Saturday 16 February 2013

فلاحی کاموں کے بارے میں میرے خیالات

اسلام و علیکم 
الله کا  ہے کہ اب طبیعت میں کچھ بہتری ہوئی ہے، نمونیا کا اثر کم ہے اور ڈاکٹر صاحب نے تھوڑا آرام اور ادویات کے مستقل استعمال کا حکم صادر کر رکھا ہے، آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے. 

گزشتہ رات کینیڈا سے تشریف لائی ہوئی ہماری بہن اور ٹیم آشیانہ کی ساتھی کارکن فریال باجی کراچی سے راولپنڈی اور پشاور کے لئے روانہ ہو گئی ہیں. کراچی میں کچھ دن فریال باجی کے ساتھ وقت گزرنے کا موقع ملا اس دوران میں اور میری امی اور دیگر دوست احباب نے فریال باجی کا پورا خیال رکھنے کی کوشش کری اور اس دوران یہ بھی جاننا چاہا کہ آخر وہ  کونسا جذبہ ہے جس کے تحت فریال باجی کینیڈا میں ایک اچھی، خوشحال زندگی چھوڑ کر پاکستان آجاتی ہیں اور یہاں فلاحی خدمات سر انجام دیتی ہیں؟ فریال باجی بہت اچھی اردو نہیں بول سکتی تھیں مگر اب ماشا الله بہت روانی سے اردو بولتی ہیں اور اپنی روانگی سے پہلے وہ یہ بھی بول گئی کہ بہت جلد وہ کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر پاکستانی شہریت ہی رکھنے والی ہیں. یہ سب باتیں ہم جیسے لوگوں کے لئے کسی سر پرائز سے کم نہیں. 
کراچی میں اپنے قیام کے دوران فریال باجی نے کراچی میں موجود دوستوں کے ہمراہ آشیانہ کیمپ، میرانشاہ، شمالی وزیرستان کے لئے بھیک مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گزشتہ دن جمع کئے گئے امدادی سامان کی پیکنگ میں مصروف رہیں. لسٹ بناتیں، سامان کو بہتر سے بہتر انداز میں پیک کرتیں اور دیگر ساتھیوں کو بھی ہدایت دیتی رہتی کہ کس طرح سے کام کرنا ہے. میرا اور فریال باجی کا ساتھ کچھ لمبا نہیں رہا، اس دفع کراچی میں قیام کے دوران فریال باجی کو بہت سمجھنے کا موقع ملا. فریال باجی کی اجازت سے ہی ان کے آشیانہ کیمپ کے لئے خدمات اور جذبہ فلاحی خدمات کے بارے میں کچھ خیالات اور یادیں لکھ رہا ہوں.

جذبہ انسانیت خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا امتحان ہے گزشتہ برسوں سے جب سے میں عدنان بھائی کے ساتھ فلاحی کاموں کے ساتھ وابستہ ہوا ہوں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں لوگوں کی باتیں نہ سنی ہوں. اکثر لوگ (زیادہ تر میرے خاندان والے اور دوست احباب، اور ملنے والے) یہی کہتے رہے کہ یہ سب کرنا ہمارا کام نہیں ہے. بلکہ یہ کچھ اور لوگوں کا کام ہے. جبکہ میری معلومات، علم اور دماغ مجھ سے یہی کہتا رہا ہے کہ فلاحی خدمات تو ہر انسان پر لازم ہے. ہم کسی بھی طریقے سے فلاحی خدمات سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے. ہر انسان کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذھب، قوم سے ہو پر لازم ہے کہ  وہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو فلاحی خدمات کے ساتھ وابستہ رکھے. میرے خیال میں مغربی ممالک کی کامیابی کا اصلی راز بھی یہی ہے کہ وہاں کے لوگ ہر طرح کے فلاحی کاموں میں خود کو مشغول رکھتے ہیں اور درد انسانیت بھی رکھتے ہیں. ہمارے ہمسائے میں چین موجود ہے، ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں زندگی کے ہر طبقے کے لوگ اپنے سے کم تر لوگوں کی مدد کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں. میرا خود کا ذاتی تجربہ رہا ہے جب ٢٠٠٥ میں پاکستان کو تاریخ کے بعد ترین سانحے کا سامنا زلزلے کی صورت میں کرنا پڑا تھا اس وقت بھی سارا پاکستان بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کے کرنا کیا ہے؟ ایسے وقت دنیا کے دیگر ممالک سے آئے ہوۓ کارکنان نے ہماری مدد کری، ہم کو فلاحی کام کرنے کے طرز سے آگاہ کیا جس کے بعد ہی ہم کسی نہ کسی طور پر زلزلے سے متاثرہ اپنے پاکستانی قوم کی مدد کرنے میں کامیاب ہو سکے . اس کے بعد بھی سیلاب کی صورت حال میں بھی ہم پاکستانی قوم نے اپنے اپنے طور پر  کسی نہ کسی طرح سے سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی. مگر ان سب کے دوران سب سے برا نقصان خود متاثرین کا ہوا جو آج بھی اکثر علاقوں میں بہت بری مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں.

ٹیم آشیانہ کے تشکیل کے وقت میں نے عدنان بھائی کے سامنے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہم یہ ٹیم تو تشکیل دے رہے ہیں مگر ہم کوئی ادارہ نہیں ہیں نا ہی ہم کو فنڈز کی فراہمی کی کوئی یقین دہانی ہے تو آخر کس طرح ہم لوگ فلاحی خدمات کے کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں؟ تو عدنان بھائی نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں اس کے لئے فنڈز سے زیادہ پختہ ، مضبوط ارادوں اور صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے. جو ہم سب میں موجود ہے. فنڈز کے اسباب بھی الله پاک کرتا رہے گا اور اگر فنڈز نہ بھی ہوۓ تو ہم پریشان حال، بھوک و افلاس سے مجبور، ادویات، کپڑوں اور تعلیم سے محروم لوگوں کے ساتھ اپنی موجودگی سے ان کو حوصلہ تو دے ہی سکتے ہیں. اور آج بھی عدنان بھائی کے اسی فلسفے پر ٹیم آشیانہ کے کارکنان قائم ہیں اور عمل کر رہے ہیں.

فریال بہن، سے ہوئی گفتگو کے دوران میں نے تو یہی کچھ سکھا جو کہ اپر لکھ دیا ہے. کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوۓ یہ سب باتیں صرف سننے کی حد تک اچھی لگتی ہے، لیکن عمل کرنے کا وچن تو بہت ہی مشکل بلکہ اکثر تو نہ ممکن. میری والدہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور مجھ کو عدنان بھائی کی مثال بھی دیتی رہی ہیں اور شاید اسی وجہہ سے میں کیسے بھی حالت اور حالات میں خود کو فلاحی کاموں سے روک نہیں سکتا.