Wednesday 12 December 2012

Waziristan Dairy: Our first Day at Ashiyana Camp

اسلام و علیکم،
محترم دوستوں اور ساتھیوں....

گزشتہ کچھ دن بہت مصروفیت کے گزرے، آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کرنا کوئی آسان کام نہی تھا. بہت مشکل سے تمام ساتھیوں (ٹیم آشیانہ کے کارکنان)، کیمپ میں مقیم مقامی لوگوں کو سمجھانا پڑا، سب سے مشکل کام عدنان بھائی کو سمجھانا اور راضی کرنا تھا، اور وہ مشکل مرحلہ بھی ہم سب نے مل کر طے کر ہی لیا. 

جس دن ہم آشیانہ کیمپ (دتہ خیل) میں داخل ہوۓ تھے، ہر طرف ویرانی، اداسی نظر آرہی تھی، عدنان بھائی کی تو طبیت بہت خراب تھی مگر کیمپ میں موجود دیگر ساتھی کارکنان اور مقامی افراد صورت حال سے کافی دل آزار اور مایوس نظر آرہے تھے. پہلی رات تو ہم نے جیسے تیسے کر کے گزار ہی لی مگر صبح نماز فجر کے بعد جب ہم سب ایک ساتھ بیٹھے تو عدنان بھائی نے کیمپ کے معملات کا ذکر بہت تفصیل سے کیا، ہمارے علم میں لیا گیا کہ کافی عرصے سے ادویات نہ ہونے کے سبب میڈیکل کیمپ نہیں لگایا گیا ہے، دو (٢) وقت کے کھانے کی جگہ اب ایک (١) وقت کا کھانا کیمپ میں مقیم لوگوں کو دیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ سردی سے بچنے کے لئے کوئی معقول انتظام ابھی تک نہیں کیا جا سکا ہے. ہم (دوسرے شہروں میں مقیم کارکنان نے) جو کچھ امدادی سامان جمع کیا تھا وہ ایک، دو دن میں یہاں (دتہ خیل) پہنچنے والا تھا مگر مجھ کو اب اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ امدادی سامان بکافی ہے (بلکل اونٹ کہ منہ مے زیرے والی مثال کے مصداق)، بہرحال جو کچھ بھی ہے ہم کو فلحال ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا ہے. ہم کیونکہ ابھی آئے ہیں ٹوہ جوش اور ہوش میں ہیں جو لوگ یہاں پہلے سے موجود ہیں وہ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں. نفسیاتی دباؤ تو خیر سے میں، اور میرے ساتھ آئے ہوۓ ندیم بھائی، فیصل بھائی اور احمد بھائی بھی شدید محسوس کر رہے ہیں مگر ابھی ہم خود سے انجان بنے بیٹھے رہے. 

صبح اکرم بھائی ہم سب کے لئے چائے اور رات کی روٹی کا ناشتہ لے آئے اور ہم سب نے مل کر الله کا شکر ادا کرتے ہوۓ وہی کھانا کھایا. جب پیٹ میں کچھ گیا تو اوسان کچھ اور بحال ہوۓ، اور قوت فیصلہ پھر سے جاری ہوئی. میں نے اکرمبھائ اور اپنےآس پاس موجود تمام ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوۓ اعلان کیا کہ عدنان بھائی کی طبیت کافی ناساز ہے اور ان کو فوری طور پر اسپتال اور اچھے علاج کی ضرورت ہے، جب ٹیم کا سربراہ ہی بیمار ہو اور کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہو تو ٹیم کے باقی ارکان سے کس طرح  سے خیر کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟ (میرا انداز کافی حد تک تحکمانہ تھا، انجانے میں خود کو شید ٹیم آشیانہ کا سربراہ سمجھ بیٹھا تھا) عدنان بھائی نے مجھ کو کافی خفت بھری نظروں سے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ بولے. (عدنان بھائی کی اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، کمزور پڑتا جسم اور لڑکھڑاتی زبان سے بس ایک ہی جملہ نکلا "الله مالک ہے"). میں نے بھی جواب دیا کہ  "بلکل جناب الله ملک ہے اور الله نے ہی ہم سب کو اپنا خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے. ہم سب آپ (عدنان بھائی) کو کسی صورت ابھی اور یہاں روکنے نہیں دیں گے، آپ کو آج ہی بلکے ابھی میران شاہ کے لئے روانہ ہونا ہے. بس یہی ہم سب کا آخری فیصلہ ہے." عدنان بھائی نے کافی مضطرب نظروں ا ادھر ادھر دیکھا کہ میں نیں یہ فیصلہ اکھڑ کیا کبه؟ کس وقت میری سارے ساتھیوں سے بات ہوئی؟ مگر کوئی بھی کچھ بھی نہیں بولا. اکرم بھائی نے ہی کہا کہ "ہم سب بھی یہی چاہتے ہیں کہ عدنان بھائی علاج کے لئے میران شاہ چلیں مگر عدنان بھائی کہتے ہیں کہ اگر میرا علاج وہاں ہو سکتا ہے تو باقی لوگوں کا کیوں نہیں؟ اب ہم میران شاہ کو تو یہاں لانے سے رہے." اکرم بھائی کا جواب کافی معقول اور درست تھا. میں نے بلال محسود اور فیصل بھائی کی طرف دیکھا اور کہا کہ تمام کارکنان اور بزرگ لوگوں کو ابھی یہاں بلوائیں میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں. عدنان بھائی اب بول ہی پڑے "بھائی آپ کیا چاہتے ہو تھوڑا مجھ کو بھی تو بتائیں"، میں نے عرض کری "عدنان بھائی، میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ جلد از جلد صحتمند ہو کر دوبارہ اپنی ذمداریاں سمبھال لیں، آپ کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر مجھ کو شبہ ہے کے کہیں آپ کو کراچی ہی نہ لے جانا پڑے اور اگر ایسا ہوا تو یہاں (آشیانہ کیمپ) اور یہاں کے لوگوں کا کیا ہوگا؟ دکھی انسانیت کی خدمات اور فلاحی کاموں کا کیا ہوگا؟ آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں، اور کچھ دنوں کے لئے میران شاہ چلے جائیں وہاں آپ کا علاج ہو سکے گا اور اسس سامنے میں آپ کیمپ کی ذمہ داریاں ہم میں سے کسی کو بھی سونپ دیں، آپ کے ساتھ رہتے رہتے ہم میں سے کچھ لوگ اس قابل ہو چکے ہیں کہ کچھ عرصے کے لئے کیمپ کو چلا سکیں." میں نے ایک ہی سانس میں اپنی سری بات  کرنے کی  کری تھی. اکرم بھائی بھی سب کو جمع کر کے لے آئے تھے. اب عدنان بھائی بہت گہری سوچ میں تھے، مجھ کو ایک طرف آنے کا اشارہ کیا اور خود لڑکھڑاتے ہوۓ کھڑے ہوۓ تو پاس بیٹھے ندیم بھائی نے ان کو سہارہ دیا. میں ان کا ہاتھ تھام کر مجمع سے تھوڑا دور گیا انہوں نے اپنی بات سمجھائی کہ وہ کیوں نہیں جا رہے اور کیمپ کے معملات کس حد تک خراب ہو چکے ہیں. میں نے ان کو کہا کے آپ پورا بھروسہ رکھیں الله پاک ہمیشہ کی طرح ہماری مدد ضرور کرے گا انشا الله. میری بات کی گہرائی کو سمجھ کر انہوں نے کچھ سوچا اور ان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ ہوا کے وو بھی کوئی فیصلہ کر چکے ہیں یا کرنے ہی والے ہیں. پھر ہم واپس مجمع کی طرف آئے. عدنان بھائی نے مجھ کو اشارے سے خاموش رہنے کا کہا اور مجمع کی طرف دیکھتے ہوۓ باقی لوگوں سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کری، مجمع سے کچھ آوازیں  آئی جو مقامی زبان میں تھی شاید ان آوازوں کا مطلب تھا کہ ارشاد....
اب عدنان بھائی شروع ہوۓ، کمزور آواز میں پہلے سب کو سلام کہا اور اس کے بعد کہا کہ "جیسا آپ سب لوگ جانتے ہیں کے کافی دنوں سے بخار میں مبتل ہوں اور کمزوری کا عالم یہ ہے کہ اب اٹھنے بیٹھنے سے بھی جا رہا ہوں، ایسے میں یہ لوگ (ہماری طرف اشارہ کر کہ کہا) آگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں علاج کی غرض سے میران شاہ جاؤں مگر یہاں کے حالات دیکھتے ہوۓ یہاں سے جانے کا دل نہی کر رہا مگر سارے کارکنان ساتھ بضد ہیں کے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے مجھ کو میران شاہ جا کر اپنا علاج کروانا چاہیے،" ابھی عدنان بھی آگے کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ ایک لڑکا عمر کوئی ١٥- ١٦ برس کی ہوگی اچانک سے آیا اور کہا کے پچھلے دو (٢) دن سے ڈرون کچھ علاقوں میں ہیں اور کل ہی ایک ڈرون حملہ ہوا ہے تفصیلات آج شام تک مل جائیں گی. ڈرون حملوں کا سن کر ہم سب کے دل دہل گئے، میں نہیں سہمی نظروں سے فیصل بھائی، اور ندیم بھائی کی طرف دیکھا تو وہ بھی کچھ سہمے نظر آئے. عدنان بھائی کچھ دیر بعد بولے "جس کا جو کام ہے وہ کر رہا ہے، ہمارا جو کام ہے ہم کو وہی کرنا چاہیے - الله مالک ہے. تو کہہ میں رہا تھا کہ ایسے میں مجھ کو کیا کرنا چاہیے آپ لوگ ہی بتائیں؟" مجھ کو عدنان بھائی کا یہ انداز بلکل پسند نہیں آیا، جب ہم ایک فیصلہ کر چکے ہیں تو اب عدنان بھائی کو کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ مبادہ کوئی غلط مشورہ ہو گیا تو؟ مگر تمام ہی لوگ کہنے لگے کہ عدنان بھائی کو میران شاہ روانہ ہونا چاہیے، یہ سن کر میری جان میں جان آئ. اس کے بعد عدنان بھائی نے اچانک سے کہا کہ، "میں آج ہی جا رہا ہوں اور بہت جلد واپس آجاؤں گا، اکرم بھائی آپ جانے کے لئے اگر کوئی سواری کا انتظام کر سکتے ہیں تو کریں نہیں کل دیکھتے ہیں، اکرم بھائی تو جیسے عدنان بھائی کے یہی کہنے کے انتظار میں تھے، اکرم بھائی نے کہا آپ فکر نہ کریں آپ اپنے کپڑے تبدیل کر لیں میں کچ کرتا ہوں اور ہم آج ہی میران شاہ جا رہے ہیں. میری بھی جان میں جان آئی . اب سب سے اہم بات، عدنان بھائی نے ہم سب کو چونکا دیا. پھر کچھ دیر بعد بولے "میری غیر حاضری میں (جب تک عدنان بھائی میران شاہ میں ہونگے) یہاں (کیمپ) کے سارے انتظام آپ سب مل کر کریں گے، جو ہو رہا ہے ہوتا رہے گا، آپ کی نگرانی کے لئے میرے یہ ساتھی (ہماری طرف اشارہ کر کے کہا) آپ کی خدمات کے لئے یہاں موجود ہونگے. ہم نے سکوں کا سانس لیا. عدنان بھائی پھر سے بول پڑے، اور یہاں کہ نگران کہ لئے اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام ہیں تو باتیں نہیں تو میں بتاتا ہوں. سب لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے. جب کسی کی سمجھ میں کچھ نہی آیا تو عدنان بھائی نے خود ہی کہا، یہاں کہ نگران بابا ہونگے اور ان کا ساتھ بھائی (میری طرف اشارہ کیا) اور فیصل بھائی، بلال محسود، جلال خان (ایک مقامی ساتھی) زوہیب خان (ایک اور ١٥-١٦ برس کی عمر کے لڑکے کی طرف اشارہ   کر کے کہا) اکرم بھائی اور ندیم بھائی میرے (عدنان بھائی) کے ہمراہ میران شاہ جائیں گے اور اگر ممکن ہوا تو ان دونوں میں سے کوئی ایک واپس آجائے گا. ٢-٣ دن میں ہمارا امدادی سامان بھی یہاں (دتہ خیل) پہنچنے والا ہے اس کے بعد دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے. آخر میں عدنان بھائی نے کہا کہ آپ سب مل بات کر رہنا اور پوری کوشش کرنا کہ یہاں کے حالات سے مجھ کو آگاہ کرتے رہیں، آپ سب کا الله ہی بہتر نگران اور انتظام کرنے والا ہے."
   اتنا کہنے کے بعد عدنان بھائی اٹھے اور اپنے ٹینٹ کی طرف گئے تھوڑا دیر میں باہر نکلے ان کے ہاتھ میں کچھ فائلز تھی وہ لے کر ہم سب کو سمجھایا کہ کیمپ میں کون کون مقیم ہے. اور کس طرح سے معملات کو چلانا ہے. ہم سب نے الله کی مدد سے اپنی پوری اور بہتر سے بہتر کوشش کرنے کا عہد کیا اور اکرم بھائی کافی دیر کے جا چکے تھے.           
وقت  حالات انسان کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں بس جستجو، لگن، ہمت اور حوصلہ انسان میں ہمیشہ رہنا چاہیے. میرے سوشولوجی کے استاد کی ایک بات ہمیشہ مجھ کو یاد رہتی ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے "زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جب انسان میں جدوجہد کی امنگ ختم ہو جاۓ سمجھو کے  انسان کی معاشرتی موت ہو چکی." میں بھی عمل پر پورا یقین رکھتا ہوں اور یہی چاہتا ہوں  کہ جہاں بھی ہوں مسلسل عمل کے ساتھ زندہ رہوں.

آشیانہ کیمپ آنے سے پہلے یہی سوچتا تھا کہ وہاں جا کر کرنا کیا ہوگا مگر یہاں آنے کے بعد یہی سوچتا ہوں کہ بس تھوڑا سا وقت اور مل جائے. عدنان بھائی مستقل محنت اور فکر سے بہت تھک گئے ہیں. ایک بہت بڑا مقصد لے کر نکلے تو کتنے ہی برس گزر گئے اپنے آپ کو ہی بھول چکے ہیں. اب عدنان بھائی کو کچھ آرام کی سخت ضرورت ہے اور اس طرح کہ وہ ہر طرح کی فکر سے آزاد ہوں. میں نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کھ جب تک یہاں ہوں عدنان بھائی کو کسی بات کی فکر نہ ہونے دوں گا - انشا الله.....

ابھی بہت کام کرنے باقی تھے. سب سے پہلا کام عدنان بھی کو میران شاہ رخصت کرنا تھا اس کے بعد جن لوگوں کے ساتھ مجھ کو یہاں کام کرنا ہے ان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کی بہت سخت ضرورت تھی تاکہ ہم ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے کام کرنے کے انداز کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں. بلال نے مجھ کو بتایا کے غذائی اجناس کے سٹاک میں  صرف آلو، پیاز وغیرہ ہی موجود ہیں. اب مج کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آج رات کے خانے میں کیا پکنا ہے تاکہ ابھی سے کام شروع کیا جا سکے، کھانا پکانے کا ذمہ کیمپ میں مجود کچھ لوگوں کے پاس پہلے سے موجود تھا. میں نے دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ لگا کہ کافی عرصے سے صرف آلو اور دالوں پر ہی گزارا ہے. میں نے آج رات کے کھانے میں ایک دفع پھر سے آلو پکانے کی ہدایت کر دی (اس کے سوا ابھی کچھ اور کیا بھی نہیں جا سکتا تھا).
ظہر کی نماز تک میں عدنان بھائی کے بتائے ہوۓ لوگوں کے ساتھ بہت اچھی طرح گھل مل گیا تھا، فیصل بھائی بچوں میں مشغول رہے. نماز ظہر کے دوران ہی پتہ لگا کے ایک گاڑی میران شاہ جا رہی ہے اور اکرم بھائی نے اسی گاڑی میں عدنان بھائی اور دیگر کے جانے کا انتظام کر دیا ہے. عدنان بھائی نے جو یہاں سے روانہ ہونے کی اطلاع سنی تو ایک دم سے اداس ہو گئے. میں نے ان کو ہمت دی، عدنان بھائی جاتے وقت تک یہی کہتے رہے کہ بہت انکساری سے کام لینا، سختی نہیں کرنا،  یہ لوگ پہلے ہی دکھی ہیں کوئی بھی ایسی بات نہیں کرنا جس سے ان کے دکھوں میں اور اضافہ ہو، بہت ساری ہدایت حاصل کر کے ہم سب نے مل کر دعاؤں کے سایہ میں عدنان بھائی کو کیمپ سے رخصت کیا، کیمپ کی فضا پہلے ہے سوگوار تھی مزید ہو گئی . میں نے صورت حال کو دیکھتے ہوۓ اپنے ساتھیوں کو ایک طرف بلایا اور کہا کے کیمپ میں موجود ایک ایک شخص سے ملنا چاہتا ہوں، بابا جن کا نام رحمت تھا اور سب ہی ان کو بابا کہ رہے تھے مجھ سے وضاحت چاہی کہ کیا میں خواتین سے بھی ملنے کا ارادہ رکھتا ہوں؟ تو میں نے انکار میں سر ہلا دیا کیونکہ میں یہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے کافی اچھی طرح واقف ہوں اور کوئی بھی ایسا کام یا بات نہی کرنا چاہتا جس سے ماحول میں کسی بھی طرح کا تناؤ پھیلے. جب تک بابا اور کچھ اور لوگ کیمپ میں موجود لوگوں کو بلانے گئے میں نے بلال اور فیصل بھائی کے ساتھ اپنے قائم کردہ آشیانہ اسکول کا رخ کیا مگر بلال کافی بے چین تھا میرے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہی بتا رہا تھا. اسکول کیا تھا بس ایک ٹینٹ میں طلباء کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ٢عدد بلیک بورڈ رکھے گئے تھے ایک طرف کچھ تختوں  کو جوڑ کر الماری بنائی گئی تھی جن میں طلباء اور اساتذہ کے استعمال میں آنے والی کتب اور دیگر اشیاء رکھی گئی تھی. صفائی اچھی خاصی تھی مگر ٹینٹ میں جا کر یہ احساس ہو رہا تھا کہ جیسے ہفتوں سے یہاں کوئی پڑھنے یا پڑھانے نہیں آیا ہے. میں یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوا مگر فکرمند ضرور ہوا. اب مجھ کو بلال کی بیچنی کا مطلب بھی سمجھ آنے لگا اور ساتھ سات بلال کی تحریروں میں موجود پیغام بھی سمجھ گیا. میں نے دل ہی دل میں نیت کر کہ ایک دفع پھر سے اس اسکول کو آباد کرنا ہے - انشا الله. ٹینٹ سے نکلا تو ایک بچے نے مقامی زبان میں کچھ کہا جواب میں بلال نے بھی کچھ کہا بچا بھاگتا ہوا جس طرف سے آیا تھا وہی چلا گیا، بلال نے کہا کہ چلیں بھائی سب لوگ مسجد کے باہر جمع ہیں. مجھ کو حسب ضرورت سگریٹ کی طلب محسوس ہو رہی تھی مگر میں وقت اور شاید سگریٹ دونوں کا زیاں نہیں کرنا چاہتا تھا. بلال اور فیصل دونوں ہی میری اس کیفیت کو کافی اچھی طرح سمجھ چکے تھے مگر کچھ بولے نہی. ہم بلال کی نیابت میں مسجد کی طرف چلنے لگے، میرا خیال تھا کہ جہاں ہم نے فجر اور ظہر کی نماز ادا کری ہے اسی جگہ کو مسجد کہتے ہیں مگر ایسا نہیں تھا بلال ہم کو آشیانہ کیمپ کے بلکل آخری کونے کی طرف لے کر جا رہا تھا، ابھی تک میرا اس طرف دیکھنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا تھا.  جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے ایک چار دیواری جیسا خدوخال نمایاں ہوتا جا رہا تھا. جلد ہی ہم وہاں پہنچ گئے. وہاں کچھ لوگ باہر جمع تھے اور مسجد کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ "آشیانہ مسجد - دتہ خیل" میں نے سب کو سلام کیا اور کسی سے کچھ کہے بغیر ہی مسجد میں داخل ہوگیا. ١٢٠ گز کا رقبہ ہوگا شاید...
مسجد کے چاروں طرف چہار دیواری کوئی ٣-٤ فٹ کی موجود تھی مسجد کے اندر درختوں کی لکڑی سے ستون کھرے کر کے اس کے اپر لکڑی کی مدد سے چیٹ ڈالی گئی ہے. بہت سادہ انداز مگر بہت خوبصورت. ماشا الله ....  


جاری ہے ....