Wednesday 11 April 2012

دتہ خیل کی یادیں، بلی جیسے ڈرون اور ہم

اسلام و علیکم ،
گزشتہ سے شروع کرتے ہوۓ اپنی ڈائری لکھ رہا ہوں.

خان صاحب کے ہاں جس طریقے کی  دعوت کا انتظام کیا گیا تھا اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کے جیسے کسی جانور کو حلال کرنے سے پہلے اس کی اچھی ترہان خاطر مدارات کی جاتی ہیں وہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے، ابہ بس سہی وقت کا انتظار ہو رہا تھا کے کب گلے پر الله اکبر کا نعرہ لگا کر چھری پھیری جاۓ. پتا نہیں کیوں دل سے موت کا خوف کم ہو چکا تھا. یہ شاید یہاں کے حالات کی وجہہ سے تھا یا جانے کوئی اندر کا جانور جاگ گیا تھا. میں نے بھی خود کو حالات کے اوپر چھوڑ دیا ہے جو ہونا ہے وہ ہونا ہے، بس اب حق کا کلمہ نہیں چھوڑنا باقی جو الله پاک کی رضا وہی میری رضا.....
رات کے جانے کس پہر میری آنکہ لگ گے، سونے کا من تو نہیں تھا مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے، یہی کچھ میرے ساتھ ہوا. 

اور ڈرون آدھمکے:
تھا جس کا انتظار وہ شہکار آگیا، مجھ کو ہمیشہ سے بلی جیسے ڈرون کو دیکھنے کا تجسس اور شوق ہی رہا ہے، یہ تو ٹیم آشیانہ کی مہربانی کے مجھ جیسے دنیا پرور انسان کو یہاں (وزیرستان - شمالی) آنے کی دعوت دے ڈالی اور آج میرا یہ شوق بھی پورا ہو ہی گیا، بس بہت دکھ اور ملال ہوا کے میرا کمیرہ میرے پاس نہیں تھا.
میں سو ہی رہا تھا کے اچانک بھاگم دوڑ کی آواز نے مجھ کو جگا دیا، ایک افراتفری ہر طرف تھی، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ وزیرستان میں بجلی بیبی دور دور تک نہیں ہیں، یہاں زیادہ تر چراغ جلا کر ہی گزارا ہوتا ہے، گویا انسان پتھروں کے دور میں جی رہا ہو، اکرم بھی میری طرف ہے اور کہا کے اٹھو اور چلو ابھی، کچھ پوچھنے کا وقت نہیں تھا بس جس حال میں تھا اٹھ گیا. پھر کے ایک طرف سب جا رہے تھے،    میں بھی اکرم بھی کے پیچھے پیچھے ہی چل پر، قریب ٢ منٹ کے بعد ایک سیٹی جیسی آواز آی می سمجھا کے کوئی بچا یا انسان بجا رہا ہے مگر یہ تو آسمانی مخلوق تھی، نظر تھوڑا اوپر کری تو پتا لگا کے یہی تو ہیں میرے خوابوں کے اڑان کھٹولے، جن کو میں بلی جیسے ڈرون کے نام سے یاد کرتا ہوں، مگر بس ایک جھلک ہی دیکھ سکا، پھر پتا نہیں کہاں غایب ہو گے، ہم کو ایک کھولی نما غار میں لے جایا گیا، اور حکم ملا کہ جب تک کہا نہ جاۓ یہاں سے نکلنا نہیں ہے. ہم بھی بہت اچھے بچوں کی ترہان یہاں چپ چاپ بیٹھ گئے، غار کیا تھی بس ١٠-١٢ کا کھولی تھی، جہاں مجھ جیسے ٢٥ - ٣٠ کے قریب لوگوں کو ٹھونس دیا گیا تھا، میں کھسک کر اکرم بھی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا رہا اور جب تھوڑا فاصلہ رہ گیا تو ان سے کہا، "اکرم بھی جن، یہ میڈیکل کمپ تو بہت بھاری پڑھ گیا،" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا بھی "آپ کے لئے یہ سب نیا ہے ہم کو اب عادت ہو گے ہے، آپ اطمینان رکھو الله پاک سب بہتر کرے گا. انشا الله. ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈرون کبھی بھی اتے ہی حملہ نہیں کرتے بلکے پہلے یہ یہاں کا چکر لگاتے ہیں اپنے بڑے باس کو یہاں کہ حالات بتاتے ہیں پھر جب ان کو حکم ملتا ہے تو آگ کی بارش کر کے بہت اطمینان سے واپس چلے جاتے ہیں." میں نے دل ہی دل میں سوچا، "وہ جی کیا بات ہے، پہلے آو، حالات دیکھو پھر حملہ کرو." کوئی بری بات نہیں." 

ایک گھنٹہ ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد میری ٹانگین سن ہونا شروع ہو گے تھی اور میری ٹوٹی تنگ میں شدید درد اب یا تو مجھ کو کھڑا ہونا تھا یا پھر اپنی ٹانگوں کو لمبا کرنا تھا جو ممکن نظر نہیں آرہا تھا، میں نے ہمت کر کے کھرے ہونے کا فیصلہ کیا اور سیر ایک طرف جھکا کر کھڑا بھی ہو گیا، تو میری اس حرکت پر سب ہی پریشن ہوۓ مگر اکرم بھی نے پشتو میں ان سے کچھ کہا تو مجھ کو آرام سے کھڑا ہونے کی جگا مل ہی گے، جیسے ہی کھڑا ہوا ایک اور سیٹی آی اس کی بعد ٢، ٣، ٤ آتی گے، میں دل ہی دل میں آیتلکرسی کا ورد کر رہا تھا، اور الله پاک سے دعا   بھی کہ  "مجھ کو جلا کر نہ مارنا اور نہ ہی میرا نام برے لوگوں میں کرنا، میں تو ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں میری مدد کرنا." آدھا گھنٹہ کے بعد شاید ڈرون کے مالکان کو علم ہوا ہو کہ یہاں کوئی ایسی ویسی بات نہیں اور وہ ڈرون چپ چاپ بغیر آگ برساۓ واپس چلے گے، صبح کے ٤ بج رہے ہوں ہونگے. جب ہم کو حکم ملا کے ہم باہر آکر وضو کر سکتے ہیں، ہم نے وضو کیا نماز ادا کری اور دل کے ساتھ الله پاک کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری حفاظت کری. 
                         "اور بے شک، الله ہی بہتر حفاظت کرنے والا ہے." 
نیند تو بہت پہلے ہی کہی جا چکی تھی، صبح بھی ہو ہی چکی تھی ابہ آرام کا کوئی خیال نہیں تھا، بس ایک خیال اور فکر تھی کے سورج کے نکلتے ہی ہم یہاں سے روانہ ہوں اور دتہ خیل میں اپنی ٹیم سے جا ملیں. 
صبح ہوتے ہی ہم کو پر تکلف کھانا ناشتہ دیا گیا، خان صاحب کی مہربانی کی کوئی خاص وجہہ سمجھ نہیں آرہی تھی، اور سچی بات ہے کے مجھ کو تو کوئی بڑی گڑ بڑ محسوس ہو رہی تھی. خیر، خان صاحب نے ایک دفع پھر اپنے حجرہ نما کمرے میں ہم سب کو بولایا اور بہت اچھی اردو میں ہماری مہمان نوازی کا ذکر کیا اور کسی بھی قسم کی غلطی اور رات (ڈرون) والی بات پر ہوئی بے آرامی پر معزرت کری اور ہم کو رخصت کی اجازت دی. میں نے خاص کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں بہت خوش تھا کا جن بچی تو لاکھوں پاۓ.
ہمارے ساتھ ادویات بھی تھی تو نکلتے نکلتے اکرم بھی نے خان صاحب سے پوچھا " محترم اگر ا کو ادویات کی ضرورت ہو یا آپ اپنے علاقے میں میڈیکل کمپ لگوانا چاہتے ہوں تو ہم کو ضرور یاد کریے گا،" جواب میں خان صاحب نے تیز آواز میں اور پشتو میں کچھ کہا جو میری سمجھ نہیں آیا. اور اکرم بھی نے سلام کر کے اجازت لی اور ہم ایک دفع پھر اپنے کندھوں پر بیگ ٹانگ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑے. 
راستے میں میں نے اکرم بھی سے پوچھا کہ اکھڑ خان صاحب نے کیا جواب دیا تھا تو انہوں نے کہا ." خان صاحب نے فرمایا، ہم کو زکات، خیرات، بھیک اور فرنگیوں کی دی ہوئی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اپ لوگ جو کر رہے ہو خاموشی سے کرتے رہو، یہی بہت ہے کے آپ لوگوں کو یہاں روکنے کی اجازت دی گی." 
میں نے سوچا یہ بھی کھلم کھلا دھمکی  یا تنبیہ ہی ہے. کا ہم (ٹیم آشیانہ) اپنی حدوں سے باہر نہ نکلے. ہمارا سفر بہت مشکل رہا، سارا راستہ پیدل اور کچے راستوں پر تھا، جگہ جگہ ہی کو میری وجہہ سے رکنا پڑ رہا تھا، کیوں کے میری ٹوٹی ٹانگ میں بہت جلدی درد ہونے لگتا تھا. 
راستے میں ہی ایک جگہ روک کر ہم سب نے ظہر کی نماز ادا کری اور تھوڑا کھایا. اس جگہ سے دتہ خیل صرف ٣٠-٣٥ منٹ کی دوری پر تھا مگر راستہ ٹھیک نہیں تھا جس کی وجہہ سے ہم کو شام ہی ہو جانی تھی. ایک جگہ کچھ لوگ ہم کو روک کر کھڑے ہو گے، اکرم بھی نے ایک دفع پھر اپنی پشتو زبان میں کچھ کہا تو ان لوگوں نے کچھ ادویات کا مطالبہ کیا اور ہم نے بغیر کسی حیل حجت کے ان کو ادویات فراہم کر دی. ایسے ہمارا بھی کچھ بوجھ کم ہوا اور اطمینان بھی کے ہماری ادویات کچھ اور لوگوں کے کام آسکتی ہیں. 
عصر کی نماز کے وقت ہم دتہ خیل میں اپنے کمپ تک پہنچے، بہت زیادہ تھکے ہوۓ تھے، عدنان بھی اور باقی کارکن ہمارے لئے بہت پریشاں تھے، اکرم بھی نے جتنا جلدی ہو سکتا تھا ہمارے ساتھ پیش آے واقعات ان کو بتاۓ، ہم نے ایک بار پھر وضو کیا اور میں نے نے نماز کے بعد چاۓ کا مطالبہ کیا جو فورن پورا کر دیا گیا. کچھ دوا کھائی، ایک درد کا انجکشن لگایا اور لیٹ گیا. پتا نہیں کب کی کب میں آنکہ لگ گی.
 ١٠ -١٥ منٹ سویا ہونگا کی مغرب کی نماز کے وقت مجھ کو اٹھا دیا گیا، نماز ادا کری کھانا کھایا اور سب کے ساتھ بیٹھ گیا، آج مجھ کو میرے ہر سوال کا جواب حاصل کرنا تھا،
 "عدنان بھی ان علاقوں میں پچھلے ٢- سالوں سے فلاحی کام کر رہے ہیں، مگر اس کی وجھہ کیا ہے. کیوں وہ یہاں پڑے ہوۓ ہیں، جہاں نہ زبان اپنی ہے نہ گھر اپنا، نہ ہی لوگ اپنے، یہاں رہنے والے ہم کو پاکستانی کہتے ہیں، اور ہم ان کو پاکستانی سمجھتے ہیں، یہاں کے لوگ ہم کو کام عقل مسلمان سمجھتے ہیں اور ہم یہاں کے لوگوں کو کٹر شدت پسند مسلمان، یہاں کے لوگ امریکا کو ہمارا دوست اور اپنا دشمن سمجھتے ہیں. اور ہم امریکا کو ایک زمینی حقیقت مانتے ہوۓ اس سے روابط رکھتے ہیں. یہاں کے لوگ بلی جیسے ڈرون کو پاکستان اور امریکا کی دی ہوئی دین سمجھتے ہیں اور کم از کم میں اس کو جارحیت، مجھ کو ان سارے سوالات کے ضوابط آج ہی معلوم کرنے تھے بھلے اس کے بعد عدنان بھائی مجھ کو یہاں سے جانے کا حکم ہی دے ڈالیں."