Tuesday 1 January 2013

وزیرستان ڈائری: کوئی تو ہماری مدد کو آؤ

محترم دوستوں اور ساتھیوں 
اسلام و علیکم 

کافی عرصے سے جو بھی لکھ رہا ہوں وہ نہ تو کسی کو دکھا پا رہا ہوں نہ ہی اور لکھ پا رہا ہوں. بار بار اپنی قسمت کو اور اپنی سوچ کو کوس رہا ہوں کہ میں آخر کیوں کر یہاں (شمالی وزیرستان) آیا. اپنے گھر ہی رہتا تو کتنا اچھا ہوتا، گھر کا کھانا، امی کی شفقت، گھر کا سکوں اور آرام سردی سے محفوظ رہنے کے لئے گرم کپڑے، شام میں دوستوں کے ساتھ چائے پراٹھا کی محفلیں، سب کچھ چھوڑ کر میں محترم عدنان بھائی سے ملنے اور اس فلاحی خدمت کا حصہ بننے کے لئے ان پہاڑوں میں چلا آیا، جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی، نہ ہی سکوں سے سونا ملتا ہے، نہ ہی ایک وقت کا پیٹ بھر کھانا. یہاں (شمالی وزیرستان) کے لوگ تو شاید اس طرز زندگی کے عادی ہو گئے ہیں مگر ہم جیسے کراچی شہر میں رہنے والے جو خود کو انسان اور مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں کے لئے یہ سب کسازب سے کم ہر گز نہی ہے. 

  مجھے نہیں پتہ کہ یہاں (شمالی وزیرستان) کے لوگ گھروں کے بغیر،کچی دیواروں کے سائے میں، بھوکے پیاسے، تنگ دست و بدحالی کا شکار، بھوک سے نڈھال اور بیماریوں میں مبتلا ہو کر کس طرح زندہ رہ رہے ہیں؟ مجھ جیسے انسان کہلانے والی مخلوق کے لئے یہ جگہ کسی بھی طرح کالے پانی کی سزا سے کم یا گونتاناموبے کی اسیری سے بھی مشکل نظر آرہی ہے.

مجھے معاف کرنا شمالی وزیرستان والوں، کہ میں خود کو بہت ہی کمزور محسوس کر رہا ہوں، میں خود کو اس قبل نہیں سمجھتا کہ میں یہاں (میرانشاہ) میں رک کر کسی بھی طرح کے فلاحی کام میں حصہ لے سکوں، میں بہت جلد تھک گیا ہوں
میں اپنے سامنے بچوں کو بھوک اور بیماری سے سسکتا بلکتا نہی دیکھ سکتا، میں اپنے سامنے یہاں کے لوگوں کو بغیر کفن کے دفن ہوتا نہیں دیکھ سکتا، میں اپنے سامنے لوگوں کو مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے نہی دیکھ سکتا. اسی لئے میں اب اپنے گھرکراچی واپس جانا چاہتا ہوں جہاں بیٹھ کر میں یہاں سے ملنے والی اچھی یا بری خبروں کو سن کر بس افسوس کر سکتا ہوں اور دیگر پاکستانی لوگوں کی طرح یہ تو کہ سکتا ہوں "کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہ سب دیکھنا تو حکومت کا کام ہے، ہم تو صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں." یہ زیادہ سے زیادہ یہ کہ کچھ ملی مدد جمع کر کے یہاں (شمالی وزیرستان) میں عدنان بھی کو روانہ کر دیں. یہاں (شمالی وزیرستان) میں بے بس، بے سہارا، بھوکے پیاسے اور بیمار بیٹھنے سے کراچی جانا ہی بہتر ہے. 

مجھے تو اس بات کا بھی بہت افسوس ہو رہا ہے کہ اتنے سرد موسم میں اپنے ساتھ بیچارے فیصل بھائی اور ندیم بھائی کو بھی اپنے ساتھ لے آیا ہوں. ابھی تک تو ان دونوں نہیں اپنے منہ سے کچھ نہیں کہا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ دل ہی دل مے مجھے ضرور کوستے ہونگے. بس الله پاک ہم کو یہاں (شمالی وزیرستان) سے زندہ سلامت اور ساتھ خیریت کے نکالے. میں اور میرے ساتھی یہاں بے بسی کی گمنام موت کا شکار ہونا ہر گز نہی چاہتے.

پیاری امی جن سے بات ہوۓ پتہ نہی کتنے دن ہو گئے ہیں. مگر میں اپنی آنکھیں بند کر کے تصور میں دیکھتا ہوں کہ امی نماز پڑھ پڑھ کر میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے دعا کر رہی ہیں. الله پاک امی کو میرے سر پر سلامت رکھے اور امی کی دعاؤں کو قبول کرے - آمین.

یہاں (میرانشاہ) میں سردی میری ہڈیوں میں اتر چکی ہے. آشیانہ کیمپ جس کو میں اپنے لئے سب سے محفوظ ترین پناہ گاہ سمجھ رہا تھا سب سے کمزور نکلا. ہم جس ٹینٹ میں موجود ہیں پہلی ہی بارش میں ٹوٹ گیا تھا. مقامی لوگوں نے بری مشکل سے جوڑ جاڑ کر اس ٹینٹ کو پھر سے کھڑا کیا. ہم اپنے ساتھ جو امدادی اشیاء لے کر آئے تھے وہ تو دو ہفتے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی. بس الله الله چل رہا ہے. لوگ امداد کا وعدہ تو کرتے ہیں مگر اپنے وعدے کو بھول جاتے ہیں. اور اس طرح سے بھولتے ہیں کے جب بھی وعدہ یاد دلایا جائے ہم کو پہچانتے تک ہی نہیں. اب ہم کوئی بھتہ خور لوگ تو ہیں نہیں جو ہمارے ایک فون یا خط پر ہم کو امداد ہمارے کیمپ تک پہنچا دی جائے. ہم تو بس لوگوں سے التجا کر سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ بھیک مانگ سکتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں. اگر کوئی بتا دے کے ہم اس سے زیادہ کیا کریں تو میں ذاتی طور پر اپنے دوستوں کا شکر گزار ہونگا.

یہاں (آشیانہ کیمپ، میرانشاہ،  شمالی وزیرستان) میں بیٹھا ہوں، اور میرے اس پاس بلال محسود، ندیم بھائی، فیصل بھائی، اور دیگر لوگ موجود ہیں اور بار بار یہی کہ رہے ہیں کہ "بھائی، آپ (میں) پاکستان والوں کو یہاں کے حالت کا بتائیں، شاید کوئی الله کا بندا ہماری مدد کو یہاں آجائے." اب میں ان لوگوں کو کیسے یقین دلوں کے جس پاکستان کا یہ لوگ ذکر کر رہے ہیں اس پاکستان میں آج بہت نفسہ نفسی ہے. ہر طرف صرف ذاتی مفادات کی جنگ چل رہی ہے. ہر کوئی اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے، ایسے میں کوئی بھلا میری آواز کیسے سنے گا. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محترم عدنان بھائی، جنہوں نہیں اپنی زندگی کو دکھی انسانیت کی خدمات کے لئے وقف کر دیا. اپنا گھر، اپنی گاڑی، اپنا مال سب کچھ قربان کر ڈالا اور آج بھی اپنی زندگی کی پروا کے بغیر ہر طرح کی فلاحی خدمات سر انجام دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، جیسے انسان کی کوئی نہیں سنتا تو مجھ جیسے بندے کی کس نے سن لینی ہے. 
میں نے تو اب مجبور ہوکر میڈیا تک کو لکھ ڈالا کہ وہی کچھ کر سکیں، صرف ایک رپورٹ یہاں کے لوگوں کے حالت پر چلا دیں تو شاید کتنے ہی نیک لوگ یہاں کے لوگوں کے لئے مدد کر سکیں گے مگر کیا کروں؟ میڈیا بھی بے ہسی اور بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے. اور جو عدنان بھائی کہتے ہیں کہ جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے. تو ہمارے پاس تو بچنے والی کوئی ترکیب بھی نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسا طریقہ جس سے ہم میڈیا کے ذریے دنیا والوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں. 
بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم بلاگ لکھتے رہیں اور لکھتے رہیں. یہاں تک کے ہمارا بلاگ کوئی الله کا بندا پڑھے اور ہماری مدد کو آجائے، شرط یہی ہے کے جب تک ہم زندہ ہوں، نہیں تو ہم کو پورا یقین ہے کہ ہماری شاندار موت کے بعد اگر ہمارے اس حال میں مرنے کی خبر میڈیا والوں کی ملی تو ہم ہر طرح سے قومی ہیرو کہلاۓ جائیں گے، ہمارے نام کے سیمینار ہونگے، کچھ دن ہم پر پروگرام چلیں گے. یہیں کہیں (میرانشاہ ، شمالی وزیرستان) میں ہمرے نام کا ایک یادگاری چوک بنا دیا جائے گا. اور شاید کوئی الله کا بندا ہمارے نام سے ملتا جلتا یا ایسا ہی فلاحی ادارہ قائم کر دے.  الله اکبر. 

یا الله مجھ کو اور میرے دوستوں کو معاف کرنا کے آج ایسی مایوسی کی باتیں کر رہا ہوں. کیوں، میری ہمت اور حوصلہ ختم ہو رہا ہے؟   کیوں عدنان بھائی کا سکھایا ہوا درس کے صبر ہی کامیابی کی ضمانت ہے مجھ میں سے ختم ہوتا جا رہا ہے؟ شاید اس لئے کے یہاں کا ماحول اور حالات مجھ کو بہت بری طرح خوفزدہ کر چکے ہیں. موت سے پہلے لمحہ لمحہ موت کا احساس مجھ کو جینے نہیں دے رہا.

یا الله! میری اس سوچ کو مجھ میں سے ختم فرما، میری مدد فرما، مجھے حوصلہ، ہمت، صبر اور استقامت عطا فرما. میں مزید اور کچھ نہیں لکھ سکتا. کیونکہ مجھ کو پورا یقین ہے کہ کراچی میں میری ماں، روز ہی میرے کسی پیغام کا انتظار کرتی ہونگی، اور جب ان کو میری یہ تحریر ملے گی تو مجھ سے زیادہ بری حالت میری امی کو ہو جائے گے. 

اپنے دوستوں کو یہاں کے بارے میں بتانے کے لئے صرف کچھ باتیں لکھ رہا ہوں.
گزشتہ ایک ہفتے سے میں اور آشیانہ کیمپ میں مقیم تمام ساتھ اور مقامی افراد پورے دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس غذائی اجناس نہ ہونے کے برابر ہیں. میں اور کچھ دیگر ساتھ شدید سرد موسم کی وجھہ سے بیمار ہیں اورصرف پیناڈول کی گولی پر اکتفا کے ہوے ہیں. 

گزشتہ ایک ہفتے میں ٢ بچے شدید بیماری کی وجھہ سے ہلاک ہو چکے ہیں. جن کو ہم سب نے مل کر دفنایا ہے. مزید کچھ بزرگ، بچے اور خواتین علیل ہیں جن کا علاج فلحال ممکن نہیں ہے. ادویات ہی نہیں ٹوہ کہاں سے علاج؟ غذائی اجناس ہی نہیں تو کیسا کھانا؟ گرم بستر کا حال ایسا ہے کہ ہم چار افراد ایک وقت میں کمبل یا رضائی استعمال کر رہے ہیں. خود کو گرم رکھنے کے لئے لکڑیاں جلاتے ہیں مگر ابھی لکڑیاں بھی ملنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے. مہنگائی اس قدر ہے کے الفاظ نہیں ہے کیا لکھوں

تو دوستوں باقی حالات آپ خود بھی بہت بہتر طرح سے سمجھ سکتے ہیں. ابھی تو دل سے دوا نکلتی ہے کے بس ایک بلی جیسا ڈرون  بھولے بھٹکے ہی ہمرے سروں پر آجائے اور میرے ساتھ ساتھ آشیانہ کیمپ میں مقیم مقامی لوگوں کو اسس دنیا سے نجات دلا دے کے کچھ لوگوں کے لئے ہم شہید اور کچھ کے لئے ..... باقی عقل کا استعمال کریں. 

گزشتہ ایک ہفتے سے میرانشاہ اور اس پاس کے علاقوں میں سیکورٹی کی وجوہات کی بنا پر بار بار کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے جس کی وجھہ سے ہم لوگ ایک ہی جگہہ محصور ہو کر رہ گئے ہیں. 
باقی حالات اور واقعات کے بارے میں لکھتے رہنے کی کوشش کرتا رہوں گا. 
بشرط زندگی! 
 بس آخر میں اتنا کہنا ہے کہ "کوئی تو یہاں کے لوگوں اور ہماری مدد کو آؤ.....

عدنان بھائی، اب سے کچھ ہی دیر میں اپنا پیغم لکھنے والے ہیں اور مزید تفصیلات سے آگاہ کرنے والے ہیں. 

آپ سب کی دعاؤں  کے طلبگار 
ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ، ١.٥ کلومیٹر،
میرانشاہ، شمالی وزیرستان. 
 

نوٹ: 
ٹیم آشیانہ سے رابطہ کرنے کے لئے درج ذیل لنک کا استعمال کریں.