Tuesday 18 December 2012

وزیرستان ڈائری: ایک اور دن کی داستان

اسلام و علیکم 
ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی جانب سے "وزیرستان ڈائری" تحریر کرنے کا عمل جاری ہے اور جیسے ہی ہم کو ڈائری موصول ہوتی ہیں ہم ضروری تدوین کے بعد اس کو یہاں شایع کر دیتے ہیں. اس ڈائری کو یہاں لکھنے کا مقصد خود کی تشہیر یا مقبولیت نہی ہے بلکہ ہم صرف شمالی وزیرستان کے زمینی حقائق اور مقامی افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں مزید "ٹیم آشیانہ" کے جو کارکنان مختلف شہروں سے یہاں آکر فلاحی کام سر انجام دے رہے ہیں ان کاموں کی تفصیلات سے اپنے دیگر دوستوں کو آگاہ کرنا ہے. 

گزشتہ ڈائری کا لنک:

آج کی ڈائری:
رات بھر جاگنے اور شدید ذہنی دباؤ کی وجہہ سے میرا سر درد سے بہت بری طرح پھٹ رہا تھا. میں نے سب ہی کو بولا کے میں اب سونے جا رہا ہوں. مجھ کو ظہر کی نماز میں جگا دیں. باقی معملات رحمت بابا اور دیگر ساتھ مل کر دیکھیں. میں عدنان بھائی کے ٹینٹ میں آیا اور ایک جانب پڑے بستر پر سو گیا.

ظہر کی نماز سے تھوڑا پہلے ہی بلال نے مجھ کو جگا دیا. نیند کا خمار اور سر درد میں کچھ کمی آ چکی تھی، مگر سستی اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی. 

جاگ کر نماز کی تیاری کری اور کیمپ کے دیگر کاموں کے بارے میں رحمت بابا اور بلال سے معلومات کری. فیصل بھائی ایک طرف کچھ بچوں کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے. میں نے بلال سے پوچھا کے اب تمہاری امی اور بہن کیسے ہیں اور کہاں ہیں؟ بلال میری بات سن کر اچانک سے رو پڑا، مجھ کو فوری طور پر کچھ سمجھ نہی آیا مگر رحمت بابا جب بلال کو دلاسہ دینے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا "صبر بچہ، صبر،" جب مجھ کو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگا. بلال کی باتیں بلال کی ڈائری، بلال کے نہ سمجھ آنے والے پیغامات سب ایک ایک کر کے سمجھ آنے لگے. 

مگر ہوا کیا؟ کوئی مجھ کو بھی تو بتائے؟ میں نے بلال کو اپنے سینے سے لگایا اور ایک طرف بیٹھ کر پوچھا: "بلال امی کہاں ہیں؟ بہن کہاں ہے؟ 

بلال نے روتے ہوۓ جواب دیا "بھائی امی نہیں ہیں وہ ہم کو چھوڑ کر بہت دور چلا گیا ہے." میں نے کہا اور بہن؟ تو بلال نے کہا وہ بھی چلا گیا اس کا شادی ہو گیا. 
میں حیران تھا کے یہ سب مجھ کو پہلے سے کیوں نہیں بتایا گیا؟ کیوں اور کیسے؟ تو رحمت بابا جو ابھی تک ہمرے ساتھ موجود تھے نے مجھ کو کچھ تفصیلات باتیں کہ کس طرح سے بلال کی والدہ کا انتقال ہوا اور بہن کی شادی ہوئی.

 "بلال کی والدہ کیوں کے بیمار تھی اور نفسیاتی مریض بھی تو کچھ ماہ قبل بلال کے کوئی رشتےدار یہاں آئے تھے اور بلال کی بہن کا ہاتھ مانگا تھا، بلال نے عدنان بھائی اور کچھ بڑوں سے مشورہ کر کے اپنی بہن کا نکاح کر دیا تھا اور رخصت کر دیا تھا. اس کی بہن میر علی کے کسی خان کے گھر کی بہو بنی ہے. اور بہن کی شادی کے بعد ہی بلال کی والدہ گزشتہ ماہ نومبر کی ١٧ کو انتقال  کر گئی تھی. "الله پاک مرحومہ کی مغفرت کرے اور بلال کو صبر عطا فرماۓ - آمین"

اب تو بلال اکیلا ہی رہ گیا ہے. اب کیا کرنا ہے؟ میں اسی سوچ میں تھا کے کیمپ میں مقیم کچھ بزرگ ہم سے ملنے ہماری طرف چلے آئے. بزرگ ہم سے یہ جاننا چاہتے تھے  اب ان کا مستقبل کیا ہے محترم رحمت بابا نے کوئی بھی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی شاید آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام ہی لوگوں کو یہ بتلا دیا تھا کہ ہم لوگ کیمپ میں مقیم کچھ لوگوں کو رخصت کرنا چاہتے ہیں. میں نے اور فیصل بھائی نے ان تمام لوگوں کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کری. 

ہم چاہتے تھے کہ کیمپ کی ابتر حالت کو جلد از جلد سدھار سکیں، فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں. دوست، احباب اور گھر والوں سے رابطہ  کرنا ناممکنات میں ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سب جیسے کسی   اور سیارہ کی مخلوق ہیں جس کا زمین والوں سے کوئی رابطہ فلحال ممکن نہیں. ایسی بے بسی کے عالم میں بہت سارے لوگ ہم سے پتا نہیں کیا کیا اور کس کس قسم کی امیدیں لگا کر بیٹھے تھے، ان میں سے اکثر لوگوں کو یہ تک نہیں پتا ہے کہ ہم لوگ تو خود پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا گزر بسر ہر مہینے ملنے والی تنخواہ پر یا جو چھوٹا کاروبار رکھتے ہیں اس کی آمدن پر ہوتا ہے اور اب تو ملک کے معاشی حالت ہم کو بچت کرنے کی کوئی اجازت تک نے دیتے تو ہم ان لوگوں کی بہت ساری امیدوں کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں. میرے خیال سے ہم (ٹیم آشیانہ کے کارکنان) کو اب آشیانہ کیمپ کے بگڑے حالت کو سدھار نے کے لئے کچھ تلق اور حقیقت پسند فیصلے کرنے ہی ہونگے. ابھی میں کوئی نامکمل یا ادھوری بات کہ کر یہاں کے لوگوں کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا نہ ہی کوئی ایسا قدم جس سے کیمپ کے اندر کسی بھی طرح کی کوئی بے چینی پھیلے یہ میرا مقصد تھا. 

ان لوگوں کو فارغ کر کے میں ایک دفع پھر سے عدنان بھائی کی دی ہوئی فائلز کھول کر بیٹھ گیا. سردی بڑھتی ہی جا رہی تھی. دل اور دماغ میں عجیب عجیب خیالات اور فکریں سوار ہو رہیں تھی. بہت بڑی ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی تھی، مگر ہمت تھی کہ بار بار ٹوٹے جا رہی تھی. 

فیصل بھائی میرے ساتھ ہی بیٹھے رہے اور میرے بتاۓ  ہوۓ اعداد و شمار کو نوٹ کرتے جا رہے تھے. آج میں کیمپ میں موجود تمام  مقامی افراد اور کارکنان کا حتمی ڈیٹا تشکیل دے رہا تھا، اور کیمپ میں موجود امدادی سامان کی تفصیلات اور دیگر باتیں بھی لکھ رہا تھا. میرا سب سے پہلا ٹارگٹ کیمپ میں موجود لوگوں کو بڑھتی ہوئی سردی سے محفوظ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا تھا. جس کہ لئے درکار سامان ابھی تک مہیا نہیں تھا.  ایک حتمی فہرست ترتیب پا گئی تو میں نے شام میں کیمپ میں موجود تمام مقامی کارکنان کو پیغام بھجوادیا کہ ہم آج 
 بعد نماز عشاء ایک میٹنگ کر رہے ہیں لہذا اس وقت سب حاضر رہیں.    

کب کی کب میں عصر اور مغرب ہو گئی کچھ پتہ ہی نہ لگا، بس ہم فائلز سے فارغ ہوتے، نماز ادا کرتے اور پھر سے فائلز لے کر بیٹھ جاتے. مغرب کی نماز کے بعد کھانا تیار تھا ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کچھ لکڑیوں کو جلا کر بیٹھ گئے. کچھ اپنی باتیں کریں کچھ لوگوں کی باتیں سنیں. یہاں دکھ، غم، بے بسی کی باتوں کے سوا کچھ اور بھی ایسا نہیں تھا جس کا ذکر اپنی ڈائری میں لکھ سکوں. باتوں ہی باتوں میں فیصل بھائی نے ذکر کیا کہ ہمارا امدادی سامان ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے تو مجھ کو بھی کچھ فکر لاحق ہوئی. میں نے ایک پرچہ لے کر عدنان بھائی کے لئے ایک پیغم لکھا اور رحمت بابا کے حوالے کیا کہ وہ اس پیغام کو کسی بھی طرح عدنان بھائی تک پہچانے کا اہتمام کریں. اسی اثنا میں عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا ہم سب نے مل کر نماز ادا کری اور سردی سے محفوظ رہنے کے لئے پھر سے کچھ لکڑیاں جلائیں.  

مقامی کارکنان اور ہم سب نے مل کر میٹنگ کر جس میں کچھ بنیادی فیصلے کیے اور پھر کل سے عملی اقدامات کرنے کا احد کر کے ہم سب اپنے اپنے بستروں میں داخل ہوۓ. آج ہوا بھی ہے اور شاید کسی وقت بارش بھی ہو. اگر بارش ہوئی تو ہمارے ٹینٹس کا کیا ہوگا؟ یہ تو پہلے سے ہی بہت خستہ حالت میں ہیں. یا الله ہماری مدد فرما اور ہم کو اس امتحان سے نکال - امین.

اب میں ٢ دن کی ڈائری ایک ساتھ لکھنے بیٹھا ہوں اور آج ہی لکھ کر ختم کر دوں گا، وہاں کراچی میں میری امی اور بہنیں میرے پیغام کے لئے راہ دیکھتی ہونگی اور بہت فکر مند ہونگی. ابھی تو اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کے لئے بس یہی ایک راستہ ہے کہ روز ڈائری لکھوں ار میران شاہ میں مجود مقامی کارکن کو بھجواؤں اور وہ اس کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردے. باقی امی کا ذاتی پیغام شاید کسی طرح مجھ تک یہاں پہنچ جائے. 

اب یہ ڈائری ختم پر ہے رات کا ایک بج رہا ہے، بہار تیز ہوا چل رہی ہے، سردی ایسی ہے کے بس جسم جمنا ہی باقی ہے. میں خود سے ہی سوال کر رہا ہوں کہ میں اس موسم میں یہاں کیوں ہوں اور خود کو ہی تسلی دے رہا ہوں کہ بس کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے پھر ہم اپنے گھر میں ہونگے اور یہ لوگ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں میرے پاس فلحال. 

شب بخیر، الله پاک ہم سب پر اپنا کرم کرے، آمین!