Sunday 16 December 2012

وزیرستان ڈائری: مقامی قبائل کے بڑوں سے ایک ملاقات کا احوال

اسلام و علیکم 
ہم ایک دفع پھر دیر ہونے پر معزرت چاہتے ہیں. یہاں مستقل بارش  کرا کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے جبکہ بجلی اور دیگر سہولیات بھی بہت مشکل سے دستیاب ہیں.

گزشتہ ڈائری کا لنک: http://waziristandairy.blogspot.com/2012/12/blog-post_13.html

اب آگئی پڑھیے؛

آج کی ڈائری:
یہاں آکر ہم کو تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہمارے سامنے قہوہ لا کر رکھ دیا گیا، فیصل بھائی نے بڑبڑایا "یہ اچھی مصیبت ہے. اتنی رات کو بلوا لیا، سردی کتنی ہے، اور یہ لوگ بتا بھی نہیں رہے کہ کیا بات ہے اور اب قہوہ پیو." 
میں صرف مسکرا سکتا تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہی کر سکتا تھا. 
تھوڑا دیر میں کچھ لوگ جو حلیے سے بھلے انسان معلوم پڑتے تھے. ان لوگوں نے آتے ہی ہم کو سلام کیا اور ہم کو گلے سے لگایا اور ہم کو بہت گرم جوشی سے خوش آمدید کہا. 
ہمنے بھی اپنی پوری کوشش کری کہ ہم سے کسی کو کوئی شکایات نہ ہو اور ہم بھی نرم الفاظ میں ہر بات کا جواب دیتے رہے. بولنے والوں کی اردو بہت اچھی اور صاف انداز میں تھی. 
ہماری بہت باتیں ان لوگوں سے ہوئیں جن میں سے کچھ حیح یہاں لکھ سکتا ہوں. 

آنے والوں میں سے ایک صاحب جو زیادہ عمر کے نہیں تھے نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ یہاں پر ایک قبیلے کے رکن ہیں اور ہم سے ہماری آمد کا مقصد جاننا چاہتے ہیں. جو سوال جواب ہوۓ وہ کچ اس طرح سے ہیں:

حاجی صاحب: آپ سب یہاں جس نیک مقصد کے لئے تشریف لائے ہیں میں اور میرے دوست، ساتھ اس پر آپ کے شکر گزار ہیں. ہم سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کون لوگ ہیں اور کراچی اور دوسرے شہروں سے یہاں آکر کام کرنے کا کیا مقصد ہے؟

میں (منصور): محترم، ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ یہاں میری اور میرے دوستوں کی آمد کا مقصد صرف اور صرف یہاں کے پریشان حال لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے. باقی آپ لوگ یہاں کے رہنے والے ہیں اور ہمارے بارے میں شاید ہم سے زیادہ جانتے ہیں. عدنان بھائی یہاں برسوں سے فلاحی خدمات سر انجام دے رہے ہیں آپ کو ان کے بارے میں بھی علم ہوگا. میں پیشے سے ایک ٹیچر (استاد) ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہاں کہ بچوں میں علم کی روشنی پھیلاؤں. اور اپنے پچھلے وزٹ میں ایک ٹینٹ میں آشیانہ اسکول قائم کیا تھا جو آشیانہ کیمپ میں چل رہا ہے. مگر فلحال فنڈز کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہم اس اسکول کو سہی سے چلا نہیں سکے ہیں. ابھی ہم چاہتے ہیں کہ آشیانہ کیمپ کی حالت کو سدھاریں  اور اسکول کا پروجیکٹ پھر سے شروع کیا جا سکے. اس کام کے سلسلے میں ہم کو یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد اور تعاون کی بہت ضرورت ہوگی.

حاجی صاحب: دیکھیں دوست، یہاں ہم لوگ یا کوئی بھی دوسرا دنیا کی تعلیم کو حاصل کرنا درست نہیں سمجھتا، یہاں کے لوگ خالص مذہبی رجحان رکھتے ہیں، بہتر ہوتا کہ آپ یہاں کوئی اچھا اور بڑا مدرسہ قائم کرتے جس میں ہم سب لوگ آپ کی مدد کر سکتے تھے. مگر یہ اسکول والا کام یہاں مشکل ہے کے کوئی آپ کا ساتھ دے سکے. دیگر یہاں کہ لوگ پہلے ہی مختلف آفت اور پریشانیوں کا شکار ہیں اس میں یہاں کہ لوگ کس طرح اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کا سوچ سکتے ہیں؟ تو آپ لوگ ایک دفع اور سوچیں عدنان بھائی سے ہمس بارے میں کافی دفع بات کر چکے ہیں اب آپ لوگ آگئے ہیں تو اب آپ کو بھی سوچنا ہوگا. 

میں: جی محترم میں بھی بہت سوچ اور سمجھ کر ہی یہ بات کر رہا ہوں. یہاں کے حالت اور مشکلات کے لئے اس سے بہتر کوئی حل نہیں کے ہم اپنی نئی نسل اور آنے والے بچوں کو علم کی روشنی دے سکیں. ہمارے بڑوں نے جو غلطیاں کری ہیں ضروری نہیں کہ وہی غلطیاں ہم بھی کریں. میری آپ سے اور آپ جیسے تمام مقامی لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں. ہمرے بچے ابھی سارا سارا دن فارغ گھومتے ہیں کرنے کو کوئی کام نہیں تھو یہ بچے کچھ پڑھ لکھ جائیں تو شاید سوچ میں کچھ فرق آئے.

حاجی صاحب: ٹھیک ہے ہم اپنے لوگوں سے بات کریں گے اور آپ کے خیالات ان تک پہنچائیں گے. مگر جب تک کوئی مناسب فیصلہ نہ ہو جاۓ آپ فلحال اپنے اس اسکول والے کام کو روکے رکھیں. میرا مشورہ ہے کہ آپ پہلے یہاں کے لوگوں کے حالت سدھارنے پر غور کریں. یہاں غربت ہے، تنگدستی ہے، لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں، بیماروں کے پاس ادویات نہیں ہیں، رہنے کے لئے گھر نہیں ہیں ان باتوں کو دیکھیں آپ پہلے. پھر یہ اسکول بھی دیکھ لیں گے. 

میں: (حاجی سحاب،باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ کہ چکے تھے اور سمجھا چکے تھے، یہ وقت تھا کہ حاجی صاحب کو بہت مناسب جواب دیا جائے، ایسے میں عدنان بھائی کا یہاں نہ ہونا بہت مشکل میں ڈال چکا تھا)، :میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میرے ساتھ جب تک یہاں موجود ہیں اپنے دستیاب وسائل اور امدادی سامان سے ان لوگوں کے کے لئے جو کچھ بھی کر سکے ضرور کریں گے. ہماری آمد کا مقصد بھی صرف یہاں کے لوگوں کی مدد کرنا ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہی. الله پاک سے دعا ہے کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب رہیں اور ہم کو ہر طرح کی آسانی رہے - آمین. 

رات بڑھ رہی تھی اور ماحول کافی سنجیدہ تھا. ایسے میں میرے ساتھ بیٹھے بلال، فیصل بھائی اور بابا بھی بہت بے چینی محسوس کر رہی تھے. 

حاجی صاحب: تو آپ کے یہ ساتھ کیا کرتے ہیں؟ "فیصل بھائی کی طرف اشارہ کر کے کہا"

 میں نے جواب دیا کہ یہ ابھی پڑھ رہے ہیں اور اپنے والد کی کپڑوں کی دکان ہے لاہور میں اس کو بھی دیکھتے ہیں.      
 میرا جواب سن کر حاجی صاحب نے صرف سر ہلایا، پھر عدنان بھائی کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا.

میں: عدنان بھائی دن میں میران شاہ جا چکے ہیں اور ابھی تک ان کے بارے میں ہم کو کوئی اطلاع نہیں.

حاجی صاحب: عدنان بھائی اور اکرم بھائی رات ہی میران شاہ پہنچ چکے ہے اور وہاں پر ایک مقامی اسپتال میں داخل ہیں. ان کا علاج شروع ہو چکا ہے. 

میں: میرے ساتھ باقی لوگ بھی حیران تھے کہ ان کے پاس یہ اطلاع کیسے آگئی جبکہ ہم تو ابھی تک انتظار ہی کر رہی تھے کے کوئی ہم کو بتائے کہ وہاں کیا ہواہے؟ خیر ہم کو تھوڑا سکوں ہوا کہ عدنان بھائی خیریت سے میران شاہ پہنچ گئے ہیں.
 میں نے پھر کہا کہ آپ کے پاس تو یہاں کی ساری معلومات ہیں. آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہم کو عدنان بھی کے بارے میں بتایا.

حاجی صاحب: ہم یہاں کے رہنے والے لوگ ہیں ہم کو یہ سب معلوم رکھنا ہی پڑھتا ہے. پھر ایک ایسا سوال کیا جس کے لئے ہم میں سے کوئی تیار ہی نہی تھا نہ ہی سوچ سکتا تھا. "آپ کے شہر میں ہم لوگوں کے لئے کوئی جگہ ہے؟"

 میں: تھوڑا سوچ کر. ہمارا شہر تو کیا سارا پاکستان ہی ہم سب کا ہے. اور جگہ کی کیا بات جب ہم کراچی، لاہور، پنڈی اور دوسرے شہروں سے یہاں آسکتے ہیں تو آپ لوگ پاکستان میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ فرق صرف سوچ کا ہے، زندگی کے انداز کا ہے. ہم جہاں رہتے ہیں وہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں کو سمجھنا ہوتا ہے اور اسی حساب سے رہنا ہوتا ہے. تضاد یا اختلاف جبھی شروع ہوتا ہے جب ہم دوسروں کی مرضی کے خلاف اپنی رائے کا اظہر کرتے ہیں اور وہی کرنا چاہتے ہیں جو ہم کرتے ہیں. (میں نے ایک ہی سانس میں سب کہ ڈالا). بلال اور فیصل بھائی خفت بھری نظروں سے مجھ کو دیکھ رہے تھے.

حاجی صاحب کے ساتھ باقی لوگ بھی میرے اس جواب کو بہت خفت محسوس کر رہے تھے. اس خفت کا اندازہ ان کے چہروں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا. 

آپ لوگوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنی آتی ہے؟ قران پڑھنا آتا ہے؟ حدیثیں پتہ ہیں؟ اچانک حاجی صاحب کے ساتھ موجود ایک اور سحاب نے سوال پر سوال کرنا شروع کر دیا. 
میں اس اچانک سوالات کی بوچھاڑ پر حیران بھی تھا اور دل ہی دل میں پریشان بھی، یہ کسی مشکل ہے اب کیا جواب دوں "میں نے دل ہی دل میں سوچا" شاید اسی دن کے لئے میری امی مجھ کو کہتی تھی کہ کچھ دن کو بھی سمجھ، ہر وقت یہ دنیا کی پڑھائی میں لگا رہتا ہے....
 میں نے ایک نظر فیصل بھائی کی طرف دیکھا جو سر جھکا کر بیٹھے تھے پھر حاجی صاحب کی طرف دیکھا، حاجی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے چہروں پر اک عجیب سی مسکراہٹ تھی.میں اچانک خود کو ایک مجرم سمجھنے لگا تھا یا ایسا چور جس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو. تھوڑا روک کر میں نے جواب دیا. بہت ہمت کری تھی میں نے....

میں: میرے دوست! الله پاک کے فضل و کرم سے میں ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہوں. میرے والد اور والدہ نے میری جو تربیت کری ہے اس کے مطابق میں تمام اسلامی فرائض سے واقف ہوں اور عمل بھی کرتا ہوں. دیگر مسلمانوں کی طرح کوتاہی ضرور ہوتی ہے مگر جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے الله پاک سے مدد طالب کرتا ہوں. (میں نے یہ جواب بہت صبر اور سوچ سمجھ کر دیا تھا، جس میں خود ان لوگوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانا بھی لازم تھا، اکھڑ کو میرے استاد ہونے کا کچھ تو فائدہ ہو) 

حاجی صاحب: ماشا الله، آپ بہت حاضر جواب ہیں، اور آپ کے جواب سے میں کافی حد تک مطمئن ہوں. ویسے جہاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (ادھر سردی بڑھ رہی تھی. رات بھی کافی ہو گئی تھی. سن بھر کی بھاگ دوڑ سے تھکن الگ تھی، اور یہ لوگ سوال پر سوال داغ رہے تھے.) 

میں: جی محترم، جہاد پر میرا پورا ایمان ہے، اسلام کا بنیادی رکن ہے. اس پر ایمان رکھے بغیر کوئی مسلمان خود کو مسلم کہلانے کا حقدار نہیں. 

حاجی صاحب: بہت خوب، مطلب کے آپ جہاد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس کے مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں؟

میں: جی جناب اور شاید اسی جہاد کے سلسلے میں یہاں موجود ہیں جو اتنے سرد موسم میں اپنے گھروں کے نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر، اپنے گھر والوں سے دور یہاں موجود ہیں. ہمارا یہ جہاد فلاحی مقصد کے لئے ہے، جس سے ہم مشکلات میں گھرے ہوۓ لوگوں کی مد کے لئے نکلے ہیں. مزید تعلیم کو پھیلانا بھی ایک جہاد ہے. (میں نے موقع پا کر اپنے دل کی بات کہ ڈالی).
جواب میں سب نے میری طرف بہت گہری نظروں سے دیکھا، حاجی صاحب بول پڑے یہ آپ کے دوست فیصل بھائی کافی چپ ہیں؟ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا "جی جناب یہاں کا موسم ان کو راس نہیں آیا جسکی وجہہ سے طبعیت کچھ خراب ہے. آپ نے بلوایا تو یہ یہاں میرے ساتھ چلے آئے."

حاجی صاحب: تو آپ کو اور قہوہ پلاتے ہیں. اور ایک بدنے کی طرف اشارہ کیا "محسوس ہو رہا تھا کہ یہ لوگ آج رات  ہم کو  اپنا مہمان ہی رکھنا چاہتے تھے."

میں: ہمت کرتے ہوۓ "محترم اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم اجازت چاہیں گے. آپ نے پھر یاد کیا تو ہم ضرور حاضر ہو جائیں گے. 

حاجی صاحب: ہم تو چاہتے ہیں کہ آج رات آپ ہمارے مہمان رہیں. صبح فجر کے بعد آپ کو رخصت دیں اگر آپ کے دوست کی تبیت زیادہ خراب ہے تو ان کے لئے بستر کا انتظام ہو سکتا ہے. "حاجی صاحب کی باتوں میں فرمائش کم اور حکم زیادہ تھا"

میں: جی بلکل اگر آپ ان کے لئے بستر کا انتظام کر دیں تو بہتر ہوگا میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھنا اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا "یہ میری خواہش نہیں مجبوری تھی). 

حاجی صاحب نے پھر کسی کو اشارہ کیا اور مقامی زبان میں کچھ بولا.

تھوڑا دیر میں تین کمبل لا دے گئے. ہم سب نے اپنے اپر کمبل لے لیا. فیصل بھائی کو میں نے اشارہ کیا کہ وہ لیٹ جائیں.
 قہوہ بھی آگیا اور قہوہ پتے ہوۓ ہم خود کو ایک نظر بندی میں محسوس کر رہے تھے. بلال بھی لیٹ گیا تھا. بابا ایک مقامی آدمی کے ساتھ سرگوشیوں میں باتوں میں مصروف ہو گئے تھے میں چپ چاپ قہوہ پی رہا تھا. (دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آج کی رات کیا ہوگا؟ یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں؟)

حاجی صاحب: تو بھائی ہم سے مل کر آپ کو کیسا محسوس ہوا؟ 
میں: محترم اگر اجازت ہو تو وہ عرض کروں جو میرے دل میں ہے؟
حاجی صاحب: جی بلکل، الله بھی ہم کو سچ کہنے اور دروغ گوئی سے محفوظ رہنے کا حکم دیتا ہے. 
میں: میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہوں اور اپنے ساتھیوں کو بھی. (میں نے سچ کہ دیا)
حاجی صاحب: کس طرح سے؟
میں: محترم، جب سے ہم یہاں آئے ہیں ہم کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم نے کوئی جرم کیا ہے جس کی تحقیقات کے لئے ہم کو یہاں طلب کیا گیا ہے.
حاجی سحاب: بلکل نہیں، ہم آپ کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں اور جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں. بس ہم آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ  جاننا چاہتے ہیں.
میں: (دل ہی دل میں کہا، یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا) محترم جو میرے دل میں تھا کہ ڈالا اگر آپ کو برا لگا ہو تو معزرت چاہتا ہوں. 
حاجی صاحب: کوئی بات نہیں ہم کو آپ کا یہ انداز اچھا لگا. تو آپ جہاد کے بارے میں کچھ فرما رہے تھے. 
میں: جی جناب جو کچھ مجھ کو کہنا تھا کہ دیا.
حاجی صاحب: تو اب یہ جو کچھ وزیرستان، افغانستان،  عراق اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے یہ کیا ہے؟ کیا وہاں یہ غیر ملکی افواج اور آپ کی حکومت (حکومت پاکستان) جہاد کر رہی ہے؟ ہم پر ڈرون سے حملے کر کے کونسا جہاد ہو رہا ہے؟ آپ کی افواج (پاکستانی افواج) جو وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں کر رہی ہیں یہ بھی جہاد ہے؟
حاجی صاحب اچانک سے بہت زیادہ جذباتی ہو گئے تھے. اور وہ سب کہہ گئے تھے جو ان کو ہم کو بتانا مقصود تھا. ایسے میں مجھ کو عدنان بھائی کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی. یہ ضرور ہے کہ میں ایک ٹیچر (استاد) ہوں کراچی میں رہتا ہوں. ملکی اور غیر ملکی حالت اور سیاست کو دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہوں. مگر میں تو یہاں کسی ایسی بات کے لئے آیا ہی نہیں تھا اب کیا جواب دوں. مگر یہ صاحب میرے ملک، میری حکومت اور میری افواج کے بارے میں جو کچھ فرما رہے تھے یہ مجھ کو پسند نہیں آیا. میں نے سوچا کہ دروغ گوئی اور کچھ جھوٹ یا مصلحت سے کم لوں. مگر دل اور دماغ تیار نہیں ہوۓ "میں نے سوچا کے ہمارے بڑوں نے ٦٥ برس اسی دروغ گوئی، جھوٹ اور مصلحت سے کام لیا تو آج ہم کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے. میں ایک سے دم خود کو پاکستان کا نمائندہ سمجھنے لگا. کراچی میں ایک معمولی سی نوکری کرنے والا معمولی سا انسان ابھی خود کو بہت برا محسوس کرنے لگا تھا. پھر ایک دم خیال آیا کہ بات صرف میری نہیں  بلکہ میرے ساتھ اور بھی ساتھ یہاں موجود ہیں کہیں میرا کوئی جواب غلط ہو گیا تو ہم سب کسی مشکل میں نہ پڑھ جائیں. 
 جب میں کافی دیر تک خاموش رہا تو اچانک حاجی صاحب بول پڑے "کیا ہوا کیا سوچ رہے ہیں آپ؟"

میں: کچھ نہیں صرف اتنا کے میں جواب کس حثیت میں دوں. یہاں میں ایک فلاحی کارکن کی حثیت سے آیا ہوں. آپ مجھ کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہیں. پھر بھی اگر آپ میرا جواب سننا چاہتے ہیں تو ....

حاجی صاحب: جی بلکل ہم سب ہی سننا چاہتے ہیں.
میں: اور اگر میرا جواب آپ کے مطلب کا نہیں ہوا تو؟ 
حاجی صاحب: کچھ نہیں ہوگا بس ہم آپ کو یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہیں گے. (مسکراتے ہوۓ)
میں:  (ارے باپ رے سوچتے ہوۓ)،میں نے خود کو سمبھالتے ہوۓ کہا "محترم جناب اب جب آپ اپنے اظہار بغیر کسی خوف کے کر رہے ہیں تو مجھ کو بھی حق دیں کہ میں بھی کر سکوں. (میں نے محتاط انداز میں اجازت طلب کری)    
 حاجی صاحب: جی بلکل اجازت ہے (آخر کو جس ملک میں رہتے ہیں وہاں تو جمہوریت ہے) "حاجی صاحب کا انداز طنز کرنے والا تھا، جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ وزیرستان اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ سمجھتے ہیں"
اب مجھ کو کچھ ہمت ہی کرنی تھی.
میں: محترم جناب. دیکھیں پہلی بات یہ کے ہم سب ایک ہی ملک میں رہنے والے ہیں. اسی لئے جتنی جمہوریت پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہے اتنی ہی جمہوریت یہاں پر بھی ہے. اب آپ ہی دیکھو کے کتنی آسانی سے آپ اپنی ساری باتیں بیان کر رہے ہیں. (میں نے بھی ایک طنز کر ہی دیا) "فیصل بھائی سویے نہیں تھے کروٹ لے رہے تھے جس سے ان کی بیچنی کا اظہار ہو رہا تھا." حاجی صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا. 

حاجی صاحب: آپ اپنی بات بیان کریں. (یہاں باقی لوگ بھی اردو سمجھتے تھے اسی لئے خاموش تھے اتنی بات اور دیر میں کوئی درمیان میں نہیں بولا تھا. اس بات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ حاجی صاحب کی کوئی بڑی شخصیت ہے.

میں: شکریہ محترم، دیکھیں جناب میری سوچ اور فہم صرف یہی کہتی ہے کے جس کا جو کم ہے وہ کررہا ہے اور جو بھی کچھ کر رہا ہے وہ کسی بھی انسان کی ذہنی استطاعت، سوچ اور فہم اور کردار کی عکاسی کرتا ہے. شاید اسی لئے الله پاک فرماتا ہے کے انسان اپنے عمل سے اور کردار سے جانا جاتا ہے. مزید کیا  کہوں آپ سب ماشا الله سمجھدار اور فہم و فراست رکھنے والے لوگ ہیں. مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ آج کی دنیا میں فلاح انسانیت سے برا جہاد کوئی نہیں ہو سکتا، آج کے دور میں جہاں ہر طرف نفسہ نفسی ہے، ہر قوم اپنے حالت کو بہتر کرنے پر تلی ہی ہے تو ہم کو بھی پوری قوم کی حالت کو ٹھیک کرنے کے لئے فلاح انسانیت کے جہاد کی سخت ضرورت ہے، کچھ موقع پرست لوگ اس مقصد کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں. مگر ہم سب کو ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کو الله پاک کے آگے حاضر ہونا ہے روز حشر ہم سب سے ہمارے اعمال کا حساب ہونا ہے اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آنے والا. تو اس وقت ہم اور آپ سب ہی ایک صف میں ہونگے. (میں نے وو جواب دیا جو میں اس وقت دے سکتا تھا) 

حاجی صاحب: نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا "آپ پاکستان کی کس سیاسی پارٹی سے متاثر ہیں؟ اپ کراچی والے ہیں تو ...؟
میں: حاجی صاحب کو روکتے ہوۓ، محترم میں نے اپنی پوری زندگی میں ووٹ نہیں ڈالا. (میں یہی بتانا چاہ رہا تھا کہ میں سیاست سے دور رہنے والا انسان ہوں)
حاجی صاحب: جہاں تک مجھ کو یاد پڑتا ہے پچھلی دفع آپ یہاں آئے تھے تو مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" اپنے ساتھ لائے تھے جو یہاں آپ نے کچھ لوگوں کو پڑھنے کے لئے بھی دی تھی.
میرے جسم م سردی اور خوف سے ایک جھرجھری آگئی (ان کو تو بہت کچھ پتہ ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا)
میں: جی اس کتاب کو پڑھنے کا مقصد صرف اور صرف "سب سے پہلے پاکستان" کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا تھا، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ میں مشرف صاحب کی نمائندگی کرتا ہوں یا ایک حکمران کی حثیت سے دیکھنا چاہتا ہوں. 
(مجھ پر ابہ نیند کا خمار تھا مگر یہ لوگ لگتا ہے سونا جانتے ہی نہیں تھے)
حاجی صاحب نے اپنی گہری کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا " نماز تہجد کا وقت ہو گیا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم مل کر نماز ادا کرتے ہیں" 
میں نے بھی ہاں کہا، سردی بہت شدید تھی مگر نماز کا تصور ہی بہت سکوں دے رہا تھا. الله کے حضور حاضری وو بھی ان مشکل حالات میں بہت سکوں دے رہا تھا. 
میں نے باہر جا کر وضو کیا سردی بہت غضب کی تھی کمرے منی بھی تھی مگر باہر نکل کر احساس ہو رہا تھا کے کتنی زیادہ ہے مجھ کو کیمپ میں موجود لوگوں کا خیال آیا، میری ملومّت کے مطابق کیمپ میں اکثر لوگنو کے پاس کمبل اور لحاف جیسی آسائش موجود نہیں تھی. اندر واپس اکر میں نہیں نماز ادا کری نماز کے بعد الله سے گڑ گڑا کر دعا کری کہ الله پاک ہم سب کو اس مشکل سے نجات عطا فرماے - آمین.
نماز تہجد کے بعد ایک دفع پھر سے قہوہ آگیا، حاجی صاحب نے کچھ خشک میوہ میرے سامنے رکھا، میں نے شکریہ کہہ کر واپس کیا. بلال، فیصل بھائی بہت گہری نیند سو چکے تھے. میں اپنی سوچ میں تھا کہ حاجی سحاب بول پڑے "آپ سونا چاہیں گے یا فجر تھوڑا ہی دیر میں ہے اس کے بعد ہم رخصت لیں گے. "میں نے جواب دیا کے بلکل فجر تک ساتھ ہیں."

حاجی صاحب: تو محترم آپ کب تک یہاں روکنا چاہتے ہیں؟ 
میں: محترم یہ تو وقت اور حالت پر منحصر ہے. عدنان بھائی کی طبیت تھودا بہتر ہو جاۓ تو میں چاہتا ہوں کے آشیانہ کیمپ کو یہاں سے میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ. یہاں کی سردی نا قابل برداشت ہے، اور یہاں ہمارے وسائل اجازت نہیں دے رہے کہ ہم کیمپ میں مقیم لوگوں کو زیادہ سہولیات فراہم کر سکیں. 
حاجی صاحب: کچھ سوچتے ہوۓ "جی بلکل یہی بہتر حل ہوگا. کچھ پتا نہیں کب آپ کے کیمپ پر بھی کوئی آفت نازل ہو جاۓ. 
(یہ بات انہوں نے بہت عجیب انداز میں بیان کری، میں کوئی وضاحت طلب کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، بس چپ ہی رہا، مگر دل ہی دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ کیمپ کو یہاں سے جتنا جلدی ممکن ہے کر دیا جاۓ، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے) 

حاجی سحاب کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور میں اپنی پوری کوشش کرتا کے میرا جواب ان کو مطمئن کر سکے. 
خدا خدا کر کے فجر کا وقت ہوا تو میں نے بلال اور فیصل بھائی کو جگایا. ہم سب نے مل کر وضو کیا اور اسی گھر کے صحن میں ایک مولانا کی امامت میں نماز ادا کری. نماز کے بعد کچھ دین کی باتیں ہوئی اور اس کے بعد ہم کو واپس کیمپ جانے کی اجازت ملی. میں بہت زیادہ تھکن محسوس کر رہا تھا.