Saturday 23 February 2013

شمالی وزیرستان ڈائری "بچوں کے لئے کچھ کرنے کا عزم"

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
اسلام و علیکم 

معزرت کے ساتھ کہ چند ذاتی وجوہات کی بنا پر نہ  ڈائری لکھ پا رہا ہوں نہ ہی ٹیم آشیانہ کی فلاحی خدمات میں بھرپور حصہ لے پا رہا ہوں. 
میری والدہ شدید بیمار ہیں اور ایک مقامی اسپتال میں داخل ہیں آپ سب سے دعا کی درخواست ہے. 

کوشش کرتا ہوں کے جتنا وزیرستان کے اپنے تجربے کے بارے میں لکھ سکتا ہوں لکھوں. مجھ سے ہوئی کوئی بھی غلطی اور تاخیر کو معاف اور در گزر کریے گا.

"آشیانہ کیمپ کو دتہ خیل سے میران شاہ منتقل کرنے کا ہمارا (کارکنان) کا فیصلہ بہت بروقت اور ٹھیک رہا. کیوں کے بعد کے حالات نے یہ سبط کیا کہ اگر ہم دتہ خیل میں مقیم رہتے تو ہمارے ساتھ ساتھ بہت اور لوگ جو آشیانہ کیمپ میں مقیم تھے مزید پریشانی کا شکار ہو سکتے تھے. 
مگر میرانشاہ آکر ہماری پریشانیاں ختم یا کم نہیں ہوئی بلکہ مزید اضافہ ہوا، کسی نئی جگہہ جا کر ایک دفع پھر سے فلاحی کیمپ کا آغاز کرنا جبکہ وقت اور حالات پر آپ کا اختیار نہ ہو بہت مشکل اور دقت طلب کام ہے. پھر بھی ہم سب کارکنان نے اپنی اپنی حثیت اور استعداد کے مطابق آشیانہ کیمپ کو میرانشاہ میں ایک دفع [پھر سے فعال کرنے کا کام شروع کیا جس میں کچھ دن صرف ہوۓ. کچھ لوگوں کو ہم اپنے ساتھ میرانشاہ  لے آئے تھے کیونکہ یہ لوگ کسی بھی صورت اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھے. لہٰذا ہمارے پاس ان لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہی تھا یہ وو لوگ تھے جن کا گھر بار اور خاندان کسی نہ کسی وجہہ سے ان سے بچار گیا تھا یا برباد ہو چکا تھا. پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں ان لوگوں کو منتقل کرنے کا کوئی راستہ اور صورت نہیں تھی. عدنان بھائی نے کافی دفع کوشش کر ہے کے کچھ بچوں اور خواتین کو پاکستان کے دیگر فلاحی اداروں میں منتقل کریں مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہی ہوا. 

یہاں میرانشاہ میں بھی بنیادی سہولتوں کا بہت فقدان ہے. شمالی وزیرستان سے پاکستان کے دیگر علاقوں کے رابطے کے لئے انٹرنیٹ جیسی سہولیات، موبائل فونے جیسی سہولیات، نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں موجود بھی ہیں تو بہت پابندی کے ساتھ. اپنے گھر والوں سے رابطے کے لئے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے. مزید نہ ہی ہم کسی کو کچھ کہ سکتے ہیں نہ ہی کچھ بیان کر سکتے ہیں. یہاں موجود سیکورٹی اداروں کے کارکنان مقامی افراد کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کے ان سیکورٹی اداروں کی موجودگی میں مقامی افراد خود کو محفوظ محسوس کریں اور جو بھی سہولیات یہ ادارے دے سکتے ہیں ان سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو سکے. مگر سیکورٹی اداروں کی اپنی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں جن سے بہار جانا ممکن نہیں. پھر بھی میں یہاں موجود سیکورٹی اداروں کی کارکردگی دیکھ کر ان پر فخر محسوس کرتا ہوں. 

میرانشاہ کا میں بازار یہاں کی کل دنیا ہے، مگر یہاں مہنگائی پورے پاکستان سے کہیں زیادہ ہے. شدید سردی میں اور زندگی کے لئے ضروری اشیا کی ترسیل یہاں بہت مشکل سے ہو پاتی ہے جس کی وجہہ سے یہاں ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے، ایسے میں صرف کچھ لوگ ہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں باقی صرف بازار کا چکر لگانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں.
یہاں فلاحی اداروں میں صرف ایدھی سحاب کا ادارہ ہی نظر آتا ہے جس کے مقامی کارکنان کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے چاق و چوبند نظر آتے ہیں.  

میں نے عدنان بھائی کو ایک تجویز دی ہے جیسا کہ میں نے کراچی میں دیکھا کہ جگہ جگہ دستر خوان کا انتظام کیا گیا ہے جو کراچی کے ایک فلاحی ادارے چھیپا کرتا ہے جہاں غریب، نادار، اور مزدور پیشہ طبقہ تین وقت کا کھانا کھلایا جاتا ہے. کچھ اسی طرح کا انتظام اگر ہم یہاں میرانشاہ میں کر سکیں تو بہت اچھا ہوگا. میری اس تجویز پر عدنان بھائی نے تمام کارکنان سے ان کی رائے پوچھ ہے اور انشا الله اگلے جمعہ تک کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو جائے گا. 

یہاں (میرانشاہ) میں سب سے برا حال بچوں کا ہے. دتہ خیل تو ایک چھوٹا علاقہ تھا مگر میران شاہ شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہونے کی وجھہ سے سارے وزیرستان والوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے.  یہاں شمالی وزیرستان کے دیگر علاقوں سے لوگ روزگار اور مدد کی تلاش میں آتے ہیں اور اسی امید میں یہی روک جاتے ہیں. جس کی وجہہ سے یہاں کے دستیاب  وسائل پر بہت بوجھ پڑھ رہا ہے. یہاں بچوں کے لئے تعلیم، غذا اور ضرورت پڑھنے پر طبی امداد کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں. جس کی وجہہ سے یہ بچے معاشرے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں. میری پہلی کوشش میں یہی بات شامل ہے کے کسی نہ کسی طرح یہاں کے بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کی کوئی امنگ جگا سکوں. اس بارے میں کچھ آئیڈیاز میرے دماغ میں ہیں جن کا ذکر میں نے عدنان بھائی سے کیا بھی ہے امید ہے کے ہم سب مل کر کوئی بہتر حل ضرور نکل سکیں گے - انشا الله