردی بہت شدید تھی مگر نماز کا تصور ہی بہت سکوں دے رہا تھا. الله کے حضور حاضری وو بھی ان مشکل حالات میں بہت سکوں دے رہا تھا. 
میں نے باہر جا کر وضو کیا سردی بہت غضب کی تھی کمرے منی بھی تھی مگر باہر نکل کر احساس ہو رہا تھا کے کتنی زیادہ ہے مجھ کو کیمپ میں موجود لوگوں کا خیال آیا، میری ملومّت کے مطابق کیمپ میں اکثر لوگنو کے پاس کمبل اور لحاف جیسی آسائش موجود نہیں تھی. اندر واپس اکر میں نہیں نماز ادا کری نماز کے بعد الله سے گڑ گڑا کر دعا کری کہ الله پاک ہم سب کو اس مشکل سے نجات عطا فرماے - آمین.
نماز تہجد کے بعد ایک دفع پھر سے قہوہ آگیا، حاجی صاحب نے کچھ خشک میوہ میرے سامنے رکھا، میں نے شکریہ کہہ کر واپس کیا. بلال، فیصل بھائی بہت گہری نیند سو چکے تھے. میں اپنی سوچ میں تھا کہ حاجی سحاب بول پڑے "آپ سونا چاہیں گے یا فجر تھوڑا ہی دیر میں ہے اس کے بعد ہم رخصت لیں گے. "میں نے جواب دیا کے بلکل فجر تک ساتھ ہیں."

حاجی صاحب: تو محترم آپ کب تک یہاں روکنا چاہتے ہیں؟ 
میں: محترم یہ تو وقت اور حالت پر منحصر ہے. عدنان بھائی کی طبیت تھودا بہتر ہو جاۓ تو میں چاہتا ہوں کے آشیانہ کیمپ کو یہاں سے میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ. یہاں کی سردی نا قابل برداشت ہے، اور یہاں ہمارے وسائل اجازت نہیں دے رہے کہ ہم کیمپ میں مقیم لوگوں کو زیادہ سہولیات فراہم کر سکیں. 
حاجی صاحب: کچھ سوچتے ہوۓ "جی بلکل یہی بہتر حل ہوگا. کچھ پتا نہیں کب آپ کے کیمپ پر بھی کوئی آفت نازل ہو جاۓ. 
(یہ بات انہوں نے بہت عجیب انداز میں بیان کری، میں کوئی وضاحت طلب کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، بس چپ ہی رہا، مگر دل ہی دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ کیمپ کو یہاں سے جتنا جلدی ممکن ہے کر دیا جاۓ، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے) 

حاجی سحاب کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور میں اپنی پوری کوشش کرتا کے میرا جواب ان کو مطمئن کر سکے. 
خدا خدا کر کے فجر کا وقت ہوا تو میں نے بلال اور فیصل بھائی کو جگایا. ہم سب نے مل کر وضو کیا اور اسی گھر کے صحن میں ایک مولانا کی امامت میں نماز ادا کری. نماز کے بعد کچھ دین کی باتیں ہوئی اور اس کے بعد ہم کو واپس کیمپ جانے کی اجازت ملی. میں بہت زیادہ تھکن محسوس کر رہا تھا.
 

Thursday 13 December 2012

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) شمالی وزیرستان میں ہمارا اگلا دن

اسلام و علیکم،
محترم دوستوں اور ساتھیوں. 

ڈائری تو روز ہی لکھی جا رہی ہے مگر یہاں (میران شاہ) میں موسم بہت بدل گیا ہے، حالات کر رونا تو ہم روتے ہی رہتے ہیں. پاور (بجلی) بھی کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں. پھر ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود نہی ہوتی. پھر بھی ہم پوری کوشش کرتے ہے کہ اپنوں سے جتنا جلدی رابطہ ممکن ہو کیا جا سکے. 
ٹیم آشیانہ کے کرکم کی جانب سے یہاں گزرتے ہوۓ وقت اور حالت پر "وزیرستان ڈائری" لکھنے کا عمل بھی جاری ہے اس ڈائری کو یہاں (آشیانہ کیمپ) میں بھی سب لوگ بہت شوق سے پڑھتے ہیں اور ہم سب کو سیکھنے کے موقع بھی ملتا ہے. 


آج کی ڈائری:
آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) سے منسلک مسجد سادگی اور دستیاب وسائل کا ایک بہترین نمونہ ہے. یہ مسجد بیرون ملک سے ملنے والی ملی امداد "بلخصوص" قطر کے ایک بھائی نے بہت مدد کر کی مدد سے تیار کی گئی ہے. مسجد میں ١٠٠ کے قریب نمازیوں کی جگہ موجود ہے. پوری مسجد کا چبوترا پکا ہے اور ایک طرف وضو خانہ موجود ہے. میں اچھی طرح مسجد میں گھوما، وضو کیا اور فیصل بھائی کے ہمراہ نماز ادا کری. 

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں مقیم کچھ لوگوں سے ملاقات کا احوال:
نماز ادا کرنے کے بعد میں باہر آیا تو کافی لوگ جمع تھے. سب کو سلام کیا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے یہاں آنے کا مقصد بیان کیا. کچھ لوگوں نے اپنی دکھ بھری داستان بھی سنائی جس کو سن کر بس دل خوں کے آنسو ہی رو سکتا ہے. لوگوں کو تسلی دی. اور ان لوگوں کو اپنے اپنے ٹینٹس میں جانے کا کہا. میں نے اپنے ساتھ مقرر ساتھیوں کے ہمراہ ایک طرح کی میٹنگ بلوائی جس میں رحمت بابا، زوہیب، فیصل بھائی، جہانزیب، بلال اور میں خود شامل تھے. ہم نے پہلے آشیانہ کیمپ میں موجود تمام افراد کے ناموں اور دیگر تفصیلات کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا. اب کیمپ کے حالت پہلے جیسے نہیں رہے تھے کہ آشیانہ کیمپ بہت سارے لوگوں کا بوجھ اٹھا سکے اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ بہت ہی مجبور لوگ یا ایسے لوگ جن ک گھر بار کا کچھ پتہ نہیں ہی کو یہاں (کیمپ) میں رہنے کی اجازت دی جاۓ گی باقی لوگوں سمجھا کر ان کے علاقوں اور گھروں کو واپس روانہ کرنے کی کوشش کی جائے،  یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا جو ہم نے عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں کیا تھا، بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا. آشیانہ کیمپ اور ٹیم آشیانہ اور ہم سب دوستوں کے جتنے بھی وسائل تھے اس میں ہم ایک مخصوص تعداد میں ہی کیمپ میں لوگوں کو رکھنے کے قابل تھے، اضافی بوجھ کے لئے اضافی وسائل درکار ہوتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں. اسی لئے یہ کروا گھونٹ ہم کو پینا ہی ہوگا "ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ایک کوشش کر لینے میں کیا حرج ہے؟"
میں عدنان بھائی کی دی ہوئی فائلز کو دیکھنے لگا جن میں کیمپ میں موجود لوگوں کے بارے میں تفصیلات اور موجودہ سامان کی تفصیلات موجود تھیں. مزید جن سامان کی ضرورت تھی وہ بھی لکھی ہوئی تھی اور کچھ رابطہ کروں کے نمبر لکھے ہوۓ تھے. 

رحمت بابا کا  (قابل عمل) مشورہ:
میں ابھی فائلز دیکھ ہی رہا تھا کہ رحمت بابا اچانک بول پڑے، "ہم سب لوگ نے عدنان بھائی کو کافی دفع کہا ہے کے کیمپ کو یہاں سے کہی اور منتقل کر دیتے ہیں جیسا کہ میران شاہ مگر عدنان بھائی نہیں سمجھتے ہمر بات. ابحیح یہاں سردی ہو رہی ہے  اور اس سردی میں بہت اضافہ ہونے والا ہے. ہمرے پاس سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہی ہے. ٹینٹ کافی بری حالت میں ہیں، ایسے میں اگر بارش ہو گاہ جو کہ بہت ہوتی ہے تو کیمپ کا کیا ہوگا؟ آپ ہی عدنان بھائی سے بات کر کے دیکھو، میری طرف اشارہ کیا". 
میں ایک نئی سوچ میں پڑھ گیا، میرے ذہن میں یہ تھا کہ ہم سب کارکنان مل کر موجدہ دستیاب وسائل سے کیمپ کی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کچھ لوگوں کا دباؤ کم ہوگا تو شاید کیمپ کی حالت اور حالات میں کچھ بہتری آجائے. مگر اب رحمت بابا کی تجویز بہت ہی معقول اور قابل عمل تھی جس پر سوچنے کی نہیں عمل کرنے کی پوری گنجائش موجود تھی. مگر عدنان بھائی تو آج ہی میران شاہ گئے ہیں اب کیا ہو سکتا ہے؟ میں اسی سوچ میں تھا کہ بلال پتہ نہیں کہاں سے چائے لے کر آگیا. میری معلومات کے مطابق کیمپ میں چائے ختم پر تھی اور میری یا کسی اور ساتھی کی طرف سے ابھی تک چاہیے یا کسی اور چیز کی کوئی فرمائش نہیں کی گئی تھی. میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی بلال بول پڑا، بھائی یہ چائے کیمپ کی نہیں ہے خان نے بھجوائی ہے اور آج رات کا کھانا ٢٠ لوگو نکہ بھی بھجوانے کے لئے کہا ہے" بلال نے مسکراتے ہوۓ کہا. میں نے کچھ بھی سوچے بغیر چائے پینا شرو کردی تو فیصل بھائی نے اشارے سے  سگریٹ پینے کا اشارہ کیا. اور بلال نے میرے سامان سے سگریٹ لا دی. چائے پی کر فارغ ہوۓ ہی تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ہوا، ہم سب خاموشی سے نماز کی تیاری میں لگ گئے، نماز کے بعد کچھ لوگ کیمپ کے ہی تھے ہم سے ملنے آئے، شاید ان لوگوں میں سے کچھ کو ہمارے ارادوں کا پتہ لگ گیا تھا کہ ہم کچھ لوگوں کومیں سے کچھ کو واپس ان کے علاقے میں بھیج رہے ہیں، ان لوگوں نے بہت اخلاق سے سلام کیا اور مقامی زبان کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہم سے بت کرنا شروع کی، رحمت بابا اور بلال مقامی زبان کا ترجمہ کر رہی تھے جس سے ہم کو ان لوگوں کی بات سمجھنے میں آسانی ہو رہی تھی. پوری بات سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ سب الله پاک سے دوا کریں کہ الله پاک ہم کو مزید وسائل عطا کرے تو ہم سارے وزیرستان کو اپنا مہمان بنا لیں گے. مگر ابھی ہم صرف ان لوگوں کو واپس بھیجنا چہ رہے ہیں جو کسی خوف یا ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے علاقوں سے یا گھروں کو چھوڑ  آئے ہیں. اور یہ کم ایک دن میں نہیں ہگا پہلے ہم تفصیلات جمع کریں گے پھر ہی کوئی فیصلہ ہوگا اور یہ فیصلہ ہم اکیلے نہیں کریں گے، عدنان بھائی کی منظوری اور بات ہونے کے بعد ہی کچھ ہو سکے گا. ابھی آپ لوگ آرام سے جہاں ہیں وہیں رہیں، الله ملک ہے. "میں نے اپنے طور پر لوگوں کو تسلی تو دے دی تھی مگر میں خود بہ کافی فکر مند تھا کے کس طرح عدنان بھائی سے بات ہوگی؟ کیمپ میں مقیم لوگوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ کہی میں اور میرے ساتھ کسی مشکل میں تو نا پڑھ جائیں گے. کہ تھوڑی ہی دیر میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا. ہم سب نے مل کر آشیانہ مسجد میں جا کر نماز مغرب ادا کر اس نماز میں کیمپ  میں مقیم لوگوں کے علاوہ دتہ خیل کے آس پاس موجود کافی لوگ بھی آئے تھے. کچھ لوگ ہم سے ملاقات کرنے کے لئے رک گئے. میں ایک دفع پہلے بھی یہاں رہ کر جا چکا ہوں اسی لئے کچ لوگ مجھ سے واقف تھے مگر میں اکثر لوگوں کو نہیں جانتا تھا اسی لئے رحمت بابا، بلال، زوہیب اور کچھ اور ساتھی یہاں میرے ساتھ موجود تھے. یہ لوگ ہمیشہ کی طرح  مجھ سے میرے بارے میں میرے ساتھیوں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے. ان کو اب بھی یہی لگتا تھا کے جیسے میں اور میرے دوست کسی ادارے یا بیرون ملک کے جاسوس ہیں وغیرہ وغیرہ.... ہم سب نے مل کر ان کو تسلی دی کے ہم بھی عدنان بھائی کے دوست ہیں اور یہاں لوگوں کی خدمات اور فلاحی کاموں کے غرض سے موجود ہیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہے اگر آپ لوگ ہم کو کسی بھی غیر قانونی حرکت یا کسی ایسی بات میں ملوث پائیں جو یہاں کے قانون کے مطابق نہیں ہو تو ہم کو یہاں کے قانون کے مطابق سزا دلوا دیں (یہ باتیں میں نے بہت جلے کٹے دل کے ساتھ کہیں تھی).

رات کا کھانا تیار تھے، بھوک کے مارے حشر برا ہو رہا تھا. ادھر عدنان بھائی اور اکرم بھائی کی کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی کہ وہ لوگ میران شاہ پہنچے کے نہیں (الله پاک بہتر کرے - آمین)

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں دوسری رات کا کھانا:
مسجد کے احاطے میں ہی ایک بڑی چٹائی بچھا دی گئی، مٹی، سلور، پلاسٹک کے برتن رکھے گئے، اور پھر کھانا لایا گیا. اب م اس خانے کے بارے میں کیا لکھوں مشکل وقت اور حالات میں جو بھی مل جائے الله پاک کا شکر کر کے صبر کے ساتھ کھا لینا چاہیے. پانی کا شوربہ ہی شوربہ تھا، درمیان میں کچھ آلو موجود تھے جن کا چھلکا تک نہی اتارا گیا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آلو الگ سے ابال کر اس شوربے میں ملا دیے گئے تھے. روٹی کا تو کیا ہی کہنا، بھوک بہت تھی اسی لئے صرف ایک نظر سب کی طرف دیکھا اور  الله کا نام لے کر کھانا کھایا اور بہت سر ہو کر کھایا سالن جس طرح کا دیکھ رہا تھا ذائقہ میں بہت بہتر تھا. ہم سب نے بہت سیر ہو کر کھایا یہ بھی نہ سوچا کہ اگر بدہضمی ہوئی تو کیا ہوگا ادویات تو ابھی تک آئی ہی نہیں ہیں.

انجان لوگوں کی اچانک آمد اور ہم:
 کھانے سے فارغ ہو کر ہم کھڑے ہوۓ تھے کہ اچانک کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوۓ. ان لوگوں کے بارے میں کیا لکھوں کچ سمجھ نہیں آرہا تھا، انداز تو ایسا تھا کے جیسے کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوتا ہے. مجھ کو ان کہ چہروں پر پتہ نہیں کیوں کچھ اچھا تاثر نظر نہیں آرہا تھا. سب سے پہلے رحمان بابا ان کی جانب گئے اور کافی دیر تک بات کرتے رہے. بلال اور زوہیب اور کچھ دوسرے لوگوں کے چہروں پر فکر، تذبذب اور خوف کے میل جلے آثار صاف دیکھ جا سکتے تھے. میں کچھ کچھ سمجھ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں مگر یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس وقت یہاں ان کی آمد کا کیا مقصد ہے؟ 
شکر ہوا کہ رحمت بابا سے بات کرنے کے بعد وہ لوگ ہم سے ملاقات کیے بغیر ہی واپس روانہ ہوۓ مگر جاتے جاتے ان لوگوں نے خاص کر میری طرف اور فیصل بھائی کی طرف دیکھتے ہوۓ کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا تھا. رحمان بابا ہماری طرف واپس آئے وہاں موجود باقی لوگوں سے مقامی زبان میں کچھ کہا، بلال اور زوہیب کو کچھ ہدایت دن وہ بھی مقامی زبان میں اور ہم کو ایک طرف لے کر بیٹھ گئے ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی فیصل بھائی ( جو یہاں آنے کے بعد سے بہت کم بولے تھے بلکل خاموش تھے اور اپنے آپ کو یہاں کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے) بول پڑے "رحمت بابا سب خیر تو ہے ناں؟ کوئی غلط بات تو نہیں؟ مجھ کو ان لوگوں کے ارادے کچھ اچھے معلوم نہیں پڑھ رہی تھے." رحمت بابا نے بہت معصوم سے انداز میں کہا "سب خیریت ہے، یہ لوگ آپ کے بارے میں معلومات کرنے آئے تھے، ابھی عشاء کی نماز کے بعد ہم کو ان کے ڈیرے تک جانا ہے، یہ لوگ آپ سب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں. فیصل بھائی نے فوری کہا کے وہ نہیں جائیں گے، میرے چہرے پر بھی فکر صاف پڑھی جا سکتی تھی. میں کسی بھی طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی نیت سے گھر سے بکلہ تھا مگر آج اور ابھی وہ بھی عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں ان لوگوں سے ملاقات کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ میں اپنے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں زبان اور منہ کا کافی جلد باز ہوں ایک استاد کی حثیت سے  مجھ کو بولنے اور سمجھنے کی بیماری بہت عرصے سے اور شدید طور پر لاحق ہے، مگر ابھی تک کوئی ڈاکٹر میری اس بیماری کا علاج نہیں کر سکا تھا، اور آج عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں اپنی اسی بیماری کی وجہہ سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے تھے، میں کچھ زیادہ بول جاؤں تو میرے ساتھ میرے ساتھیوں کا کیا ہوگا ابھی عدنان بھائی کو یہاں سے گئے ایک دن بھی نہیں ہوا. اتنی دیر میں بلال میری ایک طرف آکر بیٹھ گیا "یہ دسترخوان سمیٹ چکا تھا" اس نے خاموشی سے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا "جب تک بلال آپ کے ساتھ موجود ہے اور زندہ ہے آپ کو کچھ نہیں ہوگا بس آپ اپنی زبان کو قابو رکھنا، باقی ہم سب لوگ آپ کے ساتھ جاۓ گا، کچھ نہیں ہوگا" مجھ کو محسوس ہوا کہ جیسے بلال کے ساتھ ساتھ یہاں موجود دوسرے لوگوں نے میری بیماری کو سمجھ لیا ہے. میں سمجھ گیا مجھ کو کیا کرنا ہے. اسی فکر میں میں فیصل بھائی کو لے کر مسجد سے باہر نکلا، گزشتہ روز یہاں آنے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب میں اور فیصل بھائی کو تنہائی میں بات کرنے کا موقع ملا تھا، فیصل بھائی میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فت پڑے " دیکھا یار، میں کہتا نہ تھا کے ایک ایسی جگہ جا کر فلاحی کم کرنا جہاں نہ دوستوں کا پتہ ہوہ نہ ہی دشمنوں کا پتہ ہو، باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ممکن نہ ہو کیا انجام ہو سکتا ہے؟ اور پھر فیصل بھائی اپنے گھر کو اپنے دوستوں کو یاد کرتے رہے، میں اس دوران خاموش ہوا، عدنان بھائی کی بہت شدت سے یاد آئے کہ اگر وہ اس موقع پر ساتھ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا... 
اچانک ایک خیال میرے دماغ میں آیا اور میں نے کہا بلال کو بلاؤ، فیصل بھائی نے حیران ہو کر مجھ سے کہا اب کیا ہوا؟ میں نے کہا بلواؤ بلال کو باہر. وو مسجد کے اندر گئے اور بلال کو ساتھ لے آئے. میں نے بلال کو سامنے دیکھ کر کہا "بلال اگر ہماری جگہ عدنان بھائی ہوتے تو کیا کرتے؟" بلال نے ترکی بہ ترکی جواب دیا "کچھ نہیں کرتے بہت ہی دوستانہ انداز میں ان لوگوں سے ملنے جاتے اور ان کے ہر سوال کا جواب پورے سوچ سمجھ اور تحمل کے ساتھ دیتے اور مجھ کو یقین ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کرو گے." میں نے سوچ لیا کہ مجھ کو کیا کرنا ہے. مجھ کو کچھ سکوں ملا میں نے بلال اور فیصل بھائی کو کہا کہ ملاقات کے دوران جب جب ان کو محسوس ہو کہ میں اپنی حدوں سے بہار نکل رہا ہوں تو مجھ کو غور کر دیکھیں میں سمبھل جاؤں گا. خاص کر بلال اور فیصل کو کہا کے میرے ساتھ ہی رہنا کسی بھی طرح مجھ سے دور نہیں ہونا، ایسے میں بلال نے کہا بھائی ایسا لگ رہا ہے کے جیسے آپ جہاد پر نکل رہے ہو، (اب میں اس بچے کو کیسے سمجھاؤں کہ گھر سے تو جہاد کی نیت کر کے ہی نکلا ہوں، فلاحی خدمات کا جہاد، بس اس جہاد میں غازی بن کر گھر جانا چاہتا ہوں، شہید یا گمنام نہی ہونا چاہتا). ادھر فیصل بھائی اپنے ہی آپ سے کچھ کہ رہے تھے، میں نے کہا فیصل بھائی کیا کہ رہے ہو تو جواب ملا "یار میں سوچ رہا ہوں کہ کاش میں گونگے بہرے کی اداکاری جانتا ہوتا، یا تمہارے ساتھ یہاں آنے سے پہلے ہی گونگا بہرہ ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا" ان کی یہ بات سن کرمیں اور بلال ہنسنے لگے. عشاء کی اذان ہو رہی تھی. اور ہم نماز کی تیاری میں لگ گئے. دوران نماز یہی دعا کر رہا تھا کہ بس یہ وقت تھم جائے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا. نماز پڑھی اور پھر میں نے کچھ سوچ کر دو رکعت نماز نفل ادا کر الله پاک سے مدد مانگی کہ مجھ کو سرخرو کرنا - آمین.  
نماز کے بعد میں نے فیصل بھائی کو دیکھا تو ان کا رنگ زرد پڑھ رہا تھا میں نے ان سے کہا ہمت رکھو اور الله سے مدد مانگو. ہم دونوں کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ جیسے ہم جن بوجھ کر کسی دوسرے ملک کی سرحد پار کر گئے ہیں اور پکڑ لئے گئے ہیں نہ ہی ہمارے پاس سفری کاغذات ہیں نہ ہی اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت. اب اس ملک کے منصف پر ہے کہ کیا سلوک کرتا ہے. ہم سب نماز کے فوری بعد رحمت بابا، بلال، زوہیب، ایک اور صاحب (جو کیمپ میں مقیم ہیں) کے ہمراہ مسجد سے باہر نکلے، باہرنکلتے ہی  فیصل بھائی مسجد کے اندر ایسا بھاگے کے جیسے کوئی بہت قیمتی چیز بھول آئے ہیں، وہ بہار آئے تو ان کے سر پر ایک ٹوپی رکھی ہوئی تھی قریب آکر میرے کن میں کہا کہ "یار تم بھی پہن لو" اور میں پانی بھی پی کر آگیا ہوں، بس تم خدا کے لئے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، ایک ملتیجانا انداز میں کہا فیصل بھائی نے" میں نے بہت زور سے کہا کے ہم کوئی چوری نہیں کر رہی، کوئی ڈاکہ نہیں ڈال رہے ہیں، کسی پر ظلم و ستم نہی کر رہی جو اس قدر خوف زدہ ہوں. ہم اس وقت اسلامی مملکت پاکستان کے ایک علاقے میں موجود ہیں جہاں پاکستان کا ہی قانون موجود ہے تو کس بت کا ڈر، تم (فیصل) ایسے ڈر رہے کہ جیسے ہم کو تختے دار پر لے جایا جا رہا ہے." بس میری اتنی بات کا سننا تھا کہ فیصل بھائی جہاں موجود تھے وہیں زمیں پر بیٹھ گئے، میں نے کہا اب تم کو کیا ہوا یار؟ فیصل بھائی کہنے لگے "ہو گیا کام تم تو یہاں ہی چلو ہو گئے ہو ، اب تو مجھ کو پکّ یقین ہو گیا ہے کے یہاں سے واپسی شاید ہی ممکن ہو اب کبھی" میں نے کہا یار میں کوئی بیوقوف نہیں ہوں. تم الله پر بھروسہ رکھو اور ساتھ چلو اگر تم ساتھ نہیں چلے تو ممکن ہے وہ ہو جو تم کہہ رہے ہو، میری بات سنتے ہی فیصل بھائی ایسے کھڑے ہوۓ کہ جیسے کبھی بیٹھے ہی نہیں تھے. ہماری نوک جھونک پر بلال اور ساتھ موجود سب ہی لوگ مسکرا دے. رحمت بابا نے مجھ کو کچھ بنیادی باتیں سمجھائیں. اور کیمپ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب کو آواز لگائی وہ سحاب ایک ڈنڈا لے کر کیمپ کے داخلی طرف بیٹھ گئے اور ہم سب کیمپ سے باہر اندھیرے میں ایک طرف چل پڑے. 
سردی کا احساس ایسا تھا کے جیسے جسم میں ہڈیاں توڑ کر گھسی جا رہی ہے. انجان لوگوں سے ملاقات، انجان جگہ، انجان راستے سب کچھ انجان اس پر کیمپ اور ساتھی کارکنان کی ذمہ داریاں،  یہ کیسی ملاقات ہے جس میں ہم کو اپنے میزبان کا کوئی علم نہیں، زبردستی کی ملاقات، یہ سوچتے سوچتے میرا دماغ اور تیز چلنے لگا اور مجھ کو اپنی والدہ کی کہی ہوئی باتیں یاد آنے لگی ، میری امی جان نے گھر سے روانہ ہوتے کہا تھا کہ "بیٹا، جہاں تم جا رہے ہو وہاں بھی انسان رہتے ہیں، انسانوں کو انسانوں کی طرح ہی سمجھنے کی کوشش کرنا، اپنے جیسا سمجھ کر بات کرنا تو کہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی" میں دل ہی دل میں مسکرا دیا. میرے لئے یہ پہلا تجربہ نہیں تھا پچھلی دفع بھی ایک ایسی ہی ملاقات کا تجربہ کر چکا ہوں مگر اس ملاقات میں عدنان بھائی بھی موجود تھے تو کوئی فکر نہیں تھی مگر آج کی یہ ملاقات ہمارے آتے ہی ہو رہی تھی، جس کے لئے میں بلکل تیار نہی تھا، ابھی تک تو میں صرف کیمپ کی صورت حال کو سمجھنے کو کوشش کر رہا تھا. 
قریب ١٠-١٥ منٹ پیدل چلنے کے ہم ایک محلے میں داخل ہوۓ کچھ اونچے نیچے، کچے پکے مکانات تھے. شہر (دتہ خیل، فلحال ہم جیسوں کے لئے شہر جیسا ہی تھا) کے بیچوں بیچ موجود تھے. کچھ لوگ اور ملے جنہوں نے ہم سے سلام کیا اور ہم ان کی نیابت میں ایک مکان کی طرف بڑھے.... 

انجان لوگوں کے گھر پر ہمارا استقبال:
اور پھر وہی سب کچھ ہوا جو ایک فاتح اپنی مفتوح قوم کے ساتھ کرتا ہے، مکان کے صدر دروازے پر ہماری جامہ تلاشی کا کام سر انجام ہوا وہ بھی پوری ذمہ داری اور ماہرانہ انداز میں. ہم سب کو مکان کے اپر موجود ایک کمرے کی طرف لے جایا گیا. کمرے میں بہت اچھا قسم کا قالین بچا ہوا تھا ساتھ ہی ایک طرف کچھ برتن موجود تھے لگتا تھا کے جیسے کچھ دیر پہلے ہی یہاں کچھ لوگوں نے مرغ  مسلم کی دعوت کے مزے لئے ہیں. جو بھی ہو. برتن دیکھ کر فیصل بھائی پھر سے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑانے لگے، "میں نے ازراہ مذاق کہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ اس مکان پر کوئی سیٹلائٹ اپنی نظریں جمایا ہوا ہو، تو کچھ بھی ایسی حرکت نہ کرو جو ہم کو کسی مشکل میں ڈال دے،" فیصل بھائی نے شاید جل کر جواب دیا "میں تو آیتلکرسی کا ورد کر رہا ہوں" میں پھر سے مسکرا گیا اور خود بھی الله پاک سے مدد کا طلبگار ہوا. 



نوٹ: 
محترم دوستوں اور ساتھیوں،
یہ ڈائری ٹیم آشیانہ کے کراچی سے تشریف لائے ہوۓ ایک کارکن تحریر کر رہے ہیں، ہم خود بھی اپنے اس بھائی کی حس ظرافت پر حیران ہیں. اور عدنان بھائی کی اجازت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ ڈائری بغیر کسی تدوین (ایڈیٹنگ) کے یہاں اور تمام دوستوں کو پڑھائی جائے. 
الله پاک ہم سب ساتھیوں کو دکھی انسانیت کے اس مشن پرثابت قدم رکھے اور ہم کو توفیق دے کے ہم سب مستقل مزاجی کے ساتھ یہاں (شمالی وزیرستان) میں فلاحی خدمات سر انجام دیتے رہیں - آمین.
یہ ڈائری آشیانہ کیمپ کی دتہ خیل سے میران شاہ منتقلی سے پہلے کی ہے، ہم اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کے ڈائری کو موجودہ تاریخ کے ساتھ جتنا قریب لایا جا سکتا ہے لائیں. 
آپ سب کی دعاؤں کے طلبگار 
کارکنان 
ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ 
شمالی وزیرستان (میران شاہ)
   
ٹیم آشیانہ کے فلاحی خدمات، کام، کارکنان کی تفصیلات اور درکار امدادی سامان اور دیگر تفصیلات کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں:

                  

Wednesday 12 December 2012

Waziristan Dairy: Our first Day at Ashiyana Camp

اسلام و علیکم،
محترم دوستوں اور ساتھیوں....

گزشتہ کچھ دن بہت مصروفیت کے گزرے، آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کرنا کوئی آسان کام نہی تھا. بہت مشکل سے تمام ساتھیوں (ٹیم آشیانہ کے کارکنان)، کیمپ میں مقیم مقامی لوگوں کو سمجھانا پڑا، سب سے مشکل کام عدنان بھائی کو سمجھانا اور راضی کرنا تھا، اور وہ مشکل مرحلہ بھی ہم سب نے مل کر طے کر ہی لیا. 

جس دن ہم آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں داخل ہوۓ تھے، ہر طرف ویرانی، اداسی نظر آرہی تھی، عدنان بھائی کی تو طبیت بہت خراب تھی مگر کیمپ میں موجود دیگر ساتھی کارکنان اور مقامی افراد صورت حال سے کافی دل آزار اور مایوس نظر آرہے تھے. پہلی رات تو ہم نے جیسے تیسے کر کے گزار ہی لی مگر صبح نماز فجر کے بعد جب ہم سب ایک ساتھ بیٹھے تو عدنان بھائی نے کیمپ کے معملات کا ذکر بہت تفصیل سے کیا، ہمارے علم میں لیا گیا کہ کافی عرصے سے ادویات نہ ہونے کے سبب میڈیکل کیمپ نہیں لگایا گیا ہے، دو (٢) وقت کے کھانے کی جگہ اب ایک (١) وقت کا کھانا کیمپ میں مقیم لوگوں کو دیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ سردی سے بچنے کے لئے کوئی معقول انتظام ابھی تک نہیں کیا جا سکا ہے. ہم (دوسرے شہروں میں مقیم کارکنان نے) جو کچھ امدادی سامان جمع کیا تھا وہ ایک، دو دن میں یہاں (دتہ خیل) پہنچنے والا تھا مگر مجھ کو اب اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ امدادی سامان بکافی ہے (بلکل اونٹ کہ منہ مے زیرے والی مثال کے مصداق)، بہرحال جو کچھ بھی ہے ہم کو فلحال ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا ہے. ہم کیونکہ ابھی آئے ہیں ٹوہ جوش اور ہوش میں ہیں جو لوگ یہاں پہلے سے موجود ہیں وہ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں. نفسیاتی دباؤ تو خیر سے میں، اور میرے ساتھ آئے ہوۓ ندیم بھائی، فیصل بھائی اور احمد بھائی بھی شدید محسوس کر رہے ہیں مگر ابھی ہم خود سے انجان بنے بیٹھے رہے. 

صبح اکرم بھائی ہم سب کے لئے چائے اور رات کی روٹی کا ناشتہ لے آئے اور ہم سب نے مل کر الله کا شکر ادا کرتے ہوۓ وہی کھانا کھایا. جب پیٹ میں کچھ گیا تو اوسان کچھ اور بحال ہوۓ، اور قوت فیصلہ پھر سے جاری ہوئی. میں نے اکرمبھائ اور اپنےآس پاس موجود تمام ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوۓ اعلان کیا کہ عدنان بھائی کی طبیت کافی ناساز ہے اور ان کو فوری طور پر اسپتال اور اچھے علاج کی ضرورت ہے، جب ٹیم کا سربراہ ہی بیمار ہو اور کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہو تو ٹیم کے باقی ارکان سے کس طرح  سے خیر کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟ (میرا انداز کافی حد تک تحکمانہ تھا، انجانے میں خود کو شید ٹیم آشیانہ کا سربراہ سمجھ بیٹھا تھا) عدنان بھائی نے مجھ کو کافی خفت بھری نظروں سے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ بولے. (عدنان بھائی کی اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، کمزور پڑتا جسم اور لڑکھڑاتی زبان سے بس ایک ہی جملہ نکلا "الله مالک ہے"). میں نے بھی جواب دیا کہ  "بلکل جناب الله ملک ہے اور الله نے ہی ہم سب کو اپنا خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے. ہم سب آپ (عدنان بھائی) کو کسی صورت ابھی اور یہاں روکنے نہیں دیں گے، آپ کو آج ہی بلکے ابھی میران شاہ کے لئے روانہ ہونا ہے. بس یہی ہم سب کا آخری فیصلہ ہے." عدنان بھائی نے کافی مضطرب نظروں ا ادھر ادھر دیکھا کہ میں نیں یہ فیصلہ اکھڑ کیا کبه؟ کس وقت میری سارے ساتھیوں سے بات ہوئی؟ مگر کوئی بھی کچھ بھی نہیں بولا. اکرم بھائی نے ہی کہا کہ "ہم سب بھی یہی چاہتے ہیں کہ عدنان بھائی علاج کے لئے میران شاہ چلیں مگر عدنان بھائی کہتے ہیں کہ اگر میرا علاج وہاں ہو سکتا ہے تو باقی لوگوں کا کیوں نہیں؟ اب ہم میران شاہ کو تو یہاں لانے سے رہے." اکرم بھائی کا جواب کافی معقول اور درست تھا. میں نے بلال محسود اور فیصل بھائی کی طرف دیکھا اور کہا کہ تمام کارکنان اور بزرگ لوگوں کو ابھی یہاں بلوائیں میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں. عدنان بھائی اب بول ہی پڑے "بھائی آپ کیا چاہتے ہو تھوڑا مجھ کو بھی تو بتائیں"، میں نے عرض کری "عدنان بھائی، میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ جلد از جلد صحتمند ہو کر دوبارہ اپنی ذمداریاں سمبھال لیں، آپ کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر مجھ کو شبہ ہے کے کہیں آپ کو کراچی ہی نہ لے جانا پڑے اور اگر ایسا ہوا تو یہاں (آشیانہ کیمپ) اور یہاں کے لوگوں کا کیا ہوگا؟ دکھی انسانیت کی خدمات اور فلاحی کاموں کا کیا ہوگا؟ آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں، اور کچھ دنوں کے لئے میران شاہ چلے جائیں وہاں آپ کا علاج ہو سکے گا اور اسس سامنے میں آپ کیمپ کی ذمہ داریاں ہم میں سے کسی کو بھی سونپ دیں، آپ کے ساتھ رہتے رہتے ہم میں سے کچھ لوگ اس قابل ہو چکے ہیں کہ کچھ عرصے کے لئے کیمپ کو چلا سکیں." میں نے ایک ہی سانس میں اپنی سری بات  کرنے کی  کری تھی. اکرم بھائی بھی سب کو جمع کر کے لے آئے تھے. اب عدنان بھائی بہت گہری سوچ میں تھے، مجھ کو ایک طرف آنے کا اشارہ کیا اور خود لڑکھڑاتے ہوۓ کھڑے ہوۓ تو پاس بیٹھے ندیم بھائی نے ان کو سہارہ دیا. میں ان کا ہاتھ تھام کر مجمع سے تھوڑا دور گیا انہوں نے اپنی بات سمجھائی کہ وہ کیوں نہیں جا رہے اور کیمپ کے معملات کس حد تک خراب ہو چکے ہیں. میں نے ان کو کہا کے آپ پورا بھروسہ رکھیں الله پاک ہمیشہ کی طرح ہماری مدد ضرور کرے گا انشا الله. میری بات کی گہرائی کو سمجھ کر انہوں نے کچھ سوچا اور ان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ ہوا کے وو بھی کوئی فیصلہ کر چکے ہیں یا کرنے ہی والے ہیں. پھر ہم واپس مجمع کی طرف آئے. عدنان بھائی نے مجھ کو اشارے سے خاموش رہنے کا کہا اور مجمع کی طرف دیکھتے ہوۓ باقی لوگوں سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کری، مجمع سے کچھ آوازیں  آئی جو مقامی زبان میں تھی شاید ان آوازوں کا مطلب تھا کہ ارشاد....
اب عدنان بھائی شروع ہوۓ، کمزور آواز میں پہلے سب کو سلام کہا اور اس کے بعد کہا کہ "جیسا آپ سب لوگ جانتے ہیں کے کافی دنوں سے بخار میں مبتل ہوں اور کمزوری کا عالم یہ ہے کہ اب اٹھنے بیٹھنے سے بھی جا رہا ہوں، ایسے میں یہ لوگ (ہماری طرف اشارہ کر کہ کہا) آگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں علاج کی غرض سے میران شاہ جاؤں مگر یہاں کے حالات دیکھتے ہوۓ یہاں سے جانے کا دل نہی کر رہا مگر سارے کارکنان ساتھ بضد ہیں کے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے مجھ کو میران شاہ جا کر اپنا علاج کروانا چاہیے،" ابھی عدنان بھی آگے کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ ایک لڑکا عمر کوئی ١٥- ١٦ برس کی ہوگی اچانک سے آیا اور کہا کے پچھلے دو (٢) دن سے ڈرون کچھ علاقوں میں ہیں اور کل ہی ایک ڈرون حملہ ہوا ہے تفصیلات آج شام تک مل جائیں گی. ڈرون حملوں کا سن کر ہم سب کے دل دہل گئے، میں نہیں سہمی نظروں سے فیصل بھائی، اور ندیم بھائی کی طرف دیکھا تو وہ بھی کچھ سہمے نظر آئے. عدنان بھائی کچھ دیر بعد بولے "جس کا جو کام ہے وہ کر رہا ہے، ہمارا جو کام ہے ہم کو وہی کرنا چاہیے - الله مالک ہے. تو کہہ میں رہا تھا کہ ایسے میں مجھ کو کیا کرنا چاہیے آپ لوگ ہی بتائیں؟" مجھ کو عدنان بھائی کا یہ انداز بلکل پسند نہیں آیا، جب ہم ایک فیصلہ کر چکے ہیں تو اب عدنان بھائی کو کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ مبادہ کوئی غلط مشورہ ہو گیا تو؟ مگر تمام ہی لوگ کہنے لگے کہ عدنان بھائی کو میران شاہ روانہ ہونا چاہیے، یہ سن کر میری جان میں جان آئ. اس کے بعد عدنان بھائی نے اچانک سے کہا کہ، "میں آج ہی جا رہا ہوں اور بہت جلد واپس آجاؤں گا، اکرم بھائی آپ جانے کے لئے اگر کوئی سواری کا انتظام کر سکتے ہیں تو کریں نہیں کل دیکھتے ہیں، اکرم بھائی تو جیسے عدنان بھائی کے یہی کہنے کے انتظار میں تھے، اکرم بھائی نے کہا آپ فکر نہ کریں آپ اپنے کپڑے تبدیل کر لیں میں کچ کرتا ہوں اور ہم آج ہی میران شاہ جا رہے ہیں. میری بھی جان میں جان آئی . اب سب سے اہم بات، عدنان بھائی نے ہم سب کو چونکا دیا. پھر کچھ دیر بعد بولے "میری غیر حاضری میں (جب تک عدنان بھائی میران شاہ میں ہونگے) یہاں (کیمپ) کے سارے انتظام آپ سب مل کر کریں گے، جو ہو رہا ہے ہوتا رہے گا، آپ کی نگرانی کے لئے میرے یہ ساتھی (ہماری طرف اشارہ کر کے کہا) آپ کی خدمات کے لئے یہاں موجود ہونگے. ہم نے سکوں کا سانس لیا. عدنان بھائی پھر سے بول پڑے، اور یہاں کہ نگران کہ لئے اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام ہیں تو باتیں نہیں تو میں بتاتا ہوں. سب لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے. جب کسی کی سمجھ میں کچھ نہی آیا تو عدنان بھائی نے خود ہی کہا، یہاں کہ نگران بابا ہونگے اور ان کا ساتھ بھائی (میری طرف اشارہ کیا) اور فیصل بھائی، بلال محسود، جلال خان (ایک مقامی ساتھی) زوہیب خان (ایک اور ١٥-١٦ برس کی عمر کے لڑکے کی طرف اشارہ   کر کے کہا) اکرم بھائی اور ندیم بھائی میرے (عدنان بھائی) کے ہمراہ میران شاہ جائیں گے اور اگر ممکن ہوا تو ان دونوں میں سے کوئی ایک واپس آجائے گا. ٢-٣ دن میں ہمارا امدادی سامان بھی یہاں (دتہ خیل) پہنچنے والا ہے اس کے بعد دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے. آخر میں عدنان بھائی نے کہا کہ آپ سب مل بات کر رہنا اور پوری کوشش کرنا کہ یہاں کے حالات سے مجھ کو آگاہ کرتے رہیں، آپ سب کا الله ہی بہتر نگران اور انتظام کرنے والا ہے."
   اتنا کہنے کے بعد عدنان بھائی اٹھے اور اپنے ٹینٹ کی طرف گئے تھوڑا دیر میں باہر نکلے ان کے ہاتھ میں کچھ فائلز تھی وہ لے کر ہم سب کو سمجھایا کہ کیمپ میں کون کون مقیم ہے. اور کس طرح سے معملات کو چلانا ہے. ہم سب نے الله کی مدد سے اپنی پوری اور بہتر سے بہتر کوشش کرنے کا عہد کیا اور اکرم بھائی کافی دیر کے جا چکے تھے.           
وقت  حالات انسان کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں بس جستجو، لگن، ہمت اور حوصلہ انسان میں ہمیشہ رہنا چاہیے. میرے سوشولوجی کے استاد کی ایک بات ہمیشہ مجھ کو یاد رہتی ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے "زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جب انسان میں جدوجہد کی امنگ ختم ہو جاۓ سمجھو کے  انسان کی معاشرتی موت ہو چکی." میں بھی عمل پر پورا یقین رکھتا ہوں اور یہی چاہتا ہوں  کہ جہاں بھی ہوں مسلسل عمل کے ساتھ زندہ رہوں.

آشیانہ کیمپ آنے سے پہلے یہی سوچتا تھا کہ وہاں جا کر کرنا کیا ہوگا مگر یہاں آنے کے بعد یہی سوچتا ہوں کہ بس تھوڑا سا وقت اور مل جائے. عدنان بھائی مستقل محنت اور فکر سے بہت تھک گئے ہیں. ایک بہت بڑا مقصد لے کر نکلے تو کتنے ہی برس گزر گئے اپنے آپ کو ہی بھول چکے ہیں. اب عدنان بھائی کو کچھ آرام کی سخت ضرورت ہے اور اس طرح کہ وہ ہر طرح کی فکر سے آزاد ہوں. میں نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کھ جب تک یہاں ہوں عدنان بھائی کو کسی بات کی فکر نہ ہونے دوں گا - انشا الله.....

ابھی بہت کام کرنے باقی تھے. سب سے پہلا کام عدنان بھی کو میران شاہ رخصت کرنا تھا اس کے بعد جن لوگوں کے ساتھ مجھ کو یہاں کام کرنا ہے ان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کی بہت سخت ضرورت تھی تاکہ ہم ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے کام کرنے کے انداز کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں. بلال نے مجھ کو بتایا کے غذائی اجناس کے سٹاک میں  صرف آلو، پیاز وغیرہ ہی موجود ہیں. اب مج کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آج رات کے خانے میں کیا پکنا ہے تاکہ ابھی سے کام شروع کیا جا سکے، کھانا پکانے کا ذمہ کیمپ میں مجود کچھ لوگوں کے پاس پہلے سے موجود تھا. میں نے دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ لگا کہ کافی عرصے سے صرف آلو اور دالوں پر ہی گزارا ہے. میں نے آج رات کے کھانے میں ایک دفع پھر سے آلو پکانے کی ہدایت کر دی (اس کے سوا ابھی کچھ اور کیا بھی نہیں جا سکتا تھا).
ظہر کی نماز تک میں عدنان بھائی کے بتائے ہوۓ لوگوں کے ساتھ بہت اچھی طرح گھل مل گیا تھا، فیصل بھائی بچوں میں مشغول رہے. نماز ظہر کے دوران ہی پتہ لگا کے ایک گاڑی میران شاہ جا رہی ہے اور اکرم بھائی نے اسی گاڑی میں عدنان بھائی اور دیگر کے جانے کا انتظام کر دیا ہے. عدنان بھائی نے جو یہاں سے روانہ ہونے کی اطلاع سنی تو ایک دم سے اداس ہو گئے. میں نے ان کو ہمت دی، عدنان بھائی جاتے وقت تک یہی کہتے رہے کہ بہت انکساری سے کام لینا، سختی نہیں کرنا،  یہ لوگ پہلے ہی دکھی ہیں کوئی بھی ایسی بات نہیں کرنا جس سے ان کے دکھوں میں اور اضافہ ہو، بہت ساری ہدایت حاصل کر کے ہم سب نے مل کر دعاؤں کے سایہ میں عدنان بھائی کو کیمپ سے رخصت کیا، کیمپ کی فضا پہلے ہے سوگوار تھی مزید ہو گئی . میں نے صورت حال کو دیکھتے ہوۓ اپنے ساتھیوں کو ایک طرف بلایا اور کہا کے کیمپ میں موجود ایک ایک شخص سے ملنا چاہتا ہوں، بابا جن کا نام رحمت تھا اور سب ہی ان کو بابا کہ رہے تھے مجھ سے وضاحت چاہی کہ کیا میں خواتین سے بھی ملنے کا ارادہ رکھتا ہوں؟ تو میں نے انکار میں سر ہلا دیا کیونکہ میں یہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے کافی اچھی طرح واقف ہوں اور کوئی بھی ایسا کام یا بات نہی کرنا چاہتا جس سے ماحول میں کسی بھی طرح کا تناؤ پھیلے. جب تک بابا اور کچھ اور لوگ کیمپ میں موجود لوگوں کو بلانے گئے میں نے بلال اور فیصل بھائی کے ساتھ اپنے قائم کردہ آشیانہ اسکول کا رخ کیا مگر بلال کافی بے چین تھا میرے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہی بتا رہا تھا. اسکول کیا تھا بس ایک ٹینٹ میں طلباء کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ٢عدد بلیک بورڈ رکھے گئے تھے ایک طرف کچھ تختوں  کو جوڑ کر الماری بنائی گئی تھی جن میں طلباء اور اساتذہ کے استعمال میں آنے والی کتب اور دیگر اشیاء رکھی گئی تھی. صفائی اچھی خاصی تھی مگر ٹینٹ میں جا کر یہ احساس ہو رہا تھا کہ جیسے ہفتوں سے یہاں کوئی پڑھنے یا پڑھانے نہیں آیا ہے. میں یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوا مگر فکرمند ضرور ہوا. اب مجھ کو بلال کی بیچنی کا مطلب بھی سمجھ آنے لگا اور ساتھ سات بلال کی تحریروں میں موجود پیغام بھی سمجھ گیا. میں نے دل ہی دل میں نیت کر کہ ایک دفع پھر سے اس اسکول کو آباد کرنا ہے - انشا الله. ٹینٹ سے نکلا تو ایک بچے نے مقامی زبان میں کچھ کہا جواب میں بلال نے بھی کچھ کہا بچا بھاگتا ہوا جس طرف سے آیا تھا وہی چلا گیا، بلال نے کہا کہ چلیں بھائی سب لوگ مسجد کے باہر جمع ہیں. مجھ کو حسب ضرورت سگریٹ کی طلب محسوس ہو رہی تھی مگر میں وقت اور شاید سگریٹ دونوں کا زیاں نہیں کرنا چاہتا تھا. بلال اور فیصل دونوں ہی میری اس کیفیت کو کافی اچھی طرح سمجھ چکے تھے مگر کچھ بولے نہی. ہم بلال کی نیابت میں مسجد کی طرف چلنے لگے، میرا خیال تھا کہ جہاں ہم نے فجر اور ظہر کی نماز ادا کری ہے اسی جگہ کو مسجد کہتے ہیں مگر ایسا نہیں تھا بلال ہم کو آشیانہ کیمپ کے بلکل آخری کونے کی طرف لے کر جا رہا تھا، ابھی تک میرا اس طرف دیکھنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا تھا.  جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے ایک چار دیواری جیسا خدوخال نمایاں ہوتا جا رہا تھا. جلد ہی ہم وہاں پہنچ گئے. وہاں کچھ لوگ باہر جمع تھے اور مسجد کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ "آشیانہ مسجد - دتہ خیل" میں نے سب کو سلام کیا اور کسی سے کچھ کہے بغیر ہی مسجد میں داخل ہوگیا. ١٢٠ گز کا رقبہ ہوگا شاید...
مسجد کے چاروں طرف چہار دیواری کوئی ٣-٤ فٹ کی موجود تھی مسجد کے اندر درختوں کی لکڑی سے ستون کھرے کر کے اس کے اپر لکڑی کی مدد سے چیٹ ڈالی گئی ہے. بہت سادہ انداز مگر بہت خوبصورت. ماشا الله ....  


جاری ہے ....


Monday 10 December 2012

آشیانہ کیمپ کی منتقلی اور کارکنان کی نئی مصروفیات

اسلام و علیکم 

اہم بات:
ٹیم آشیانہ کے تمام کارکنان (بشمول دیگر شہروں میں مقیم کارکنان)، مقامی دوستوں اور آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام افراد کے ساتھ بات کرنے اور مشورے کے بعد ہم سب اس نتیجے پر پہنچے کہ آشیانہ کیمپ اور اس میں مقیم افراد کو فوری طور پر دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ. 

آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کرنے کی وجوہات:
1- بڑھتے ہوۓ ڈرون حملے: گو کہ یہ حملے ہمارے لئے نہیں ہیں مگر اتفاق یا غلطی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے. ان حالات میں ہم کسی بھی طرح سے آشیانہ کیمپ میں موجود اپنے دوست اور ساتھیوں کے لئے رسک نہیں لے سکتے، نا ہی آشیانہ کیمپ میں مقیم مقامی افراد جو کسی نہ کسی وجہہ سے اپنے گھر، اپنے خاندان سے جدا ہوۓ ہیں کے لئے کوئی رسک لے سکتے ہیں. 

٢ - دتہ خیل (شمالی وزیرستان) میں بڑھتی ہوئی سردی: دتہ خیل میں سردی بہت زیادہ ہے جس کی وجہہ سے ہمارے کارکنان اور مقامی افراد شدید مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، اسس سردی سے محفوظ رہنے کے لئے ہمارے پاس ناکافی انتظام تھا جس کی وجہہ سے ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کے آشیانہ کیمپ کو اب میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ.

الحمد الله، آج بروز پیر، بتاریخ ١١ دسمبر ٢٠١٢. آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے مکمل طور پر میران شاہ (شمالی وزیرستان) منتقل کرنے کے کم مکمل کر لیا گیا ہے. ہم سب میران شاہ کے مقامی دوستوں اور ساتھیوں کے دل کی گہرایوں سے شکر گزار ہیں جنہوں نے بہت محدود وسائل کے باوجود ہمارا ساتھ دیا اور آشیانہ کیمپ کی منتقلی یہاں (میران شاہ) ہو سکی. ہم سب خاص طور پر محترم اکرم بھائی کے بہت شکر گزار ہیں جنہوں نے پچھلے ٣ دن میں مستقل مزگی کے ساتھ آشیانہ کیمپ کو منتقل کرنے کے لئے بہت محنت کری اور ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا. 
الله پاک تمام دوستوں اور ساتھیوں کی اس محنت کو قبول فرماۓ اور ہم کو مزید حوصلہ، ہمت، توانائی اور وسائل فراہم کرے جس سے ہم اپنے پریشان حال بھائی، بہنوں اور بچوں کی بحالی اور دیکھ ریکھ کا کام مکمل ذمہداری کے ساتھ سر انجام دے سکیں - آمین.

آشیانہ کیمپ کے بارے میں تفصیلات اور ٹیم آشیانہ کی فلاحی خدمات کی تفصیلات، یا ٹیم آشیانہ سے رابطے کے لئے لنک درج ذیل ہے. 

عدنان بھائی:
الحمد الله، عدنان بھائی کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر ہے اور اب وہ (عدنان بھائی) ٹیم آشیانہ کے کارکنان کے ساتھ مل کر فلاحی خدمات کے کاموں کو سر انجام دینے کی کوشش کر رہی ہیں. 

تمام دوستوں، ساتھیوں کا شکریہ جو ہم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور ہماری کسی نہ کسی طرح مدد کرتے ہیں.
جزاک الله 
کارکنان 
آشیانہ کیمپ 
میران شاہ شمالی وزیرستان.
 

  

Friday 7 December 2012

وزیرستان ڈائری: کراچی سے دتہ خیل، شمالی وزیرستان تک کا سفر

اسلام و علیکم،

اظہار تشکر!
دوستوں اور ساتھیوں، آپ سب کو علم ہوگا کہ عدنان بھائی (سید عدنان علی نقوی) گزشتہ دنوں شدید بیمار رہے ہیں، مستقل بخار کی وجہہ سے نہایت کمزوری کے عالم میں عدنان بھائی کو میران شاہ کے ایک مقامی اسپتال میں داخل کروایا گیا. دو دن کے علاج اور طبی سہولیات ملنے کے بعد اب عدنان بھائی الله پاک کے فضل و کرم سے کافی بہتر ہیں اور دو، تین دن میں واپس آشیانہ کیمپ، دتہ خیل آجائیں گے. ہم (ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان) کے تمام کارکنان، اور آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام مقامی ساتھی اور احباب الله پاک کے شکر گزار ہیں کہ الله پاک نے عدنان بھائی کو صحت عطا فرمائی. ہم سب آپ تمام دوستوں، ساتھیوں، کارکنان کے گھر والوں اور تمام پڑھنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور عدنان بھائی کے لئے خصوصی دعا کری. الله پاک آپ سب کو بھی صحت، تندرستی اور خوشالی عطا فرماۓ آمین.

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) کے بارے میں کچھ باتیں:
دوستوں، کیا لکھوں اور کیا بتاؤں سب کچھ تو ویسا ہی ہے جیسا میں چھوڑ کر گیا تھا بلکہ حالت پہلے سے بھی کہیں زیادہ مشکل اور کٹھن. مجھ کو تو اب سچ میں یہاں آکر بہت ہی وحشت کا احساس ہو رہا ہے. مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جو یہاں اکر دل کو چھو گیں.

ٹیم آشیانہ کے کراچی اور لاہور سے آئے ہوۓ کارکنان کا استقبال:
  ہم جب کراچی سے چلے اور لاہور آئے پھر لاہور سے پنڈی پھر پشاور تو یہ احساس بلکل نہیں تھا کہ آشیانہ کیمپ میں مقیم مقامی لوگوں کو ہماری آمد یا ہماری طرف سے کچھ مدد بھیجنے کی کوئی امید ہے یا اطلاع ہے. لیکن جیسے ہی ہم میران شاہ پہنچے (ہم میران شاہ، شمالی وزیرستان تک کیسے پہنچے؟ یہ بھی ایک بہت دکھ بھری اور مشکلات سے بھرپور کہانی ہے، لیکن میں کچھ وجوہات کی بنا پر وہ سب باتیں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں بلکہ ایسا سمجھ لیں کہ وسی تر ملکی مفاد میں کچھ باتوں کا سب کے سامنے بیان ہونا یا ظاہر ہونا نقصان دے ہو سکتا ہے) تو میران شاہ پہنچنے پر ہم کو یہ معلوم ہوا کہ جناب اکرم بھائی اور بلال خان محسود کو اور آشیانہ کیمپ میں موجود لوگوں کو کسی نہ کسی طرح ہماری آمد کے بار میں اطلاع  مل چکی تھی اور یہ دونوں (بلال اور اکرم بھائی) ہمارے استقبال کے لئے میران شاہ میں ہی موجود تھے.  بلال تو مجھ سے ایسے ملا کے جیسے میں کہیں گم ہو گیا ہوں اور بہت مشکل کے بعد اس کو ملا ہوں، اس بچے (بلال) کے محبت اور خلوص  دیکھ کر میں دل ہی دل میں خود سے شرمندہ ہو گیا (کیونکہ پچھلی دفع کراچی واپسی کے بعد شاید صرف ایک یا دو بار ہی میں بلال سے رابطہ کر پایا تھا، اور اپنی مصروفیت میں کچھ اس طرح مگن ہو گیا تھا کہ جیسے میں وزیرستان یا اپنے دوستوں کو جانتا تک نہیں ہوں). اکرم بھائی بھی والہانہ انداز میں ملے اور ہم کو خوش آمدید کیا. یہاں کوئی ڈھول یا شادیانے تو نہیں بجائے گئے لیکن جتنے لوگ مقامی تھے سب ہی بہت ہی محبت اور خلوص کے ساتھ ہم سے پیش آئے. (الله پاک یہ محبت، خلوص اور اخلاق کا جذبہ ہم سب میں سلامت رکھے - آمین)

میران شاہ (شمالی وزیرستان) میں گزرا ہوا کچھ وقت:
 کیونکہ جس وقت ہم میران شاہ پہنچے شام  ختم بلکہ رات شروع ہونے ہی والی تھی، اور سیکورٹی کی وجوہات کی بنا پر ہم کو آگے (دتہ خیل) تک جانے کی اجازت ملنا ممکن نہی تھی. عدنان بھائی اور دیگر ساتھیوں کی بھی یہی ہدایت تھی کہ ہم کسی بھی قیمت پر رات کو سفر نہیں کریں گے اور اپنی مصروفیات سے مقامی انتظامیہ کو بھی پوری طرح آگاہ رکھیں گے. انہی ہدایات کے پیش نظر اکرم بھائی اور دیگر مقامی دوستوں نے میران شاہ میں ہمارے روکنے کا انتظام پہلے سے ہی کر رکھا تھا. کراچی سے روانہ ہوتے وقت ہم کو بتلا دیا گیا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور خصوصاً جہاں ہم ابھی (شمالی وزیرستان) موجود ہیں میں سردی بہت زیادہ ہے تو اپنے آپ کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے جس قدر انتظام کر سکتے تھے ہم لوگ کر کے چلے تھے. وہ امدادی سامان جو ہم کراچی سے لے کر روانہ ہوۓ تھے اور وو امدادی سامان جو لاہور اور دوسرے شہروں سے بھیک مشن کے تحت جمع کیا گیا تھا ہمارے ساتھ نہیں تھا بلکہ مختلف راستوں سے ہوتا ہوا کچھ دن میں پہلے میران شاہ اور پھر آشیانہ کیمپ پہنچنے والا تھا. 
ہم نے سب سے پہلے خود کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے کیا اور مقامی دوستوں نے ہمارے لئے رات کے کھانے کا انتظام کیا، بلال محسود تو جیسے مجھ کو کچھ کرنے ہی نہی دے رہا تھا میرا ہر کام بغیر بولے خود ہی کیے جا رہا تھا. بلال کی آنکھوں میں ایک چمک تھی کے جیسے اس کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو اور میں دل ہی دل میں بہت خوفزدہ تھا کہ پتہ نہیں بلال نے مجھ سے کس قسم کی امیدیں وابستہ کر لی ہیں؟ الله نہ کرے اگر میں بلال کی کوئی امید یا اس نے جو سوچ رکھا ہے پر پورا نہ اترا تو یہ لڑکا میرے اور ٹیم آشیانہ کے کرککن کے بارے میں کیا سوچ بیٹھے گا. (میں خود بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو انسان کہاں جا گرتا ہے). میں نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کے جو کچھ بلال نے مجھ سے وابستہ کر رکھا ہوگا انشا الله پورا کرنے کی پوری کوشش کروں گا اور اگر کچھ نہی کر سکا تو بلال کو کسی بھی طرح سے اندھیرے میں نہیں رکھوں گا. میرا بلال کے ساتھ برتاؤ بہت مشفقانہ رہا تھا اور اس دفع میں اور بھی نرمی اور شفقت کہ ساتھ پیش آنے کی پوری کوشش کر رہا تھا. 
ہم نے ساتھ ہی پہلے مغرب اور پھر عشاہ کی نماز پڑھی. میں نی الله پاک کا شکر ادا کیا کے ہم ساتھ خیریت اور عزت کے ساتھ یہاں (میران شاہ ) تک پہنچ گئے ہیں اور دعا کری  کہ اب جتنا بھی وقت یہاں رہیں الله پاک عزت و آبرو کے ساتھ اور انسانیت کی خدمات ادا کرتے ہوۓ ساتھ گزرے - آمین. 
نماز کے بعد یہاں کچھ اور مقامی لوگ بھی جمع ہو گئے سب ہی ہم سے ملنا چاہتے تھے، ہم کو جاننا چاہتے تھے اور ہماری آمد کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے. یہاں (میران شاہ) میں ایک بنیادی تاثر یہی ہے کے اگر کوئی بندہ یا کوئی ادارہ اگر کسی بھی طرح کے فلاحی کام سر انجام دے رہا ہو تو وو کام صرف مقامی لوگوں سے ہی کروایا جائے، باہر (پاکستان یا بیرون ملک) سے آنے والے لوگ ہو سکتا ہے کے کسی کے ایجنٹ ہوں وغیرہ وغیرہ)، میں کیوں کہ پہلے ایک دفع یہاں آکر جا چکا ہوں ٹوہ میرا لوگوں سے برتاؤ یہاں کے رواج کے مطابق ہی رہا مگر محترم احمد بھائی، ندیم بھائی اور فیصل بھائی بہت زیادہ گھبرائے ہوۓ اور تھوڑا پریشان لگ رہے تھے. میں اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مقامی لوگ جو ہم کو نہی جانتے کے ساتھ بہت دوستانہ رویہ رکھوں اور ہر بات کا جواب آسان الفاظ میں اور سیدھے طریقے سے دوں، میں اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا. اور اکرم بھائی اور بلال نے بھی ہماری ہر موقع پر مدد کر خاص کر جب ہم سے کوئی بات پشتو یا وزیر زبان میں کہی جاتی تو یہ دونوں ہی بہت آسان اردو میں ترجمہ کرتے اور ہمر بات کو بھی مقامی زبان میں مقی لوگو کو بتاتے.

سفر کی تھکن اور پیش آنے والے حالات کی سوچ میں ہی تھے کہ نیند نے آ لیا اور میں نے اکرم بھائی کو اشارہ کیا کہ ہم اب سونا چاہتے ہیں تاکہ صبح فجر میں آرام سے جاگ سکیں تو اکرم بھائی نے تمام لوگوں کو کہ دیا کہ مہمانوں کو اب آرام کرنا ہے باقی باتیں اگلے دن کے لئے چھوڑ دی جائیں. مقامی لوگ جب رخصت ہو چکے تو ہم زمیں پر لگے ایک بستر میں گھس گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے. فیصل بھائی، ندیم بھائی اور دیگر ساتھی آس پاس ہی تھے. بلال ایک طرف بیٹھا ہوا کچھ سوچ رہا تھا اور اکرم بھائی پانی لینے کے لئے باہر گئے ہوۓ تھے کہ اچانک بلال بولا "بھائی اب کی دفع آپ مجھ کو اپنے ساتھ لے کر جو گے نا؟" یہ سوال اچانک اور غیر متوقع تھا. میرا جو بھی جواب ہوتا وہی جواب ہونا چاہیے تھا جو سچ ہو اور میں پورا کر سکوں، میں نے کہا " ابھی کراچی کہ حالت ایسے نہیں بلال کہ میں تم کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں مگر میں یہ وعدہ کرتا ہوں کے اب کی دفع تم کو پہلے کی طرح تنہا نہیں چھوڑوں گا اور مجھ سے جو بھی ہو سکا کم از کم تمہارے لئے ضرور کروں گا انشا الله." بلال میرے جواب سے مطمئن نظر نہیں آرہا تھا الجھن اس کے چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی. پتہ نہیں آشیانہ کیمپ، دتہ خیل کے کیا حالت ہیں جو بلال اب یہاں رہنا یا رکنا نہیں چاہتا، میں نے دل میں سوچا اور فیصلہ کیا کے بلال کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا. اس بچے کے ساتھ میری دوستی بہت نامناسب حالات  میں ہوئی تھی اب جو بھی ہو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا.  تھوڑا دیر میں میری بھی آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا.

اگلی صبح:
آنکھ کھلی تو سورج کا کچھ پتہ نہیں تھا، جلد ہی یہ احساس ہو گیا کے نماز فجر کا وقت ہو گیا ہے، اور مجھ کو اکرم بھائی نے جگایا ہے. (سچی بات کہوں تو جب میں پچھلی دفع یہاں آیا تھا تو مکمل نماز پڑھنے لگا تھا مگر کراچی جاتے ہی آہستہ آہستہ سری نمائن جاتی رہیں اور میں صرف جمعہ کی مناظ تک محدود ہو گیا، الله پاک مجھ بے نمازی کو نماز پڑھنے والا بنا دے - آمین)، باقی ساتھ جیسے فیصل بھائی، ندیم بھائی اور احمد بھائی اتنا جلدی اٹھنے کے عادی نہی ہیں مگر تھوڑا کوشش کے بعد یہ لوگ بھی جاگ گئے. بلال نے اور جس گھر میں ہم مہمان تھے اس گھر میں رہنے والوں نے ہمارے لئے تھوڑا گرم پانی کا انتظام کر دیا تھا. ہم نے جلدی جلدی وضو کیا اور نماز کی ادائیگی کری. الله و اکبر. کیا سکون اور لذت ملی اس نماز میں اس کا اظہر الفاظ میں کرنا نا ممکن ہے. میں تو بار بار یہی دعا کروں گا کے اللہ پاک نماز میں ایسی لذت مجھ کو بار بار عطا فرماۓ - آمین. نماز کی ادائیگی کے دوران ہی جو تھوڑا بہت نیند کا خمار تھا وہ بھی چلا گیا مگر فیصل  بھائی تھوڑا نیند سے تنگ نظر آرہے تھے. میں نہیں فیصل بھائی کو اشارہ کیا کہ ہماری منزل میران شاہ نہیں ہے بلکہ اب ہم کو دتہ کھیل کے لئے روانہ ہونا ہے اور وہاں جا کر آپ کو جتنا آرام کرنا ہے کر لینا تو فیصل بھائی مسکرائی ایک دفع اور مون ہاتھ دھویا اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے. سورج بھی تھوڑا نکل چکا تھا اور میران شاہ کے زندگی کے طریقوں کے مطابق لوگ اب گھروں سے نکل کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو رہے تھے. جن لوگوں کو ہماری آمد کا پتہ چل رہا تھا ہم سے ملنے ضرور آرہا تھا. اکرم بھائی نے کہا کے اس سے پہلے کے سارا بازار اور میران شاہ یہاں جما ہو ہم کو یہاں سے نکلنا ہوگا. میران شاہ  سےدتہ خیل تک کا سفر بہت دشوار گزار راستوں اور خطروں سے بھرپور ہے خاص کر ہم جیسے لوگوں کے لئے جو داڑھی والے نہیں ہیں اور  مقامی حلیہ نہیں رکھتے. اکرم بھائی نے ہم کو کہا کہ ہم  لوگ اب شلوار قمیض پہن لیں (گزشتہ رات جب ہم یہاں آئے تھے جب سے اب تک صرف فیصل بھائی نے ہی اپنے کپڑے تبدیل کیے تھے، ہم لوگ جن کپڑوں میں آئے تھے وہی پہنے ہوۓ تھے). 
ہم نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور خیل کی طرف روانگی کے لئے تیار ہو گئے. مقامی میزبان نے ہمارے لئے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر دیا تھا جو راستے کے لئے استعمال کرنا تھا. ہم سب نے ان کا شکریہ ادا کیا،اکرم بھائی ایک گاڑی کا انتظام کر چکے تھے جو دتہ خیل کی جانب جا رہی تھی. جب ہم اس گاڑی میں سوار ہو رہے تھے تو ایک ہی خیال بار بار آرہا تھا کے اگر کہی سے بلی جیسے ڈرون آ گئے تو کیا ہوگا؟ ہم کیسے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ پھر خود ہی کو تسلی دیتا تھا کہ ڈرون سے حملہ کرنے والے پوری معلومات اور تصدیق کے بعد ہی کوئی حملہ کرتے ہونگے ہم جیسے نہتے لوگوں پر کوئی بھلا کیوں حملہ کرے گا؟ ڈرون سے زیادہ مج کو مقامی شدت پسند اور مسلح گروہوں کی فکر تھی جو جہاں جہاں زور چلا وہیں اپنی حکومت چلا رہے تھے. تمام دعائیں پڑھ کر ہم سب ایک پرانی ہائی لکس گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل آشیانہ کیمپ، دتہ خیل کی جانب روانہ ہوۓ. میران شاہ سے دتہ خیل کا سفر نہت دشوار گزار راستوں سے ہو کر کرنا پڑھتا ہے مقامی لوگ تو اب ان راستوں کے عادی ہو چکے ہیں مگر ہم جیسے لوگ ان پر خطر راستوں سے ناواقف ہے اور خوفزدہ بھی ہیں. 
ہمارا سفر صوبۂ ٨ بجے شروع ہوا اور ہم کو عصر یا مغرب تک ہر صورت میں دتہ خیل پہنچنا تھا. اس گری میں اور بھی مقامی لوگ سوار تھے جو راستے میں مختلف علاقوں کے مسافر تھے دتہ خیل کے لئے بس چند ہی لوگ تھے جن میں ہم لوگ اور ٢ اور تھے. 
سارا راستہ صرف دعائیں پڑھتے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کی خیر و آفیت مانگتے ہوۓ سفر گزرا. ایک جگا روک کر نماز ظہر ادا کری، اور اکرم بھائی نے پوری کوشش کری کے ہم وقت سے پہلے ہی اپنی منزل تک پہنچ جائیں.دتہ خیل سے تھوڑا پہلے ایک جگہ مقامی لوگوں (اب میں ان لوگوں کے بارے میں کیا لکھوں؟ شدت پسند، طالبان، انتہا پسند یا پاکستانی یا وزیری؟ میری تو کچھ سمجھ نہی آرہا) کے ایک گروپ نے ہماری گاڑی کو روکا اور ہم سے پوچھا کہ ہماری آمد کا کیا مقصد ہے اور ہم کب تک کے لئے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، اکرم بھائی اور بلال ہماری ترجمانی کر رہے تھے. شکر الله پاک کا کہ یہ لوگ آشیانہ کیمپ سے واقف تھے اور ٹیم آشیانہ کے کچھ کارکنان سے بھی واقف تھے. مگر تلاشی پوری لی گئی. تلاشی کے دوران میرا، ندیم بھائی کا اور فیصل بھائی کا موبائل فون جس میں ویڈیو بنانے کی سہولت تھی ہم سے لے لیا اور صاف کہ دیا کہ اگر ہمارے پاس اس طرح کی کوئی اور چیز ہے تو وہ ہم ان کو امانت کے طور پر دے دیں، سچی بات ہے کہ اس دفع میں اپنے ساتھ ایک ڈیجیٹل کیمرہ بھی لے کر آیا تھا مگر میں نے ان کو دے دیا کے کہیں میری وجہہ سے ساری ٹیم پر کوئی مشل یا آفت نا آجائے.  ان لوگوں نے کچھ دیر بعد ہم کو آگے جانے کی اجازت دے دی تو ہماری جان میں جان  آئی. ایسا ابھی تک پہلی دفع نہیں ہوا کے مقامی لوگ تلاشی اور پوچھ گچھ کریں. پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ نئے آنے والے لوگوں کو پوری چھان بین کے بعد ہی آگے جانے کی اجازت ملتی ہے.  میران شاہ سے روانہ ہونے کے بعد کافی جگہوں پر سیکورٹی اداروں کے جوان ہم کو روکتے رہے اور ہم کو پوری معلومات اور تصدیق کے بعد ہی ہم کو مزید آگے جانے کی اجازت دیتے رہے. اور ایک پاکستانی کی حثیت سے یہ ہمارا فرض بھی تھا کے ہم اپنے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں. 
خیر، خدا خدا کر کے ہم دتہ خیل میں داخل ہوۓ. یہاں ہماری آمد کی اطلاع پہلے سے ہی تھی. ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کوئی بھی بات یا حرکت چھپی نہی رہ سکتی. مقامی لوگ دتہ کھیل کی سڑکوں پر اپنے کاموں اور بات چیت میں مصروف تھے. کچھ سفر ہم کو گاڑی سے اترکر پیدل بھی کرنا تھا. لہذا گاڑی والے بھائی صاحب کو فارغ کیا، یہی نماز عصر ادا کری. مقامی لوگوں سے بات چیت کری اور اپنے آشیانہ کیمپ کی جانب چل پڑے، آشیانہ کیمپ میں داخل ہوتے ہی سارے بچے اور بزرگ ہم سے ملنے بھاگے چلے آئے. مگر آشیانہ کیمپ کے حالت بہت زیادہ خراب لگ رہے ہیں. ٹینٹ بہت بری حالت میں ہیں. اور بھی کچھ بگڑا ہوا لگ رہا ہے. ابھی کیا حالات ہیں یہ تو یہاں رک کر ہی پتا لگے گا. عدنان بھائی ہم سے پہلے یہاں پہنچ چکے تھے اور ہماری آمد کی اطلاع سن کر ہمارے استقبال کے لئے آچکے تھے. مگر عدنان بھائی کی  خراب لگ رہی تھی یہ پہلے سے بھی بہت زیادہ کمزور ہو چکے ہیں. ہم نے سب سے باری باری ہاتھ ملایا اتنی دیر میں بلال اور اکرم بھائی ہمارا سامان ایک ٹینٹ میں پہنچا چکے تھے. ندیم بھائی اور فیصل بھائی بہت خاموش تھے اور خود کو یہاں کے حالت کو سمجھنے اور آنے والے وقت کے لئے تیار کر رہے تھے. عدنان بھائی نے ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ (ہم لوگ جو سفر سے آئے ہیں) تھوڑا فرش ہو کر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں. 
ہم نے جلدی جلدی خود کو فریش کیا، وضو کر کے نماز مغرب ادا کری اور ہمارے آنے کے بعد عدنان بھائی نے جس طرف اشارہ کیا تھا اس طرف چل پڑے یہ آشیانہ کیمپ کے اندر ہی ایک چبوترا جیسا تھا جس کے اوپر ایک چھتری جیسا چیٹ بنا گیا تھا جو درختوں کی مدد سے بنایا گیا تھا. سردی بہت زیادہ لگ رہی تھی مگر جذبہ گرم ہے تو سردی سے کیا لینا؟ ہم سب ایک ساتھ بیٹھے، میران شاہ سے جو کچھ کھانے پینے کے لئے لیا تھا وہ بچوں میں تقسیم کیا، آشیانہ کیمپ میں موجود ہر انسان ہم سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا اور اکرم بھائی ایک ایک کو سمجھا کر لوگوں کو ہم سے تھوڑا دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے.  ہم نے عدنان بھائی کیصحت کے بارے میں دریافت کیا تو بلال نے بتایا کے عدنان بھائی کافی دنوں سے بخار میں مبتلا ہیں اور پیناڈول کی گولی کھاتے ہیں بس. ہم نے عدنان بھائی کو کہا کے کسی ڈاکٹر کی دکھاتے ہیں تو صاف منع کر دیا کے کوئی ضرورت نہی یہاں اتنے لوگ بیمار ہے کس کس کو دکھاؤ گے؟
ہم اپنے ساتھ جو تھوڑی بہت ادویات لائے تھے منگوائی اور عدنان بھائی کا بخار دیکھا، جو کچھ ہم ایک پیرا میڈیک کر سکتے تھے وہ کیا مگر عدنان بھائی کو ڈاکٹر کی سخت ضرورت تھی جو ہم پوری نہی کر سکتے تھے.
اب آگے لکھنے کی نہ ہی ہمت ہے نہ ہی سکت. ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا. نماز عشاہ ادا کری اور جو جگہ ہم کو سونے کے لئے فراہم کر گئی تھی وہاں جا کر لٹ گئے، سونے سے پہلے میں عدنان بھائی کی شت اور آشیانہ کیمپ کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آنکہ لگ گئی. ....


نوٹ: یہ ڈائری کراچی سے جانے والے ایک کارکن لکھ رہے ہیں جو انشا الله جب تک وہ لکھتے رہے یہاں لکھی جاتی رہے گی.

اسلام و علیکم 
کارکن ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ، دتہ خیل، شمالی وزیرستان.

آشیانہ کیمپ کے بارے میں معلومات اور دیگر تفصیلات کے لئے آپ درج ذیل لنک پر کلک کریں: