Thursday 13 December 2012

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) شمالی وزیرستان میں ہمارا اگلا دن

اسلام و علیکم،
محترم دوستوں اور ساتھیوں. 

ڈائری تو روز ہی لکھی جا رہی ہے مگر یہاں (میران شاہ) میں موسم بہت بدل گیا ہے، حالات کر رونا تو ہم روتے ہی رہتے ہیں. پاور (بجلی) بھی کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں. پھر ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود نہی ہوتی. پھر بھی ہم پوری کوشش کرتے ہے کہ اپنوں سے جتنا جلدی رابطہ ممکن ہو کیا جا سکے. 
ٹیم آشیانہ کے کرکم کی جانب سے یہاں گزرتے ہوۓ وقت اور حالت پر "وزیرستان ڈائری" لکھنے کا عمل بھی جاری ہے اس ڈائری کو یہاں (آشیانہ کیمپ) میں بھی سب لوگ بہت شوق سے پڑھتے ہیں اور ہم سب کو سیکھنے کے موقع بھی ملتا ہے. 


آج کی ڈائری:
آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) سے منسلک مسجد سادگی اور دستیاب وسائل کا ایک بہترین نمونہ ہے. یہ مسجد بیرون ملک سے ملنے والی ملی امداد "بلخصوص" قطر کے ایک بھائی نے بہت مدد کر کی مدد سے تیار کی گئی ہے. مسجد میں ١٠٠ کے قریب نمازیوں کی جگہ موجود ہے. پوری مسجد کا چبوترا پکا ہے اور ایک طرف وضو خانہ موجود ہے. میں اچھی طرح مسجد میں گھوما، وضو کیا اور فیصل بھائی کے ہمراہ نماز ادا کری. 

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں مقیم کچھ لوگوں سے ملاقات کا احوال:
نماز ادا کرنے کے بعد میں باہر آیا تو کافی لوگ جمع تھے. سب کو سلام کیا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے یہاں آنے کا مقصد بیان کیا. کچھ لوگوں نے اپنی دکھ بھری داستان بھی سنائی جس کو سن کر بس دل خوں کے آنسو ہی رو سکتا ہے. لوگوں کو تسلی دی. اور ان لوگوں کو اپنے اپنے ٹینٹس میں جانے کا کہا. میں نے اپنے ساتھ مقرر ساتھیوں کے ہمراہ ایک طرح کی میٹنگ بلوائی جس میں رحمت بابا، زوہیب، فیصل بھائی، جہانزیب، بلال اور میں خود شامل تھے. ہم نے پہلے آشیانہ کیمپ میں موجود تمام افراد کے ناموں اور دیگر تفصیلات کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا. اب کیمپ کے حالت پہلے جیسے نہیں رہے تھے کہ آشیانہ کیمپ بہت سارے لوگوں کا بوجھ اٹھا سکے اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ بہت ہی مجبور لوگ یا ایسے لوگ جن ک گھر بار کا کچھ پتہ نہیں ہی کو یہاں (کیمپ) میں رہنے کی اجازت دی جاۓ گی باقی لوگوں سمجھا کر ان کے علاقوں اور گھروں کو واپس روانہ کرنے کی کوشش کی جائے،  یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا جو ہم نے عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں کیا تھا، بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا. آشیانہ کیمپ اور ٹیم آشیانہ اور ہم سب دوستوں کے جتنے بھی وسائل تھے اس میں ہم ایک مخصوص تعداد میں ہی کیمپ میں لوگوں کو رکھنے کے قابل تھے، اضافی بوجھ کے لئے اضافی وسائل درکار ہوتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں. اسی لئے یہ کروا گھونٹ ہم کو پینا ہی ہوگا "ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ایک کوشش کر لینے میں کیا حرج ہے؟"
میں عدنان بھائی کی دی ہوئی فائلز کو دیکھنے لگا جن میں کیمپ میں موجود لوگوں کے بارے میں تفصیلات اور موجودہ سامان کی تفصیلات موجود تھیں. مزید جن سامان کی ضرورت تھی وہ بھی لکھی ہوئی تھی اور کچھ رابطہ کروں کے نمبر لکھے ہوۓ تھے. 

رحمت بابا کا  (قابل عمل) مشورہ:
میں ابھی فائلز دیکھ ہی رہا تھا کہ رحمت بابا اچانک بول پڑے، "ہم سب لوگ نے عدنان بھائی کو کافی دفع کہا ہے کے کیمپ کو یہاں سے کہی اور منتقل کر دیتے ہیں جیسا کہ میران شاہ مگر عدنان بھائی نہیں سمجھتے ہمر بات. ابحیح یہاں سردی ہو رہی ہے  اور اس سردی میں بہت اضافہ ہونے والا ہے. ہمرے پاس سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہی ہے. ٹینٹ کافی بری حالت میں ہیں، ایسے میں اگر بارش ہو گاہ جو کہ بہت ہوتی ہے تو کیمپ کا کیا ہوگا؟ آپ ہی عدنان بھائی سے بات کر کے دیکھو، میری طرف اشارہ کیا". 
میں ایک نئی سوچ میں پڑھ گیا، میرے ذہن میں یہ تھا کہ ہم سب کارکنان مل کر موجدہ دستیاب وسائل سے کیمپ کی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کچھ لوگوں کا دباؤ کم ہوگا تو شاید کیمپ کی حالت اور حالات میں کچھ بہتری آجائے. مگر اب رحمت بابا کی تجویز بہت ہی معقول اور قابل عمل تھی جس پر سوچنے کی نہیں عمل کرنے کی پوری گنجائش موجود تھی. مگر عدنان بھائی تو آج ہی میران شاہ گئے ہیں اب کیا ہو سکتا ہے؟ میں اسی سوچ میں تھا کہ بلال پتہ نہیں کہاں سے چائے لے کر آگیا. میری معلومات کے مطابق کیمپ میں چائے ختم پر تھی اور میری یا کسی اور ساتھی کی طرف سے ابھی تک چاہیے یا کسی اور چیز کی کوئی فرمائش نہیں کی گئی تھی. میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی بلال بول پڑا، بھائی یہ چائے کیمپ کی نہیں ہے خان نے بھجوائی ہے اور آج رات کا کھانا ٢٠ لوگو نکہ بھی بھجوانے کے لئے کہا ہے" بلال نے مسکراتے ہوۓ کہا. میں نے کچھ بھی سوچے بغیر چائے پینا شرو کردی تو فیصل بھائی نے اشارے سے  سگریٹ پینے کا اشارہ کیا. اور بلال نے میرے سامان سے سگریٹ لا دی. چائے پی کر فارغ ہوۓ ہی تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ہوا، ہم سب خاموشی سے نماز کی تیاری میں لگ گئے، نماز کے بعد کچھ لوگ کیمپ کے ہی تھے ہم سے ملنے آئے، شاید ان لوگوں میں سے کچھ کو ہمارے ارادوں کا پتہ لگ گیا تھا کہ ہم کچھ لوگوں کومیں سے کچھ کو واپس ان کے علاقے میں بھیج رہے ہیں، ان لوگوں نے بہت اخلاق سے سلام کیا اور مقامی زبان کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہم سے بت کرنا شروع کی، رحمت بابا اور بلال مقامی زبان کا ترجمہ کر رہی تھے جس سے ہم کو ان لوگوں کی بات سمجھنے میں آسانی ہو رہی تھی. پوری بات سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ سب الله پاک سے دوا کریں کہ الله پاک ہم کو مزید وسائل عطا کرے تو ہم سارے وزیرستان کو اپنا مہمان بنا لیں گے. مگر ابھی ہم صرف ان لوگوں کو واپس بھیجنا چہ رہے ہیں جو کسی خوف یا ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے علاقوں سے یا گھروں کو چھوڑ  آئے ہیں. اور یہ کم ایک دن میں نہیں ہگا پہلے ہم تفصیلات جمع کریں گے پھر ہی کوئی فیصلہ ہوگا اور یہ فیصلہ ہم اکیلے نہیں کریں گے، عدنان بھائی کی منظوری اور بات ہونے کے بعد ہی کچھ ہو سکے گا. ابھی آپ لوگ آرام سے جہاں ہیں وہیں رہیں، الله ملک ہے. "میں نے اپنے طور پر لوگوں کو تسلی تو دے دی تھی مگر میں خود بہ کافی فکر مند تھا کے کس طرح عدنان بھائی سے بات ہوگی؟ کیمپ میں مقیم لوگوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ کہی میں اور میرے ساتھ کسی مشکل میں تو نا پڑھ جائیں گے. کہ تھوڑی ہی دیر میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا. ہم سب نے مل کر آشیانہ مسجد میں جا کر نماز مغرب ادا کر اس نماز میں کیمپ  میں مقیم لوگوں کے علاوہ دتہ خیل کے آس پاس موجود کافی لوگ بھی آئے تھے. کچھ لوگ ہم سے ملاقات کرنے کے لئے رک گئے. میں ایک دفع پہلے بھی یہاں رہ کر جا چکا ہوں اسی لئے کچ لوگ مجھ سے واقف تھے مگر میں اکثر لوگوں کو نہیں جانتا تھا اسی لئے رحمت بابا، بلال، زوہیب اور کچھ اور ساتھی یہاں میرے ساتھ موجود تھے. یہ لوگ ہمیشہ کی طرح  مجھ سے میرے بارے میں میرے ساتھیوں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے. ان کو اب بھی یہی لگتا تھا کے جیسے میں اور میرے دوست کسی ادارے یا بیرون ملک کے جاسوس ہیں وغیرہ وغیرہ.... ہم سب نے مل کر ان کو تسلی دی کے ہم بھی عدنان بھائی کے دوست ہیں اور یہاں لوگوں کی خدمات اور فلاحی کاموں کے غرض سے موجود ہیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہے اگر آپ لوگ ہم کو کسی بھی غیر قانونی حرکت یا کسی ایسی بات میں ملوث پائیں جو یہاں کے قانون کے مطابق نہیں ہو تو ہم کو یہاں کے قانون کے مطابق سزا دلوا دیں (یہ باتیں میں نے بہت جلے کٹے دل کے ساتھ کہیں تھی).

رات کا کھانا تیار تھے، بھوک کے مارے حشر برا ہو رہا تھا. ادھر عدنان بھائی اور اکرم بھائی کی کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی کہ وہ لوگ میران شاہ پہنچے کے نہیں (الله پاک بہتر کرے - آمین)

آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں دوسری رات کا کھانا:
مسجد کے احاطے میں ہی ایک بڑی چٹائی بچھا دی گئی، مٹی، سلور، پلاسٹک کے برتن رکھے گئے، اور پھر کھانا لایا گیا. اب م اس خانے کے بارے میں کیا لکھوں مشکل وقت اور حالات میں جو بھی مل جائے الله پاک کا شکر کر کے صبر کے ساتھ کھا لینا چاہیے. پانی کا شوربہ ہی شوربہ تھا، درمیان میں کچھ آلو موجود تھے جن کا چھلکا تک نہی اتارا گیا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آلو الگ سے ابال کر اس شوربے میں ملا دیے گئے تھے. روٹی کا تو کیا ہی کہنا، بھوک بہت تھی اسی لئے صرف ایک نظر سب کی طرف دیکھا اور  الله کا نام لے کر کھانا کھایا اور بہت سر ہو کر کھایا سالن جس طرح کا دیکھ رہا تھا ذائقہ میں بہت بہتر تھا. ہم سب نے بہت سیر ہو کر کھایا یہ بھی نہ سوچا کہ اگر بدہضمی ہوئی تو کیا ہوگا ادویات تو ابھی تک آئی ہی نہیں ہیں.

انجان لوگوں کی اچانک آمد اور ہم:
 کھانے سے فارغ ہو کر ہم کھڑے ہوۓ تھے کہ اچانک کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوۓ. ان لوگوں کے بارے میں کیا لکھوں کچ سمجھ نہیں آرہا تھا، انداز تو ایسا تھا کے جیسے کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوتا ہے. مجھ کو ان کہ چہروں پر پتہ نہیں کیوں کچھ اچھا تاثر نظر نہیں آرہا تھا. سب سے پہلے رحمان بابا ان کی جانب گئے اور کافی دیر تک بات کرتے رہے. بلال اور زوہیب اور کچھ دوسرے لوگوں کے چہروں پر فکر، تذبذب اور خوف کے میل جلے آثار صاف دیکھ جا سکتے تھے. میں کچھ کچھ سمجھ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں مگر یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس وقت یہاں ان کی آمد کا کیا مقصد ہے؟ 
شکر ہوا کہ رحمت بابا سے بات کرنے کے بعد وہ لوگ ہم سے ملاقات کیے بغیر ہی واپس روانہ ہوۓ مگر جاتے جاتے ان لوگوں نے خاص کر میری طرف اور فیصل بھائی کی طرف دیکھتے ہوۓ کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا تھا. رحمان بابا ہماری طرف واپس آئے وہاں موجود باقی لوگوں سے مقامی زبان میں کچھ کہا، بلال اور زوہیب کو کچھ ہدایت دن وہ بھی مقامی زبان میں اور ہم کو ایک طرف لے کر بیٹھ گئے ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی فیصل بھائی ( جو یہاں آنے کے بعد سے بہت کم بولے تھے بلکل خاموش تھے اور اپنے آپ کو یہاں کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے) بول پڑے "رحمت بابا سب خیر تو ہے ناں؟ کوئی غلط بات تو نہیں؟ مجھ کو ان لوگوں کے ارادے کچھ اچھے معلوم نہیں پڑھ رہی تھے." رحمت بابا نے بہت معصوم سے انداز میں کہا "سب خیریت ہے، یہ لوگ آپ کے بارے میں معلومات کرنے آئے تھے، ابھی عشاء کی نماز کے بعد ہم کو ان کے ڈیرے تک جانا ہے، یہ لوگ آپ سب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں. فیصل بھائی نے فوری کہا کے وہ نہیں جائیں گے، میرے چہرے پر بھی فکر صاف پڑھی جا سکتی تھی. میں کسی بھی طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی نیت سے گھر سے بکلہ تھا مگر آج اور ابھی وہ بھی عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں ان لوگوں سے ملاقات کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ میں اپنے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں زبان اور منہ کا کافی جلد باز ہوں ایک استاد کی حثیت سے  مجھ کو بولنے اور سمجھنے کی بیماری بہت عرصے سے اور شدید طور پر لاحق ہے، مگر ابھی تک کوئی ڈاکٹر میری اس بیماری کا علاج نہیں کر سکا تھا، اور آج عدنان بھائی کی غیر موجودگی میں اپنی اسی بیماری کی وجہہ سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے تھے، میں کچھ زیادہ بول جاؤں تو میرے ساتھ میرے ساتھیوں کا کیا ہوگا ابھی عدنان بھائی کو یہاں سے گئے ایک دن بھی نہیں ہوا. اتنی دیر میں بلال میری ایک طرف آکر بیٹھ گیا "یہ دسترخوان سمیٹ چکا تھا" اس نے خاموشی سے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا "جب تک بلال آپ کے ساتھ موجود ہے اور زندہ ہے آپ کو کچھ نہیں ہوگا بس آپ اپنی زبان کو قابو رکھنا، باقی ہم سب لوگ آپ کے ساتھ جاۓ گا، کچھ نہیں ہوگا" مجھ کو محسوس ہوا کہ جیسے بلال کے ساتھ ساتھ یہاں موجود دوسرے لوگوں نے میری بیماری کو سمجھ لیا ہے. میں سمجھ گیا مجھ کو کیا کرنا ہے. اسی فکر میں میں فیصل بھائی کو لے کر مسجد سے باہر نکلا، گزشتہ روز یہاں آنے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب میں اور فیصل بھائی کو تنہائی میں بات کرنے کا موقع ملا تھا، فیصل بھائی میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فت پڑے " دیکھا یار، میں کہتا نہ تھا کے ایک ایسی جگہ جا کر فلاحی کم کرنا جہاں نہ دوستوں کا پتہ ہوہ نہ ہی دشمنوں کا پتہ ہو، باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ممکن نہ ہو کیا انجام ہو سکتا ہے؟ اور پھر فیصل بھائی اپنے گھر کو اپنے دوستوں کو یاد کرتے رہے، میں اس دوران خاموش ہوا، عدنان بھائی کی بہت شدت سے یاد آئے کہ اگر وہ اس موقع پر ساتھ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا... 
اچانک ایک خیال میرے دماغ میں آیا اور میں نے کہا بلال کو بلاؤ، فیصل بھائی نے حیران ہو کر مجھ سے کہا اب کیا ہوا؟ میں نے کہا بلواؤ بلال کو باہر. وو مسجد کے اندر گئے اور بلال کو ساتھ لے آئے. میں نے بلال کو سامنے دیکھ کر کہا "بلال اگر ہماری جگہ عدنان بھائی ہوتے تو کیا کرتے؟" بلال نے ترکی بہ ترکی جواب دیا "کچھ نہیں کرتے بہت ہی دوستانہ انداز میں ان لوگوں سے ملنے جاتے اور ان کے ہر سوال کا جواب پورے سوچ سمجھ اور تحمل کے ساتھ دیتے اور مجھ کو یقین ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کرو گے." میں نے سوچ لیا کہ مجھ کو کیا کرنا ہے. مجھ کو کچھ سکوں ملا میں نے بلال اور فیصل بھائی کو کہا کہ ملاقات کے دوران جب جب ان کو محسوس ہو کہ میں اپنی حدوں سے بہار نکل رہا ہوں تو مجھ کو غور کر دیکھیں میں سمبھل جاؤں گا. خاص کر بلال اور فیصل کو کہا کے میرے ساتھ ہی رہنا کسی بھی طرح مجھ سے دور نہیں ہونا، ایسے میں بلال نے کہا بھائی ایسا لگ رہا ہے کے جیسے آپ جہاد پر نکل رہے ہو، (اب میں اس بچے کو کیسے سمجھاؤں کہ گھر سے تو جہاد کی نیت کر کے ہی نکلا ہوں، فلاحی خدمات کا جہاد، بس اس جہاد میں غازی بن کر گھر جانا چاہتا ہوں، شہید یا گمنام نہی ہونا چاہتا). ادھر فیصل بھائی اپنے ہی آپ سے کچھ کہ رہے تھے، میں نے کہا فیصل بھائی کیا کہ رہے ہو تو جواب ملا "یار میں سوچ رہا ہوں کہ کاش میں گونگے بہرے کی اداکاری جانتا ہوتا، یا تمہارے ساتھ یہاں آنے سے پہلے ہی گونگا بہرہ ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا" ان کی یہ بات سن کرمیں اور بلال ہنسنے لگے. عشاء کی اذان ہو رہی تھی. اور ہم نماز کی تیاری میں لگ گئے. دوران نماز یہی دعا کر رہا تھا کہ بس یہ وقت تھم جائے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا. نماز پڑھی اور پھر میں نے کچھ سوچ کر دو رکعت نماز نفل ادا کر الله پاک سے مدد مانگی کہ مجھ کو سرخرو کرنا - آمین.  
نماز کے بعد میں نے فیصل بھائی کو دیکھا تو ان کا رنگ زرد پڑھ رہا تھا میں نے ان سے کہا ہمت رکھو اور الله سے مدد مانگو. ہم دونوں کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ جیسے ہم جن بوجھ کر کسی دوسرے ملک کی سرحد پار کر گئے ہیں اور پکڑ لئے گئے ہیں نہ ہی ہمارے پاس سفری کاغذات ہیں نہ ہی اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت. اب اس ملک کے منصف پر ہے کہ کیا سلوک کرتا ہے. ہم سب نماز کے فوری بعد رحمت بابا، بلال، زوہیب، ایک اور صاحب (جو کیمپ میں مقیم ہیں) کے ہمراہ مسجد سے باہر نکلے، باہرنکلتے ہی  فیصل بھائی مسجد کے اندر ایسا بھاگے کے جیسے کوئی بہت قیمتی چیز بھول آئے ہیں، وہ بہار آئے تو ان کے سر پر ایک ٹوپی رکھی ہوئی تھی قریب آکر میرے کن میں کہا کہ "یار تم بھی پہن لو" اور میں پانی بھی پی کر آگیا ہوں، بس تم خدا کے لئے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، ایک ملتیجانا انداز میں کہا فیصل بھائی نے" میں نے بہت زور سے کہا کے ہم کوئی چوری نہیں کر رہی، کوئی ڈاکہ نہیں ڈال رہے ہیں، کسی پر ظلم و ستم نہی کر رہی جو اس قدر خوف زدہ ہوں. ہم اس وقت اسلامی مملکت پاکستان کے ایک علاقے میں موجود ہیں جہاں پاکستان کا ہی قانون موجود ہے تو کس بت کا ڈر، تم (فیصل) ایسے ڈر رہے کہ جیسے ہم کو تختے دار پر لے جایا جا رہا ہے." بس میری اتنی بات کا سننا تھا کہ فیصل بھائی جہاں موجود تھے وہیں زمیں پر بیٹھ گئے، میں نے کہا اب تم کو کیا ہوا یار؟ فیصل بھائی کہنے لگے "ہو گیا کام تم تو یہاں ہی چلو ہو گئے ہو ، اب تو مجھ کو پکّ یقین ہو گیا ہے کے یہاں سے واپسی شاید ہی ممکن ہو اب کبھی" میں نے کہا یار میں کوئی بیوقوف نہیں ہوں. تم الله پر بھروسہ رکھو اور ساتھ چلو اگر تم ساتھ نہیں چلے تو ممکن ہے وہ ہو جو تم کہہ رہے ہو، میری بات سنتے ہی فیصل بھائی ایسے کھڑے ہوۓ کہ جیسے کبھی بیٹھے ہی نہیں تھے. ہماری نوک جھونک پر بلال اور ساتھ موجود سب ہی لوگ مسکرا دے. رحمت بابا نے مجھ کو کچھ بنیادی باتیں سمجھائیں. اور کیمپ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب کو آواز لگائی وہ سحاب ایک ڈنڈا لے کر کیمپ کے داخلی طرف بیٹھ گئے اور ہم سب کیمپ سے باہر اندھیرے میں ایک طرف چل پڑے. 
سردی کا احساس ایسا تھا کے جیسے جسم میں ہڈیاں توڑ کر گھسی جا رہی ہے. انجان لوگوں سے ملاقات، انجان جگہ، انجان راستے سب کچھ انجان اس پر کیمپ اور ساتھی کارکنان کی ذمہ داریاں،  یہ کیسی ملاقات ہے جس میں ہم کو اپنے میزبان کا کوئی علم نہیں، زبردستی کی ملاقات، یہ سوچتے سوچتے میرا دماغ اور تیز چلنے لگا اور مجھ کو اپنی والدہ کی کہی ہوئی باتیں یاد آنے لگی ، میری امی جان نے گھر سے روانہ ہوتے کہا تھا کہ "بیٹا، جہاں تم جا رہے ہو وہاں بھی انسان رہتے ہیں، انسانوں کو انسانوں کی طرح ہی سمجھنے کی کوشش کرنا، اپنے جیسا سمجھ کر بات کرنا تو کہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی" میں دل ہی دل میں مسکرا دیا. میرے لئے یہ پہلا تجربہ نہیں تھا پچھلی دفع بھی ایک ایسی ہی ملاقات کا تجربہ کر چکا ہوں مگر اس ملاقات میں عدنان بھائی بھی موجود تھے تو کوئی فکر نہیں تھی مگر آج کی یہ ملاقات ہمارے آتے ہی ہو رہی تھی، جس کے لئے میں بلکل تیار نہی تھا، ابھی تک تو میں صرف کیمپ کی صورت حال کو سمجھنے کو کوشش کر رہا تھا. 
قریب ١٠-١٥ منٹ پیدل چلنے کے ہم ایک محلے میں داخل ہوۓ کچھ اونچے نیچے، کچے پکے مکانات تھے. شہر (دتہ خیل، فلحال ہم جیسوں کے لئے شہر جیسا ہی تھا) کے بیچوں بیچ موجود تھے. کچھ لوگ اور ملے جنہوں نے ہم سے سلام کیا اور ہم ان کی نیابت میں ایک مکان کی طرف بڑھے.... 

انجان لوگوں کے گھر پر ہمارا استقبال:
اور پھر وہی سب کچھ ہوا جو ایک فاتح اپنی مفتوح قوم کے ساتھ کرتا ہے، مکان کے صدر دروازے پر ہماری جامہ تلاشی کا کام سر انجام ہوا وہ بھی پوری ذمہ داری اور ماہرانہ انداز میں. ہم سب کو مکان کے اپر موجود ایک کمرے کی طرف لے جایا گیا. کمرے میں بہت اچھا قسم کا قالین بچا ہوا تھا ساتھ ہی ایک طرف کچھ برتن موجود تھے لگتا تھا کے جیسے کچھ دیر پہلے ہی یہاں کچھ لوگوں نے مرغ  مسلم کی دعوت کے مزے لئے ہیں. جو بھی ہو. برتن دیکھ کر فیصل بھائی پھر سے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑانے لگے، "میں نے ازراہ مذاق کہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ اس مکان پر کوئی سیٹلائٹ اپنی نظریں جمایا ہوا ہو، تو کچھ بھی ایسی حرکت نہ کرو جو ہم کو کسی مشکل میں ڈال دے،" فیصل بھائی نے شاید جل کر جواب دیا "میں تو آیتلکرسی کا ورد کر رہا ہوں" میں پھر سے مسکرا گیا اور خود بھی الله پاک سے مدد کا طلبگار ہوا. 



نوٹ: 
محترم دوستوں اور ساتھیوں،
یہ ڈائری ٹیم آشیانہ کے کراچی سے تشریف لائے ہوۓ ایک کارکن تحریر کر رہے ہیں، ہم خود بھی اپنے اس بھائی کی حس ظرافت پر حیران ہیں. اور عدنان بھائی کی اجازت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ ڈائری بغیر کسی تدوین (ایڈیٹنگ) کے یہاں اور تمام دوستوں کو پڑھائی جائے. 
الله پاک ہم سب ساتھیوں کو دکھی انسانیت کے اس مشن پرثابت قدم رکھے اور ہم کو توفیق دے کے ہم سب مستقل مزاجی کے ساتھ یہاں (شمالی وزیرستان) میں فلاحی خدمات سر انجام دیتے رہیں - آمین.
یہ ڈائری آشیانہ کیمپ کی دتہ خیل سے میران شاہ منتقلی سے پہلے کی ہے، ہم اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کے ڈائری کو موجودہ تاریخ کے ساتھ جتنا قریب لایا جا سکتا ہے لائیں. 
آپ سب کی دعاؤں کے طلبگار 
کارکنان 
ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ 
شمالی وزیرستان (میران شاہ)
   
ٹیم آشیانہ کے فلاحی خدمات، کام، کارکنان کی تفصیلات اور درکار امدادی سامان اور دیگر تفصیلات کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں: