Monday 16 April 2012

دتہ خیل کہ مصروف دن


جب ہم بلال محسود کے ساتھ روانہ ہوے تو عدنان بھائی کی دی ہوئی ہدایت بھی میرے دماغ میں تھیں، اور بلال محسود کی باتیں بھی بار بار میرے ذہن میں گونج رہی تھی. میں اور ٹیم آشیانہ کا ایک مقامی ساتھی اور بلال محسود، ٹیم آشیانہ کے لگائے ہوے میڈیکل کمپ سے آگے کی جانب بڑھنے لگے، ہم کو زیادہ دور نہیں جانا پڑا. دتہ خیل کوئی بہت برا شہر یا قصبہ نہیں ہے، بہت معمولی سی آبادی ہے جو قریب قریب ہی مقیم ہے، ڈرون حملوں کی وجہہ سے یا وزیرستان کے حالات کی وجہہ سے اس جگہ کے لوگ مختلف علاقوں میں چلے گئے ہیں، یہاں صرف وہی لوگ رہ گے ہیں جو کسی مجبوری کی وجہہ سے کہی اور منتقل نہیں ہو سکے ہیں. یہاں کے معاشی حالات کا کچھ پتا نہیں کیوں کے نہ ہی کاروبار ہے نہ ہی یہاں کاشتکاری کا کوئی نظام، بس اگر ہے تو صرف اتنا کا یہاں کے جو لوگ شہروں میں مقیم ہیں وہ یہاں کے لوگوں (اپنے رشتے داروں) کے لئے کچھ کھانے پینے کی اشیا بھیج دیتے ہیں، یا پھر کوئی مقامی بڑا انسان یہاں کے مقامی لوگوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کر دیتا ہے. غربت، بیروزگاری، معاشی تنگی اور اس نام نہاد جنگ کی وجہہ سے یہاں کے لوگ بہت ہی بری حالات میں ہیں، نہ ہی گیس ہے نہ ہی ایندھن کی فراہمی کا کوئی معقول انتظام، بجلی کا تو شاید یہاں کے لوگ نام یا استعمال جانتے ہی ہوں. غیر کیا ہیں، بس حجرے ٹائپ کی چہار دیواریں ہیں، جن میں شاید ایک چھوٹا کمرہ باقی کھلی جگہ ہے. خواتین کو سخت ترین پردے میں رکھا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ ١٣ - ١٤ برس کی بچوں کو بھی باہر بغیر پردے کے آنے کی کوئی اجازت نہیں ہے. دوسری طرف مرد (خاندان کے سرپرست) اس علاقے میں موجود نہیں ہیں یا تو وہ دوسرے شہروں کی طرف چلے گے ہیں یا صرف ویسے ہی ہیں جو کہی بھی جانے سے معذور ہیں. سڑک یا پکی گلی کا کوئی تصور نہیں، بس آڑی سیدھی راستے ہیں جن سے گزر کے جانا ہوتا ہے، اگر غور سے دیکھا جاۓ تو ڈرون حملوں کی کہانیاں بھی صاف صاف نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں. ہم بلال محسود کے ساتھ چلتے چلتے دتہ خیل کے آخری مقام تک آگے جہاں سے آگے جانا میرے لئے منع تھا. یہی ایک طرف ایک چھوٹا سا ٹنٹ لگا ہوا تھا جس کے باہر ایک مقامی عورت بہت ہی گندے لباس میں بیٹھی ہوئی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اندر بھی کسی کے موجود ہونے کا احساس ہو رہا تھا. میں نے آگے بڑھ کر ان خاتون کو سلام کیا خاتون نے جیسے ہی مجھ کو دیکھا ایک دم سے اٹھ کر پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا جو میری سمجھ نہیں آرہا تھا، مجھ کو ایک دفع پھر سے پشتو زبان کے سمجھ نہ آنے پر خود پر ملال کیا، بلال نے بتایا کے بھی، میری ماں شکوہ کر رہی ہے کے میرا باپ (والد) اور بھائی ایک ڈرون حملے میں مارے گے، اور ایسے وقت مارے گے جب وہ ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے گے تھے. اب میں کیسے سمجھوں کے ڈرون کو جو ہدایت دی جاتی ہیں وہ اسی پر عمل کرتے ہیں. قصور کس کا ہے؟ کچھ پتہ نہیں مگر جہاں ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے وہاں بہت سارے  معصوم اور بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں. کاش، ہمارے ملک کے خفیہ ادارے اتنے طاقتور ہو جائیں کے ایسے حملوں میں صرف دہشت گرد ہی مارے جائیں. میں نے ایک دفع پھر بلال محسود سے اظہار افسوس کیا، بلال ٹینٹ کی اندر گیا اور اپنی ماں کو واپس لیا، ساتھ ہی وہ اپنی ماں کو پشتو میں کچھ سمجھا بھی رہا تھا. میں نے بلال سے جو ناشتہ ہم ساتھ لیے تھے وہ لیا اور اس کو پلیٹ لانے کو کہا، اس نے مسکرا کر کہا "بھائی ہم صرف ٹینٹ اور کچھ کپڑے ہی رکھتے ہیں باقی اور کچھ نہیں." الله اکبر، الله اکبر، کراچی میں صرف میرے ہی غیر میں پتہ نہیں کتنے برتن ہوتے ہیں، ہر فرد کا الگ گلاس جس میں پانی پینا ہوتا ہے، ٣ وقت کے خانے کے لئے الگ الگ پکوان، مہینے بھر کا راشن، گرمی سے بچنے کے لئے ہر کمرے میں پنکھنے اور بلب، سوئی کے لئے موٹر سائیکل، اور جانے کیا کیا سہولیات اور ایک بلال کا گھر ہے کہاں کھانے کے لئے برتن تک نہیں، یا الله، یہ ہم کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم کس غفلت میں ہیں؟ یہ وہ مذھب نہیں جس کی تربیت ہمارے نبی نے ہم کو دی تھی، اور جس کے لئے قرآن پاک اتارا گیا. میں نے اپنی ساری ہمت جمع کری اور کہا "بلال اپنی امی اور بہن کو یہ کھانا کھلا دو" اس نے پشتو میں اپنی امی کو کچھ کہا تو اس کی ماں نے وہ کھانے والی تھیلیاں لے کر اپنی بیٹی کو آواز دی اور ایک خوشی کے اظہار کے ساتھ ٹینٹ کے اندر کی جانب چلی گئی. میں بلال کے ساتھ باہر ہی بیٹھ گیا، اور بلال سے مزید جاننے کی کوشش کرنے لگا. بلال نے جو کچھ مجھ کو بتایا وہ صبح بہت تکلف دینے والا اور دکھوں سے بھرا ہوا تھا. بس اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بلال کے بھائی اور والد کو دفنایا گیا تو ان کی لاشوں پر کفن تک نہ تھا. آج یہ ڈائری لکھتے ہوے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں. میری سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں، کراچی میں رہتے ہوے ان حالات کے بارے میں ہم کو کچھ نہیں پتہ تھا ہم تو بس سمجھتے تھے کہ وزیرستان دہشت گردوں کو پیدا کرنے والی اور تربیت دینے والی کسی جگہ کا نام ہے جہاں کے رہنے والے خود بھی ان سب کے ذمہ دار ہیں. مگر آج بلال کے خاندان سے مل کر بہت کچھ اندازہ ہو گیا، اور خود پر شرم آنے لگی. اور اب عدنان بھائی کے یہاں ہونے کا مقصد اور مطلب بھی سمجھ آنے لگا. میں نے بلال سے پوچھا کہ تم کو بخار ہے؟ جواب میں اس نے کہا ہاں بھائی اکثر ہو جاتا ہے.مگر میں ٹھیک ہوں. میں نے کچھ اور وقت یہاں بلال کے ساتھ گزارا، بلال کو جاننے والے کچھ اور لوگ بھی ادھر سے گزرتے وقت سلام کرتے اور حال پوچھتے جا رہے تھے. میں نے بلال کو ہمت دلائی، کچھ دیر بعد بلال کی والدہ ٹینٹ سے باہر ہے اور کہا کا اس کی بہن بہت خوش ہے. میں نے خاص کر اپنے ساتھ لاے ہووے بسکٹ بھی بلال کو دے تھے جو اس کی بہن کو پسند آئے تھے. بلال کی ماں نے اپنا روپٹہ اٹھا کر ہم کو بہت دعا دی، میرے اور میرے ساتھی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک دفع پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر آسمان کی طرف بیٹھ گئی. مجھ کو ان کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں لگ رہی تھی. ہم سب خاموشی سے واپس ٹیم آشیانہ کے میڈیکل کمپ کی طرف آگئے. ہماری واپسی میں کوئی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگا ہوگا، ادھر ٹیم آشیانہ کے سارے کارکن میڈیکل کمپ میں مصروف تھے، میںبھی عدنان بھائی کو سب خیر کی خبر دی کر اپنے حصے کے کام میں لگ گیا. آج میرا کام بیمار بچوں اور بزرگوں کو دو دینے کا تھا جو کے ڈاکٹر صاحبہ تجویز کر کے ایک پرچے پر تحریر کر رہی تھی. میں نے کیوں کا اس سامان کی پیکنگ میں حصہ لیا تھا تو اچھی ترہان علم تھا کہ کون سی دوا کہاں رکھی ہے. آج میڈیکل کمپ میں رش بھی کہیں زیادہ تھا.پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ آج کے کیمپ میں آرہے تھے، بلال اور ایک دوسرے ساتھی بھی میرے ساتھ ہی تھے، میں ایک جگا بیٹھ کر صرف ہدایات دے رہا تھا اور میرا ساتھی اور بلال ڈبوں میں سے دوا نکال کر مریضوں کو دے رہے تھے. ان سب میں ظہر کی نماز کہ وقت ہوا اور صبح کچھ جیسے تھم سا گیا. میں بھی اٹھ کر نماز کی تیاریوں میں لگ گیا، نماز کے بعد دال چاول کھانے کو ملا. اور اک دفع پھر کیمپ کی کروائی شروع ہو گی. بلال بہت خامشی اور اچھے طریقے سے اپنا کام کر رہا تھا. میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ تم اتنی اچھی اردو کیسے بول لیتے ہو؟ تو جواب ملا، کہ عدنان بھائی اکثر شام میں یہاں اردو پڑھاتے ہیں اور کچھ اچھی باتیں بتاتے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ سیکھ لیتے ہیں. میں نے دل ہی دل میں عدنان بھائی کی تعریف کری. اور مسکرا دیا، ٣ بجے کے لگ بھگ عدنان بھائی کہ بلاوا آیا، میں چونکا ضرور مگر اٹھ کر ان کی طرف گیا وہ ایک طرف گم سم سے کھڑے ہوے تھے، "معاملہ کچھ سنگین لگتا ہے" میں نے دل میں سوچا اور کہا جی عدنان بھائی؟ حکم؟ انہوں نے مجھ کو دیکھا اور کہا کہ یہاں ٣ خواتین اسی ہیں جن کو بچا ہونے والا ہے مگر تینوں ہی کی حالت ایسی نہیں کی ہم اس میڈیکل کیمپ میں کچھ کر سکیں، ان کو شہر یا کسی اسپتال کی ضرورت ہے. یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ میں بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا. میں نے کہا بھائی تو اب کیا ہوگا؟ یہی میں سوچ رہا ہوں کے اب کیا کیا جاۓ؟ زیادہ سے زیادہ ایک دیں اور رکا جا سکتا تھا. میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحبہ کیا فرما رہی ہیں؟ ان کہ جواب بہت مایوس کرنے والا تھا، کیوں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماملے میں پہلے ہی معذرت کر لی تھی. میں اور عدنان بھائی ایک طرف بیٹھ گے، کی ایک بچہ پیغام لے کر آیا جو کہ ایک پرچے پر لکھا تھا، فریال باجی جب سے یہاں آیی تھی میں نے ان کو دیکھا نہیں تھا یہ پیغام انہوں نے بھیجا تھا کہ میرے یہاں آجانے فارغ ہونے والے مریضوں کو دوا نہیں مل رہی تھی. عدنان بھائی نے مجھ کو واپس جانے کو کہا اور کہا "الله ملک ہے." میں بھی دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ الله پاک کوئی راستہ دکھا، جس سے ہم اس مشکل سے نکل سکیں. میں واپس اپنی جگہ آیا اور اپنے ساتھیوں کو دوا دینے کی ہدایات دینے لگا. مگر دل میں وہی چل رہا تھا جو عدنان بھائی نے بتایا تھا. میرے دل میں ایک اور خیال آیا اور میں نے ایک پرچی پر لکھ کر عدنان بھائی کو اپنا پیغام بھجوایا، جواب  بھی آگیا، لکھا تھا کی یہاں کی لوگ آرمی والوں کی مدد لینا ہی نہیں چاہتے؟ مگر کیوں؟ میران شاہ بہت دور نہیں اور اگر آرمی کی کوئی گری مل جاتی ہے تو ان تینوں خواتین کو میران شاہ پہنچایا جا سکتا ہے. میں نے ایک دفع پھر ایک مقامی ساتھی کو کچھ ہدایات دیں اور عدنان بھی کی طرف جا کر ان سے بات کری انہوں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کر کی دیکھتا ہوں. آپ اپنا کام جاری رکھیں، بلال نے جب مجھ کو کچھ پریشان دیکھا تو پوچھا کیا کہ بات ہے بھائی؟ میں نے اس کو ساری بات بتا ڈالی. اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا بھائی یہاں کچھ عورتیں ہیں جو یہ کام کرتی ہیں اگر آپ کہو تو میں بات کروں؟ میں نے کہا یہ گھر کا نہیں اسپتال کہ معاملہ ہے اس نے کہا کی اگر اسپتال نہیں گے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا. میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کو اجازت دی کہ اگر کوئی اس معاملے میں کام آسکتا ہے تو یہ اچھی بات ہے. آج بہت رش تھا اور زیادہ تر مریض بچے یا خواتین ہی تھے، جو بچوں کی ہاتھ دوا منگوا رہی تھیں، خوشی اس بات کی تھی کہ آج بہت لوگ ہے تھے، مریضوں میں بخار، فلو، نزلہ، گلے کی بیماری کی علاوہ پیٹ کی بیماری والے مریض بھی تھے، ادھر ہماری دواؤں کہ ذخیرہ بھی کام ہوتا جا رہا تھا. کچھ وقت کی لئے تو ایسا رش لگا کی محسوس ہونے لگا کہ جیسے ابھی ساری ادویات ختم ہو جائے گی. بلال کو گئے کافی دیر ہو چکی تھی وہ واپس نہیں آیا تھا. ادھر شام ہونے کو تھی اور رش بھی کچھ کام ہونے لگا تھا. مجھ کو ایک دفع پھر عدنان بھائی  کا پیغام ملا کہ ابھی ملو، یہ پیغام بھی ایک پرچی پر لکھا آیا تھا، میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کراچی میں تو بس موبائل پر میسج کر کے سارے کام ہو جاتے ہیں یاں پرچی کے ساتھ ایک بندہ بھی چاہیے. میں پھر عدنان بھائی کی طرف گیا تو وہاں بلال بھی کھڑا ہوا تھا، پتہ لگا کہ وہ ایک خاتوں کو اپنے ساتھ لایا ہے جو اس علاقے میں زچگی کے کاموں کے لئے مشہور ہیں. میں نے دل ہی دل میں دعا کری کے الله پاک کوئی آسانی کہ راستہ نکالے. تھوڑا دیر وہی کھڑا رہا تو پتہ لگا کہ ان خاتوں نے ٢ خواتین کے معاملے میں تو ہاں کر دی ہے کہ وہ کیس دیکھ لیں گی مگر ایک اور خاتوں کہ معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے جو آسانی سے حال ہوتا نظر نہیں آتا. عدنان بھائی اور میں نے الله پاک کا شکر ادا کیا کہ کچھ تو راستہ نظر آیا، انشا الله آگے بھی کچھ بہتری ہوگی. پھر بھی عدنان بھائی کو کہا کہ آپ آرمی والوں سے رابطہ کر کے دیکھو. شاید کچھ بات بن جاۓ، عدنان بھائی نے ایک دفع پھر مجھ کو میری جگہ جانے کی ہدایت دی اور خود دوسری طرف چلے گے.
جب تک میں اپنی جگہ واپس آیا وہاں کچھ لوگ جمع تھے جو دوا لینے کے لئے ایک قطار میں کھڑے ہوے تھے، میں نے جلدی جلدی دوا دینے کہ عمل شروع کیا اور جیسے ہی کیمپ کے ختم ہونے کہ وقت ہوا باقی بچا ہوا سامان ترتیب سے رکھنے لگا. اور دوسرے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا، بلال ابھی تک ہمارے ساتھ ہی لگا ہوا تھا. کام کے ساتھ ساتھ بلال مجھ سے کراچی کی زندگی، تعلیم اور دوسرے معملات پر بات بھی کر رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کے وہ بہت جلدی جلدی سب کچھ جان لینا چاہتا ہو. .  . میں بھی اس کو ہر بات بہت طریقے سے اور آسان طریقے سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا. 
عصر کی نماز کہ اعلان ہوا اور ہم اپنا سامان سمیٹ کر واپس آشیانہ کیمپ کی طرف آگئے. یہاں یہ بتا دوں کہ آشیانہ کیمپ کوئی ترتیب وار یا ڈھنگ کہ کیمپ نہیں ہے بس ایک جگہ پر ٹیم آشیانہ کو رکنے کی اجازت دی گئی ہے جہاں ٹیم آشیانہ اپنا سامان رکھ کر بیٹھ گئی ہے یہاں صرف چار (٤) ٹینٹ ہیں جن میں سے ایک میں امدادی سامان کو رکھا گیا ہے باقی تین میں رکنے اور کھانے پینے کہ سامان. ٹیم کے اکثر ساتھی مقامی ہیں جو خود ہی صبح آجاتے ہیں اور ہدایات لے کر کام میں لگ جاتے ہیں، فریال باجی یہاں آکر یہاں کی عورتوں کے ساتھ مل جاتی ہیں اور ان کو سلائی ، کڑھائی، اور پڑھنا سختی ہیں. سلام ہے اس خاتوں کی ہمت، حوصلے اور عظمت پر، جو کناڈا میں اچھی خاصی نوکری کرتی ہے زندگی کی سب آسائشیں رکھتی ہے مگر رہتی یہاں کے لوگوں کے انداز میں ہی ہے، یہ بھی عدنان بھائی کی تربیت کہ ہی نتیجہ لگتا ہے. میں اگر خود کہ کہوں، تو آج سارا دیں میری ٹوٹی تنگ میں زیادہ درد نہیں ہوا اور میں نے خود بھی کچھ خاص توجہہ نہیں دی اور آج مجھ کو یہاں رکنا اچھا لگا. 
میں نے واپس آنے کے بعد خود ہی دوسرے ساتھیوں کو کچھ ہدایات دیں اور نماز کی تیاری میں لگ گیا. ابہ صبح کچھ سلجھتا جا رہا تھا اور مجھ کو اس فلاحی کام میں مزہ بھی آرہا تھا. دل کو سکوں اور قلب کو اطمینان بھی محسوس ہو رہا تھا. بلال ابھی تک میرے ساتھ تھا میں نے اس کو کہا بھی کے تم اپنی امی اور بہن کی خیر خبر لیتے او تو اس نے بتایا کے وہ بھی آج یہاں ہی ہیں اور خواتین کے ساتھ موجود ہیں. 
وضو سے فارغ  ہو کر جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوے تو ایک مقامی ساتھی نے اچانک مجھ کو کہا کے منصور بھائی آج نماز آپ پڑھائیں. میں ہرات سے اس کی طرف اور باقی ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا، کوئی ٣٠-٣٥ افراد تو ہونگے ہی جن کو نماز ادا کرنا تھی. میرے پسینے چھوٹ گئے کہ یہ کام میں کیسے کروں؟ میری تو داڑھی بھی نہیں، اور سچ کہوں تو نماز کہ ارکان تو شاید میں اب سیکھ رہا تھا. میں نے ہمت کر کے منع کرنے کی کوشش کری تو سب نے ہی کہا کے یہ عدنان بھائی نے کہا ہے کہ آج عصر اور عشا کی نماز منصور بھائی نے پڑھانی ہے. میں نے ایک ساتھی اکرم بھائی سے کہا کہ آج آپ پڑھا لیں میں بعد میں کبھی پڑھا لوں گا. مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ نماز آپ نے ہی پڑھانی ہے، میں نے عدنان بھائی کو تلاش کرنے کی کوشش کری مگر وہ کہی نظر نہیں آے، میں نے دل ہی دل میں اللہ سے مدد مانگی اور نماز کی امامت کے لئے کھڑا ہو گیا.