Monday 16 April 2012

وزیرستان ڈائری: بلال محسود سے ایک ملاقات اور ٹیم آشیانہ کا دتہ خیل میں میڈیکل کمپ

اسلام و علیکم،
آج کا صفحہ، 
پتہ نہیں کہ یہ ڈرون آنے کا ڈر تھا یا موت کا خوف مجھ کو بہت پسینے آرہے تھے، موسم ٹھنڈا تھا مگر پھر بھی دل بہت زیادہ ہی گھبرا رہا تھا، آج مجھ کو امی کی یاد بہت آرہی تھی، مجھ کو جب بھی کوئی خوف، ڈر یا گھبراہٹ ہوتی ہے تو میں امی کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور وہ مجھ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر دم کر دیتی ہنی جس سے دل کو بہت اطمینان ملتا ہے. مگر آج یہاں امی بھی نہیں اور پتہ نہیں کیوں دل بیٹھا جا رہا ہے، پھر وہ آواز جو تھوڑا پہلے سنائی دی تھی دوبارہ آی، "بھائی آپ کراچی سے آے ہو نا؟" میں نی اندھیرے میں آنکھیں پھر پھر کر دیکھنے کی بھرپور کوشش کری مگر ناکام رہا، پھر دوبارہ آواز آی، "بھائی؟" خدا کی قسم اس آواز میں ایک عجیب سی کشش، ایک پیغام تھا، ایک التجا تھی، صرف ایک لفظ "بھائی" جس محبت اور خلوص سے کہا تھا اس نے میرے دل کو دہلا دیا تھا، میں نے بھی اپنا ایک بھائی کراچی میں کھو دیا تھا اور بھائی کی اہمیت سے بہت اچھی ترہان واقف تھا. میں نے جوابن آواز لگائی، جی میں یہاں ہی ہوں آپ کون؟ تو اک ہاتھ میری طرف بڑھا اور میں نے بھی ہاتھ بڑھایا، وہ لڑکا کوئی ١٣-١٤ برس کا ہوگا، اندھیرے کی وجہہ سے چہرہ صاف نظر نہیںآرہا تھا مگر اس بچے کے ہاتھ بہت بری طرھ کانپ رہے تھے، بچے کو بخار بھی تھا. ہم کو اس سرنگ میں زور سے آواز نکلنے کی بھی کوئی اجازت نہیں تھی. میں سب کچھ بھول بھال کر اس بچے کی طرف متوجہ ہو گیا. میں نے ہلکی آواز میں بچے کا نام پوچھا تو اس نے کہا "میرا نام بلال محسود ہے". بچہ بہت اچھی اور سہی اردو بول رہا تھا. لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ کوئی وزیری بچہ ہے. محسود نام کے اندر ایک الگ خوف اور دہشت ہے. مگر اس بچے کی حالات دیکھ کر میں نے محسود کا نام بھول کر بلال ہی پر توجہ دی. اس بچے نے بتایا کہ،
 " بھائی، یہاں تو ہر روز کا یہی معمول ہے، کوئی رات ایسی نہیں جس میں ڈرون یا فوج کے حملے کا ڈر نہ ہو. ہر رات ہم اپنی زندگی کی آخری رات سمجھ کر گزارتے ہیں. ہم دیں میں صرف ایک دفع کھانا کھاتے ہیں وہ بھی اگر نہ ملے تو کسی سے کوئی شکایات نہیں کرتے، یہاں ہمارے کرنے کی لئے کچھ نہیں، صرف اتنا کی پاکستانی فورسس کا انتظار کریں یا پھر ڈرون کا. میرا بھائی، اور باپ اس جنگ میں مارا گیا، میری بہن آدھی پاگل ہو چکی ہے، رہنے کو گھر نہیں ہے، میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کبھی ادھر کبھی ادھر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بڑے ملا (مولانا) سے کہ کر جہاد پر چلا جاؤں، مگر اپنی ماں اور بہن کو دیکھتا ہوں تو رک جاتا ہوں، آپ کراچی سے آے ہو، کیا آپ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلو گے؟ میری ماں اور میں آپ کے گھر کا سارا کام کریں گے، آپ کو کسی بھی شکایات کا موقع نہیں دیں گے، بس آپ ہم کو ٢ وقت کی روٹی دے دینا میں ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوں بس میری ماں اور بہن کی کوئی زمیداری لے لے. بھائی ہم خود بھی شہر جانا چاہتے ہیں، مگر یہاں کے لوگ ہم کو ڈرا دیتے ہیں کے شہر میں جو گے تو وہاں کوئی تم کو جینے نہیں دے گا، تم محسود ہو، تم وزیرستانی ہو، کبھی پولیس تم کو تنگ کرے گی کبھی خفیہ والے، اور خود شہر والے تم کو قبول نہیں کرے گے. بھی، کیا ہم لوگ انسان نہیں ہیں؟ کیا ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ بس مجھ کو اپنی بہن اور ماں کی فکر ہے اور کسی کی نہیں. کوئی میری ماں اور بہن کو سمبھال لے میں خود کو بیچنے تک کو تیار ہوں."
اس بچے کی باتیں ختم نہیں ہو رہی تھی اور میں اپنی سوچ میں کے میں اسس بچے کے لئے کیا کر سکتا ہوں، یہ میں بھی جانتا تھا کی فلحال کراچی کے کسی بھی شہر میں اس بچے یا اس کی فمیلی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی. میں بھی اگر کچھ کروں تو کیا کروں؟ میں نے اسس معاملے میں عدنان بھائی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، تھوڑا ہی دیر بعد ایک صاحب اندر آے اور پشتو میں کچھ کہا، جس کے جواب میں سب نیں الحمد الالله کہا میں نے بھی کہا اور آہستہ آہستہ ہم اس سرنگ سے باہر نکلنا شروع ہووے، وہ بچہ میرے ساتھ ہی تھا، جبہ ہم باہر آے تو وہ بچہ جس کا قد تقریبن ٥ یا ساڑھے ٥ فٹ ہوگا، میرے گلے لگ گیا، اور رونے لگا، میں نے اس کو ہمت دلانے کی کوشش کری تو اس بچے نے مجھ کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا وہ مجھ کو اپنی ماں اور بہن سے ملوانا چاہتا تھا. مگر عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کی طرف سے سختی سے یہ ہدایت تھی کی کسی بھی صورت میں خواتین کے قریب نہ جانا، یہاں پردے کا قانون بہت سخت ہے، جس کی سزا دونوں مرد اور عورت کو ملتی ہے . میں نے اس کو منا کرنے کی پوری کوشش کری مگر اس بچے نے میرے ہاتھ کچھ اس انداز میں پکڑا ہوا تھا کہ میں چاہ کر بھی چھڑا نہیں پا رہا تھا. میں ان سب کے لئے بلکل تیار نہیں تھا. میں نے اس کو کہا کا عدنان بھائی کو اطلاع تو کر دوں، پھر وہ راضی ہوا، ہم دونوں ہی عدنان بھائی کو تلاش کرتے ہوے ان تک پہنچے اور اپنا مقصد ان کے سامنے رکھا. عدنان بھائی نے اشارے سے مجھ کو ایک طرف بولا کر ایک دفع پھر احتیاط سے کام لینے کو کہا، جس کی حامی میں پہلے بھی بھر چکا تھا. عدنان بھائی نے کہا کہ، جو کرو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر، یہ بچہ دیکھا بھلا ہے اور کسی ایک ٹھکانے پر نہیں رہتا. مطلب کے اسس کا کوئی گھر نہیں ہے، ہاں اس کی ماں اور بہن کو ہم جبہ بھی موجود ہوتا ہے کھانا اور دوا دیتے رہتے ہیں. مگر یہ بچہ کچھ نہیں لیتا. صرف اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کہی نہ کہی موجود رہتا ہے. میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر عدنان بھائی سمجھانا کیا چاہ رہے تھے. میں تو انجانے میں بلال محسود پر پورا بھروسہ اور یقین کر بیٹھا تھا، کیوں کے اس کے لہجے میں کہی بھی جھوٹ یار مکر اور فریب نظر نہیں آرہا تھا. پھر آخر ایسی کیا بات تھی جو عدنان بھائی مجھ کو بتانا بھی چاہ رہے تھے مگر بتا بھی نہیں رہے تھے. خیر، میں نے بچے کو کہا کی صبح انشا الله ساتھ چلیں گے ابھی آپ جہاں ہو وہی جو. بچہ بھی کچھ نہ کچھ سمجھ گیا تھا سر جھکا کر ایک طرف کو چلا گیا. مجھ کو میرے خیمے میں جانے کا کہا گیا اور میں بھی سر جھکا کر خیمے میں اکر بیٹھ گیا، نیند تو کب کی اڑھ چکی تھی، صبح ہونے کے قریب تھی.  پھر بھی لیٹ گیا مگر نیند نہیں آی. " یہ بھی کیا زندگی ہے نہ دن کا پتہ ہے نہ رات کی خبر، نہ جینے کی کوئی امنگ، نہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ، بس ڈر اور خوف. کوئی اپنا نہیں تو بہار والا آکر مار جاۓ گا، میں نے بہت سوچ سمجھ لینے کا بعد صبح بلال محسود کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا اور نماز فجر میں ٹیم آشیانہ کو بتا بھی دیا، جس پر سب ہی نے مجھ کو احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کری، میں نے بھی جوابن کہا کا میں کونسا رات کے اندھیرے میں جا رہا ہوں، دن کا اجالا ہے اور یہی قریب ہی کہی رہتا ہے. میں اس کا رہن سہن دیکھ کر آجاؤں گا. تا کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تو ہو سکے. اگر ڈرتا رہوں گا تو یہاں کے صحیح حالت اور لوگوں کو سمجھ کیسے سکوں گا؟" سب ہی نے میری بات سے اتفاق کیا اور ایک اور مقامی لڑکے کو ہدایت دی کے وہ میرے ساتھ رہے گا، بلال بھی فجر کی نامز میں ہمارے ساتھ موجود تھا اور ہمارے ہی ساتھ ناشتہ کر کہ اپنی ماں اور بہن کے لئے ناشتہ لے کر ہم سب ہی نکل پڑے، آج ٹیم آشیانہ نے اپنا کمپ یہی دتہ خیل میں لگایا جہاں بچوں اور خواتین کے لئے ایک ڈاکٹر صاحبہ کہ انتظام بھی ہے اور ادویات بھی فراہم کی جانی ہیں.