Friday 7 December 2012

وزیرستان ڈائری: کراچی سے دتہ خیل، شمالی وزیرستان تک کا سفر

اسلام و علیکم،

اظہار تشکر!
دوستوں اور ساتھیوں، آپ سب کو علم ہوگا کہ عدنان بھائی (سید عدنان علی نقوی) گزشتہ دنوں شدید بیمار رہے ہیں، مستقل بخار کی وجہہ سے نہایت کمزوری کے عالم میں عدنان بھائی کو میران شاہ کے ایک مقامی اسپتال میں داخل کروایا گیا. دو دن کے علاج اور طبی سہولیات ملنے کے بعد اب عدنان بھائی الله پاک کے فضل و کرم سے کافی بہتر ہیں اور دو، تین دن میں واپس آشیانہ کیمپ، دتہ خیل آجائیں گے. ہم (ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان) کے تمام کارکنان، اور آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام مقامی ساتھی اور احباب الله پاک کے شکر گزار ہیں کہ الله پاک نے عدنان بھائی کو صحت عطا فرمائی. ہم سب آپ تمام دوستوں، ساتھیوں، کارکنان کے گھر والوں اور تمام پڑھنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور عدنان بھائی کے لئے خصوصی دعا کری. الله پاک آپ سب کو بھی صحت، تندرستی اور خوشالی عطا فرماۓ آمین.

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) کے بارے میں کچھ باتیں:
دوستوں، کیا لکھوں اور کیا بتاؤں سب کچھ تو ویسا ہی ہے جیسا میں چھوڑ کر گیا تھا بلکہ حالت پہلے سے بھی کہیں زیادہ مشکل اور کٹھن. مجھ کو تو اب سچ میں یہاں آکر بہت ہی وحشت کا احساس ہو رہا ہے. مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جو یہاں اکر دل کو چھو گیں.

ٹیم آشیانہ کے کراچی اور لاہور سے آئے ہوۓ کارکنان کا استقبال:
  ہم جب کراچی سے چلے اور لاہور آئے پھر لاہور سے پنڈی پھر پشاور تو یہ احساس بلکل نہیں تھا کہ آشیانہ کیمپ میں مقیم مقامی لوگوں کو ہماری آمد یا ہماری طرف سے کچھ مدد بھیجنے کی کوئی امید ہے یا اطلاع ہے. لیکن جیسے ہی ہم میران شاہ پہنچے (ہم میران شاہ، شمالی وزیرستان تک کیسے پہنچے؟ یہ بھی ایک بہت دکھ بھری اور مشکلات سے بھرپور کہانی ہے، لیکن میں کچھ وجوہات کی بنا پر وہ سب باتیں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں بلکہ ایسا سمجھ لیں کہ وسی تر ملکی مفاد میں کچھ باتوں کا سب کے سامنے بیان ہونا یا ظاہر ہونا نقصان دے ہو سکتا ہے) تو میران شاہ پہنچنے پر ہم کو یہ معلوم ہوا کہ جناب اکرم بھائی اور بلال خان محسود کو اور آشیانہ کیمپ میں موجود لوگوں کو کسی نہ کسی طرح ہماری آمد کے بار میں اطلاع  مل چکی تھی اور یہ دونوں (بلال اور اکرم بھائی) ہمارے استقبال کے لئے میران شاہ میں ہی موجود تھے.  بلال تو مجھ سے ایسے ملا کے جیسے میں کہیں گم ہو گیا ہوں اور بہت مشکل کے بعد اس کو ملا ہوں، اس بچے (بلال) کے محبت اور خلوص  دیکھ کر میں دل ہی دل میں خود سے شرمندہ ہو گیا (کیونکہ پچھلی دفع کراچی واپسی کے بعد شاید صرف ایک یا دو بار ہی میں بلال سے رابطہ کر پایا تھا، اور اپنی مصروفیت میں کچھ اس طرح مگن ہو گیا تھا کہ جیسے میں وزیرستان یا اپنے دوستوں کو جانتا تک نہیں ہوں). اکرم بھائی بھی والہانہ انداز میں ملے اور ہم کو خوش آمدید کیا. یہاں کوئی ڈھول یا شادیانے تو نہیں بجائے گئے لیکن جتنے لوگ مقامی تھے سب ہی بہت ہی محبت اور خلوص کے ساتھ ہم سے پیش آئے. (الله پاک یہ محبت، خلوص اور اخلاق کا جذبہ ہم سب میں سلامت رکھے - آمین)

میران شاہ (شمالی وزیرستان) میں گزرا ہوا کچھ وقت:
 کیونکہ جس وقت ہم میران شاہ پہنچے شام  ختم بلکہ رات شروع ہونے ہی والی تھی، اور سیکورٹی کی وجوہات کی بنا پر ہم کو آگے (دتہ خیل) تک جانے کی اجازت ملنا ممکن نہی تھی. عدنان بھائی اور دیگر ساتھیوں کی بھی یہی ہدایت تھی کہ ہم کسی بھی قیمت پر رات کو سفر نہیں کریں گے اور اپنی مصروفیات سے مقامی انتظامیہ کو بھی پوری طرح آگاہ رکھیں گے. انہی ہدایات کے پیش نظر اکرم بھائی اور دیگر مقامی دوستوں نے میران شاہ میں ہمارے روکنے کا انتظام پہلے سے ہی کر رکھا تھا. کراچی سے روانہ ہوتے وقت ہم کو بتلا دیا گیا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور خصوصاً جہاں ہم ابھی (شمالی وزیرستان) موجود ہیں میں سردی بہت زیادہ ہے تو اپنے آپ کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے جس قدر انتظام کر سکتے تھے ہم لوگ کر کے چلے تھے. وہ امدادی سامان جو ہم کراچی سے لے کر روانہ ہوۓ تھے اور وو امدادی سامان جو لاہور اور دوسرے شہروں سے بھیک مشن کے تحت جمع کیا گیا تھا ہمارے ساتھ نہیں تھا بلکہ مختلف راستوں سے ہوتا ہوا کچھ دن میں پہلے میران شاہ اور پھر آشیانہ کیمپ پہنچنے والا تھا. 
ہم نے سب سے پہلے خود کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے کیا اور مقامی دوستوں نے ہمارے لئے رات کے کھانے کا انتظام کیا، بلال محسود تو جیسے مجھ کو کچھ کرنے ہی نہی دے رہا تھا میرا ہر کام بغیر بولے خود ہی کیے جا رہا تھا. بلال کی آنکھوں میں ایک چمک تھی کے جیسے اس کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو اور میں دل ہی دل میں بہت خوفزدہ تھا کہ پتہ نہیں بلال نے مجھ سے کس قسم کی امیدیں وابستہ کر لی ہیں؟ الله نہ کرے اگر میں بلال کی کوئی امید یا اس نے جو سوچ رکھا ہے پر پورا نہ اترا تو یہ لڑکا میرے اور ٹیم آشیانہ کے کرککن کے بارے میں کیا سوچ بیٹھے گا. (میں خود بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو انسان کہاں جا گرتا ہے). میں نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کے جو کچھ بلال نے مجھ سے وابستہ کر رکھا ہوگا انشا الله پورا کرنے کی پوری کوشش کروں گا اور اگر کچھ نہی کر سکا تو بلال کو کسی بھی طرح سے اندھیرے میں نہیں رکھوں گا. میرا بلال کے ساتھ برتاؤ بہت مشفقانہ رہا تھا اور اس دفع میں اور بھی نرمی اور شفقت کہ ساتھ پیش آنے کی پوری کوشش کر رہا تھا. 
ہم نے ساتھ ہی پہلے مغرب اور پھر عشاہ کی نماز پڑھی. میں نی الله پاک کا شکر ادا کیا کے ہم ساتھ خیریت اور عزت کے ساتھ یہاں (میران شاہ ) تک پہنچ گئے ہیں اور دعا کری  کہ اب جتنا بھی وقت یہاں رہیں الله پاک عزت و آبرو کے ساتھ اور انسانیت کی خدمات ادا کرتے ہوۓ ساتھ گزرے - آمین. 
نماز کے بعد یہاں کچھ اور مقامی لوگ بھی جمع ہو گئے سب ہی ہم سے ملنا چاہتے تھے، ہم کو جاننا چاہتے تھے اور ہماری آمد کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے. یہاں (میران شاہ) میں ایک بنیادی تاثر یہی ہے کے اگر کوئی بندہ یا کوئی ادارہ اگر کسی بھی طرح کے فلاحی کام سر انجام دے رہا ہو تو وو کام صرف مقامی لوگوں سے ہی کروایا جائے، باہر (پاکستان یا بیرون ملک) سے آنے والے لوگ ہو سکتا ہے کے کسی کے ایجنٹ ہوں وغیرہ وغیرہ)، میں کیوں کہ پہلے ایک دفع یہاں آکر جا چکا ہوں ٹوہ میرا لوگوں سے برتاؤ یہاں کے رواج کے مطابق ہی رہا مگر محترم احمد بھائی، ندیم بھائی اور فیصل بھائی بہت زیادہ گھبرائے ہوۓ اور تھوڑا پریشان لگ رہے تھے. میں اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مقامی لوگ جو ہم کو نہی جانتے کے ساتھ بہت دوستانہ رویہ رکھوں اور ہر بات کا جواب آسان الفاظ میں اور سیدھے طریقے سے دوں، میں اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا. اور اکرم بھائی اور بلال نے بھی ہماری ہر موقع پر مدد کر خاص کر جب ہم سے کوئی بات پشتو یا وزیر زبان میں کہی جاتی تو یہ دونوں ہی بہت آسان اردو میں ترجمہ کرتے اور ہمر بات کو بھی مقامی زبان میں مقی لوگو کو بتاتے.

سفر کی تھکن اور پیش آنے والے حالات کی سوچ میں ہی تھے کہ نیند نے آ لیا اور میں نے اکرم بھائی کو اشارہ کیا کہ ہم اب سونا چاہتے ہیں تاکہ صبح فجر میں آرام سے جاگ سکیں تو اکرم بھائی نے تمام لوگوں کو کہ دیا کہ مہمانوں کو اب آرام کرنا ہے باقی باتیں اگلے دن کے لئے چھوڑ دی جائیں. مقامی لوگ جب رخصت ہو چکے تو ہم زمیں پر لگے ایک بستر میں گھس گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے. فیصل بھائی، ندیم بھائی اور دیگر ساتھی آس پاس ہی تھے. بلال ایک طرف بیٹھا ہوا کچھ سوچ رہا تھا اور اکرم بھائی پانی لینے کے لئے باہر گئے ہوۓ تھے کہ اچانک بلال بولا "بھائی اب کی دفع آپ مجھ کو اپنے ساتھ لے کر جو گے نا؟" یہ سوال اچانک اور غیر متوقع تھا. میرا جو بھی جواب ہوتا وہی جواب ہونا چاہیے تھا جو سچ ہو اور میں پورا کر سکوں، میں نے کہا " ابھی کراچی کہ حالت ایسے نہیں بلال کہ میں تم کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں مگر میں یہ وعدہ کرتا ہوں کے اب کی دفع تم کو پہلے کی طرح تنہا نہیں چھوڑوں گا اور مجھ سے جو بھی ہو سکا کم از کم تمہارے لئے ضرور کروں گا انشا الله." بلال میرے جواب سے مطمئن نظر نہیں آرہا تھا الجھن اس کے چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی. پتہ نہیں آشیانہ کیمپ، دتہ خیل کے کیا حالت ہیں جو بلال اب یہاں رہنا یا رکنا نہیں چاہتا، میں نے دل میں سوچا اور فیصلہ کیا کے بلال کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا. اس بچے کے ساتھ میری دوستی بہت نامناسب حالات  میں ہوئی تھی اب جو بھی ہو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا.  تھوڑا دیر میں میری بھی آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا.

اگلی صبح:
آنکھ کھلی تو سورج کا کچھ پتہ نہیں تھا، جلد ہی یہ احساس ہو گیا کے نماز فجر کا وقت ہو گیا ہے، اور مجھ کو اکرم بھائی نے جگایا ہے. (سچی بات کہوں تو جب میں پچھلی دفع یہاں آیا تھا تو مکمل نماز پڑھنے لگا تھا مگر کراچی جاتے ہی آہستہ آہستہ سری نمائن جاتی رہیں اور میں صرف جمعہ کی مناظ تک محدود ہو گیا، الله پاک مجھ بے نمازی کو نماز پڑھنے والا بنا دے - آمین)، باقی ساتھ جیسے فیصل بھائی، ندیم بھائی اور احمد بھائی اتنا جلدی اٹھنے کے عادی نہی ہیں مگر تھوڑا کوشش کے بعد یہ لوگ بھی جاگ گئے. بلال نے اور جس گھر میں ہم مہمان تھے اس گھر میں رہنے والوں نے ہمارے لئے تھوڑا گرم پانی کا انتظام کر دیا تھا. ہم نے جلدی جلدی وضو کیا اور نماز کی ادائیگی کری. الله و اکبر. کیا سکون اور لذت ملی اس نماز میں اس کا اظہر الفاظ میں کرنا نا ممکن ہے. میں تو بار بار یہی دعا کروں گا کے اللہ پاک نماز میں ایسی لذت مجھ کو بار بار عطا فرماۓ - آمین. نماز کی ادائیگی کے دوران ہی جو تھوڑا بہت نیند کا خمار تھا وہ بھی چلا گیا مگر فیصل  بھائی تھوڑا نیند سے تنگ نظر آرہے تھے. میں نہیں فیصل بھائی کو اشارہ کیا کہ ہماری منزل میران شاہ نہیں ہے بلکہ اب ہم کو دتہ کھیل کے لئے روانہ ہونا ہے اور وہاں جا کر آپ کو جتنا آرام کرنا ہے کر لینا تو فیصل بھائی مسکرائی ایک دفع اور مون ہاتھ دھویا اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے. سورج بھی تھوڑا نکل چکا تھا اور میران شاہ کے زندگی کے طریقوں کے مطابق لوگ اب گھروں سے نکل کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو رہے تھے. جن لوگوں کو ہماری آمد کا پتہ چل رہا تھا ہم سے ملنے ضرور آرہا تھا. اکرم بھائی نے کہا کے اس سے پہلے کے سارا بازار اور میران شاہ یہاں جما ہو ہم کو یہاں سے نکلنا ہوگا. میران شاہ  سےدتہ خیل تک کا سفر بہت دشوار گزار راستوں اور خطروں سے بھرپور ہے خاص کر ہم جیسے لوگوں کے لئے جو داڑھی والے نہیں ہیں اور  مقامی حلیہ نہیں رکھتے. اکرم بھائی نے ہم کو کہا کہ ہم  لوگ اب شلوار قمیض پہن لیں (گزشتہ رات جب ہم یہاں آئے تھے جب سے اب تک صرف فیصل بھائی نے ہی اپنے کپڑے تبدیل کیے تھے، ہم لوگ جن کپڑوں میں آئے تھے وہی پہنے ہوۓ تھے). 
ہم نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور خیل کی طرف روانگی کے لئے تیار ہو گئے. مقامی میزبان نے ہمارے لئے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر دیا تھا جو راستے کے لئے استعمال کرنا تھا. ہم سب نے ان کا شکریہ ادا کیا،اکرم بھائی ایک گاڑی کا انتظام کر چکے تھے جو دتہ خیل کی جانب جا رہی تھی. جب ہم اس گاڑی میں سوار ہو رہے تھے تو ایک ہی خیال بار بار آرہا تھا کے اگر کہی سے بلی جیسے ڈرون آ گئے تو کیا ہوگا؟ ہم کیسے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ پھر خود ہی کو تسلی دیتا تھا کہ ڈرون سے حملہ کرنے والے پوری معلومات اور تصدیق کے بعد ہی کوئی حملہ کرتے ہونگے ہم جیسے نہتے لوگوں پر کوئی بھلا کیوں حملہ کرے گا؟ ڈرون سے زیادہ مج کو مقامی شدت پسند اور مسلح گروہوں کی فکر تھی جو جہاں جہاں زور چلا وہیں اپنی حکومت چلا رہے تھے. تمام دعائیں پڑھ کر ہم سب ایک پرانی ہائی لکس گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل آشیانہ کیمپ، دتہ خیل کی جانب روانہ ہوۓ. میران شاہ سے دتہ خیل کا سفر نہت دشوار گزار راستوں سے ہو کر کرنا پڑھتا ہے مقامی لوگ تو اب ان راستوں کے عادی ہو چکے ہیں مگر ہم جیسے لوگ ان پر خطر راستوں سے ناواقف ہے اور خوفزدہ بھی ہیں. 
ہمارا سفر صوبۂ ٨ بجے شروع ہوا اور ہم کو عصر یا مغرب تک ہر صورت میں دتہ خیل پہنچنا تھا. اس گری میں اور بھی مقامی لوگ سوار تھے جو راستے میں مختلف علاقوں کے مسافر تھے دتہ خیل کے لئے بس چند ہی لوگ تھے جن میں ہم لوگ اور ٢ اور تھے. 
سارا راستہ صرف دعائیں پڑھتے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کی خیر و آفیت مانگتے ہوۓ سفر گزرا. ایک جگا روک کر نماز ظہر ادا کری، اور اکرم بھائی نے پوری کوشش کری کے ہم وقت سے پہلے ہی اپنی منزل تک پہنچ جائیں.دتہ خیل سے تھوڑا پہلے ایک جگہ مقامی لوگوں (اب میں ان لوگوں کے بارے میں کیا لکھوں؟ شدت پسند، طالبان، انتہا پسند یا پاکستانی یا وزیری؟ میری تو کچھ سمجھ نہی آرہا) کے ایک گروپ نے ہماری گاڑی کو روکا اور ہم سے پوچھا کہ ہماری آمد کا کیا مقصد ہے اور ہم کب تک کے لئے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، اکرم بھائی اور بلال ہماری ترجمانی کر رہے تھے. شکر الله پاک کا کہ یہ لوگ آشیانہ کیمپ سے واقف تھے اور ٹیم آشیانہ کے کچھ کارکنان سے بھی واقف تھے. مگر تلاشی پوری لی گئی. تلاشی کے دوران میرا، ندیم بھائی کا اور فیصل بھائی کا موبائل فون جس میں ویڈیو بنانے کی سہولت تھی ہم سے لے لیا اور صاف کہ دیا کہ اگر ہمارے پاس اس طرح کی کوئی اور چیز ہے تو وہ ہم ان کو امانت کے طور پر دے دیں، سچی بات ہے کہ اس دفع میں اپنے ساتھ ایک ڈیجیٹل کیمرہ بھی لے کر آیا تھا مگر میں نے ان کو دے دیا کے کہیں میری وجہہ سے ساری ٹیم پر کوئی مشل یا آفت نا آجائے.  ان لوگوں نے کچھ دیر بعد ہم کو آگے جانے کی اجازت دے دی تو ہماری جان میں جان  آئی. ایسا ابھی تک پہلی دفع نہیں ہوا کے مقامی لوگ تلاشی اور پوچھ گچھ کریں. پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ نئے آنے والے لوگوں کو پوری چھان بین کے بعد ہی آگے جانے کی اجازت ملتی ہے.  میران شاہ سے روانہ ہونے کے بعد کافی جگہوں پر سیکورٹی اداروں کے جوان ہم کو روکتے رہے اور ہم کو پوری معلومات اور تصدیق کے بعد ہی ہم کو مزید آگے جانے کی اجازت دیتے رہے. اور ایک پاکستانی کی حثیت سے یہ ہمارا فرض بھی تھا کے ہم اپنے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں. 
خیر، خدا خدا کر کے ہم دتہ خیل میں داخل ہوۓ. یہاں ہماری آمد کی اطلاع پہلے سے ہی تھی. ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کوئی بھی بات یا حرکت چھپی نہی رہ سکتی. مقامی لوگ دتہ کھیل کی سڑکوں پر اپنے کاموں اور بات چیت میں مصروف تھے. کچھ سفر ہم کو گاڑی سے اترکر پیدل بھی کرنا تھا. لہذا گاڑی والے بھائی صاحب کو فارغ کیا، یہی نماز عصر ادا کری. مقامی لوگوں سے بات چیت کری اور اپنے آشیانہ کیمپ کی جانب چل پڑے، آشیانہ کیمپ میں داخل ہوتے ہی سارے بچے اور بزرگ ہم سے ملنے بھاگے چلے آئے. مگر آشیانہ کیمپ کے حالت بہت زیادہ خراب لگ رہے ہیں. ٹینٹ بہت بری حالت میں ہیں. اور بھی کچھ بگڑا ہوا لگ رہا ہے. ابھی کیا حالات ہیں یہ تو یہاں رک کر ہی پتا لگے گا. عدنان بھائی ہم سے پہلے یہاں پہنچ چکے تھے اور ہماری آمد کی اطلاع سن کر ہمارے استقبال کے لئے آچکے تھے. مگر عدنان بھائی کی  خراب لگ رہی تھی یہ پہلے سے بھی بہت زیادہ کمزور ہو چکے ہیں. ہم نے سب سے باری باری ہاتھ ملایا اتنی دیر میں بلال اور اکرم بھائی ہمارا سامان ایک ٹینٹ میں پہنچا چکے تھے. ندیم بھائی اور فیصل بھائی بہت خاموش تھے اور خود کو یہاں کے حالت کو سمجھنے اور آنے والے وقت کے لئے تیار کر رہے تھے. عدنان بھائی نے ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ (ہم لوگ جو سفر سے آئے ہیں) تھوڑا فرش ہو کر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں. 
ہم نے جلدی جلدی خود کو فریش کیا، وضو کر کے نماز مغرب ادا کری اور ہمارے آنے کے بعد عدنان بھائی نے جس طرف اشارہ کیا تھا اس طرف چل پڑے یہ آشیانہ کیمپ کے اندر ہی ایک چبوترا جیسا تھا جس کے اوپر ایک چھتری جیسا چیٹ بنا گیا تھا جو درختوں کی مدد سے بنایا گیا تھا. سردی بہت زیادہ لگ رہی تھی مگر جذبہ گرم ہے تو سردی سے کیا لینا؟ ہم سب ایک ساتھ بیٹھے، میران شاہ سے جو کچھ کھانے پینے کے لئے لیا تھا وہ بچوں میں تقسیم کیا، آشیانہ کیمپ میں موجود ہر انسان ہم سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا اور اکرم بھائی ایک ایک کو سمجھا کر لوگوں کو ہم سے تھوڑا دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے.  ہم نے عدنان بھائی کیصحت کے بارے میں دریافت کیا تو بلال نے بتایا کے عدنان بھائی کافی دنوں سے بخار میں مبتلا ہیں اور پیناڈول کی گولی کھاتے ہیں بس. ہم نے عدنان بھائی کو کہا کے کسی ڈاکٹر کی دکھاتے ہیں تو صاف منع کر دیا کے کوئی ضرورت نہی یہاں اتنے لوگ بیمار ہے کس کس کو دکھاؤ گے؟
ہم اپنے ساتھ جو تھوڑی بہت ادویات لائے تھے منگوائی اور عدنان بھائی کا بخار دیکھا، جو کچھ ہم ایک پیرا میڈیک کر سکتے تھے وہ کیا مگر عدنان بھائی کو ڈاکٹر کی سخت ضرورت تھی جو ہم پوری نہی کر سکتے تھے.
اب آگے لکھنے کی نہ ہی ہمت ہے نہ ہی سکت. ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا. نماز عشاہ ادا کری اور جو جگہ ہم کو سونے کے لئے فراہم کر گئی تھی وہاں جا کر لٹ گئے، سونے سے پہلے میں عدنان بھائی کی شت اور آشیانہ کیمپ کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آنکہ لگ گئی. ....


نوٹ: یہ ڈائری کراچی سے جانے والے ایک کارکن لکھ رہے ہیں جو انشا الله جب تک وہ لکھتے رہے یہاں لکھی جاتی رہے گی.

اسلام و علیکم 
کارکن ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ، دتہ خیل، شمالی وزیرستان.

آشیانہ کیمپ کے بارے میں معلومات اور دیگر تفصیلات کے لئے آپ درج ذیل لنک پر کلک کریں: