Thursday 12 April 2012

Childrens of D'tta Khel "North Waziristan"

اسلام و علیکم، کل جہاں ختم کیا تھا آج وہی سے شروع کر رہا ہوں. مگر اس سے پہلے میں اپنے دوستوں، ٹیم آشیانہ کے ممبرز اور سب پڑھنے والوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نی میری حوصلہ افزائی کری اور مجھ کو مزید لکھنے کا حوصلہ دیا. ساتھ ہی میں ٹیم آشیانہ کے لئے دعا کرتا ہوں کے الله پاک تمام ساتھیوں کو ہمت صبر اور حوصلہ اتا فرماے آمین.

مغرب کی نماز کے بعد میں نے عدنان بھائی کے سامنے اپنی بات رکھی اور ان سے کہا بھی کہ مجھ کو میرے سوالوں کے جواب چاہیے، آخر آپ کو اپنا گھر چھوڑ کر، زندگی کے آرام چھوڑ کر یہاں مل کیا رہا ہے؟ جو ایسے لوگوں کے درمیان کام کر رہے ہو جو نہ کسی کی سنتے ہیں نہ مانتے ہیں الٹا آپ لوگوں کی جانیں اور زندگیاں ہمیشہ خطروں سے گھری رہتی ہیں. جواب میں عدنان بھائی نے کہا " بھائی منصور، بہت ساری وجوہات ہیں میں آج رات انشا الله عشا کی نماز کے بعد صبح کچھ تفصیل سے بتاؤں گا، فلحال آپ کچھ دور موجود بچوں کے پاس جائیں اور ان سے باتیں کریں، ان کا ذہن کو آزمائیں، اور ان میں تعلیم کا شعور جگانے کی کوشش کریں."
ایک طرف میرا الجھا ہوا ذہن، دوسری طرف بچے اور ایک طرف ٹیم آشیانہ کے باقی ممبرز کل ایک اور لگاۓ جانے والے میڈیکل کمپ کی تیاری میں تھے، کہیں ادویات کی جانچ پڑتال ہو رہی تھی، کہیں ادویات کو الگ الگ ڈبوں میں رکھا جا رہا تھا، جو ادویات موجود تھی ان کی فہرست بنائی جا رہی تھی اور جو نہیں تھی ان کے لئے ڈیمانڈ کی فہرست. ایک اور طرف کچھ مقامی لوگ بچوں اور بڑوں کے کپڑوں کو ترتیب سے رکھ رہے تھے (مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ، عطیات میں ملنے والے کپڑے اکثر ایسے تھے جو پہننے کے قبل نہیں تھے.) میں یہ سب ہوتا دیکھتے ہوے بچوں کی طرف بڑھ گیا.  
جب انسان کا ذہن کہی اور الجھا ہوا ہو تو کسی دوسرے کم میں دل کا لگنا نہ ممکن ہے، ممکن ہے میرے کھیلت کی وجہہ سے کچھ دوست مجھ کو پرو امریکن یا ماڈرن اسلام کے خیالات رکھنے والا سمجھتے ہوں مگر حقیقت میں میں ایسا نہیں ہوں، میں جو بھی دیکھتا ہوں اس کو عقل اور علم کی کسوٹی پر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، منافقت سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں، جبہ کوئی بات سمجھ آتی تو سیدھے سے پوچھنے پر ہی اسرار کرتا ہوں، شاید اسی لئے میرے اکثر دوست اور احباب مجھ کو پکاؤ یا پروفیسر کے نام سے مجھ کو یاد رکھتے ہیں. 
خیر، بچوں کے پاس گیا تو بچے جو کچھ کھیل کھیلنے میں مصروف تھے میری طرف متوجہ ہو گئے، میں نے سب کو بہت پیار اور خلوص سے سلام کیا جس کا جواب مجھ کو ہر بچے نے دیا اور پھر سارے بچوں سے خوش دلی کے ساتھ ہاتھ ملایا. یہی کوئی 1٠ - ١٢ بچے ہونگے جن کی عمریں، ٩-١٤ برس کی تھی. سب ہی بچے بہت پرانے کپڑوں میں تھے اور بال بھی دھول مٹی میں ہو رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کے جیسے ہفتوں سے نہایا ہی نہ ہوں. میں نے سوچا کا تعلیم کا کیا پوچھو اور کہوں، پہلے ان بچوں کو صفائی کی تلقین کرنا ضروری ہے. ابہ دوسرا مثلا ووہی زبان کا تھا، میری پشتو نہیں تھی اور اکثر بچے اردو سے نابلد . میں نے آواز لگا کر اکرم بھائی جو کے کسی حساب کتاب میں مصروف تھے بولیا تو انہوں نے آکر میری  بات سنی اور ایک دوسرے مقامی لڑکے کو میرے ساتھ بیٹھا دیا جو میری بات کو سن کر بچوں تہ اور بچوں کی بات مجھ تک پہنچا رہا تھا. میری بچو سے گفتگو شروع ہوئی تو بچوں کے دماغ میں بھی بہت سوال تھے اور یہ بچے بہت بے باک ہو کر بات کر رہے تھے. میں بچوں کے سوالات سے پریشان ہوا کیوں کہ بہت ساری باتوں کے جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھے. ایک بچے نے مجھ سے پوچھا، "دہشت گری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا ہم بھی دہشت گرد ہیں؟" میں نے اپنے انداز میں کوشش کری سمجھنے کی مگر صاف لگ رہا تھا کے بچے میری بات سمجھ نہیں رہے تھے یا مطمئن نہیں تھے، میں نے اپنے ساتھی کی مدد سے بچوں کو تعلیم اور اس کی اہمیت بتانا شروع کری تو ایک بچے نے جواب دیا، "یہاں سکول کہاں ہے؟ یہاں تو مدرسہ ہے جہاں ہم روز جاتے ہیں." اور جب میں نیں پوچھا کے مدرسوں میں کیا پڑھاتے ہیں تو جواب ملا "دین کی تعلیم". عجیب معملات ہیں، الجھن پر الجھن ہی ہوتی جا رہی ہے. کہاں سے شروع کروں اور کیا شروع کروں میں خود بہت الجھ کر رہ گیا تھا، یہاں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی دین کے بارے میں کوئی بھی بات سننے یا سمجھنے کو تیار نہیں تھے، ان کے لئے ان کے بڑوں کی باتیں، اور مولانا کا سکھایا ہوا سبق ہی دین ہے.  
میں نے کچھ باتیں اور کری، بچوں کے مسائل معلوم کرنے کی کوشش کری، بچوں کی خواہش معلوم کرنے کی کوشش کری اور وہاں سے اٹھ کر پھر سے کمپ میں آگیا. اور بچوں سے ہوئی ساری باتوں پر غور کرنا شروع کیا.
میں بہت زیادہ الجھ گیا تھا اور ابہ میرا دل کر رہا تھا کے یہاں سے چلا جاؤں، کیا فائدہ یہاں روکنے کا جہاں روک کر جن کو بھی خطرہ اور عزت کو بھی خطرہ. 
میں نے آج رات ہی ٹیم آشیانہ کے ممبرز سے بات کرنے کا فیصلہ کیا.