Sunday 15 April 2012

Waziristan Dairy: A night at D'tta Khel (North Waziristan)

اسلام و علیکم،
کل جو بات ادھوری رہ گے تھی آج وہی سے شروع کرتا ہوں، سب سے پہلے سب دوستوں کا شکریہ کہ مجھ کو ای میل کری اور جہاں کچھ تعریفیں کریں وہیں کچھ تنقید اور کچھ اچھے مشورے بھی دے، سب سے زیادہ شکایات ڈائری کے مختصر اور ڈائری سے اپڈیٹ ہونے سے مطلق ہے، اس کے بارے میں یہی کہنا ہے کہ اس شہر میں بجلی کب آتی ہے اور کب جاتی ہے کچھ پتا نہیں، مزید آپ کے علم میں ہوگا کے میں ایک استاد بھی ہوں اور آج کل شہر میں میٹرک کے امتحانات چل رہے ہیں جس میں میری بھی کچھ ذمہداریاں ہیں وہ بھی نبھانا ہے. پھر میں ایک دفع پھر ٹیم آشیانہ سے ملنے کی تیاری میں ہوں جس کے لئے مجھ کو رات کے وقت اپنے دوستوں، رشتے داروں اور احباب کے گھر جانا ہوتا ہے تاکہ کچھ امداد وغیرہ جما کر سکوں. بس یہی کچھ وجوہات ہیں جس کی وجہہ سے میں اپنی ڈائری اور ٹیم آشیانہ کی اپڈیٹ وقت پر نہیں کر پا رہا ہوں جس کے لئے آپ سب سے معذرت کا طلبگار ہوں، آپ سب  دعا کریں کہ الله پاک کچھ اسے وسیلہ بنا دے کے ہمارے سارے کام وقت پر ہونا شروع ہو جائیں، آمین.

"عزیز منصور بھی اور محترم ساتھیوں، آج جو سوالات پوچھے گئے یہ مجھ سے پہلے بھی کافی دفع پوچھے جا چکے ہیں بس انداز ہر دفع نیا ہوتا رہا ہے. افسوس اس بات کا ہے کے جبہ لوگ مجھ کو جاننا چاہتے ہیں تو میرے پاس کیوں نہیں آتے، میرے سے ملتے کیوں نہیں؟ کیوں خود ہی خود سے میرے بارے میں عجیب اور غریب قسم کی آرا قائم کر لیتے ہیں. میں آج جس راستے پر ہوں مجھ کو خود علم نہیں کے مجھ کو ابھی اور کتنا اس راستے کا مسافر رہنا ہے، میرا یہ سفر ٢٠٠٥ کے زلزلے سے شروع ہوتا ہے، جس میں میں نی اپنے خاندان کو کھو دیا، میری جن سے زیادہ عزیز بہن، میری بھانجی، مارگلہ ٹاور، اسلام آباد میں ماری گی، میرا بھی بالاکوٹ کے کھرب لاپتا ہوگیا آج تک اس کا پتا نہیں. میری زندگی کا آخری سہارا اپنے بچوں کو یاد کرتے کرتے اس غم میں ہی دنیا سے رخصت ہو گی. اکتوبر ٢٠٠٥ کے زلزلے نے مجھ سے میرا گھر، میری زندگی کی خوشیاں، میرا خاندان سب کچھ ہی چھین لیا، مگر میری مرحومہ والدہ ہمیشہ مجھ کو صبر، ہمت اور استقامت کا درس دیتی رہی، میری والدہ نی ہمیشہ مجھ کو نصیحت کری کہ ابہ تم کو صرف اور صرف انسانیت کو دیکھنا ہے، اور تم جو کچھبھی سکتے ہو کرنا، اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سےگزرنے والا عدنان، جس کے لئے زندگی ایک فن تھی، ہسنا، گھومنا، دوستوں کے ساتھ پارٹیاں کرنا ناچ گانا، ہلا گلا کرنا تھی، وہی عدنان    زلزلے کے بعد ایک دم بدل گیا تھا، کراچی سے مارگلہ ٹاور، وہاں سے پھر کراچی اور پھر کراچی سے بالاکوٹ، بالاکوٹ سے اسلام آباد، اسلام آباد سے مظفرآباد (کشمیر). اور کشمیر میں پورا سال، پھر کشمیر سے بالاکوٹ، پھر واپس کشمیر، پھر کراچی، کراچی سے خیبر پختونخوا، بہت لمبا، تھکا دینے والا اور دل کو دھلا دینے والا سفر ہے. مگر میں نے یہ سفر کیا، بہت تکلیفیں، مصائب، پریشانیاں اور کرب اٹھایا، مگر میں رکا نہیں، بڑھتا گیا. ہاں، انسان ہوں، تھک جاتا ہوں، ہمت ٹوٹ جاتی ہے، وہ سب غم جو ایک عام انسان کو ہیں میرے ساتھ بھی ہیں، مگر میری والدہ کی دیں، میری والدہ کی نصیحت، میرے دوستوں کی دی ہوئی ہمت، اور سب سے بڑھ کر، الله پاک کر خاص کرم، اور عنایات ہونے کی وجہہ سے آج میں یہاں ہوں، اور پتا نہیں مجھ کو ابھی کتنا سفر اور کرنا ہے. میری دعا ہے کے الله پاک مجھ کو ہمت عطا فرماے کہ میں صبر، ہمت اور استقامت کے ساتھ اپنی رہ پر چلتا رہوں اور مجھ کو موت بھی اسی حالات میں آے، امین. 
کراچی ہو یا وزیرستان، یا کشمیر، یا پاکستان کا کوئی بھی شہر یا علاقہ، ہر جگہ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو کسی نہ کسی ترہان ہماری مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. مگر کبھی ایسے لوگوں کا سوچا ہے جو کسی کو مدد کے لئے نہیں پکارتے بلکے اپنی سفید پوشی کی وجہہ سے ایک جگہ پڑے رہتے ہیں، کی کوئی الله کا بندہ آکر خاموشی سے مدد کر جاۓ اور شرمندگی نہ ہو. یا کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے، جو زندگی اور موت کے درمیان ہوں، اور ہم اپنی زندی میں مگر ایسے لوگوں کا سوچ کر تھوڑا افسوس تو کرلیں مگر خود سے کچھ نہ کریں الٹا دعا دیں کہ الله ان کے حال پر رحم فرماے اور ان مدد کرے. میں بے حس نہیں ہوں، میرا انسان ہونا اور مسلمان ہونا مجھ کو یہی سکھاتا ہے کے اٹھو اور ایسے ہی لوگوں کو تلاش کر کی ان کی مدد کرو جو بے اسرا ہیں، غم اور دکھوں سے چور چور ہیں، اور یہی کام میں پچھلے ٦-٧ برسوں سے کر رہا ہوں. اب تو مجھ کو شہر کے نام سے بھی خوف آتا ہے جہاں انسان نہیں مشینیں رہتی ہیں، جو اپنے اپنے کاموں میں اور زندگیاں بنانے میں اتنا مصروف ہیں کے ان کو اپنے برابر والے تک کی کوئی خبر نہیں. الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت ہی عطا فرماے، امین.


عدنان وہی کر رہا ہے جو اس ملک میں رہنے والے ہر انسان کو کرنا چاہیے، ہر پاکستانی کو کرنا چاہیے، پاکستان کے ایسے علاقے جہاں کوئی جانا نہیں چاہتا، فلاحی کام نہیں کرنا چاہتا، میں اپنی چھوٹی سی ٹیم بنا کر، لوگوں سے بھیک مانگ کر،  زکات، چندہ، خیرات، عطیات، لوگوں کے پرانے کپڑے لے کر، دکان داروں سے تھوڑا تھوڑا راشن جمع کر کے، بس اور ٹرک والوں کی منت سماجت کر کے، ریموٹ ایریا میں جاتا ہوں، اور ایسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی جتنی مدد ہو کرتا ہوں، مجھ کو کوئی افسوس نہیں کہ میں بھیک مانگتا ہوں، لوگوں کی منٹن سماجت کرتا ہوں، کیوں کے میرا رب جانتا ہے کہ یہ سب میں کیوں اور کس کے لئے کرتا ہوں. اسی لئے آج تک بہت پریشانیاں، دکھ، مصائب ہونے کے باوجود بھی جبہ ان لوگوں کے چہروں پر اطمینان. اور مسکراہٹ دیکھتا ہوں تو مجھ میں ایک توانائی آجاتی ہے، یہاں ہزاروں بچے ہیں جن کے ماں، باپ نہیں، یہاں ہزاروں مریض ہیں، جن کے پاس دوا نہیں، یہاں ہزاروں خواتین ایسی ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں، ایسے ہی لوگ عدنان کے رشتے دار ہیں، ایسے ہی لوگ عدنان کے دوست اور گھر والے ہیں. میں الله پاک کا شکر گزر ہوں کے الله پاک نے مجھ کو کسی نیک مقصد کے لئے چننا اور مجھ کو ہمت صبر دیا کہ میں اپنے کام میں لگا رہوں. 
رہی وزیرستان کی بات، تو منصور بھائی آپ ہی بتا دیں کہ "یہاں کون آنا چاہتا ہے؟ کون یہاں کے یتیم بچوں کا سر پر ہاتھ رکھ کر ان کی کفالت کرنا چاہتا ہے؟ کون یہاں "دہشت گردی کی جنگ" سے متاثر لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے؟ کون یہاں کے بھوکے لوگوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانا چاہتا ہے؟ کون یہاں کی بیوہ، عورتوں کو ان کے جینے کی آس دینا چاہتا ہے؟ کون وزیرستان جیسے آفت زدہ اور دہشت زدہ علاقوں میں آکر کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے؟"
منصور بھائی، شہر میں بیٹھ کر یہاں کے لوگوں کے حالات پر بحس کرنا، یہاں کے لوگوں کے لئے افسوس کر لینا بہت ہی آسان کام ہے مگر حقیقت میں یہاں آکر، ان لوگوں کے درمیان رہ کر فلاحی کام کرنا کہیں زیادہ مشکل. جبہ کوئی نہیں آیا تو عدنان آگیا، بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی غرض کے، کسی بھی قسم کے انجام کی پروا کے بغیر، کیوں کے یہاں کے لوگوں کو پاکستان میں کہی اور نہیں بسایا جا سکتا تھا، کیوں کے پورا پاکستان ہی یہاں کے رہنے والوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے، کراچی بھی لے جاۓ گئے تھے یہاں کے لوگ مگر افسوس کے سندھ کے رہنے والوں نے افسوسناک استقبال کیا اور کراچی والوں نے یہاں کے رہنے والے لوگوں کو دوسرے درجی کا شہری بنا کر بعد ترین سلوک کیا تو یہ بیچارے خود ہی وہاں سے بھاگ آے جو نہیں بھاگے ان کو جس شان و شوکت کے ساتھ سندھ والوں نے رخصت کیا وہ سب ہی جانتے ہیں. اب آپ ان لوگوں سے کیسے سلوک کی امید رکھتے ہیں؟ آپ کو یہاں آکر ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں؟ کیوں خدمت خلق کا سارا شوق پورا ہوا؟ سارے جذبے ختم ہو گے یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں الله ہی مدد کرنے والا ہے اور آپ کے ہسے کا کام پورا ہو گیا ہے. یا آپ کی سوچ بھی بدل گی؟ منصور بھائی، ایک دفع اور سمجھ لیں، کہ  صرف وزیرستان ہی نہیں سارے پاکستان کو ہم جیسے لوگوں کی بہت سخت ضرورت ہے. ہم جیسے لوگ ہی اسس ترہان کے محروم لوگوں کہ لئے کچھ بھاگ دوڑ کر سکتے ہیں، باقی کسی اور سے امید کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے.
یہاں (وزیرستان) میں رہنے والا ہر شخص دہشت گرد نہیں ہے، پاکستان کا غدار نہیں ہے. بلکے صرف کچھ مٹھی بھر لوگوں نے پورے وزیرستان کو دہشت میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے. یقین نہ آے تو کل سے میرے ساتھ فیلڈ میں چلیں، میں آپ کی ملاقات یہاں کے مقامی لوگوں سے کرواتا ہوں، آپ ان سے ملیں اور یہاں کے لوگوں کی سوچ، فکر اور خیالات کو جانیں. . . . 
ابھی عدنان بھائی کی بات جاری ہی تھی کہ رات کے اس پھر ایک دفع پھر سے بھاگم بھاگ مچنے لگی، ہماری چاروں طرف جلدی جلدی روشن کی گئی لالٹین اور چراغ مجھے جانے لگے عدنان بھائی اور دوسرے ساتھ پھر کی دوسری طرف جانے کا اشارہ کر کے دوسرے کمپ میں موجود بچوں کی طرف لپکے، مجھ کو اپنی ٹوٹی تنگ پر افسوس ہوا کے کاش کے اگر تنگ سہی ہوتی تو آج میں بھی دو (٢) بچوں کو اپنی گود میں لے کر چل پڑتا. پھر کی دوسری طرف، ایک سرنگ بنی ہوئی تھی جس میں سارے لوگ جمع ہو رہے تھے، خواتین کے لئے دوسری طرف انتظام تھا جبکے مرد اور بچے ایک طرف. سب ہی آہستہ سے قرآن پاک کا ورد کر رہے تھے، اور میں یہ سب تماشا بہت دکھ کے ساتھ دیکھ رہا تھا، پتہ لگا کے یا تو پاک فوج کے جہاز یا پھر امریکی ڈرون آنے والے ہیں.. . . 
میں ایک اور نے سوچ میں مبتلا ہو گیا، سب سے بے خبر اپنے خیالات میں مگن، سوچتا چلا گیا، پھر ایک آواز آی، "آپ کراچی سے آے ہو نہ بھائی؟"