Monday 9 April 2012

وزیرستان ڈائری: دتہ خیل میں میڈیکل کمپ

اسلام وعلیکم
ایک بار پھر دیر ہونے  پر معافی، ایک تو یہاں بجلی کے بہت مسائل ہیں پھر کچھ ذاتی ذمہ داریاں، پھر انٹرنیٹ کا موجود ہونا. یہ سب ایسے مسلے ہیں جن کی وجہہ سے ہمیشہ دیر ہو جاتی ہے. میں مزید وقت لئے بغیر اپنی ڈائری وہی سے شروع کرتا ہوں جہاں ختم کری تھی. 
"نماز عشا کے بعد میں نے سوچا تھا کے یہ حضرت یہاں رک کے میری پوری بات سنیں گے مگر ایسا نہیں ہوا ان حضرت نے ہم سے اجازت مانگی اور مجھ کو کہا کہ ہم پھر آیئں گے اور آپ سے بات کریں گے اور اسلام و علیکم کہ کر چلے گئے. 
میری رات بہت مشکل تھی، میں نے جو کچھ ان حضرات سے کہا تھا وہ کچھ ایسا تھا جو یہاں کے طالبان ٹائپ لوگوں کے لئے ٹھیک نہیں تھا. یہاں بس ایک ہی بات سنی جاتی ہے جو جہاد ہے، مگر جہاد کے مطلب شاید ہی کسی کو پتہ ہوں. اور جن کو علم ہے وہ کمزور لوگ ہیں جو ظلم، زبردستی کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے کیوں کہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ ان کے خاندان اور گھر بار سب برباد کر دے جا سکتے ہیں. یہاں میں ایک دفع پھر پاکستان کی افواج اور سلامتی کے اداروں کو خراج تحسین پیش کروں گا کے یہاں جو کچھ بھی یہ لوگ کر رہے ہیں وہ کوئی معمولی کام نہیں     ہے، الله پاک ان جوانوں کو ہمت حوصلہ صبر اور استقامت عطا فرماے - آمین.

در بدر:
اگلی صبح، نامز فجر ادا کری، ساری رات نیند بھی نہی ہے تھی، سر بھی درد کر رہا تھا اور دماغ بھی بہت بوجھل تھا عدنان بھائی نے میری dشکل یخ کر کچھ اندازہ لگایا  ہوگا تومجھ کو اپنے پاس بلا کر کہا "منصور اتنا نہ سوچو، یہ لوگ جتنے خطرناک لگتے ہیں اتنے ہیں نہیں. یہ لوگ بھی اب سوچنے  لگے ہیں کہ کیا سہی ہے اور کیا غلط مگر اپنے مستقبل کو لے کر تھوڑا پریشان اور خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں. اور تم کو جو بہتر لگتا ہے bکرو، بس جذباتی ہونے سے گریز کرو اور خود کو سادگی سے بیان کرو. الله پاک مدد کرنے والا ہے."

میں ٹیم آشیانہ کی میڈیکل ٹیم کے ساتھ دتہ خیل سے تھوڑا آگے کی جانب روانہ ہوا. یہاں ہم کو بچوں کو ادویات دینا تھی. میرا تھوڑا بہت تجربہ رہا ہے ادویات سے متعلق اپنے اسی تجربے کا آج امتحان لینا تھا.
                             "اور الله پاک بہتر مدد کرنے والا کارساز ہے."
جیسے ہی ہم نیں اپنا کمپ لگایا، کچھ عجب حلیے والے لوگ ہم سے ملنے ہے اور سب سی پہلے اکرم بھائی سے ان کی شناخت پوچھی. پھر مجھ سے میری اور ٹیم کے باقی لوگوں سے بھی معلومات کری، پہلے میں سمجھا کے یہ لوگ پاکستان کے کسی ادارے کے جوان ہیں مگر ان سب کے حلیے سے ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا.    
وہ لوگ پشتو زبان میں بات کر رہے تھے جو میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر ان کا انداز جارحانہ تھا جو  مجھ کوبالکل اچھا نہ لگا، ایک تو ہم اپنی جان جوکھم میں  ڈال کر  یہاں آے ہیں اور اپر سے ان لوگوں کا انداز، میں نے دل ہی دل میں سوچا مگر کہا کچھ نہیں. پھر اکرم بھائی نے ہم سب کو بتایا کہ یہ لوگ اس علاقے کے رکھوالے ہیں ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر یہاں کوئی کچھ نہیں کر سکتا. میں نے پوچھا اب کیا کرنا ہوگا؟ جواب ملا کہ بڑے خان سے اجازت لینی ہوگی.

عجب ماحول ہے، عجب حالات ہیں، خود کچھ کرتے نہیں، کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو کرنے نہیں دیتے، میرا دل عجیب محسوس کررہا تھا، دل چاہ رہا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے واپس چلا جاؤں مگر اب یہ بھی میرے اختیار میں نہیں. آیا اپنی مرضی سے ہوں مگر جانا یہاں کے لوگوں کی مرضی سے ہوگا. خدا خدا کر کے بڑے خان کا کوئی آدمی آیا اور ہم کو چار گھنٹے کے لئے میڈیکل کمپ لگانے کی اجازت ملی وہ بھی خان کے آدمی ہمارے سروں پر تلوار بن کر کھڑے رہے گیں. 
ہمارے ساتھ کوئی خاتون نہیں تھی اس لئے ہم کو کسی بھی خاتون کا علاج کرنے یا دوا دینے کی کی اجازت نہیں تھی. ویسے بھی خان کے ہوتے ہووے یہاں کونسی خاتوں نے آجانا تھا. ہم بچوں سے ہی شروع ہووے، اکثر بچے ٣ سے ١٤ برس کے تھے، بہت پیارے، بہت سمجھدار، مگر کوئی بچی میرا مطلب ہے لڑکی نہیں آی یہ بھی خان انکل کی مہربانی کی وجہہ سے ہی ہوا. وزیرستانی ویسے تو بہت جفاکش، نڈر اور جانباز مشہور ہیں مگر نجانے کیوں ان خان ٹائپ کے لوگوں سے خوف زدہ  ہیں. خیر، چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کے والد یا کوئی نہ کوئی رشتے دار تھا. اکثر بچوں کے ساتھ ان کے دادا یا نانا تھے، میں نے پوچھا تو پتا چلا کے اکثر کے والد علاقے میں موجود نہیں، یا پھر اس جہاد نما جنگ کے شکار ہو چکے ہیں بچوں کے دادا اپنے بیٹوں کی شدت پر بہت خوش اور مطمئن دکھے یہ ایک اور عجیب بات تھی جو مجھ کو سمجھ نہیں آرہی ہے. ایک بچے کے دادا، غلبان اکبر نام ہے ان کا، نے مجھ کو ادھر ادھر دیکھ کر پشتو میں کچھ کہا جو مجھ کو سمجھ نہیں آیا تو میں نے اکرم بھائی کو بولوا کر ان ان کی بات  سمجھنے کوکہا، اور جب بات سمجھ آی تو پتا لگا کے وہ اپنی بیٹی کے بخار کے لئے دوا مانگ رہے ہیں. میں نے اپنے ساتھ موجود ڈاکٹر شہریار سے کیفیت بتا کر دوا مانگی تو وہ مسکرا دے اور کہا iکی بھا میرے پاس ہی لوگ اسی ترہان سے دوا مانگ رہے ہیں. چلیں شکر ہے کے گھروں میں قید خواتین کو کسی نہ کسی طریقے سے دوا تو ملے. مگر بخار تو بہت سے ہوتے ہیں اور حالت یہ ہے کے خود باپ کو نہیں پتہ کی بیٹی کو کیسا بخار ہے شاید یہاں باپ بھی بیٹی کے لئے نامحرم ہوتا ہوگا. اے خدا، یہ کس راستے پر چل پڑی ہے تیری مخلوق؟
کچھ ہی دیر میں ہم قربان ٤٠ - ٥٠ بچوں سے فارغ ہو چکے تھے، اب کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا، مجھ کو پورا یقین تھا کے اب کوئی اور نہیں آنے والا تو میں نے اکرم بھائی سے کہا کے چلو واپس چلتے ہیں تو انہوں نے کچھ سوچ کے جواب دیا "بھائی ہم خان صاحب کی مرضی کےبغیرجا بھی نہیں سکتے." میرے تو تن بدن میں آگ لگ گی، کہ یہ کونسا طریقہ ہے کیا یہ بھی کراچی کے نو گو ایریا کے جیسا ہے کے آ تو گے ہو جانا مشکل ہے. توبہ ہے یار، میں نے اکرم بھائی سے کہا ایسا لگ رہا ہے کے ہم پاکستان میں نہیں کہیں اور ہی ہیں. اب صرف انتظار کرنے کے اور کچھ نہیں رہ گیا تھا اگر میں جذباتی ہوتا تو خود میرے لئے اور باقی ٹیم ممبرز کے لئے کوئی نہ کوئی پریشانی کھڑی ہو سکتی تھی. جب خان کے آدمیوں کو اندازہ ہوا کے ہم بلکل فارغ ہیں تو ہم کو کہا گیا کے اپنا سامان لپٹیں اور ان کے ساتھ چلے. کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے صرف ان کی بات ہی مانی جا سکتی تھی، ٹیم کے باقی ممبرز شاید ان سب باتوں کے عادی ہو چکے تھے میرے لئے یہ سب بلکل نیا تھا اسی لئے گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی. مجھ کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ لمبی لمبی ڈاری والے، بڑی پگڑی والے کیا کم تھے جو ابھ ان کے سردار مطلب خان صاحب سے بھی ملنا ہوگا جو نجانے کیا کیا سوال جواب کریں گے. ایک تو یہ پہاڑیاں، اپر سے ہر طرف سناٹا، سروں پر ڈرون کا خوف، زمیں پر طالبان کا خوف، یا الله یہ کیسا ملک ہے جہاں میں آزادی کے ساتھ کوئی فلاحی کام بھی نہیں کر سکتا؟ اس خوف سے تو موت ہی بھلی. پیدل چل چل کر میرا حشر نشر ہو چکا تھا، میری اک ٹانگ hپہلے  ہی معذوری سے دوچار ہے لگتا ہے یہاں پورا ہی لنگڑا ہو کر واپس جاؤں گا، اور کچھ پتہ نہیں کے جاؤں گا بھی کے نہیں. خدا خدا کر کے بڑے خان کا حجرہ نما گھر آیا، ہماری جامہ تلاشی لی گئی، شکر خدا کا کہ میرے پاس کیمرہ نہیں تھا جو میں بہت چھپا کر اپنے ساتھ یہاں تک لانے میں کامیاب ہو چکا تھا مگر عدنان بھائی نے استعمال سے سختی سے منع کر دیا تھا. ہمارا ایسا استقبال کیا گیا کے جیسے ہم کسی اور دنیا کی مخلوق ہوں، خاص کر میرے ساتھ تو الگ ہی رویہ تھا شاید میری ڈاری نہ ہونے کی وجہہ سے. ہم کو ایک کھنڈر نما کمرے میں بٹھایا گیا، جہاں سب سے پہلے پینے کے لئے پانی دیا گیا aاس dکی با وضو کا پانی اور نماز، ابھ بھوک بھی لگ پڑی تھی تو بغیر کہے کھانے کا بھی انتظام ہو چکا تھا. مگر میری ساری توجہ بڑے خان کی آمد پر تھی کے کب وہ رونق افروز ہوں اور مجھ کو ان کا دیدار نصیب ہو، میرے دماغ می بہت سوالات تھے اور مجھ کو خان صاحب سے کچھ نہ کچھ تو پوچھنا ہی تھا. اب یہاں تک آگیا ہوں تو اپنے دل کی تسلی کر کے ہی واپس جاؤں گا انجام چاہے کچھ بھی ہو. جیسے ہی کھانا لگا اک جانا  پہچانا چہرہ کمرے میں داخل ہوا میں نے تھوڑا غور سے  دیکھا تواندازہ ہوا کے ان صاحب سے ہم گزری ر ہی  ملاقات کرچکے ہیں. وہ بھی چپ چاپ کھانے میں شریک ہو گے، تھوڑا ہی دیر میں سب اچانک کھڑے ہونا شروع، میں سمجھا کے شاید یہاں کا رواج ہے کہ ایک  شخص نے کھانا ختم کر لیا تو پورا دستر خوان ہی اٹھ جاۓ، میں بھی سب کے دیکھا دیکھی کھڑا ہو گیا اور حسرت بھری نگاہوں سے دستر خوان کو دیکھنے لگا کیوں کہ  ابھی تک میرا پیٹ نہیں aبھرا تھ اور آج بہت دنوں کے بعد دستر خوان پر بہت لذیز اور عمدہ قسم کے کھانے تھے. میری شکل دیکھ کر اکرم بھائی نے کچھ اشارہ کیا جو میری سمجھ نہیں آیا. اس عجیب رواج پر بھی مجھ کو غصّہ آرہا تھا. مگر اگلے ہی لمحے ایک 35-٤٠ برس کا آدمی کمرے میں داخل ہوا، کوئی شک نہیں کے اس کی پوشاک بہت عمدہ تھی، اس نے سب کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور سب اچانک ہی ایک دفع پھر دستر خوان پر بیٹھ گے میں بھی بیٹھ گیا اور سب سے پہلے کھانے پر ہی ہاتھ صاف کرنے لگا. تھوڑا دیر میں ایک صدا آی، الحمد الاللہ. اور دسترخوان سمیٹا جانے لگا مگر میں الله کے فضل اور کرم سے اپنا پیٹ بہت اچھے سے بھر چکا تھا. ابھ اٹھاتے رہو دستر خوان. ایک بڑی بالٹی لیے گے جس میں پانی بھرا تھا اور ایک تھال نما چیز صبح بالٹی سے پانی نکلتے اور تھال میں ہاتھ دھوتے. سب کے دیکھا دیکھی میں نے بھی ایسا ہی کیا. اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگا کہ یہ آنے والا کون ہے. کیوں کے سب ہی ان کا پاس جا رہے تھے اور مصاحفہ کر کے ایک طرف نیچے ہی بیٹھ رہے تھے ایک صرف خان ہی تھے جو اونچی جگہ پر تھے باقی ہم سب ہی نیچے.  دربار سج چکا تھا، عوام اور خواص بھی موجود تھے، ہم جیسے مسافر بھی ابھ دیکھنا یہ تھا کہ بادشاہ سرکار کی اعلان کرتی ہے. اکرم بھائی نے ہم سب کا تعارف کرایا، جب میرا نمبر لگا تو ایک انجانا خوف تھا کیوں کہ گزری رات والے صاحب اور میری باتیں سب ہی ان کو پتہ ہونگی. انہوں نے اشارے سے مجھ کو اپنی طرف بولایا، میں اٹھ کے جانے لگا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مقتل میں جا رہا ہوں. میرے کندھے جھکے ہووے اور آنکھوں میں خوف تھا. کیوں کے میرے کھڑے ہوتے ہی خان کے محافظ ایک دم چوکننا ہو چکے تھے اور ان کے ایک دم جدید ہتھیار کسی بھی قسم کی غلط حرکت کا جواب دینے کے لئے ایک دم تیار. میں جیسے ہی خان صاحب کے تھوڑا قریب ہوا تو وہ اچانک کھڑے ہووے مجھ سے ہاتھ ملایا اور مجھ کو سینے سے لگا کر کہا، کیسے ہو منصور بھائی؟ ان کی اتنی صاف اردو سن کر حکا بکا تھا، کے اگلا جملہ انگریزی میں داغ دیا، How are you feeling in my area? یا الله پاک، یہ کیا ماجرا ہے، یہ کیسا خان ہے جو پشتو تو جانتا ہی ہے مگر اردو اور انگریزی بھی بہت اچھی ترہان جانتا ہے؟ میں نے ایک lزبردستی وی مسکراہٹ کہ ساتھ ان کی باتوں کا جواب اردو میں ہی دیا کہ باقی سارے لوگ بھی گواہ راہیں کہ میں کوئی بعد کلامی نہیں کر رہا، ان خانوں کا کیا پتہ کا کب پٹری سے اتر جائیں او کسی بھی بات کا فائدہ اٹھا کر مجھ کو کسی مشکل سے دو چار کر ڈالیں.
مجھ کو اپنے پاس بٹھایا مجھ سے کراچی کے حالت پوچھے، میری طبیت پوچھ گئی اور میرے یہاں آنے کا سبب پوچھا گیا. انہوں نے فرمایا، "بھی آپ کو اس ترہان در بدر کی ٹھوکریں کھا کر آخر مل کیا رہا ہے؟" شاید وہ سمجھ رہے ہو کے میں کسی پاکستانی  ادارے کا کارندہ ہوں جو یہاں جاسوسی کے مطلب سے آیا ہے، مگر  جلد ہی ماحول کافی دوستانہ ہوگا اور مغرب کی نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کی تیاری شروع کر دی گے، اب یہ بات یقینی تھی کہ آج رات ہم کو خان صاحب کے اسی حجرے نما گھر میں رکنا ہوگا. کافی دیر سے مجھ کو اکرم بھائی سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اسی لئے نماز کہ بعد ہی میں نے ان سے اپنے سارے شکوک کہ اظھار کر دیا. وہ بھی کچھ پریشان تھے مگر مجھ کو اچھی ترہان تسلی دی کے ہم جیسا سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہوگا،انشا الله.
مغرب کی نماز کہ بعد ہی خان صاحب ایک دفع پھر ہمارے درمیان تھے ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کے وہ بہت جلدی میں ہمارے بڑے میں سب کچھ جان لینا iچاہتے ہن، ہر بات کہ سوال اور میرے ہر جواب میں سے پھر ایک نیا سوال. کافی دیر ہونے کے بعد انہوں نے ہم کو اجازت دی کے اگر آرام کرنا چاہتے ہیں تو کریں نہیں تو نماز عشاء کے بعد کھانا کھاتے ہیں اور بیٹھتے ہیں. میں نے تو لیٹنے کو ہی ترجیح دی، آج سارا دیں آرام کہاں ملا اور دماغ تو بہت بری ترہان الجھا ہوا ہی تھا.  
سہی کہا تھا خان صاحب نے کے میرے اس ترہان در بدر پھرنے سے آخر حاصل کیا ہو رہا ہے، یہ سوال کہ جواب اب مجھکو بھی معلوم کرنا ہے.  


دوستوں یہاں تک کہ حال تو لکھ ڈالاہے. آگے بھی انشا الله ضرور لکھوں گا. آپ لوگ  میری ڈائری کو ایک کہانی نہیں حقیقت سمجھ کر ہی پڑھیں، کیوں کہ وزیرستان جیسے علاقے میں خود وہاں کے لوگوں کے لئے جو خطرات ہیں اس سے کہی زیادہ ہم جیسے سوشل ورکر کے لئے بھی بہت مشکلات ہیں. ALLAH پاک ہم سب کو ہمت حوصلہ اور صبر عطا کرے، آمین.
اپنی آرہ سے آگاہ کرنے کے لئے مجھ کو لکھے :
waziristandairy@gmail.com
mansoorahmed.aaj@gmail.com
team.ashiyana@gmail.com
جزاک الله خیر
آپ کہ بھائی.